الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
ابواب: نماز شروع کرنے کے احکام ومسائل
Prayer (Tafarah Abwab Estaftah Assalah)
172. باب رَدِّ السَّلاَمِ فِي الصَّلاَةِ
172. باب: نماز میں سلام کا جواب دینا۔
Chapter: Returning The Salam During The Prayer.
حدیث نمبر: 925
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا يزيد بن خالد بن موهب، وقتيبة بن سعيد، ان الليث حدثهم، عن بكير، عن نابل صاحب العباء، عن ابن عمر، عن صهيب، انه قال: مررت برسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يصلي، فسلمت عليه" فرد إشارة"، قال: ولا اعلمه إلا قال: إشارة باصبعه. وهذا لفظ حديث قتيبة.
حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ مَوْهَبٍ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، أَنَّ اللَّيْثَ حَدَّثَهُمْ، عَنْ بُكَيْرٍ، عَنْ نَابِلٍ صَاحِبِ الْعَبَاءِ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ صُهَيْبٍ، أَنَّهُ قَالَ: مَرَرْتُ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُصَلِّي، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ" فَرَدَّ إِشَارَةً"، قَالَ: وَلَا أَعْلَمُهُ إِلَّا قَالَ: إِشَارَةً بِأُصْبُعِهِ. وَهَذَا لَفْظُ حَدِيثِ قُتَيْبَةَ.
صہیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرا اس حال میں آپ نماز پڑھ رہے تھے، میں نے آپ کو سلام کیا تو آپ نے اشارہ سے سلام کا جواب دیا۔ نابل کہتے ہیں: مجھے یہی معلوم ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے «إشارة بأصبعه» کا لفظ کہا ہے، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی کے اشارہ سے سلام کا جواب دیا، یہ قتیبہ کی روایت کے الفاظ ہیں۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الصلاة 159 (367)، سنن النسائی/السھو 6 (1187)، (تحفة الأشراف: 4966)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 59 (1019)، مسند احمد (4/332)، سنن الدارمی/الصلاة 94 (1401) (صحیح)» ‏‏‏‏

Narrated Suhayb: I passed by the Messenger of Allah ﷺ who was praying. I saluted him and he returned it by making a sign. The narrator said: I do not know but that he said: He made a sign with his finger. This is the version reported by Qutaybah.
USC-MSA web (English) Reference: Book 3 , Number 925


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
صححه ابن خزيمة (888 وسنده صحيح)
   سنن النسائى الصغرى1187صهيب بن سنانمررت على رسول الله وهو يصلي فسلمت عليه فرد علي إشارة ولا أعلم إلا أنه قال بإصبعه
   جامع الترمذي367صهيب بن سنانمررت برسول الله وهو يصلي فسلمت عليه فرد إلي إشارة
   سنن أبي داود925صهيب بن سنانمررت برسول الله وهو يصلي فسلمت عليه فرد إشارة
   سنن ابن ماجه1017صهيب بن سنانكيف كان رسول الله يرد عليهم قال كان يشير بيده

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ غلام مصطفٰے ظهير امن پوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 925  
´نماز میں سلام کا جواب دینا`
«. . . عَنْ صُهَيْبٍ، أَنَّهُ قَالَ: مَرَرْتُ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُصَلِّي، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ" فَرَدَّ إِشَارَةً . . .»
. . . صہیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرا اس حال میں آپ نماز پڑھ رہے تھے، میں نے آپ کو سلام کیا تو آپ نے اشارہ سے سلام کا جواب دیا۔ . . . [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة: 925]

تخریج الحدیث
[سنن ابي داود: 925، سنن الترمذي 367، سنن النسائي 1187، مسند الامام احمد: 332/4، وسنده صحيح]
فقہ الحدیث:
↰ اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے حسن کہا ہے، جبکہ امام ابن الجارود رحمہ اللہ (216) اور امام ابن حبان رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے۔
اس حدیث کا ایک شاہد صحیح سند کے ساتھ سنن النسائی [1188]، سنن ابن ماجہ [1017] اور مسند الحمیدی [148] وغیرہ میں موجود ہے۔ اس کو امام ابنِ خزیمہ رحمہ اللہ [888] اور امام ابن حبان رحمہ اللہ [2258] نے صحیح کہا ہے۔ امام حاکم رحمہ اللہ [12/3] نے اسے بخاری اور مسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے، حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
ان احادیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ نمازی کو سلام کہنا اور اس کا اشارے کے ساتھ جواب لوٹانا جائز اور درست ہے۔

«عن ابي مجلز، سٔل عن الرجل يسلم عليه فى الصلاة قال؛ يرد بشق رأسه الايمن»
ابومجلز (لاحق بن حمید تابعی) رحمہ اللہ سے ایسے نمازی کے بارے میں سوال کیا گیا، جس کو سلام کہا جائے، آپ نے فرمایا، وہ اپنے سر کی دائیں جانب کے ساتھ (اشارہ کرتے ہوئے) جواب لوٹائے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 73/2، ح: 485، وسنده صحيح]

◈ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«ان شأ أشاره و أ ما بالكلام فلا يرد۔»
نمازی اگر چاہے تو اشارے سے سلام کا جواب دے دے، لیکن زبان سے کلام کر کے جواب نہ لوٹائے۔ [مسائل احمد لابي داوّد: ص 37، مسائل احمد لابي هاني 44/1]

