الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
کتاب: محصورات اراضی اور امارت سے متعلق احکام و مسائل
Tribute, Spoils, and Rulership (Kitab Al-Kharaj, Wal-Fai Wal-Imarah)
35. باب فِي الإِمَامِ يَقْبَلُ هَدَايَا الْمُشْرِكِينَ
35. باب: امام کا کفار و مشرکین سے ہدیہ قبول کرنا۔
Chapter: Regarding The Imam Accepting Gifts From Idolaters.
حدیث نمبر: 3055
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا ابو توبة الربيع بن نافع، حدثنا معاوية يعني ابن سلام، عن زيد، انه سمع ابا سلام، قال: حدثني عبد الله الهوزني، قال: لقيت بلالا مؤذن رسول الله صلى الله عليه وسلم بحلب، فقلت: يا بلال حدثني كيف كانت نفقة رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: ما كان له شيء كنت انا الذي الي ذلك منه منذ بعثه الله إلى ان توفي وكان إذا اتاه الإنسان مسلما فرآه عاريا يامرني فانطلق فاستقرض فاشتري له البردة فاكسوه واطعمه حتى اعترضني رجل من المشركين، فقال: يا بلال إن عندي سعة فلا تستقرض من احد إلا مني ففعلت، فلما ان كان ذات يوم توضات ثم قمت لاؤذن بالصلاة، فإذا المشرك قد اقبل في عصابة من التجار، فلما ان رآني قال: يا حبشي قلت يا لباه فتجهمني، وقال لي قولا غليظا، وقال لي: اتدري كم بينك وبين الشهر؟ قال: قلت قريب قال: إنما بينك وبينه اربع فآخذك بالذي عليك فاردك ترعى الغنم كما كنت قبل ذلك، فاخذ في نفسي ما ياخذ في انفس الناس حتى إذا صليت العتمة رجع رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى اهله فاستاذنت عليه فاذن لي، فقلت: يا رسول الله بابي انت وامي إن المشرك الذي كنت اتدين منه قال لي: كذا وكذا وليس عندك ما تقضي عني ولا عندي وهو فاضحي فاذن لي ان آبق إلى بعض هؤلاء الاحياء الذين قد اسلموا حتى يرزق الله رسوله صلى الله عليه وسلم ما يقضي عني، فخرجت حتى إذا اتيت منزلي فجعلت سيفي وجرابي ونعلي ومجني عند راسي حتى إذا انشق عمود الصبح الاول اردت ان انطلق، فإذا إنسان يسعى يدعو: يا بلال اجب رسول الله صلى الله عليه وسلم فانطلقت حتى اتيته فإذا اربع ركائب مناخات عليهن احمالهن فاستاذنت فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ابشر فقد جاءك الله بقضائك، ثم قال: الم تر الركائب المناخات الاربع، فقلت: بلى فقال: إن لك رقابهن وما عليهن فإن عليهن كسوة وطعاما اهداهن إلي عظيم فدك فاقبضهن واقض دينك، ففعلت فذكر الحديث ثم انطلقت إلى المسجد فإذا رسول الله صلى الله عليه وسلم قاعد في المسجد فسلمت عليه فقال: ما فعل ما قبلك؟ قلت: قد قضى الله كل شيء كان على رسول الله صلى الله عليه وسلم فلم يبق شيء، قال: افضل شيء قلت: نعم قال: انظر ان تريحني منه فإني لست بداخل على احد من اهلي حتى تريحني منه، فلما صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم العتمة دعاني فقال: ما فعل الذي قبلك؟ قال: قلت: هو معي لم ياتنا احد، فبات رسول الله صلى الله عليه وسلم في المسجد وقص الحديث حتى إذا صلى العتمة يعني من الغد دعاني، قال: ما فعل الذي قبلك؟ قال: قلت: قد اراحك الله منه يا رسول الله فكبر وحمد الله شفقا من ان يدركه الموت وعنده ذلك"، ثم اتبعته حتى إذا جاء ازواجه، فسلم على امراة امراة حتى اتى مبيته فهذا الذي سالتني عنه.
