موطا امام مالك رواية يحييٰ
كِتَابُ الْحُدُودِ -- کتاب: حدوں کے بیان میں
5. بَابُ الْحَدِّ فِي الْقَذْفِ وَالنَّفْيِ وَالتَّعْرِيضِ
حد قذف کا اور نفی نسب کا اور اشارے کنائے میں دوسرے کو گالی دینے کا بیان
حدیث نمبر: 1558
حَدَّثَنِي مَالِك، عَنْ زُرَيْقِ بْنِ حَكِيمٍ الْأَيْلِيِّ ، أَنَّ رَجُلًا، يُقَالُ لَهُ مِصْبَاحٌ، اسْتَعَانَ ابْنًا لَهُ، فَكَأَنَّهُ اسْتَبْطَأَهُ، فَلَمَّا جَاءَهُ، قَالَ لَهُ: يَا زَانٍ. قَالَ زُرَيْقٌ: فَاسْتَعْدَانِي عَلَيْهِ، فَلَمَّا أَرَدْتُ أَنْ أَجْلِدَهُ، قَالَ ابْنُهُ: وَاللَّهِ لَئِنْ جَلَدْتَهُ، لَأَبُوءَنَّ عَلَى نَفْسِي بِالزِّنَا. فَلَمَّا قَالَ ذَلِكَ، أَشْكَلَ عَلَيَّ أَمْرُهُ، فَكَتَبْتُ فِيهِ إِلَى عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ وَهُوَ الْوَالِي يَوْمَئِذٍ أَذْكُرُ لَهُ ذَلِكَ، فَكَتَبَ إِلَيَّ عُمَرُ: أَنْ" أَجِزْ عَفْوَهُ". قَالَ زُرَيْقٌ: وَكَتَبْتُ إِلَى عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ أَيْضًا: أَرَأَيْتَ رَجُلًا افْتُرِيَ عَلَيْهِ أَوْ عَلَى أَبَوَيْهِ وَقَدْ هَلَكَا أَوْ أَحَدُهُمَا؟ قَالَ: فَكَتَبَ إِلَيَّ عُمَرُ : " إِنْ عَفَا فَأَجِزْ عَفْوَهُ فِي نَفْسِهِ، وَإِنِ افْتُرِيَ عَلَى أَبَوَيْهِ وَقَدْ هَلَكَا أَوْ أَحَدُهُمَا فَخُذْ لَهُ بِكِتَابِ اللَّهِ إِلَّا أَنْ يُرِيدَ سِتْرًا" .
حضرت زریق بن حکیم سے روایت ہے کہ ایک شخص نے جس کا نام مصباح تھا، اپنے بیٹے کو کسی کام کے واسطے بلایا، اس نے دیر کی، جب آیا تو مصباح نے کہا کہ اے زانی! کہا زریق نے: اس لڑکے نے میرے پاس فریاد کی، میں نے جب اس کے باپ کو حد مارنی چاہی تو وہ لڑکا بولا: اگر تم میرے باپ کو کوڑوں سے مارو گے تو میں زنا کا اقرار کر لوں گا، میں یہ سن کر حیران ہوا اور اس مقدمے کا فیصلہ کرنا مجھ پر دشوار ہوا تو میں نے عمر بن عبدالعزیز کو لکھا، وہ اس زمانے میں حاکم تھے مدینہ کے (سلمان بن عبدالملک کی طرف سے)۔ عمر بن عبدالعزیز نے جواب لکھا کہ لڑکے کے عفو کو جائز رکھ (یعنی بیٹے نے اگر باپ کو حد معاف کردی ہے تو عفو صحیح ہے)۔ زریق نے کہا: میں نے عمر بن عبدالعزیز کو یہ بھی لکھا تھا کہ اگر کوئی شخص دوسرے پر تہمت زنا کی لگائے، یا اس کے ماں باپ کو، اور ماں باپ اس کے مر گئے ہوں یا دونوں میں سے ایک مر گیا ہو، تو پھر کیا کرے؟ عمر بن عبدالعزیز نے جواب میں لکھا کہ جس شخص کو تہمت زنا کی لگائے، اگر وہ معاف کر دے تو عفو درست ہے، لیکن اگر اس کے والدین کو تہمت زنا کی لگائے تو اس کا عفو کر دینا درست نہیں جب کہ والدین مر گئے ہوں، یا ان دو میں سے ایک مر گیا ہو، بلکہ حد لگا اس کو موافق کتاب اللہ کے، مگر جب بیٹا اپنے والدین کا حال چھپانے کے واسطے عفو کر دے تو عفو درست ہے۔

تخریج الحدیث: «مقطوع صحيح، وأخرجه عبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 13811، 13812، 13813، 13817، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 28824، 29496، فواد عبدالباقي نمبر: 41 - كِتَابُ الْحُدُودِ-ح: 18»
قَالَ يَحْيَى: سَمِعْتُ مَالِكًا، يَقُولُ: وَذَلِكَ أَنْ يَكُونَ الرَّجُلُ الْمُفْتَرَى عَلَيْهِ يَخَافُ إِنْ كُشِفَ ذَلِكَ مِنْهُ أَنْ تَقُومَ عَلَيْهِ بَيِّنَةٌ، فَإِذَا كَانَ عَلَى مَا وَصَفْتُ فَعَفَا، جَازَ عَفْوُهُ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ یعنی اس کو خوف ہو اگر میں تہمت لگانے والے کو معاف نہ کروں گا تو والدین کا زنا گواہوں سے ثابت ہوجائے گا، اس وجہ سے عفو کردے تو عفو درست ہے۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 41 - كِتَابُ الْحُدُودِ-ح: 18»