تنبیہ:
امام اسحاق بن راہویہ، امام احمد بن حنبل اور امام سفیان الثوری رحمہم اللہ سے روایت ہے، ان کا قول ہے:
«اذا رد عليه استقبل الصلاة۔» [مسائل احمد و اسحاق 83/1]
اس قول سے ان ائمہ کی مراد یہ ہے کہ اگر کسی نمازی کو معلوم ہو کہ نماز میں زبان سے سلام کا جواب دینا ممنوع اور منسوخ ہے، اس کے باوجود ایسا کرے تو اسے نماز لوٹانی ہو گی، کیونکہ اس نے جان بوجھ کر نماز میں کلام کیا ہے، ہم بھی یہی کہتے ہیں۔

تنبیہ:
اگر حالت نماز میں جہالت کی بنا پر سلام کے جواب میں وعلیکم السلام کہہ دے تو نماز باطل نہیں ہو گی۔
   ماہنامہ السنہ جہلم ، شمارہ نمبر 16، حدیث\صفحہ نمبر: 15   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 925  
´نماز میں سلام کا جواب دینا۔`
صہیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرا اس حال میں آپ نماز پڑھ رہے تھے، میں نے آپ کو سلام کیا تو آپ نے اشارہ سے سلام کا جواب دیا۔ نابل کہتے ہیں: مجھے یہی معلوم ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے «إشارة بأصبعه» کا لفظ کہا ہے، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی کے اشارہ سے سلام کا جواب دیا، یہ قتیبہ کی روایت کے الفاظ ہیں۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 925]
925۔ اردو حاشیہ:
نمازی کو سلام کرنے میں کوئی حرج نہیں البتہ آواز مناسب ہونی چاہیے، مگر وہ اشارے سے جواب دے۔ نیز درج زیل احادیث ملاحظہ ہوں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 925   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1017  
´نمازی دوران نماز سلام کا جواب کیسے دے؟`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد قباء میں آ کر نماز پڑھ رہے تھے، اتنے میں انصار کے کچھ لوگ آئے اور آپ کو سلام کرنے لگے، تو میں نے صہیب رضی اللہ عنہ سے پوچھا جو آپ کے ساتھ تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے سلام کا جواب کیسے دیا تھا؟ انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہاتھ کے اشارے سے جواب دے رہے تھے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1017]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مسجد قباء کی زیارت اور وہاں نماز ادا کرنے کے لئے اہتمام سے جانا مسنون ہے۔
البتہ دوسرے شہر سے سفر کرکے مدینہ جاتے وقت زیارت مسجد نبوی کی نیت کرنی چاہیے۔
اس کے بعد مدینہ کی دوسری مساجد اور مسجد قباء کی زیارت کےلئے جا سکتا ہے۔

(2)
جب کوئی عالم یا بزرگ محلے میں تشریف لائے تو عوام کو چاہیے کہ اس سے ملنے اور علمی استفادہ حاصل کرنے کےلئے حاضر ہوں۔

(3)
نمازی کو دوسرا آدمی سلام کہہ سکتاہے۔

(4)
اگر نمازی کو سلام کہا جائے۔
تو وہ نماز کے دوران میں اشارے سے جواب دے زبان سے جواب نہ دے۔

(5)
نمازکے دوران میں کسی قسم کا ضروری اشارہ کرنے سے نماز فاسد نہیں ہوتی۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1017   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 367  
´نماز میں اشارہ کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ صہیب رضی الله عنہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرا اور آپ نماز پڑھ رہے تھے، میں نے سلام کیا تو آپ نے مجھے اشارے سے جواب دیا، راوی (ابن عمر) کہتے ہیں کہ میرا یہی خیال ہے کہ صہیب نے کہا: آپ نے اپنی انگلی کے اشارے سے جواب دیا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 367]
اردو حاشہ:
1؎:
یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نماز میں سلام کا جواب اشارہ سے دینا مشروع ہے،
یہی جمہور کی رائے ہے،
بعض لوگ اسے ممنوع کہتے ہیں،
ان کا کہنا ہے کہ پہلے جائز تھا بعد میں منسوخ ہو گیا،
لیکن یہ صحیح نہیں،
بلکہ صحیح یہ ہے کہ پہلے نماز میں کلام کرنا جائز تھا تو لوگ سلام کا جواب بھی ((وَعَلَیْکُمُ السَّلَام)) کہہ کر دیتے تھے،
پھر جب نماز میں کلام کرنا نا جائز قرار دے دیا گیا تو ((وَعَلَیْکُمُ السَّلَام)) کہہ کر سلام کا جواب دینا بھی نا جائز ہو گیا اور اس کے بدلے اشارے سے سلام کا جواب دینا مشروع ہوا،
اس اشارے کی نوعیت کے سلسلہ میں احادیث مختلف ہیں،
بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اپنی انگلی سے اشارہ کیا اور بعض سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے ہاتھ سے اشارہ کیا اس طرح کہ ہاتھ کی پشت اوپر تھی اور ہتھیلی نیچے تھی،
اور بعض احادیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے سر سے اشارہ کیا ان سب سے معلوم ہوا کہ یہ تینوں صورتیں جائز ہیں۔

2؎:
اگلی حدیث نمبر368 کے تحت مؤلف نے اس حدیث پر حکم لگایا ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 367   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.