الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
کتاب: اجارے کے احکام و مسائل
Wages (Kitab Al-Ijarah)
24. باب فِي وَضْعِ الْجَائِحَةِ
24. باب: کھیت یا باغ پر کوئی آفت آ جائے تو خریدار کے نقصان کی تلافی ہونی چاہئے۔
Chapter: Cancelling The Deal In The Event Of Blight.
حدیث نمبر: 3469
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا الليث، عن بكير، عن عياض بن عبد الله، عن ابي سعيد الخدري، انه قال:" اصيب رجل في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم في ثمار ابتاعها فكثر دينه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: تصدقوا عليه، فتصدق الناس عليه فلم يبلغ ذلك وفاء دينه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: خذوا ما وجدتم وليس لكم إلا ذلك".
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ بُكَيْرٍ، عَنْ عِيَاضِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنَّهُ قَالَ:" أُصِيبَ رَجُلٌ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ثِمَارٍ ابْتَاعَهَا فَكَثُرَ دَيْنُهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تَصَدَّقُوا عَلَيْهِ، فَتَصَدَّقَ النَّاسُ عَلَيْهِ فَلَمْ يَبْلُغْ ذَلِكَ وَفَاءَ دَيْنِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: خُذُوا مَا وَجَدْتُمْ وَلَيْسَ لَكُمْ إِلَّا ذَلِكَ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک شخص کے پھلوں پر جسے اس نے خرید رکھا تھا کوئی آفت آ گئی چنانچہ اس پر بہت سارا قرض ہو گیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے خیرات دو تو لوگوں نے اسے خیرات دی، لیکن خیرات اتنی اکٹھا نہ ہوئی کہ جس سے اس کے تمام قرض کی ادائیگی ہو جاتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس کے قرض خواہوں سے) فرمایا: جو پا گئے وہ لے لو، اس کے علاوہ اب کچھ اور دینا لینا نہیں ہے ۱؎ (یہ گویا مصیبت میں تمہاری طرف سے اس کے ساتھ رعایت و مدد ہے)۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/المساقاة 4 (1556)، سنن الترمذی/الزکاة 24 (655)، سنن النسائی/البیوع 28 (4534)، 93 (4682)، سنن ابن ماجہ/الأحکام 25، (2356)، (تحفة الأشراف: 4270)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/56، 58) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: جب حاکم موجودہ مال کو قرض خواہوں کے مابین بقدر حصہ تقسیم کر دے پھر بھی اس شخص کے ذمہ قرض خواہوں کا قرض باقی رہ جائے تو ایسی صورت میں قرض خواہ اسے تنگ کرنے، قید کرنے اور قرض کی ادائیگی پر مزید اصرار کرنے کے بجائے اسے مال کی فراہمی تک مہلت دے، حدیث کا مفہوم یہی ہے اور قرآن کی اس آیت: «وإن كان ذو عسرة فنظرة إلى ميسرة» کے مطابق بھی ہے کیونکہ کسی کے مفلس ہو جانے سے قرض خواہوں کے حقوق ضائع نہیں ہوتے۔

Narrated Abu Saeed Al Khudri: In the time of the Messenger of Allah ﷺ a man suffered loss affecting fruits he had bought and owed a large debt, so the Messenger of Allah ﷺ said: Give him sadaqah (alms). So the people gave him sadaqah (alms), but as that was not enough to pay the debt in full, the Messenger of Allah ﷺ said: Take what you find. But that is all you may have.
USC-MSA web (English) Reference: Book 23 , Number 3462


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم (1556)
   سنن النسائى الصغرى4534سعد بن مالكخذوا ما وجدتم وليس لكم إلا ذلك
   سنن النسائى الصغرى4682سعد بن مالكخذوا ما وجدتم وليس لكم إلا ذلك
   صحيح مسلم3981سعد بن مالكتصدقوا عليه فتصدق الناس عليه فلم يبلغ ذلك وفاء دينه فقال رسول الله لغرمائه خذوا ما وجدتم وليس لكم إلا ذلك
   جامع الترمذي655سعد بن مالكتصدقوا عليه فتصدق الناس عليه فلم يبلغ ذلك وفاء دينه فقال رسول الله لغرمائه خذوا ما وجدتم وليس لكم إلا ذلك
   سنن أبي داود3469سعد بن مالكتصدقوا عليه فتصدق الناس عليه فلم يبلغ ذلك وفاء دينه فقال رسول الله خذوا ما وجدتم وليس لكم إلا ذلك
   سنن ابن ماجه2356سعد بن مالكتصدقوا عليه فتصدق الناس عليه فلم يبلغ ذلك وفاء دينه فقال رسول الله خذوا ما وجدتم وليس لكم إلا ذلك