حَدَّثَنَا أَبُو تَوْبَةَ الرَّبِيعُ بْنُ نَافِعٍ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ يَعْنِي ابْنَ سَلَّامٍ، عَنْ زَيْدٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَلَّامٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ الْهَوْزَنِيُّ، قَالَ: لَقِيتُ بِلَالًا مُؤَذِّنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحَلَبَ، فَقُلْتُ: يَا بِلَالُ حَدِّثْنِي كَيْفَ كَانَتْ نَفَقَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: مَا كَانَ لَهُ شَيْءٌ كُنْتُ أَنَا الَّذِي أَلِي ذَلِكَ مِنْهُ مُنْذُ بَعَثَهُ اللَّهُ إِلَى أَنْ تُوُفِّيَ وَكَانَ إِذَا أَتَاهُ الإِنْسَانُ مُسْلِمًا فَرَآهُ عَارِيًا يَأْمُرُنِي فَأَنْطَلِقُ فَأَسْتَقْرِضُ فَأَشْتَرِي لَهُ الْبُرْدَةَ فَأَكْسُوهُ وَأُطْعِمُهُ حَتَّى اعْتَرَضَنِي رَجُلٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ، فَقَالَ: يَا بِلَالُ إِنَّ عِنْدِي سَعَةً فَلَا تَسْتَقْرِضْ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا مِنِّي فَفَعَلْتُ، فَلَمَّا أَنْ كَانَ ذَاتَ يَوْمٍ تَوَضَّأْتُ ثُمَّ قُمْتُ لِأُؤَذِّنَ بِالصَّلَاةِ، فَإِذَا الْمُشْرِكُ قَدْ أَقْبَلَ فِي عِصَابَةٍ مِنَ التُّجَّارِ، فَلَمَّا أَنْ رَآنِي قَالَ: يَا حَبَشِيُّ قُلْتُ يَا لَبَّاهُ فَتَجَهَّمَنِي، وَقَالَ لِي قَوْلًا غَلِيظًا، وَقَالَ لِي: أَتَدْرِي كَمْ بَيْنَكَ وَبَيْنَ الشَّهْرِ؟ قَالَ: قُلْتُ قَرِيبٌ قَالَ: إِنَّمَا بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ أَرْبَعٌ فَآخُذُكَ بِالَّذِي عَلَيْكَ فَأَرُدُّكَ تَرْعَى الْغَنَمَ كَمَا كُنْتَ قَبْلَ ذَلِكَ، فَأَخَذَ فِي نَفْسِي مَا يَأْخُذُ فِي أَنْفُسِ النَّاسِ حَتَّى إِذَا صَلَّيْتُ الْعَتَمَةَ رَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَهْلِهِ فَاسْتَأْذَنْتُ عَلَيْهِ فَأَذِنَ لِي، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي إِنَّ الْمُشْرِكَ الَّذِي كُنْتُ أَتَدَيَّنُ مِنْهُ قَالَ لِي: كَذَا وَكَذَا وَلَيْسَ عِنْدَكَ مَا تَقْضِي عَنِّي وَلَا عِنْدِي وَهُوَ فَاضِحِي فَأْذَنْ لِي أَنْ آبَقَ إِلَى بَعْضِ هَؤُلَاءِ الأَحْيَاءِ الَّذِينَ قَدْ أَسْلَمُوا حَتَّى يَرْزُقَ اللَّهُ رَسُولَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا يَقْضِي عَنِّي، فَخَرَجْتُ حَتَّى إِذَا أَتَيْتُ مَنْزِلِي فَجَعَلْتُ سَيْفِي وَجِرَابِي وَنَعْلِي وَمِجَنِّي عِنْدَ رَأْسِي حَتَّى إِذَا انْشَقَّ عَمُودُ الصُّبْحِ الأَوَّلِ أَرَدْتُ أَنْ أَنْطَلِقَ، فَإِذَا إِنْسَانٌ يَسْعَى يَدْعُو: يَا بِلَالُ أَجِبْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَانْطَلَقْتُ حَتَّى أَتَيْتُهُ فَإِذَا أَرْبَعُ رَكَائِبَ مُنَاخَاتٌ عَلَيْهِنَّ أَحْمَالُهُنَّ فَاسْتَأْذَنْتُ فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَبْشِرْ فَقَدْ جَاءَكَ اللَّهُ بِقَضَائِكَ، ثُمَّ قَالَ: أَلَمْ تَرَ الرَّكَائِبَ الْمُنَاخَاتِ الأَرْبَعَ، فَقُلْتُ: بَلَى فَقَالَ: إِنَّ لَكَ رِقَابَهُنَّ وَمَا عَلَيْهِنَّ فَإِنَّ عَلَيْهِنَّ كِسْوَةً وَطَعَامًا أَهْدَاهُنَّ إِلَيَّ عَظِيمُ فَدَكَ فَاقْبِضْهُنَّ وَاقْضِ دَيْنَكَ، فَفَعَلْتُ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ ثُمَّ انْطَلَقْتُ إِلَى الْمَسْجِدِ فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَاعِدٌ فِي الْمَسْجِدِ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَقَالَ: مَا فَعَلَ مَا قِبَلَكَ؟ قُلْتُ: قَدْ قَضَى اللَّهُ كُلَّ شَيْءٍ كَانَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يَبْقَ شَيْءٌ، قَالَ: أَفَضَلَ شَيْءٍ قُلْتُ: نَعَمْ قَالَ: انْظُرْ أَنْ تُرِيحَنِي مِنْهُ فَإِنِّي لَسْتُ بِدَاخِلٍ عَلَى أَحَدٍ مِنْ أَهْلِي حَتَّى تُرِيحَنِي مِنْهُ، فَلَمَّا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعَتَمَةَ دَعَانِي فَقَالَ: مَا فَعَلَ الَّذِي قِبَلَكَ؟ قَالَ: قُلْتُ: هُوَ مَعِي لَمْ يَأْتِنَا أَحَدٌ، فَبَاتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ وَقَصَّ الْحَدِيثَ حَتَّى إِذَا صَلَّى الْعَتَمَةَ يَعْنِي مِنَ الْغَدِ دَعَانِي، قَالَ: مَا فَعَلَ الَّذِي قِبَلَكَ؟ قَالَ: قُلْتُ: قَدْ أَرَاحَكَ اللَّهُ مِنْهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَكَبَّرَ وَحَمِدَ اللَّهَ شَفَقًا مِنْ أَنْ يُدْرِكَهُ الْمَوْتُ وَعِنْدَهُ ذَلِكَ"، ثُمَّ اتَّبَعْتُهُ حَتَّى إِذَا جَاءَ أَزْوَاجَهُ، فَسَلَّمَ عَلَى امْرَأَةٍ امْرَأَةٍ حَتَّى أَتَى مَبِيتَهُ فَهَذَا الَّذِي سَأَلْتَنِي عَنْهُ.
عبداللہ ہوزنی کہتے ہیں کہ میں نے مؤذن رسول بلال رضی اللہ عنہ سے حلب ۱؎ میں ملاقات کی، اور کہا: بلال! مجھے بتائیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خرچ کیسے چلتا تھا؟ تو انہوں نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ نہ ہوتا، بعثت سے لے کر موت تک جب بھی آپ کو کوئی ضرورت پیش آتی میں ہی اس کا انتظام کرتا تھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی مسلمان آتا اور آپ اس کو ننگا دیکھتے تو مجھے حکم کرتے، میں جاتا اور قرض لے کر اس کے لیے چادر خریدتا، اسے پہننے کے لیے دے دیتا اور اسے کھانا کھلاتا، یہاں تک کہ مشرکین میں سے ایک شخص مجھے ملا اور کہنے لگا: بلال! میرے پاس وسعت ہے (تنگی نہیں ہے) آپ کسی اور سے قرض نہ لیں، مجھ سے لے لیا کریں، میں ایسا ہی کرنے لگا یعنی (اس سے لینے لگا) پھر ایک دن ایسا ہوا کہ میں نے وضو کیا اور اذان دینے کے لیے کھڑا ہوا کہ اچانک وہی مشرک سوداگروں کی ایک جماعت لیے ہوئے آ پہنچا جب اس نے مجھے دیکھا تو بولا: اے حبشی! میں نے کہا:   «يا لباه» ۲؎ حاضر ہوں، تو وہ ترش روئی سے پیش آیا اور سخت سست کہنے لگا اور بولا: تو جانتا ہے مہینہ پورا ہونے میں کتنے دن باقی رہ گئے ہیں؟ میں نے کہا: قریب ہے، اس نے کہا: مہینہ پورا ہونے میں صرف چار دن باقی ہیں ۳؎ میں اپنا قرض تجھ سے لے کر چھوڑوں گا اور تجھے ایسا ہی کر دوں گا جیسے تو پہلے بکریاں چرایا کرتا تھا، مجھے اس کی باتوں کا ایسے ہی سخت رنج و ملال ہوا جیسے ایسے موقع پر لوگوں کو ہوا کرتا ہے، جب میں عشاء پڑھ چکا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر والوں کے پاس تشریف لے جا چکے تھے (میں بھی وہاں گیا) اور شرف یابی کی اجازت چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اجازت دے دی، میں نے (حاضر ہو کر) عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ پر میرے ماں باپ فدا ہوں، وہ مشرک جس سے میں قرض لیا کرتا تھا اس نے مجھے ایسا ایسا کہا ہے اور نہ آپ کے پاس مال ہے جس سے میرے قرض کی ادائیگی ہو جائے اور نہ ہی میرے پاس ہے (اگر ادا نہ کیا) تو وہ مجھے اور بھی ذلیل و رسوا کرے گا، تو آپ مجھے اجازت دے دیجئیے کہ میں بھاگ کر ان قوموں میں سے کسی قوم کے پاس جو مسلمان ہو چکے ہیں اس وقت تک کے لیے چلا جاؤں جب تک کہ اللہ اپنے رسول کو اتنا مال عطا نہ کر دے جس سے میرا قرض ادا ہو جائے، یہ کہہ کر میں نکل آیا اور اپنے گھر چلا آیا، اور اپنی تلوار، موزہ جوتا اور ڈھال سرہانے رکھ کر سو گیا، صبح ہی صبح پو پھٹتے ہی یہاں سے چلے جانے کا ارادہ کیا ہی تھا کہ ایک شخص بھاگا بھاگا پکارتا ہوا آیا کہ اے بلال (تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یاد کر رہے ہیں) چل کر آپ کی بات سن لو، تو میں چل پڑا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ چار لدے ہوئے جانور بیٹھے ہیں، آپ سے اجازت طلب کی تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: بلال! خوش ہو جاؤ، اللہ تعالیٰ نے تمہاری ضرورت پوری کر دی، کیا تم نے چاروں بیٹھی ہوئی سواریاں نہیں دیکھیں؟