الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
سیرابی اور نگہداشت کے عوض پھل وغیرہ میں حصہ داری اور زمین دے کر بٹائی پر کاشت کرانا
The Book of Musaqah
8. باب تَحْرِيمِ بَيْعِ فَضْلِ الْمَاءِ الَّذِي يَكُونُ بِالْفَلاَةِ وَيُحْتَاجُ إِلَيْهِ لِرَعْيِ الْكَلإِ وَتَحْرِيمِ مَنْعِ بَذْلِهِ وَتَحْرِيمِ بَيْعِ ضِرَابِ الْفَحْلِ:
8. باب: جو پانی جنگل میں ضرورت سے زیادہ ہو اس کا بیچنا حرام ہے جب لوگوں کو اس کو احتیاج ہو گھاس چرانے میں اور اس کا روکنا منع ہے اور نر کدانے کی اجرت لینا منع ہے۔
حدیث نمبر: 4008
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا احمد بن عثمان النوفلي ، حدثنا ابو عاصم الضحاك بن مخلد ، حدثنا ابن جريج ، اخبرني زياد بن سعد ، ان هلال بن اسامة ، اخبره: ان ابا سلمة بن عبد الرحمن ، اخبره: انه سمع ابا هريرة ، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا يباع فضل الماء ليباع به الكلا ".وحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ النَّوْفَلِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ الضَّحَّاكُ بْنُ مَخْلَدٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي زِيَادُ بْنُ سَعْدٍ ، أَنَّ هِلَالَ بْنَ أُسَامَةَ ، أَخْبَرَهُ: أَنَّ أَبَا سَلَمَةَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، أَخْبَرَهُ: أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يُبَاعُ فَضْلُ الْمَاءِ لِيُبَاعَ بِهِ الْكَلَأُ ".
ہلال بن اسامہ نے خبر دی کہ ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے انہیں بتایا کہ انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "زائد پانی کو فروخت نہ کیا جائے کہ اس کے ذریعے سے گھاس کو فروخت کیا جائے۔"
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ضرورت سے فالتو پانی نہ بیچا جائے کہ اس سے گھاس کو فروخت کیا جا سکے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1566
   صحيح البخاري2353عبد الرحمن بن صخرلا يمنع فضل الماء ليمنع به الكلأ
   صحيح البخاري6962عبد الرحمن بن صخرلا يمنع فضل الماء ليمنع به فضل الكلإ
   صحيح البخاري2354عبد الرحمن بن صخرلا تمنعوا فضل الماء تمنعوا به فضل الكلإ
   صحيح مسلم4008عبد الرحمن بن صخرلا يباع فضل الماء ليباع به الكلأ
   صحيح مسلم4006عبد الرحمن بن صخرلا يمنع فضل الماء ليمنع به الكلأ
   صحيح مسلم4007عبد الرحمن بن صخرلا تمنعوا فضل الماء تمنعوا به الكلأ
   جامع الترمذي1272عبد الرحمن بن صخرلا يمنع فضل الماء ليمنع به الكلأ
   سنن أبي داود3473عبد الرحمن بن صخرلا يمنع فضل الماء ليمنع به الكلأ
   سنن ابن ماجه2473عبد الرحمن بن صخرثلاث لا يمنعن الماء والكلأ والنار
   سنن ابن ماجه2478عبد الرحمن بن صخرلا يمنع أحدكم فضل ماء ليمنع به الكلأ
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم605عبد الرحمن بن صخرلا يمنع فضل الماء ليمنع به الكلا
   المعجم الصغير للطبراني430عبد الرحمن بن صخر ابن السبيل أول شارب يعني من زمزم
   مسندالحميدي1157عبد الرحمن بن صخرلا يمنع فضل ماء ليمنع به الكلأ

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 605  
´فالتو پانی روکنے کی ممانعت`
«. . . 355- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لا يمنع فضل الماء ليمنع به الكلأ. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فالتو پانی نہ روکا جائے تاکہ اس طرح گھاس بچی رہے۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 605]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 2353، و مسلم 1566/36، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ اسلام پوری انسانیت کے لئے خیرخواہی کا دین ہے۔
➋ اگر کسی آدمی کی زمین میں کسی ذریعے سے پانی آرہا ہے تو وہ اپنی ضرورت سے زائد پانی چھوڑ دے تاکہ اس کے ہمسائے اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔
➌ پڑوسیوں اور دوسرے مسلمانوں کو تکلیف دینا جائز نہیں ہے۔