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2356  
´مفلس آدمی کو دیوالیہ قرار دے کر اس کا مال بیچ کر قرض خواہوں کو ادائیگی کرنا۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ایک شخص کو اس کے خریدے ہوئے پھلوں میں گھاٹا ہوا، اور وہ بہت زیادہ مقروض ہو گیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا: تم لوگ اسے صدقہ دو چنانچہ لوگوں نے اسے صدقہ دیا، لیکن اس سے اس کا قرض پورا ادا نہ ہو سکا، بالآخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو مل گیا وہ لے لو، اس کے علاوہ تمہارے لیے کچھ نہیں ہے یعنی قرض خواہوں کے لیے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأحكام/حدیث: 2356]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
جس شخص پر اتنا زیادہ قرض ہو جائے کہ وہ ادا کرنے سے قاصر ہو تو صدقات سے اس کی مدد کرنی چاہیے۔
ایسے شخص کو زکاۃ بھی دی جا سکتی ہے۔

(2)
اگر قرض زیادہ ہو اور دوسروں کی امداد سے بھی اتنی رقم جمع نہ ہو کہ قرض ادا ہو سکے تو جتنا کچھ موجود ہو وہی قرض خواہوں میں ان کے قرضوں کی نسبت سے تقسیم کر دیا جائے مثلاً:
کسی کے پاس کل قرضوں سے نصف رقم ہو تو ہر قرض خواہ کو اس کے قرض سے نصف رقم دے دی جائے۔

(3)
ممکن حد تک وصول ہو جانے کے بعد دیوالیہ سے مزید مطالبہ نہیں کیا جا سکتا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2356   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 655  
´قرض داروں اور دیگر لوگوں میں سے کس کس کے لیے زکاۃ حلال ہے؟`
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک شخص ۱؎ کے پھلوں میں جو اس نے خریدے تھے، کسی آفت کی وجہ سے جو اسے لاحق ہوئی نقصان ہو گیا اور اس پر قرض زیادہ ہو گیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے صدقہ دو چنانچہ لوگوں نے اسے صدقہ دیا، مگر وہ اس کے قرض کی مقدار کو نہ پہنچا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے قرض خواہوں سے فرمایا: جتنا مل رہا ہے لے لو، اس کے علاوہ تمہارے لیے کچھ نہیں۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الزكاة/حدیث: 655]
اردو حاشہ:
1؎:
ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 655   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3469  
´کھیت یا باغ پر کوئی آفت آ جائے تو خریدار کے نقصان کی تلافی ہونی چاہئے۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک شخص کے پھلوں پر جسے اس نے خرید رکھا تھا کوئی آفت آ گئی چنانچہ اس پر بہت سارا قرض ہو گیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے خیرات دو تو لوگوں نے اسے خیرات دی، لیکن خیرات اتنی اکٹھا نہ ہوئی کہ جس سے اس کے تمام قرض کی ادائیگی ہو جاتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس کے قرض خواہوں سے) فرمایا: جو پا گئے وہ لے لو، اس کے علاوہ اب کچھ اور دینا لینا نہیں ہے ۱؎ (یہ گویا مصیبت میں تمہاری طرف سے اس کے ساتھ رعایت ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3469]
فوائد ومسائل:

اسلامی معاشرے کی تنظیم اس طرح کی جاتی ہے۔
کہ صدقات کو عام اور سود کو ختم کیا جائے۔
بخلاف لادین اور ملحد معاشرے کے اس میں سود کو بڑھایا جاتا ہے۔
اور صدقات کا باقاعدہ کوئی نظام نہیں ہوتا۔


جو شخص قرض میں دب جائےاس کے ساتھ خواص تعاون کرنا واجب ہے۔


مفلس اور دیوالیہ ہوجانے والے سے اس کے قرض خواہ اپنے قرضے کی نسبت سے حاضرہ موجودہ مال میں حصہ لے سکیں گے۔
باقی کا وہ مطالبہ نہیں کرسکتے۔
باغ یا کھیت کی بیع جب شرعی اصولوں کے تحت ہوئی ہو تو نقصان کی تلافی کرنا مستحب ہے۔
واجب نہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3469   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.