الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: سجدہ سھو کا بیان
The Book of As-Sahw (Forgetting)
8. بَابُ إِذَا كُلِّمَ وَهُوَ يُصَلِّي فَأَشَارَ بِيَدِهِ وَاسْتَمَعَ:
8. باب: اگر نمازی سے کوئی بات کرے اور وہ سن کر ہاتھ کے اشارے سے جواب دے تو نماز فاسد نہ ہو گی۔
(8) Chapter. If a person speaks to a person offering Salat (prayer), and the latter beckons with his hand and listens.
حدیث نمبر: 1233
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا يحيى بن سليمان , قال: حدثني ابن وهب , قال: اخبرني عمرو، عن بكير، عن كريب، ان ابن عباس والمسور بن مخرمة و عبد الرحمن بن ازهر رضي الله عنهم ارسلوه إلى عائشة رضي الله عنها , فقالوا: اقرا عليها السلام منا جميعا" وسلها عن الركعتين بعد صلاة العصر وقل لها إنا اخبرنا انك تصلينهما، وقد بلغنا ان النبي صلى الله عليه وسلم نهى عنها، وقال ابن عباس: وكنت اضرب الناس مع عمر بن الخطاب عنها، فقال كريب: فدخلت على عائشة رضي الله عنها فبلغتها ما ارسلوني , فقالت: سل ام سلمة، فخرجت إليهم فاخبرتهم بقولها، فردوني إلى ام سلمة بمثل ما ارسلوني به إلى عائشة , فقالت ام سلمة رضي الله عنها: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم ينهى عنها، ثم رايته يصليهما حين صلى العصر، ثم دخل علي وعندي نسوة من بني حرام من الانصار، فارسلت إليه الجارية فقلت قومي بجنبه فقولي له تقول لك ام سلمة يا رسول الله سمعتك تنهى عن هاتين واراك تصليهما، فإن اشار بيده فاستاخري عنه ففعلت الجارية، فاشار بيده فاستاخرت عنه، فلما انصرف قال:" يا بنت ابي امية، سالت عن الركعتين بعد العصر وإنه اتاني ناس من عبد القيس فشغلوني عن الركعتين اللتين بعد الظهر فهما هاتان".حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ , قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ , قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرٌو، عَنْ بُكَيْرٍ، عَنْ كُرَيْبٍ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ وَالْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ وَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَزْهَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَرْسَلُوهُ إِلَى عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا , فَقَالُوا: اقْرَأْ عَلَيْهَا السَّلَامَ مِنَّا جَمِيعًا" وَسَلْهَا عَنِ الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ صَلَاةِ الْعَصْرِ وَقُلْ لَهَا إِنَّا أُخْبِرْنَا أَنَّكِ تُصَلِّينَهُمَا، وَقَدْ بَلَغَنَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْهَا، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: وَكُنْتُ أَضْرِبُ النَّاسَ مَعَ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ عَنْهَا، فَقَالَ كُرَيْبٌ: فَدَخَلْتُ عَلَى عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فَبَلَّغْتُهَا مَا أَرْسَلُونِي , فَقَالَتْ: سَلْ أُمَّ سَلَمَةَ، فَخَرَجْتُ إِلَيْهِمْ فَأَخْبَرْتُهُمْ بِقَوْلِهَا، فَرَدُّونِي إِلَى أُمِّ سَلَمَةَ بِمِثْلِ مَا أَرْسَلُونِي بِهِ إِلَى عَائِشَةَ , فَقَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَى عَنْهَا، ثُمَّ رَأَيْتُهُ يُصَلِّيهِمَا حِينَ صَلَّى الْعَصْرَ، ثُمَّ دَخَلَ عَلَيَّ وَعِنْدِي نِسْوَةٌ مِنْ بَنِي حَرَامٍ مِنْ الْأَنْصَارِ، فَأَرْسَلْتُ إِلَيْهِ الْجَارِيَةَ فَقُلْتُ قُومِي بِجَنْبِهِ فَقُولِي لَهُ تَقُولُ لَكَ أُمُّ سَلَمَةَ يَا رَسُولَ اللَّهِ سَمِعْتُكَ تَنْهَى عَنْ هَاتَيْنِ وَأَرَاكَ تُصَلِّيهِمَا، فَإِنْ أَشَارَ بِيَدِهِ فَاسْتَأْخِرِي عَنْهُ فَفَعَلَتِ الْجَارِيَةُ، فَأَشَارَ بِيَدِهِ فَاسْتَأْخَرَتْ عَنْهُ، فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ:" يَا بِنْتَ أَبِي أُمَيَّةَ، سَأَلْتِ عَنِ الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ وَإِنَّهُ أَتَانِي نَاسٌ مِنْ عَبْدِ الْقَيْسِ فَشَغَلُونِي عَنِ الرَّكْعَتَيْنِ اللَّتَيْنِ بَعْدَ الظُّهْرِ فَهُمَا هَاتَانِ".
ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عمرو بن حارث نے خبر دی، انہیں بکیر نے، انہیں کریب نے کہ ابن عباس، مسور بن مخرمہ اور عبدالرحمٰن بن ازہر رضی اللہ عنہم نے انہیں عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں بھیجا اور کہا عائشہ رضی اللہ عنہا سے ہم سب کا سلام کہنا اور اس کے بعد عصر کے بعد کی دو رکعتوں کے بارے میں دریافت کرنا۔ انہیں یہ بھی بتا دینا کہ ہمیں خبر ہوئی ہے کہ آپ یہ دو رکعتیں پڑھتی ہیں۔ حالانکہ ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث پہنچی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دو رکعتوں سے منع کیا ہے اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ ان رکعتوں کے پڑھنے پر لوگوں کو مارا بھی تھا۔ کریب نے بیان کیا کہ میں عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور پیغام پہنچایا۔ اس کا جواب آپ نے یہ دیا کہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے اس کے متعلق دریافت کر۔ چنانچہ میں ان حضرات کی خدمت میں واپس ہوا اور عائشہ رضی اللہ عنہا کی گفتگو نقل کر دی، انہوں نے مجھے ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں بھیجا انہیں پیغامات کے ساتھ جن کے ساتھ عائشہ رضی اللہ عنہا کے یہاں بھیجا تھا۔ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے یہ جواب دیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کے بعد نماز پڑھنے سے روکتے تھے لیکن ایک دن میں نے دیکھا کہ عصر کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود یہ دو رکعتیں پڑھ رہے ہیں۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر تشریف لائے۔ میرے پاس انصار کے قبیلہ بنو حرام کی چند عورتیں بیٹھی ہوئی تھیں۔ اس لیے میں نے ایک باندی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا۔ میں نے اس سے کہہ دیا تھا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بازو میں ہو کر یہ پوچھے کہ ام سلمہ کہتی ہیں کہ یا رسول اللہ! آپ تو ان دو رکعتوں سے منع کیا کرتے تھے حالانکہ میں دیکھ رہی ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود انہیں پڑھتے ہیں۔ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہاتھ سے اشارہ کریں تو تم پیچھے ہٹ جانا۔ باندی نے پھر اسی طرح کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ سے اشارہ کیا تو پیچھے ہٹ گئی۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فارغ ہوئے تو (آپ نے ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے) فرمایا کہ اے ابوامیہ کی بیٹی! تم نے عصر کے بعد کی دو رکعتوں کے متعلق پوچھا، بات یہ ہے کہ میرے پاس عبدالقیس کے کچھ لوگ آ گئے تھے اور ان کے ساتھ بات کرنے میں میں ظہر کے بعد کی دو رکعتیں نہیں پڑھ سکا تھا سو یہ وہی دو رکعت ہیں۔

Narrated Kuraib: I was sent to Aisha by Ibn `Abbas, Al-Miswar bin Makhrama and `Abdur-Rahman bin Azhar . They told me to greet her on their behalf and to ask her about the offering of the two rak`at after the `Asr prayer and to say to her, "We were informed that you offer those two rak`at and we were told that the Prophet had forbidden offering them." Ibn `Abbas said, "I along with `Umar bin Al-Khattab used to beat the people whenever they offered them." I went to Aisha and told her that message. `Aisha said, "Go and ask Um Salama about them." So I returned and informed them about her statement. They then told me to go to Um Salama with the same question