➍ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ العسقلانی رحمہ اللہ نے اس حدیث سے یہ استنباط کیا ہے کہ پانی بیچنا جائز ہے۔ دیکھئے: [فتح الباري 5/32 تحت ح2253]
➎ اس حدیث میں ممانعت سے مراد تحریمی نہیں بلکہ تنزیہی ہے جیسا کہ جمہور کی تحقیق ہے لیکن بعض علماء اسے واجب سمجھتے ہیں۔
➏ سدِّ ذرائع کے طور پر ایسے کام سے منع کیا جا سکتا ہے جس کے ذریعے سے نقصان ہونے کا اندیشہ ہو۔
➐ اس حدیث کے عموم سے ظاہر ہے کہ روز مرہ کی تمام اشیاء جن سے مسلمانوں کی ضرورتیں وابستہ ہیں، روکنا اور ذخیرہ اندوزی کرنا غلط ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 355   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1272  
´ضرورت سے زائد پانی کے بیچنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ضرورت سے زائد پانی سے نہ روکا جائے کہ اس کے سبب گھاس سے روک دیا جائے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1272]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ سوچ کردوسروں کے جانوروں کو فاضل پانی پلانے سے نہ روکاجائے کہ جب جانوروں کوپانی پلانے کو لوگ نہ پائیں گے تو جانورادھر نہ لائیں گے،
اس طرح گھاس ان کے جانوروں کے لیے بچی رہے گی،
یہ کھلی ہوئی خود غرضی ہے جو اسلام کو پسند نہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1272   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3473  
´چارہ روکنے کے لیے پانی کو روکنا منع ہے۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فاضل پانی سے نہ روکا جائے کہ اس کے ذریعہ سے گھاس سے روک دیا جائے ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3473]
فوائد ومسائل:
توضیح۔
صحرائوں عام چراگاہوں اور راستوں پر عام کنویں چشمے یا تالاب ہوتے تھے۔
چرواہے وہاں آکر جانوروں کو پانی پلاتے۔
آرام کرتے۔
اور اپنے جانوروں کو چراتے تھے۔
پہلے آنے والا بعض اوقات بعد میں آنے والوں کو بقیہ پانی سے منع کر دیتا تھا۔
اور غرض یہ ہوئی تھی کہ جب پانی نہ ملےگا۔
تو وہ لوگ بھی ادھر کا رخ نہیں کریں گے۔
اور اس طرح ارد گرد کی چراگاہ کی گھاس اس کے اپنے جانوروں کےلئے محفوظ رہے گی۔
ایسا کرنا ناجائز ہے۔
البتہ اگر کنواں ٹیوب ویل یا تالاب وغیرہ ذاتی ہو۔
اور اس پر اس نے خرچ کیا ہو۔
تو دوسروں کو روک سکتا ہے۔
لیکن اسلامی اخلاق وآداب کا خیال رکھنا پھر بھی ضروری ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3473   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4008  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوتاہے کہ فالتو پانی،
پینے اور مویشیوں کو پلانے سے روکنا جس طرح منع ہے،
اس طرح اس کو بیچنابھی منع ہے،
اس لیے ان لوگوں کا موقف درست نہیں ہے،
جو کہتے ہیں کہ روکنا منع ہے،
بیچنا منع نہیں ہے،
کیونکہ پانی پینے سے روکنا یا اس کو بیچنا ہی گھاس بیچنے کا واسطہ اور ذریعہ ہے،
نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ضرورت اور کاشتکاری کے لیے پانی بیچنا منع نہیں ہے،
کیونکہ اس سے گھاس بیچنا لازم نہیں ٹھہرتا،
اور پانی کی تین اقسام ہیں۔
(1)
نہروں اور دریاؤں کا پانی،
جس پر کسی کی ملکیت نہیں ہے،
یہ سب کے لیے عام ہے،
اس کو بیچنا درست نہیں ہے،
ہاں زمیندار یا کاشتکار،
جو نہروں کا پانی حکومت سے اپنے لیے حاصل کرتے ہیں،
وہ ان کی ملکیت میں آ جاتا ہے،
اس کا فروخت کرنا جائز ہو گا۔
(2)
وہ پانی جو انسان اپنی ملکیتی زمین میں،
جمع کرتا ہے،
وہ اس کا حقدار ہے،
لیکن انسانوں یا مویشیوں کو اگر فالتو ہو تو پینے سے روک نہیں سکتا،
اور نہ ہی بیچ سکتا ہے،
ہاں کھیتی یا باغ کو پلانے سے روک سکتا ہے،
اور بیچ بھی سکتا ہے۔
(3)
وہ پانی جو انسان گھریلو استعمال کے لیے گھر میں برتنوں یا ٹینکی اور حوض میں جمع کرتا ہے،
وہ اس کا مالک ہے،
اور دوسروں کو اس سے روک سکتا ہے،
ہاں ضرورت سے زائد ہو تو لاچار اور مجبور انسان جس کو پانی کہیں سے دستیاب نہ ہو رہا ہو،
اس کو پلانے کا پابند ہو گا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 4008   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.