مسند الشهاب
احادیث401 سے 600
326. مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُكْرِمْ جَارَهُ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ
جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اپنے مہمان کی عزت کرے اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اپنے ہمسائے کی عزت کرے اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اچھی بات کرے یا خاموش رہے
حدیث نمبر: 471
471 - وأنا أَبُو مُحَمَّدٍ التُّجِيبِيُّ، نا أَحْمَدُ بْنُ بُهْزَادَ، نا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدِ بْنِ كَثِيرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ , عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْكَعْبِيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُكْرِمْ جَارَهُ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ جَائِزَتُهُ يَوْمٌ وَلَيْلَةٌ، وَالضِّيَافَةُ ثَلَاثَةٌ أَيَّامٍ، فَمَا كَانَ بَعْدَ ذَلِكَ فَهُوَ صَدَقَةٌ وَلَا يَحِلُّ لَهُ أَنْ يَثْوِيَ حَتَّى يُحْرِجَهُ»
سیدنا ابوشریح کبعی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اچھی بات کرے یا خاموش رہے اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اپنے پڑوسی کی عزت کرے اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اپنے مہمان کی عزت کرے، اس کی خاطر مدارت ایک دن اور رات (کی) ہے اور مہمان نوازی تین دن ہے پھر اس کے بعد جو ہے وہ صدقہ ہے اور کسی (مہمان) کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے میزبان کے پاس ڈیرہ ڈال لے کہ اس کے لیے مشقت اور بوجھ بن جائے۔

تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه البخاري: 6135، و مسلم: 48، وترمذي: 1967، أبو داود: 3748، والحميدي فى «مسنده» برقم: 585، 586، وأحمد فى «مسنده» برقم: 16632»

وضاحت: تشریح: -
ان احادیث میں آداب معاشرت کے حوالے سے تین بڑی اہم باتیں بیان فرمائی گئی ہیں:
① مہمان نوزی: -فرمایا: جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اپنے مہمان کی عزت کرے۔ مطلب یہ ہے کہ جس شخص کا اللہ تعالیٰ ٰ اور آخرت پر پورا ایمان اور یقین ہے اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اپنے مہمان کے ساتھ حسن سلوک کرے اور اس کی عزت افزائی کرے یعنی مہمان کی مہمان نوازی کرے کیونکہ جو شخص اللہ تعالیٰ ٰ اور آخرت کو مانتا ہے اس کے لیے یہ کام کوئی مشکل نہیں ہے۔ شرعی طور پر مہمان نوازی یہ ہے کہ جب کوئی مہمان آئے تو اس کے ساتھ خندہ پیشانی، خوش خلقی اور ہنس مکھ چہرے کے ساتھ پیش آیا جائے، اس کے ساتھ خوش گفتاری نرم گوئی اور ملاطفت کے ساتھ بات چیت کی جائے اور اس کے ساتھ ساتھ پہلے دن اپنی حیثیت کے مطابق پر تکلف کھانا کھلایا جائے اور پھر اس کے بعد مزید تین دن ضیافت کے ہیں کہ اپنی حیثیت کے مطابق بغیر کسی تکلف میں پڑے مہمان کو کھلایا پلایا جائے۔ اب اس کے بعد مہمان اگر مزید ٹھہرنا چاہے تو میزبان کو اختیار ہے کہ چاہے تو میزبانی کرے اور چاہے تو انکار کر دے، لیکن اگر میزبانی کرے گا تو یہ صدقہ ہوگا اور اللہ کے ہاں اس کا اجر و ثواب ملے گا۔ اسی طرح مہمان کو رخصت کرتے وقت زاد راہ کے سلسلے میں اس کے ساتھ تعاون کرنا بھی مہمان نوازی کا حصہ ہے اور مہمان کو حسب استطاعت کوئی تحفہ دینا بھی مہمان نوازی میں شامل ہے۔ اس میں مہمان کو بھی نصیحت فرمائی گئی ہے کہ وہ میزبان کے پاس زیادہ دن نہ ٹھہرے کیونکہ اس سے میزبان تنگ ہوگا، مہمان کے بارے میں بدگمانی کرے گا اور غیبت وغیرہ شر و ع کر دے گا۔
② ہمسائے کی عزت: - فرمایا: جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اپنے ہمسائے کی عزت کرے، اسے تنگ نہ کرے۔ مطلب یہ ہے کہ ہمسائے کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرے، اسے عزت دے اور ہر ایسے قول وفعل سے بچے جس سے ہمسائے کو تکلیف پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ ہمسایہ رشتہ دار ہو یا غیر رشتے دار، مسلمان ہو یا غیر مسلم، ہر طرح کے ہمسائے کے ساتھ اچھی ہمسائیگی نبھانی چاہیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: جبرئیل مجھے ہمسائے کے متعلق مسلسل وصیت کرتے رہے یہاں تک کہ میں نے خیال کیا کہ وہ مجھے وارث بنا دیں گے۔ [بخاري: 2014]
