صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
قسموں کا بیان
3. باب نَدْبِ مَنْ حَلَفَ يَمِينًا فَرَأَى غَيْرَهَا خَيْرًا مِنْهَا أَنْ يَأْتِيَ الَّذِي هُوَ خَيْرٌ وَيُكَفِّرَ عَنْ يَمِينِهِ:
3. باب: جو شخص قسم کھائے کسی کام پر پھر اس کے خلاف کو بہتر سمجھے تو اس کو کرے اور قسم کا کفارہ دے۔
حدیث نمبر: 4264
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عبد الله بن براد الاشعري ، ومحمد بن العلاء الهمداني وتقاربا في اللفظ، قالا: حدثنا ابو اسامة ، عن بريد ، عن ابي بردة ، عن ابي موسى ، قال: " ارسلني اصحابي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم اساله لهم الحملان إذ هم معه في جيش العسرة وهي غزوة تبوك فقلت: يا نبي الله، إن اصحابي ارسلوني إليك لتحملهم، فقال: والله لا احملكم على شيء، ووافقته وهو غضبان ولا اشعر، فرجعت حزينا من منع رسول الله صلى الله عليه وسلم، ومن مخافة ان يكون رسول الله صلى الله عليه وسلم قد وجد في نفسه علي، فرجعت إلى اصحابي فاخبرتهم الذي، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلم البث إلا سويعة إذ سمعت بلالا ينادي اي عبد الله بن قيس، فاجبته، فقال: اجب رسول الله صلى الله عليه وسلم يدعوك، فلما اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: خذ هذين القرينين، وهذين القرينين، وهذين القرينين لستة ابعرة ابتاعهن حينئذ من سعد، فانطلق بهن إلى اصحابك فقل إن الله، او قال إن رسول الله صلى الله عليه وسلم يحملكم على هؤلاء فاركبوهن، قال ابو موسى: فانطلقت إلى اصحابي بهن، فقلت: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم يحملكم على هؤلاء، ولكن والله لا ادعكم حتى ينطلق معي بعضكم إلى من سمع مقالة رسول الله صلى الله عليه وسلم حين سالته لكم ومنعه في اول مرة، ثم إعطاءه إياي بعد ذلك لا تظنوا اني حدثتكم شيئا لم يقله، فقالوا لي: والله إنك عندنا لمصدق ولنفعلن ما احببت، فانطلق ابو موسى بنفر منهم حتى اتوا الذين سمعوا، قول رسول الله صلى الله عليه وسلم ومنعه إياهم، ثم إعطاءهم بعد فحدثوهم بما حدثهم به ابو موسى سواء ".حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَرَّادٍ الْأَشْعَرِيُّ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ الْهَمْدَانِيُّ وَتَقَارَبَا فِي اللَّفْظِ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ بُرَيْدٍ ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، قَالَ: " أَرْسَلَنِي أَصْحَابِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَسْأَلُهُ لَهُمُ الْحُمْلَانَ إِذْ هُمْ مَعَهُ فِي جَيْشِ الْعُسْرَةِ وَهِيَ غَزْوَةُ تَبُوكَ فَقُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، إِنَّ أَصْحَابِي أَرْسَلُونِي إِلَيْكَ لِتَحْمِلَهُمْ، فَقَالَ: وَاللَّهِ لَا أَحْمِلُكُمْ عَلَى شَيْءٍ، وَوَافَقْتُهُ وَهُوَ غَضْبَانُ وَلَا أَشْعُرُ، فَرَجَعْتُ حَزِينًا مِنْ مَنْعِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمِنْ مَخَافَةِ أَنْ يَكُونَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ وَجَدَ فِي نَفْسِهِ عَلَيَّ، فَرَجَعْتُ إِلَى أَصْحَابِي فَأَخْبَرْتُهُمُ الَّذِي، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمْ أَلْبَثْ إِلَّا سُوَيْعَةً إِذْ سَمِعْتُ بِلَالًا يُنَادِي أَيْ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ قَيْسٍ، فَأَجَبْتُهُ، فَقَالَ: أَجِبْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْعُوكَ، فَلَمَّا أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: خُذْ هَذَيْنِ الْقَرِينَيْنِ، وَهَذَيْنِ الْقَرِينَيْنِ، وَهَذَيْنِ الْقَرِينَيْنِ لِسِتَّةِ أَبْعِرَةٍ ابْتَاعَهُنَّ حِينَئِذٍ مِنْ سَعْدٍ، فَانْطَلِقْ بِهِنَّ إِلَى أَصْحَابِكَ فَقُلْ إِنَّ اللَّهَ، أَوَ قَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَحْمِلُكُمْ عَلَى هَؤُلَاءِ فَارْكَبُوهُنَّ، قَالَ أَبُو مُوسَى: فَانْطَلَقْتُ إِلَى