الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: نماز میں قصر کرنے کا بیان
The Book of Abridged Or Shortened Prayers (At-Taqsir)
4. بَابٌ في كَمْ يَقْصُرُ الصَّلاَةَ:
4. باب: نماز کتنی مسافت میں قصر کرنی چاہیے۔
(4) Chapter. What is the length of the journey that makes it permissible for one to offer a shortened Salat (prayer)?
حدیث نمبر: 1088
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا آدم، قال: حدثنا ابن ابي ذئب، قال: حدثنا سعيد المقبري، عن ابيه، عن ابي هريرة رضي الله عنهما، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم:" لا يحل لامراة تؤمن بالله واليوم الآخر، ان تسافر مسيرة يوم وليلة ليس معها حرمة"، تابعه يحيى بن ابي كثير، وسهيل، ومالك، عن المقبري، عن ابي هريرة رضي الله عنه.حَدَّثَنَا آدَمُ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدٌ الْمَقْبُرِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، أَنْ تُسَافِرَ مَسِيرَةَ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ لَيْسَ مَعَهَا حُرْمَةٌ"، تَابَعَهُ يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، وَسُهَيْلٌ، وَمَالِكٌ، عَنْ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ.
ہم سے آدم نے بیان کیا انہوں نے کہا کہ ہم سے ابن ابی ذئب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سعید مقبری نے اپنے باپ سے بیان کیا، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی خاتون کے لیے جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتی ہو، جائز نہیں کہ ایک دن رات کا سفر بغیر کسی ذی رحم محرم کے کرے۔ اس روایت کی متابعت یحییٰ بن ابی کثیر، سہیل اور مالک نے مقبری سے کی۔ وہ اس روایت کو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے تھے۔

Narrated Abu Huraira: The Prophet (p.b.u.h) said, "It is not permissible for a woman who believes in Allah and the Last Day to travel for one day and night except with a Mahram."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 20, Number 194

   صحيح البخاري1088عبد الرحمن بن صخرلا يحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر أن تسافر مسيرة يوم وليلة ليس معها حرمة
   صحيح مسلم3266عبد الرحمن بن صخرلا يحل لامرأة مسلمة تسافر مسيرة ليلة إلا ومعها رجل ذو حرمة منها
   صحيح مسلم3267عبد الرحمن بن صخرلا يحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر تسافر مسيرة يوم إلا مع ذي محرم
   صحيح مسلم3268عبد الرحمن بن صخرلا يحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر تسافر مسيرة يوم وليلة إلا مع ذي محرم عليها
   صحيح مسلم3269عبد الرحمن بن صخرلا يحل لامرأة أن تسافر ثلاثا إلا ومعها ذو محرم منها
   جامع الترمذي1170عبد الرحمن بن صخرلا تسافر امرأة مسيرة يوم وليلة إلا ومعها ذو محرم
   سنن أبي داود1723عبد الرحمن بن صخرلا يحل لامرأة مسلمة تسافر مسيرة ليلة إلا ومعها رجل ذو حرمة منها
   سنن ابن ماجه2899عبد الرحمن بن صخرلا يحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر أن تسافر مسيرة يوم واحد ليس لها ذو حرمة
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم486عبد الرحمن بن صخرلا يحل لامراة تؤمن بالله واليوم الآخر تسير مسيرة يوم وليلة إلا مع ذي محرم منها
   مسندالحميدي1036عبد الرحمن بن صخرلا تسافر المرأة فوق ثلاث إلا ومعها ذو محرم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 486  
´عورت کا محرم کے بغیر سفر کرنا جائز نہیں ہے`
«. . . 415- مالك عن سعيد بن أبى سعيد المقبري عن أبى هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لا يحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر تسير مسيرة يوم وليلة إلا مع ذي محرم منها. . . .»
. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی عورت کے لئے جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتی ہے، محرم کے بغیر دن اور رات کا سفر کرنا جائز نہیں ہے۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 486]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه مسلم 1339/421، من حديث ما لك به، وعلقه البخاري 1088، وفي رواية يحيى بن يحيى: تسافر]