with which t sent me to `Aisha. Um Salama replied, "I heard the Prophet forbidding them. Later I saw him offering them immediately after he prayed the `Asr prayer. He then entered my house at a time when some of the Ansari women from the tribe of Bani Haram were sitting with me, so I sent my slave girl to him having said to her, 'Stand beside him and tell him that Um Salama says to you, "O Allah's Apostle! I have heard you forbidding the offering of these (two rak`at after the `Asr prayer) but I have seen you offering them." If he waves his hand then wait for him.' The slave girl did that. The Prophet beckoned her with his hand and she waited for him. When he had finished the prayer he said, "O daughter of Bani Umaiya! You have asked me about the two rak`at after the `Asr prayer. The people of the tribe of `Abdul-Qais came to me and made me busy and I could not offer the two rak`at after the Zuhr prayer. These (two rak`at that I have just prayed) are for those (missed) ones.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 22, Number 325

   صحيح البخاري4370هند بنت حذيفةأتاني أناس من عبد القيس بالإسلام من قومهم فشغلوني عن الركعتين اللتين بعد الظهر فهما هاتان
   صحيح البخاري1233هند بنت حذيفةأتاني ناس من عبد القيس فشغلوني عن الركعتين اللتين بعد الظهر فهما هاتان
   صحيح مسلم1933هند بنت حذيفةأتاني ناس من عبد القيس بالإسلام من قومهم فشغلوني عن الركعتين اللتين بعد الظهر فهما هاتان
   سنن أبي داود1273هند بنت حذيفةأتاني ناس من عبد القيس بالإسلام من قومهم فشغلوني عن الركعتين اللتين بعد الظهر فهما هاتان
   سنن النسائى الصغرى580هند بنت حذيفةهما ركعتان كنت أصليهما بعد الظهر فشغلت عنهما حتى صليت العصر
   سنن النسائى الصغرى581هند بنت حذيفةشغل رسول الله عن الركعتين قبل العصر فصلاهما بعد العصر
   سنن ابن ماجه1159هند بنت حذيفةشغلني أمر الساعي أن أصليهما بعد الظهر فصليتهما بعد العصر
   بلوغ المرام143هند بنت حذيفةشغلت عن ركعتين بعد الظهر فصليتهما الآن
   مسندالحميدي296هند بنت حذيفةلا إنما يكفيك أن تحثي على رأسك ثلاث حثيات من ماء ثم تفيضي عليك الماء فتطهري

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 143  
´عصر کے بعد ظہر کی رہ جانے والی سنتوں کی قضا`
«. . . صلى رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم العصر. ثم دخل بيتي فصلى ركعتين. فسالته فقال: ‏‏‏‏شغلت عن ركعتين بعد الظهر فصليتهما الآن . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز عصر پڑھ کر میرے حجرے میں تشریف لائے اور دو رکعت نماز ادا فرمائی۔ میں نے عرض کیا یہ دو رکعت کیسی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں ارشاد فرمایا ظہر کے فرائض کے بعد کی دو سنتیں پڑھ نہیں سکا تھا وہ اب میں نے پڑھی ہیں . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 143]

لغوی تشریح:
«شُغِلْتُ» صیغہ مجہول۔ اس کے معنی ہیں کہ مجھے روک دیا گیا، اس طرف سے توجہ پھیر دی گئی۔ مانع یہ تھا کہ قبیلۂ عبدالقیس کے کچھ لوگ آ گئے تھے یا صدقے کا مال آ گیا تھا۔ مال کی تقسیم یا ان سے گفتگو کرتے رہنے کی وجہ سے ظہر کی دو سنتیں رہ گئی تھیں، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد پڑھیں۔
«فصليتهما الآن» یعنی میں نے ان دونوں کی اب قضا دی ہے۔ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ ہم بھی چھوٹ جانے کی صورت میں اس وقت قضا دیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اس وقت انہیں قضا ہونے کی صورت میں ادا نہ کرو۔