أَصْحَابِي بِهِنَّ، فَقُلْتُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَحْمِلُكُمْ عَلَى هَؤُلَاءِ، وَلَكِنْ وَاللَّهِ لَا أَدَعُكُمْ حَتَّى يَنْطَلِقَ مَعِي بَعْضُكُمْ إِلَى مَنْ سَمِعَ مَقَالَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ سَأَلْتُهُ لَكُمْ وَمَنْعَهُ فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ، ثُمَّ إِعْطَاءَهُ إِيَّايَ بَعْدَ ذَلِكَ لَا تَظُنُّوا أَنِّي حَدَّثْتُكُمْ شَيْئًا لَمْ يَقُلْهُ، فَقَالُوا لِي: وَاللَّهِ إِنَّكَ عِنْدَنَا لَمُصَدَّقٌ وَلَنَفْعَلَنَّ مَا أَحْبَبْتَ، فَانْطَلَقَ أَبُو مُوسَى بِنَفَرٍ مِنْهُمْ حَتَّى أَتَوْا الَّذِينَ سَمِعُوا، قَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْعَهُ إِيَّاهُمْ، ثُمَّ إِعْطَاءَهُمْ بَعْدُ فَحَدَّثُوهُمْ بِمَا حَدَّثَهُمْ بِهِ أَبُو مُوسَى سَوَاءً ".
‏‏‏‏ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میرے ساتھیوں نے مجھ کو بھیجا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سواری مانگنے کو۔ جب وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گئے تھے جیش العسرہ یعنی غزوۂ تبوک میں۔ میں نے عرض کیا: یا نبی اللہ! میرے ساتھیوں نے مجھے بھیجا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سواری کے لیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں تم کو سواری نہ دوں گا۔ اور اتفاق سے جب میں نے یہ کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ میں تھے، مجھے معلوم نہ تھا۔ میں رنجیدہ ہو کر لوٹا اور دو باتوں کا مجھ کو رنج تھا۔ ایک تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انکار سے اور دوسرا اس خیال سے کہ کہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مجھ سے رنج نہ ہوا ہو۔ میں اپنے ساتھیوں کے پاس آیا اور ان کو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہہ سنایا۔ تھوڑی دیر میں ٹھہرا تھا کہ بلال رضی اللہ عنہ کی آواز میں نے سنی عبداللہ بن قیس رضی اللہ عنہ (یہ نام ہے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کا) کون ہے؟ میں نے جواب دیا۔ انہوں نے کہا: چل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تجھے بلاتے ہیں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ جوڑا لے اور یہ جوڑا اور یہ جوڑا اونٹوں کا سب چھ اونٹ جن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد رضی اللہ عنہ سے خریدا تھا۔ اور ان کو لے جا اپنے ساتھیوں کے پاس اور کہہ کہ اللہ تعالیٰ نے یا اس کے رسول نے یہ سواری تم کو دی ہے۔ تو سوار ہو اس پر۔ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں وہ اونٹ لے کر اپنے ساتھیوں کے پاس گیا۔ اور ان سے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تم کو یہ سواریاں دی ہیں۔ لیکن میں تم کو نہیں چھوڑوں گا جب تک تم میں سے کچھ لوگ میرے ساتھ نہ چلیں ان لوگوں کے پاس جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلا انکار سنا ہے۔ پھر دینا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس کے بعد تم یہ گمان نہ کرنا میں نے تم سے وہ کہہ دیا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمایا تھا (چونکہ پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے سواری دینے کا انکار کیا اور انہوں نے اپنے ساتھیوں سے کہہ دیا۔ بعد اس کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سواریاں دیں تو سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ ڈرے کہیں میرے یار یہ نہ سمجھیں کہ اس نے اپنی طرف سے بات بنا لی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار نہ کیا ہو گا اس لیے مقابلہ کرانا چاہا) میرے ساتھیوں نے کہا: اللہ کی قسم! تم ہمارے نزدیک سچے ہو اور جو تم چاہتے ہو ہم ویسا ہی کریں گے۔ (یعنی تمہارے ساتھ چلیں گے) پھر ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ ان میں سے کئی آدمیوں کو لے کر گئے ان لوگوں کے پاس جنہوں نے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار اور بعد اس کے دینا دیکھا تھا۔ اور ان لوگوں نے ویسا ہی بیان کیا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کے یاروں سے جیسے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے ان سے بیان کیا تھا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1649