تفقه:
➊ کسی عورت کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ محرم کے بغیر لمبے سفر پر اپنے علاقے سے کسی دوسرے ایسے علاقے میں جائے جس پر شرعاً یا عرفاً سفر کا اطلاق ہوتا ہو۔ قول راجح میں اپنے علاقے سے باہر نکلنے کے بعد سفر شروع ہو جاتا ہے بشرطیکہ منزل گیارہ میل مسافت پر اس سے دور ہو۔
➋ اس حدیث کے مفہوم مخالف سے معلوم ہوتا ہے کہ دن اور رات سے کم سفر پرعورت ضرورت کے وقت امن وامان کی حالت میں محرم کے بغیر بھی جاسکتی ہے۔ دیکھئے [التمهيد 52/21]
➌ سیدنا عدی بن حاتم الطائی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [فإني لا أخاف عليكم الفاقة فإن الله ناصر كم و معطيكم حتى تسير الظعينة فيما بين يثرب والحيرة أو أكثر، ما يخاف علٰى مطيتها السرق.]
مجھے تم پر فاقے کا ڈر نہیں ہے کیونکہ اللہ تمھاری مدد کرے گا اور تمھیں (کھلا رزق) عطا فرمائے گا حتی کہ کجاوے پربیٹھی ہوئی ایک عورت یثرب (مدینے) اور حیره (دُور کے ایک شہر) یا اس سے زیادہ کے درمیان سفر کرے گی، اسے اپنے جانور کی چوری کا کوئی ڈر نہیں ہوگا۔ [سنن الترمذي:2953 ب وقال: هذا حديث حسن غريب وسندہ حسن لذاته وصححه ابن حبان، الموار:2279]
● یہ عورت حیرہ سے سفر کر کے بیت اللہ آئے گی اور طواف کرے گی۔ [صحيح بخاري:3595]
◄ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شرعی عذر ہو تو حج وغیرہ کے لئے عورت اکیلے سفر کر سکتی ہے۔ جس عورت نے کبھی حج نہیں کیا اس کے بارے میں حسن بن ابی الحسن (البصری) رحمہ اللہ دوسری عورت کے ساتھ جس کے ساتھ محرم ہو، حج کرنے کی اجازت دیتے تھے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 4/4 ح 15164 وسنده صحيح]
● امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک اگر اس کے ساتھ قابل اعتما د عورتیں ہوں تو پھر وہ ان کے ساتھ حج کے لئے سفر کر سکتی ہے۔ دیکھئے [كتاب الام ج 2ص 117، باب حج المرأة والعبد]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 415   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2899  
´عورت محرم اور ولی کے بغیر حج نہ کرے۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی عورت کے لیے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہو، یہ درست نہیں ہے کہ وہ ایک دن کی مسافت کا سفر کرے، اور اس کے ساتھ کوئی محرم نہ ہو۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2899]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
عورت کو خاوند یا محرم کے بغیر طویل سفر نہیں کرنا چاہیے۔

(2)
چھوٹا سفر جیسے قریب کے گاؤں میں جانا یا شہر کے ایک محلے سے دوسرے محلے میں جانا بغیر محرم کے جائز ہے بشرطیکہ کسی قسم کے فتنے وغیرہ کا کوئی خطرہ موجود نہ ہو پھر بھی بہتر یہی ہے کہ محرم ساتھ ہو۔