، میں نے کہا: ہاں دیکھ لی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جاؤ وہ جانور بھی لے لو اور جو ان پر لدا ہوا ہے وہ بھی ان پر کپڑا اور کھانے کا سامان ہے، فدک کے رئیس نے مجھے ہدیہ میں بھیجا ہے، ان سب کو اپنی تحویل میں لے لو، اور ان سے اپنا قرض ادا کر دو، تو میں نے ایسا ہی کیا۔ پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی۔ بلال رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: پھر میں مسجد میں آیا تو دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف فرما ہیں، میں نے آپ کو سلام کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: جو مال تمہیں ملا اس کا کیا ہوا؟، میں نے عرض کیا: اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے سارے قرضے ادا کر دیئے اب کوئی قرضہ باقی نہ رہا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کچھ مال بچا بھی ہے؟، میں نے کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جاؤ جو بچا ہے اسے اللہ کی راہ میں صرف کر کے مجھے آرام دو کیونکہ جب تک یہ مال صرف نہ ہو جائے گا میں اپنی ازواج (مطہرات) میں سے کسی کے پاس نہ جاؤں گا، پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء سے فارغ ہوئے تو مجھے بلایا اور فرمایا: کیا ہوا وہ مال جو تمہارے پاس بچ رہا تھا؟ میں نے کہا: وہ میرے پاس موجود ہے، کوئی ہمارے پاس آیا ہی نہیں کہ میں اسے دے دوں تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے رات مسجد ہی میں گزاری۔ راوی نے پوری حدیث بیان کی (اس میں ہے) یہاں تک کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز پڑھ چکے یعنی دوسرے دن تو آپ نے مجھے بلایا اور پوچھا: وہ مال کیا ہوا جو تمہارے پاس بچ رہا تھا؟، میں نے کہا: اللہ کے رسول! اللہ نے آپ کو اس سے بے نیاز و بےفکر کر دیا (یعنی وہ میں نے ایک ضرورت مند کو دے دیا) یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ اکبر کہا، اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور اس کی حمد و ثنا بیان کی اس ڈر سے کہ کہیں آپ کو موت نہ آ جاتی اور یہ مال آپ کے پاس باقی رہتا، پھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پیچھے چلا، آپ اپنی بیویوں کے پاس آئے اور ایک ایک کو سلام کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں تشریف لے گئے جہاں رات گزارنی تھی، (اے عبداللہ ہوزنی!) یہ ہے تمہارے سوال کا جواب۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 2040) (صحیح الإسناد)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: شام کے ایک شہر کا نام ہے۔
۲؎: یہ کلمہ عربی میں جی، یا حاضر ہوں کی جگہ بولا جاتا ہے۔
۳؎: قرض واپسی کی مدت میں ابھی چار دن باقی تھے اس لئے اسے لڑنے جھگڑنے اور بولنے کا حق نہیں تھا، ادائیگی کا وقت گزر جانے کے بعد اسے بولنے اور جھگڑنے کا حق تھا۔ مگر تھا تو کافر مسلمانوں کا دشمن، قرض کا بہانہ کر کے لڑ پڑا۔

Narrated Abdullah al-Hawzani: I met Bilal, the muadhdhin of the Messenger of Allah ﷺ at Aleppo, and said: Bilal, tell me, what was the financial position of the Messenger of Allah ﷺ? He said: He had nothing. It was I who managed it on his behalf since the day Allah made him Prophet of Allah ﷺ until he died. When a Muslim man came to him and he found him naked, he ordered me (to clothe him). I would go, borrow (some money), and purchase a cloak for him. I would then clothe him and feed him. A man from the polytheists met me and said: I am well off, Bilal. Do not borrow money from anyone except me. So I did