علامہ یمانی نے کہا ہے کہ اس سے ثابت ہوا نماز عصر کے بعد ان سنتوں کی قضا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت ہے، کسی بھی دوسرے کے لیے یہ جائز نہیں ہے اور ایک دن کے عمل کے بعد آپ کا ہمیشہ انہیں نماز عصر کے بعد ادا کرتے رہنا اس بنا پر تھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی کہ جب ایک عمل ایک مرتبہ کر لیتے تو اسے ہمیشہ انجام دیتے تھے۔ تو گویا یہ بھی آپ کی خصوصیت تھی۔

فائدہ:
حدیث مذکور سے معلوم ہوتا ہے کہ عصر کے بعد ظہر کی رہ جانے والی سنتوں کی قضا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ اور امتیاز تھا جیسا کہ امام طحاوی اور علامہ یمانی رحمہما اللہ نے کہا ہے مگر امام بیہقی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رحمہما اللہ نے کہا ہے کہ اس روایت کا آخری حصہ «أَفَنَقُضِيهِمَا إذَا فَتَتَا؟ قال: لا» جب یہ رہ جائیں تو کیا ہم ان کی قضا دیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں۔ ضعیف اور غیر محفوظ ہے۔ صحیح یہ ہے کہ عصر کے بعد قضا نماز فرض ہو یا سنت، ادا ہو سکتی ہے۔ اس کی تفصیل أعلام أھل العصر میں شارح ابوداود شیخ شمس الحق محدیث ڈیانوی نے خوب بیان کی ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 143   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 581  
´عصر کے بعد نماز کی اجازت کا بیان۔`
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہم کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر سے پہلے والی دو رکعت نہیں پڑھ سکے، تو انہیں عصر کے بعد پڑھی۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 581]
581 ۔ اردو حاشیہ: عصر کے بعد نوافل پڑھنا جائز ہے جب تک کہ سورج زرد نہ ہو جیسا کہ پیچھے تفصیل گزر چکی ہے۔ دیکھیے، حدیث: 574 اور 579 کے فوائدومسائل۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 581   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1159  
´جس کی ظہر کے بعد کی دو رکعت سنت چھوٹ جائے اس کے حکم کا بیان۔`
عبداللہ بن حارث کہتے ہیں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک شخص بھیجا، قاصد کے ساتھ میں بھی گیا، اس نے ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا، تو انہوں نے کہا کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں نماز ظہر کے لیے وضو کر رہے تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ وصول کرنے والا ایک شخص روانہ کیا تھا، آپ کے پاس مہاجرین کی بھیڑ تھی، اور ان کی بدحالی نے آپ کو فکر میں مبتلا کر رکھا تھا کہ اتنے میں کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا، آپ باہر نکلے، ظہر پڑھائی پھر بیٹھے، اور صدقہ وصول کرنے و۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1159]
اردو حاشہ:
فائدہ:

(1)
مذکور روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے۔
اورشیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے منکر قرار دیا ہے۔
لیکن رسول اللہ ﷺ سے عصر کے بعد دورکعتیں پڑھنے کا ثبوت حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی روایات سے ملتا ہے۔
اسی لئے بعض محققین نے اس روایت کی سند کو تو ضعیف قراردیا ہے۔
لیکن فی نفسہ مسئلہ یعنی عصر کے بعد دورکعت پڑھنے کو صحیح قرار دیا ہے۔
تفصیل کےلئے دیکھئے: (الموسوعة الحدیثیة، مسند الإمام أحمد بن حنبل: 257، 256، 210، 209/44 وسنن ابن ماجة بتحقیق الدکتور بشارعواد، حدیث: 115)

(2)
