حدثنا عبد الله بن براد الاشعري ، ومحمد بن العلاء الهمداني ، قالا: حدثنا ابو اسامة ، عن بريد ، عن ابي بردة ، عن ابي موسى ، قال: " سئل النبي صلى الله عليه وسلم عن اشياء كرهها، فلما اكثر عليه غضب، ثم قال للناس: سلوني عم شئتم، فقال رجل: من ابي؟ قال: ابوك حذافة، فقام آخر، فقال: من ابي يا رسول الله؟ قال: ابوك سالم مولى شيبة، فلما راى عمر ما في وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم من الغضب، قال: يا رسول الله، إنا نتوب إلى الله، وفي رواية ابي كريب، قال: من ابي يا رسول الله، قال: ابوك سالم مولى شيبة ".حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَرَّادٍ الْأَشْعَرِيُّ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ الْهَمْدَانِيُّ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ بُرَيْدٍ ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، قَالَ: " سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَشْيَاءَ كَرِهَهَا، فَلَمَّا أُكْثِرَ عَلَيْهِ غَضِبَ، ثُمَّ قَالَ لِلنَّاسِ: سَلُونِي عَمَّ شِئْتُمْ، فَقَالَ رَجُلٌ: مَنْ أَبِي؟ قَالَ: أَبُوكَ حُذَافَةُ، فَقَامَ آخَرُ، فَقَالَ: مَنْ أَبِي يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: أَبُوكَ سَالِمٌ مَوْلَى شَيْبَةَ، فَلَمَّا رَأَى عُمَرُ مَا فِي وَجْهِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْغَضَبِ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا نَتُوبُ إِلَى اللَّهِ، وَفِي رِوَايَةِ أَبِي كُرَيْبٍ، قَالَ: مَنْ أَبِي يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: أَبُوكَ سَالِمٌ مَوْلَى شَيْبَةَ ".
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لوگوں نے ایسی باتیں پوچھیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بری لگیں، جب لوگوں نے بہت پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ ہوئے پھر فرمایا: ”پوچھ لو مجھ سے جو تم چاہو۔“ ایک شخص بولا: میرے باپ کا کیا نام ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیرا باپ حذافہ ہے۔“ پھر ایک دوسرا شخص اٹھا، اور کہنے لگا: میرا باپ کون ہے؟ یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیرا باپ سالم ہے شیبہ کا مولیٰ۔“ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر غصہ دیکھا تو کہا: یا رسول اللہ! ہم توبہ کرتے ہیں اللہ کی طرف۔
سلوني عما شئتم قال رجل من أبي قال أبوك حذافة فقام آخر فقال من أبي يا رسول الله فقال أبوك سالم مولى شيبة فلما رأى عمر ما في وجهه قال يا رسول الله إنا نتوب إلى الله
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 92
´بےجا سوالات پر استاد کا ناراض ہونا` «. . . قَالَ: سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَشْيَاءَ كَرِهَهَا، فَلَمَّا أُكْثِرَ عَلَيْهِ غَضِبَ، ثُمَّ قَالَ لِلنَّاسِ:" سَلُونِي عَمَّا شِئْتُمْ . . .» ”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ ایسی باتیں دریافت کی گئیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو برا معلوم ہوا اور جب (اس قسم کے سوالات کی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بہت زیادتی کی گئی تو آپ کو غصہ آ گیا . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 92]
تشریح: لغو اور بے ہودہ سوال کسی صاحب علم سے کرنا سراسر نادانی ہے۔ پھر اللہ کے رسول سے اس قسم کا سوال کرنا تو گویا بہت ہی بے ادبی ہے۔ اسی لیے اس قسم کے بے جا سوالات پر آپ نے غصہ میں فرمایاکہ جو چاہو دریافت کرو۔ اس لیے کہ اگرچہ بشر ہونے کے لحاظ سے آپ غیب کی باتیں نہیں جانتے تھے۔ مگر اللہ کا برگزیدہ پیغمبر ہونے کی بنا پر وحی و الہام سے اکثر احوال آپ کو معلوم ہو جاتے تھے، یا معلوم ہو سکتے تھے جن کی آپ کو ضرورت پیش آتی تھی۔ اسی لیے آپ نے فرمایا کہ تم لوگ نہیں مانتے ہو تو اب جو چاہو پوچھو، مجھ کو اللہ کی طرف سے جو جواب ملے گا تم کو بتلاؤں گا۔ آپ کی خفگی دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دیگر حاضرین کی نمائندگی فرماتے ہوئے ایسے سوالات سے باز رہنے کا وعدہ فرمایا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 92