accordingly. One day when I performed ablution and stood up to make call to prayer, the same polytheist came along with a body of merchants. When he saw me, he said: O Abyssinian. I said: I am at your service. He met me with unpleasant looks and said harsh words to me. He asked me: Do you know how many days remain in the completion of this month? I replied: The time is near. He said: Only four days remain in the completion of this month. I shall then take that which is due from you (i. e. loan), and then shall return you to tend the sheep as you did before. I began to think in my mind what people think in their minds (on such occasions). When I offered the night prayer, the Messenger of Allah ﷺ returned to his family. I sought permission from him and he gave me permission. I said: Messenger of Allah, may my parents be sacrificed for you, the polytheist from whom I used to borrow money said to me such-and-such. Neither you nor I have anything to pay him for me, and he will disgrace me. So give me permission to run away to some of those tribes who have recently embraced Islam until Allah gives His Messenger ﷺ something with which he can pay (the debt) for me. So I came out and reached my house. I placed my sword, waterskin (or sheath), shoes and shield near my head. When dawn broke, I intended to be on my way. All of a sudden I saw a man running towards me and calling: Bilal, return to the Messenger of Allah ﷺ. So I went till I reached him. I found four mounts kneeling on the ground with loads on them. I sought permission. The Messenger of Allah ﷺ said to me: Be glad, Allah has made arrangements for the payment (of your debt). He then asked: Have you not seen the four mounts kneeling on the ground? I replied: Yes. He said: You may have these mounts and what they have on them. There are clothes and food on them, presented to me by the ruler of Fadak. Take them away and pay off your debt. I did so. He then mentioned the rest of the tradition. I then went to the mosque and found that the Messenger of Allah ﷺ was sitting there. I greeted him. He asked: What benefit did you have from your property? I replied: Allah Most High paid everything which was due from the Messenger of Allah ﷺ. Nothing remains now. He asked: Did anything remain (from that property)? I said: Yes. He said: Look, if you can give me some comfort from it, for I shall not visit any member of my family until you give me some comfort from it. When the Messenger of Allah ﷺ offered the night prayer, he called me and said: What is the position of that which you had with you (i. e. property)? I said: I still have it, no one came to me. The Messenger of Allah ﷺ passed the night in the mosque. He then narrated the rest of the tradition. Next day when he offered the night prayer, he called me and asked: What is the position of that which you had (i. e. the rest of the property)? I replied: Allah has given you comfort from it, Messenger of Allah. He said: Allah is Most Great, and praised Allah, fearing lest he should die while it was with him. I then followed him until he came to his wives and greeted each one of them and finally he came to his place where he had to pass the night. This is all for which you asked me.