ظہر کی پچھلی دو سنتیں مؤکدہ سنتوں میں سے ہیں۔
اور ان کا پڑھنا مستحب ہے۔

(3)
ممنوع وقت میں کسی مشروع سبب سے نماز پڑھنا جائز ہے۔

(4)
عصر کے بعد ان رکعات کی ہمیشگی نبی اکرمﷺ کی خصوصیت تھی۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1159   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1273  
´عصر کے بعد نفل پڑھنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے غلام کریب کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عباس، عبدالرحمٰن بن ازہر رضی اللہ عنہ اور مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ تینوں نے انہیں ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیجا اور کہا: ان سے ہم سب کا سلام کہنا اور عصر کے بعد دو رکعت نفل کے بارے میں پوچھنا اور کہنا: ہمیں معلوم ہوا ہے کہ آپ یہ دو رکعتیں پڑھتی ہیں، حالانکہ ہم تک یہ بات پہنچی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے منع فرمایا ہے، چنانچہ میں ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا اور انہیں ان لوگوں کا پیغام پہنچا دیا، آپ نے کہا: ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے پوچھو! میں ان لوگوں کے پاس آیا اور ان کی بات انہیں بتا دی، تو ان سب نے مجھے ام المؤمنین ام سلمہ کے پاس اسی پیغام کے ساتھ بھیجا، جس کے ساتھ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیجا تھا، تو ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے منع کرتے ہوئے سنا، پھر دیکھا کہ آپ انہیں پڑھ رہے ہیں، ایک روز آپ نے عصر پڑھی پھر میرے پاس آئے، اس وقت میرے پاس انصار کے قبیلہ بنی حرام کی کچھ عورتیں بیٹھی ہوئی تھیں، آپ نے یہ دونوں رکعتیں پڑھنا شروع کیں تو میں نے ایک لڑکی کو آپ کے پاس بھیجا اور اس سے کہا کہ تو جا کر آپ کے بغل میں کھڑی ہو جا اور آپ سے کہہ: اللہ کے رسول! ام سلمہ کہہ رہی ہیں: میں نے تو آپ کو ان دونوں رکعتوں کو پڑھنے سے منع کرتے ہوئے سنا ہے اور اب آپ ہی انہیں پڑھ رہے ہیں، اگر آپ ہاتھ سے اشارہ کریں تو پیچھے ہٹ جانا، اس لڑکی نے ایسا ہی کیا، آپ نے ہاتھ سے اشارہ کیا، تو وہ پیچھے ہٹ گئی، جب آپ نماز سے فارغ ہو گئے تو فرمایا: اے ابوامیہ کی بیٹی! تم نے مجھ سے عصر کے بعد دو رکعتیں پڑھنے کے بارے میں پوچھا ہے، دراصل میرے پاس عبدالقیس کے چند لوگ اپنی قوم کے اسلام کی خبر لے کر آئے تو ان لوگوں نے مجھے باتوں میں مشغول کر لیا اور میں ظہر کے بعد یہ دونوں رکعتیں نہیں پڑھ سکا، یہ وہی دونوں رکعتیں ہیں۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب التطوع /حدیث: 1273]
1273۔ اردو حاشیہ:
➊ ظہر کی پچھلی سنتیں مؤکدہ سنتوں میں سے ہیں اور ان کا پڑھنا مستحب ہے۔
➋ ممنوع وقت میں کسی مشروع سبب سے نماز پڑھنا جائز ہے۔
➌ عصر کے بعد ان رکعات کی ہمیشگی نبی علیہ الصلاۃ والسلام کی خصوصیت تھی۔
➍ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا مسئلے کی تحقیق میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی طرف تحویل کرنا، ان آداب میں سے ہے کہ اعلم اور اہل فضل کی طرف مراجعت کی جائے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1273   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1233  