(3)
اس پابندی کا مقصد عورت کی عفت وعصمت اور عزت وحرمت کی حفاظت ہے۔

(4)
محرم سے مراد وہ مرد ہے جس سے عورت کا نکاح ہمیشہ کے لیے حرام ہو خواہ یہ رشتہ نسب سے ہو یا رضاعت سے یا مصاہرت سے۔
ان رشتوں کی تفصیل كتاب النكاح باب: 34میں بیان ہوچکی ہے
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2899   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1723  
´عورت کا محرم کے بغیر حج کرنا جائز نہیں ہے۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی مسلمان عورت کے لیے یہ حلال نہیں کہ وہ ایک رات کی مسافت کا سفر کرے مگر اس حال میں کہ اس کے ساتھ اس کا کوئی محرم ہو ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1723]
1723. اردو حاشیہ: حدیث اپنے مفہوم میں بالکل واضح ہے کہ کوئی عورت ایک رات کا سفر بھی محرم کے بغیر نہیں کر سکتی خواہ یہ حج جیسا مبارک سفرہی کیوں نہ ہو۔ اگر بالفرض کسی خاتون کوکوئی سا بھی میسر نہ ہو تو وہ حج کےلیے لازمی استطاعت سے خارج ہے اور اس پر حج فرض نہ ہوگا۔تفصیلات کےلیے دیکھیے (نیل الاوطار:4/324)تاہم بعض علماء مخصوص حالات میں مخصوص شرائط کےساتھ عورت کو محرم کے بغیر حج کی اجازت دیتے ہیں۔مثلاً عمر ہ رسیدہ خاتون جس کی جوانی ڈھل چکی ہو وہ ایسے اعتماد قافلے کے ساتھ سفر حج اختیار کر سکتی ہے جس میں قابل اعتماد خواتین بھی ہوں۔
➋ محرم وہ شخص ہے جس سے ہمیشہ کے لیے عورت کانکاح کرنا حرام ہو جیسے باپ دادا چچا تایا ماموں بھانجا بھتیجا بیٹا سسر وغیرہ۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1723   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1088  
1088. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا: جو عورت اللہ پر ایمان اور روز قیامت پر یقین رکھتی ہے اس کے لیے جائز نہیں کہ ایک دن رات کی مسافت اس حالت میں طے کرے کہ اس کے ساتھ کوئی محرم نہ ہو۔ یحییٰ بن ابی کثیر، سہیل اور مالک نے مقبری سے روایت کرنے میں ابن ابی ذئب کی متابعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1088]
حدیث حاشیہ:
عورت کے لیے پہلی احادیث میں تین دن کے سفر کی ممانعت وارد ہوئی ہے جب کہ اس کے ساتھ کوئی ذی محرم نہ ہو اور اس حدیث میں ایک دن اور ایک رات کی مدت کا ذکر آیا۔
دن سے حضرت امام بخاری ؒ کا مقصد لفظ سفرکا کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ حد بتلانا مقصود ہے، یعنی ایک دن رات کی مدت سفر کوشرعی سفر کا ابتدائی حصہ اور تین دن کے سفر کو آخری حصہ قراردیا ہے۔
پھراس سے جس قدر بھی زیادہ ہو پہلے بتلایا جاچکا ہے کہ اہل حدیث کے ہاں قصر کرنا سنت ہے، فرض وا جب نہیں ہے۔
ہاں یہ ضرور ہے کہ قصر اللہ کی طرف کا ایک صدقہ ہے جسے قبول کرنا ہی مناسب ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 1088   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1088  
1088. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا: جو عورت اللہ پر ایمان اور روز قیامت پر یقین رکھتی ہے اس کے لیے جائز نہیں کہ ایک دن رات کی مسافت اس حالت میں طے کرے کہ اس کے ساتھ کوئی محرم نہ ہو۔ یحییٰ بن ابی کثیر، سہیل اور مالک نے مقبری سے روایت کرنے میں ابن ابی ذئب کی متابعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1088]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے یہ ثابت کیا ہے کہ قصر کے لیے مسافت کا کم از کم اتنا ہونا ضروری ہے جو ایک دن اور ایک رات میں طے ہو سکے۔
الغرض رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق کوئی صریح قولی روایت نہیں ملی جس سے نماز قصر کے لیے مسافت کی مقدار کو معین کیا جا سکتا ہو، البتہ حضرت انس ؓ جو سفروحضر میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ ایک خادم خاص کی حیثیت سے رہے ہیں، انہوں نے آپ ﷺ کے ایک فعل سے استنباط کیا ہے کہ کم از کم نو میل کی مسافت پر نماز قصر کی جا سکتی ہے، چنانچہ آپ کے شاگرد یحییٰ بن یزید نے نماز قصر کے لیے مسافت کی مقدار کے متعلق سوال کیا تو حضرت انس ؓ نے جواب دیا کہ جب رسول اللہ ﷺ تین میل یا تین فرہنگ کا سفر کرتے تو نماز قصر فرماتے۔
(صحیح مسلم، صلاة المسافرین وقصرھا، حدیث: 1583(691)
روایت میں سفر کی تعیین کے متعلق تردد شعبہ راوی کو ہوا ہے۔
(2)
واضح رہے کہ روایت میں تین میل کے بجائے تین فرسخ مراد لینا زیادہ قرین قیاس ہے۔
کیونکہ اس میں میل بھی آ جاتے ہیں، اس لیے کہ ایک فرسخ تین میل کا ہوتا ہے۔
جس کا مطلب یہ ہے کہ مسافت اگر نو میل ہو تو اپنے شہر یا گاؤں کی حد سے نکل کر نماز قصر کی جا سکتی ہے۔
بعض حضرات کا خیال ہے کہ اتنی مسافت طے کرنے کے بعد قصر کا آغاز ہونا چاہیے۔
روایت میں انتہائے سفر کا بیان نہیں ہے اور روایت کا یہ مفہوم اس لیے درست نہیں کہ سائل نے حضرت انس ؓ سے جواز قصر کے لیے مسافت کے متعلق سوال کیا تھا اور اس کے سوال کے مطابق ہی اسے جواب دیا گیا ہے۔
اس کے بعد یہ مفروضہ قائم کرنا کہ واقعاتی طور پر رسول اللہ ﷺ کا صرف اتنی مسافت پر مشتمل سفر کرنا ثابت نہیں، اس کی حیثیت نکتہ آفرینی سے زیادہ نہیں، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے خادم خاص حضرت انس نے سائل کے سوال کو سمجھ کر اس کے مطابق جواب دیا ہے جو ہمیں تسلیم کرنا چاہیے۔
واللہ أعلم۔
(3)
یحییٰ بن ابی کثیر کی متابعت کو امام احمد ؒ نے اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے۔
سہیل کی روایت کو ابن خزیمہ نے اور امام مالک کی روایت کو امام مسلم نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔
(فتح الباري: 734/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1088   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.