   صحيح البخاري6678عبد الله بن قيسلا أحملكم على شيء ووافقته وهو غضبان فلما أتيته قال انطلق إلى أصحابك فقل إن الله أو إن رسول الله يحملكم
   صحيح البخاري4415عبد الله بن قيسلا أحملكم على شيء ووافقته وهو غضبان ولا أشعر ورجعت حزينا من منع النبي ومن مخافة أن يكون النبي وجد في نفسه علي فرجعت إلى أصحابي فأخبرتهم الذي قال النبي فلم ألبث إلا سويعة إذ سمعت بلالا ينادي
   صحيح مسلم4264عبد الله بن قيسلا أحملكم على شيء ووافقته وهو غضبان ولا أشعر فرجعت حزينا من منع رسول الله ومن مخافة أن يكون رسول الله قد وجد في نفسه علي فرجعت إلى أصحابي فأخبرتهم الذي قال رسول الله فلم ألبث إلا سويعة إذ سمعت

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6678  
´ملک حاصل ہونے سے پہلے یا گناہ کی بات کے لیے یا غصہ کی حالت میں قسم کھانے کا کیا حکم ہے؟`
«. . . عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ: أَرْسَلَنِي أَصْحَابِي إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَسْأَلُهُ الْحُمْلَانَ، فَقَالَ:" وَاللَّهِ لَا أَحْمِلُكُمْ عَلَى شَيْءٍ"، وَوَافَقْتُهُ وَهُوَ غَضْبَانُ، فَلَمَّا أَتَيْتُهُ، قَالَ:" انْطَلِقْ إِلَى أَصْحَابِكَ، فَقُلْ:" إِنَّ اللَّهَ، أَوْ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَحْمِلُكُمْ . . .»
. . . ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میرے ساتھیوں نے مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں سواری کے جانور مانگنے کے لیے بھیجا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کی قسم میں تمہارے لیے کوئی سواری کا جانور نہیں دے سکتا (کیونکہ موجود نہیں ہیں) جب میں آپ کے سامنے آیا تو آپ کچھ خفگی میں تھے۔ پھر جب دوبارہ آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے ساتھیوں کے پاس جا اور کہہ کہ اللہ تعالیٰ نے یا (یہ کہا کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہارے لیے سواری کا انتظام کر دیا۔ [صحيح البخاري/كتاب الْأَيْمَانِ وَالنُّذُورِ: 6678]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 6678کا باب: «بَابُ الْيَمِينِ فِيمَا لاَ يَمْلِكُ، وَفِي الْمَعْصِيَةِ، وَفِي الْغَضَبِ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
ترجمۃ الباب میں امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بات کو ظاہر فرمایا کہ ملکیت سے قبل غصہ کی حالت میں قسم کھا لے تو اس کا کیا کفارہ ہو گا؟ اور اگر وہ چیز بعد میں ملکیت میں داخل ہو جائے تو پھر اس مسئلے کا کیا حل ہو گا؟ تحت الباب حدیث میں سواریاں دینے کی قسم کا ذکر فرمایا ہے، اس وقت جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم کھائی تھی تو اس وقت سواریاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملک میں نہ تھیں، جب ملک میں آئیں اس وقت دینے سے نہ قسم ٹوٹی اور نہ کفارہ لازم ہوا، اس حدیث سے غصہ کی حالت میں قسم کھا لینے کی بھی مثال ہو سکتی ہے، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«و الذى يظهر أن البخاري قصد غير هذا و هو أن النبى صلى الله عليه وسلم حلف أن لا يحملهم فلما حملهم راجعوه فى يمينه فقال: ما أنا حملتكم ولكنا الله حملكم، فبين أن يمينه انما انعقدت فيما يملك فلو حملهم على ما يملك لحنت و كفّر.» (1)