1233. حضرت کریب سے روایت ہے کہ حضرت ابن عباس، حضرت مسور بن مخرمہ اور حضرت عبدالرحمٰن بن ازہر ؓ نے انہیں ام المومنین حضرت عائشہ‬ ؓ ک‬ے پاس بھیجا اور کہا کہ ہم سب کی طرف سے انہیں سلام کہنا اور ان سے نماز عصر کے بعد دو رکعتوں کے متعلق دریافت کرنا، نیز ان سے عرض کرنا کہ ہماری اطلاع کے مطابق آپ عصر کی نماز کے بعد دو رکعتیں پڑھتی ہیں، حالانکہ ہمیں یہ خبر پہنچتی ہے کہ نبی ﷺ نے ان سے منع فرمایا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے یہ بھی کہا کہ میں حضرت عمر فاروق ؓ کے ہمراہ یہ دو رکعتیں پڑھنے والوں کو مارتا تھا۔ حضرت کریب کہتے ہیں: میں ام المومنین حضرت عائشہ‬ ؓ ک‬ے پاس گیا اور انہیں وہ خبر پہنچا دی جس کے لیے انہوں نے مجھے بھیجا تھا، حضرت عائشہ‬ ؓ ن‬ے فرمایا: حضرت ام سلمہ‬ ؓ س‬ے اس کے متعلق دریافت کرو، چنانچہ میں ان حضرات کے پاس گیا اور انہیں حضرت عائشہ‬ ؓ ک‬ی بات سے آگاہ کر دیا۔ پھر انہوں نے مجھے حضرت ام۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1233]
حدیث حاشیہ:
نمازی سے کوئی بات کرے اور وہ سن کر اشارہ سے کچھ جواب دے دے تو نماز فاسد نہ ہوگی۔
جیسا کہ خود نبی کریم ﷺ کا جوابی اشارہ اس حدیث سے ثابت ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کے فعل سے حسب موقع کسی خلاف شریعت کا م پر مناسب طورپر مارنا اور سختی سے منع کرنا بھی ثابت ہوا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 1233   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1233  
1233. حضرت کریب سے روایت ہے کہ حضرت ابن عباس، حضرت مسور بن مخرمہ اور حضرت عبدالرحمٰن بن ازہر ؓ نے انہیں ام المومنین حضرت عائشہ‬ ؓ ک‬ے پاس بھیجا اور کہا کہ ہم سب کی طرف سے انہیں سلام کہنا اور ان سے نماز عصر کے بعد دو رکعتوں کے متعلق دریافت کرنا، نیز ان سے عرض کرنا کہ ہماری اطلاع کے مطابق آپ عصر کی نماز کے بعد دو رکعتیں پڑھتی ہیں، حالانکہ ہمیں یہ خبر پہنچتی ہے کہ نبی ﷺ نے ان سے منع فرمایا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے یہ بھی کہا کہ میں حضرت عمر فاروق ؓ کے ہمراہ یہ دو رکعتیں پڑھنے والوں کو مارتا تھا۔ حضرت کریب کہتے ہیں: میں ام المومنین حضرت عائشہ‬ ؓ ک‬ے پاس گیا اور انہیں وہ خبر پہنچا دی جس کے لیے انہوں نے مجھے بھیجا تھا، حضرت عائشہ‬ ؓ ن‬ے فرمایا: حضرت ام سلمہ‬ ؓ س‬ے اس کے متعلق دریافت کرو، چنانچہ میں ان حضرات کے پاس گیا اور انہیں حضرت عائشہ‬ ؓ ک‬ی بات سے آگاہ کر دیا۔ پھر انہوں نے مجھے حضرت ام۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1233]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز کے دوران میں کسی غیر کی بات سننے اور اس کا کلام سمجھنے سے نماز میں کوئی خرابی نہیں آتی، نیز ہاتھ کا اشارہ ایک خفیف عمل ہے، اس سے نماز باطل نہیں ہوتی۔
اس سلسلے میں ادب یہ ہے کہ نمازی سے دوران نماز میں بات کرنے والا اس کے ساتھ یا پیچھے نہ کھڑا ہو، کیونکہ ایسا کرنے سے اس کے خشوع میں خلل آنے کا امکان ہے۔
(فتح الباري: 138/3) (2)
اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ کسی کو حسب موقع خلافِ شریعت کام پر مارنا اور سختی سے منع کرنا جائز ہے اور ایسا کرنا ظلم یا زیادتی نہیں۔
(3)
عصر کے بعد دو رکعت پڑھنا رسول اللہ ﷺ کی خصوصیت تھی، کیونکہ آپ نے دو رکعت پڑھنے کا آغاز بطور قضا کیا تھا، لیکن رسول اللہ ﷺ انہیں ہمیشہ پڑھتے تھے، حالانکہ قضا صرف ایک بار پڑھی جاتی ہے۔
آپ کی عادت مبارکہ تھی کہ جب کسی کام کو شروع کرتے تو پھر اس پر ہمیشگی کرتے۔
(4)
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ پر نسیان طاری ہو سکتا ہے، کیونکہ حضرت ام سلمہ ؓ کے استفسار سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس کو نسیان پر محمول کر رہی تھیں یا نسخ پر یا خصوصیت پر۔
لیکن تیسری بات ثابت ہوئی کہ یہ رسول اللہ ﷺ کی خصوصیت تھی۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1233   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.