ایک دفعہ فرمایا: اللہ کی قسم! وہ مومن نہیں، اللہ کی قسم! وہ مومن نہیں، اللہ کی قسم! وہ مومن نہیں۔ عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! کون (مومن نہیں)؟ فرمایا: جس کی شرارتوں سے اس کا ہمسایہ محفوظ نہیں۔ [بخاري: 2012]
ایک حدیث میں ہے: وہ شخص جنت میں نہیں جائے گا جس کی شرانگیزیوں سے اس کا ہمسایہ محفوظ نہیں۔ [مسلم: 45]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی ارشاد ہے: اللہ کے نزدیک بہترین ساتھی وہ ہے جو ان میں اپنے ساتھی کے لیے بہتر ہو اور اللہ کے نزد یک بہترین ہمسایہ وہ ہے جو اپنے ہمسائے کے لیے بہتر ہو۔ [ترمذي: 1944، إسناده صحيح]
ایک دفعہ ایک آدمی نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے کیسے پتا چلے کہ میں اچھا ہوں یا برا؟ فرمایا: جب تم اپنے پڑوسی کو یہ کہتے ہوئے سنو کہ تم اچھے ہو تو تم اچھے ہو اور جب تم انہیں یہ کہتے ہوئے سنو کہ تم برے ہو تو تم برے ہو۔ [ابن ماجه: 4223، إسناده صحيح]
اسی طرح ایک دفعہ ایک آدمی نے عرض کیا: اللہ کے رسول! فلاں عورت اپنی نمازوں، روزوں اور صدقات کی کثرت کے حوالے سے مشہور ہے لیکن وہ اپنی زبان درازی سے اپنے ہمسائے کو تکلیف دیتی ہے۔ فرمایا: وہ جہنمی ہے۔ اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! فلاں عورت اپنی نمازوں، روزوں اور صدقات کی قلت کے حوالے سے مشہور ہے اور وہ پنیر کے چند ٹکڑے صدقہ کرتی ہے لیکن اپنی زبان سے اپنے ہمسائے کو تکلیف نہیں دیتی۔ فرمایا: وہ جنتی ہے۔ [أحمد: 2/ 440، إسناده صحيح]
ایک حدیث میں ہے: روز قیامت سب سے پہلے دو ہمسائیوں کا مقدمہ پیش ہوگا۔ [أحمد: 151/4، إسناده حسن]
③ اچھی بات یا خاموشی: - فرمایا: جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اچھی بات کرے یا خاموش رہے۔ مطلب یہ ہے کہ مومن کو چاہیے کہ اپنی زبان کو حتی الوسع خاموش رکھے، جب کوئی بات کرنے کا ارادہ ہو اور یہ بھی معلوم ہو کہ وہ بات خیر و بھلائی کی ہے اور اس پر ثواب ملے گا تب اسے زبان پر لایا جائے اور اگر اس بات کی بھلائی عیاں نہ ہو یا یہ پتا ہو کہ یہ بات اللہ کی ناپسندیدہ ہے تو اسے زبان پر نہ لایا جائے کیونکہ انسان کے عمل کے ساتھ ساتھ اس کا ہر قول اللہ کی بارگاہ میں نوٹ ہو رہا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿مَّا يَلْفِظُ مِن قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ﴾ (ق: 18)
انسان منہ سے کوئی لفظ نہیں نکال پاتا مگر اس کے پاس ایک نگہبان تیار ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: جو شخص اپنی زبان اور شرم گاہ کی مجھے ضمانت دے دے میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔ [بخاري: 6474]
ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ کونسی چیز زیادہ تر لوگوں کو جنت میں داخل کرے گی؟ (پھر فرمایا) اللہ کا تقویٰ اور حسن خلق۔ کیا تم جانتے ہو کہ کونسی چیز زیادہ تر لوگوں کو جہنم میں داخل کرے گی؟ (پھر فرمایا) دو چیزیں منہ اور شرمگاہ۔ [ترمذي: 2004 ابن ماجه: 4446، صحیح ]
ایک حدیث میں آتا ہے کہ بے شک بندہ ایسی بات کرتا ہے جس میں اللہ کی رضا ہوتی ہے وہ اسے کوئی اہمیت نہیں دیتا لیکن اللہ اس کی وجہ سے درجات بلند فرما دیتا ہے اور بے شک بندہ ایسی بات کرتا ہے جس میں اللہ کی ناراضی ہوتی ہے اور وہ اسے کوئی اہمیت نہیں دیتا لیکن وہ اس کے باعث جہنم میں جا گرتا ہے ۔ [بخاري: 6474]
ایک مرفوع حدیث میں ہے: جب ابن آدم صبح کرتا ہے تو سارے اعضاء زبان سے درخواست کرتے ہیں کہ ہمارے بارے میں اللہ سے ڈرنا کیونکہ ہم تیرے رحم وکرم پر ہیں اگر تو سیدھی رہی تو ہم بھی سیدھے رہیں گے اور اگر تو ٹیڑھی ہوگئی تو ہم بھی ٹیڑھے ہو جائیں گے ۔ [ترمذي: 247، حسن]
ایک دفعہ ایک صحابی نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ کو میرے بارے میں سب سے زیادہ کسی چیز کا اندیشہ ہے؟ آپ نے زبان پکڑ کرفرمایا: اس کا۔ [ترمذي: 2410]