جو بات ظاہر ہے، وہ یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کا قصد یہ نہیں ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم کھائی کہ انہیں سواریاں نہ دیں گے، پھر جب عطا کیں تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم یاد دلائی تو فرمایا: یہ میں نے تمہیں سوار نہیں کرایا، بلکہ اللہ تعالی نے سوار کرایا ہے، تو بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم کا تعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملک سے ہے، اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ملک کی سواریوں پر انہیں سوار کرتے تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم حانث ہو جاتے اور کفارہ ادا کرتے۔
ابن المنیر رحمہ اللہ کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حلف اٹھایا تھا کہ میں آپ کو سواری نہیں دوں گا، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سواری عطا فرمائی تو اپنے یمین میں ان کو لوٹایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ سواریاں میں نے آپ کو نہیں دیں، بلکہ اللہ تعالی نے دی ہیں، مزید ابن المنیر رحمہ اللہ اس مسئلے پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:
«فلو حملهم على ما يملكه لكفّر، و لا خلاف فيما إذا حلف على شيئي و ليس فى ملكه انه لا يفعل فعلاً متعلقًا بذالك الشيئي مثل قوله: والله لا ركبت هذا البعير و لم يكن البعير فى ملكه، فلو ملكه و ركبه حنث و كفّر و ليس هذا من تعليق العتق على الملك.» (1)
پس اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اس پر سوار کرتے جس کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ملک ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا کفارہ دیتے، کہتے ہیں کہ اس امر میں اختلاف نہیں ہے کہ جس نے کسی شئی کی قسم اٹھائی اور وہ اس کے ملک میں نہیں کہ وہ کوئی ایسا فعل نہ کرے گا جو اس شئی کے ساتھ معلق ہو، مثلا کہے کہ اگر تم اس اونٹ پر سوار ہوتے تو واللہ میں یہ کروں گا، اور وہ اونٹ اس کی ملک میں نہ ہو تو اگر وہ کبھی اس کا مالک ہوا پھر اس پر سوار ہوا تو حانث ہوا، اور یہ ملک ہر قسم کو معلق کرنے کے باب سے نہیں۔
ان گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ یہ سواریاں اللہ تعالی نے تمہیں عطا کی ہیں، اگر یہ سواریاں خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ملک میں ہوتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قسم کا کفارہ دیتے۔
اب باب اور حدیث میں مناسبت ظاہر ہے۔
دراصل امام بخاری رحمہ اللہ نے جو ترجمۃ الباب قائم فرمایا ہے، اس کے تین اجزاء ہیں، پہلا جزء «يمين» یعنی قسم، دوسرا جزء «في المعصية» یعنی نافرمانی، تیسرا جزء «في حالة الغضب» یعنی غصے میں قسم کھانا۔
ان تینوں اجزاء کو ثابت کرنے کے لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے تحت الباب تین احادیث کا انتخاب فرمایا ہے اور تینوں سے باب کا مطلب ظاہر ہوتا ہے۔
پہلی حدیث جو سیدنا ابوموسی رضی اللہ عنہ سے نقل فرمائی ہے، اس میں باب سے مطابقت کچھ یوں ہے، علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«مطابقة للجزء الأول للترجمة و هو اليمين فيما لا يملك.» (2)
پہلے جزء سے حدیث کی مناسبت اس قسم سے ہے جس کا وہ مالک نہ ہو۔
دوسرے جزء کی مطابقت، دوسری حدیث سے یوں ہے۔ علامہ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«مطابقة للجزء الثاني للترجمة فى قوله: و الله لا أنفق على مسطح شيئًا أبدًا و هو مطابق لترك اليمين فى المعصية.» (3)
دوسرے جزء کی مناسبت دوسری حدیث کے ساتھ ان الفاظوں کے ساتھ ہے کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا: اللہ کی قسم! میں مسطح رضی اللہ عنہ پر اب کبھی خرچ نہیں کروں گا، یہ مطابقت ہے اس قسم کو ترک کرنے کی جو معاصیت پر قائم ہو۔
تیسرے جزء کی مناسبت تیسری حدیث کے ساتھ ان الفاظوں میں ہے، علامہ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«مطابقة للجزء الثالث من الترجمة فى قوله: فوافقته و هو غضبان، فاستحملناه فخلف أن لا يحملنا.» (1)
تیسرے جزء کی مطابقت ان الفاظوں میں ہے: جب میں آپ کے پاس آیا تو آپ غصہ میں تھے، پھر ہم نے آپ سے سواری کا جانور مانگا تو آپ نے قسم کھا لی کہ آپ ہمارے لیے اس کا انتظام نہیں کر سکتے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 238