USC-MSA web (English) Reference: Book 19 , Number 3049


قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
   سنن أبي داود3055بلال بن رباحإذا أتاه الإنسان مسلما فرآه عاريا يأمرني فأنطلق فأستقرض فأشتري له البردة فأكسوه وأطعمه

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3055  
´امام کا کفار و مشرکین سے ہدیہ قبول کرنا۔`
عبداللہ ہوزنی کہتے ہیں کہ میں نے مؤذن رسول بلال رضی اللہ عنہ سے حلب ۱؎ میں ملاقات کی، اور کہا: بلال! مجھے بتائیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خرچ کیسے چلتا تھا؟ تو انہوں نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ نہ ہوتا، بعثت سے لے کر موت تک جب بھی آپ کو کوئی ضرورت پیش آتی میں ہی اس کا انتظام کرتا تھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی مسلمان آتا اور آپ اس کو ننگا دیکھتے تو مجھے حکم کرتے، میں جاتا اور قرض لے کر اس کے لیے چادر خریدتا، اسے پہننے کے لیے دے دیتا اور اسے کھانا کھلاتا، یہاں تک کہ مشرکین میں سے ایک شخص مجھ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 3055]
فوائد ومسائل:

مشرکین اور اہل کتاب سے ہدایا قبول کیے جا سکتے ہیں۔
بشرط یہ کہ اس میں کوئی دینی اور سیاسی ضرر نہ ہو۔


مشرکین سے ہدایہ کا تبادلہ اس وقت ممنوع ہوگا۔
جب اس سے دل کی گہری محبت کا اظہار ہوجو صرف اللہ رسول اور مومنین کے ساتھ خاص ہے، البتہ اگر ماں باپ مشرک ہیں۔
تو ان کے ساتھ حسن سلوک ضروری ہے۔
اور اگر کسی مشرک کو اسلام کی طرف مائل کرنے میں ہدیہ یا تحفہ مفید نظرآئے۔
تو صحیح ہوگا۔


امام ابو دائود کی طرح دیگر محدثین بھی مشرکین کے حوالے سے باب باندھ کرنیچے اہل کتاب کی احادیث لائے ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام احکام میں دونوں یکسا ں ہیں۔
سوائے ان معاملات کے جہاں استثناء کیا گیا ہے۔
اہل کتاب کا استثناء عورتوں کے ساتھ مسلمانوں کے نکاح اور حلال کھانے کے بارے میں ہے۔


جو اللہ پر توکل کرے اللہ خود اس کا کفیل ہوجاتا ہے۔


رسول اللہ ﷺ دنیا کا مال جمع کرنے کےلئے قطعا ً راضی نہیں تھے۔
افراد امت کے لئے یہ عمل (یعنی سب خرچ کردینا) اسی صورت میں جائز ہو سکتا ہے۔
جب وہ اس کے ما بعد نتائج پر برضا ورغبت قانع اور مطمئن ہوں۔
ورنہ مال حلال اللہ کی ایک قابل قدر نعمت ہے۔
تو چاہیے کہ انسان اپنی جان پر خرچ کرے۔
اپنے اہل وعیال کی ضروریات پوری کرے۔
اور صدقات بھی دے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3055   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.