الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
کتاب: اہم معرکوں کا بیان جو امت میں ہونے والے ہیں
Battles (Kitab Al-Malahim)
15. باب فِي خَبَرِ الْجَسَّاسَةِ
15. باب: جساسہ کا بیان۔
Chapter: Regarding narrations about Al-Jassasah.
حدیث نمبر: 4326
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا حجاج بن ابي يعقوب، حدثنا عبد الصمد، حدثنا ابي، قال: سمعت حسينا المعلم، حدثنا عبد الله بن بريدة، حدثنا عامر بن شراحيل الشعبي، عن فاطمة بنت قيس، قالت: سمعت منادي رسول الله صلى الله عليه وسلم ينادي: ان الصلاة جامعة، فخرجت فصليت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فلما قضى رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاته جلس على المنبر وهو يضحك قال: ليلزم كل إنسان مصلاه، ثم قال: هل تدرون لم جمعتكم؟ قالوا: الله ورسوله اعلم، قال: إني ما جمعتكم لرهبة ولا رغبة ولكن جمعتكم ان تميما الداري كان رجلا نصرانيا فجاء فبايع واسلم، وحدثني حديثا وافق الذي حدثتكم، عن الدجال حدثني، انه ركب في سفينة بحرية مع ثلاثين رجلا من لخم وجذام فلعب بهم الموج شهرا في البحر وارفئوا إلى جزيرة حين مغرب الشمس، فجلسوا في اقرب السفينة، فدخلوا الجزيرة، فلقيتهم دابة اهلب كثيرة الشعر، قالوا: ويلك ما انت؟ قالت: انا الجساسة انطلقوا إلى هذا الرجل في هذا الدير فإنه إلى خبركم بالاشواق، قال: لما سمت لنا رجلا فرقنا منها ان تكون شيطانة، فانطلقنا سراعا حتى دخلنا الدير فإذا فيه اعظم إنسان رايناه قط خلقا واشده وثاقا مجموعة يداه إلى عنقه فذكر الحديث وسالهم عن نخل بيسان وعن عين زغر وعن النبي الامي، قال: إني انا المسيح وإنه يوشك ان يؤذن لي في الخروج قال النبي صلى الله عليه وسلم: وإنه في بحر الشام او بحر اليمن لا بل من قبل المشرق ما هو مرتين واوما بيده قبل المشرق، قالت: حفظت هذا من رسول الله صلى الله عليه وسلم وساق الحديث.
حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ أَبِي يَعْقُوبَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ، حَدَّثَنَا أَبِي، قَالَ: سَمِعْتُ حُسَيْنًا الْمُعَلِّمَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ، حَدَّثَنَا عَامِرُ بْنُ شَرَاحِيلَ الشَّعْبِيُّ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ، قَالَتْ: سَمِعْتُ مُنَادِيَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُنَادِي: أَنِ الصَّلَاةُ جَامِعَةٌ، فَخَرَجْتُ فَصَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاتَهُ جَلَسَ عَلَى الْمِنْبَرِ وَهُوَ يَضْحَكُ قَالَ: لِيَلْزَمْ كُلُّ إِنْسَانٍ مُصَلَّاهُ، ثُمَّ قَالَ: هَلْ تَدْرُونَ لِمَ جَمَعْتُكُمْ؟ قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: إِنِّي مَا جَمَعْتُكُمْ لِرَهْبَةٍ وَلَا رَغْبَةٍ وَلَكِنْ جَمَعْتُكُمْ أَنَّ تَمِيمًا الدَّارِيَّ كَانَ رَجُلًا نَصْرَانِيًّا فَجَاءَ فَبَايَعَ وَأَسْلَمَ، وَحَدَّثَنِي حَدِيثًا وَافَقَ الَّذِي حَدَّثْتُكُمْ، عَنِ الدَّجَّالِ حَدَّثَنِي، أَنَّهُ رَكِبَ فِي سَفِينَةٍ بَحْرِيَّةٍ مَعَ ثَلَاثِينَ رَجُلًا مِنْ لَخْمٍ وَجُذَامٍ فَلَعِبَ بِهِمُ الْمَوْجُ شَهْرًا فِي الْبَحْرِ وَأَرْفَئُوا إِلَى جَزِيرَةٍ حِينَ مَغْرِبِ الشَّمْسِ، فَجَلَسُوا فِي أَقْرُبْ السَّفِينَةِ، فَدَخَلُوا الْجَزِيرَةَ، فَلَقِيَتْهُمْ دَابَّةٌ أَهْلَبُ كَثِيرَةُ الشَّعْرِ، قَالُوا: وَيْلَكِ مَا أَنْتِ؟ قَالَتْ: أَنَا الْجَسَّاسَةُ انْطَلِقُوا إِلَى هَذَا الرَّجُلِ فِي هَذَا الدَّيْرَ فَإِنَّهُ إِلَى خَبَرِكُمْ بِالْأَشْوَاقِ، قَالَ: لَمَّا سَمَّتْ لَنَا رَجُلًا فَرِقْنَا مِنْهَا أَنْ تَكُونَ شَيْطَانَةً، فَانْطَلَقْنَا سِرَاعًا حَتَّى دَخَلْنَا الدَّيْرَ فَإِذَا فِيهِ أَعْظَمُ إِنْسَانٍ رَأَيْنَاهُ قَطُّ خَلْقًا وَأَشَدُّهُ وَثَاقًا مَجْمُوعَةٌ يَدَاهُ إِلَى عُنُقِهِ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ وَسَأَلَهُمْ عَنْ نَخْلِ بَيْسَانَ وَعَنْ عَيْنِ زُغَرَ وَعَنِ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ، قَالَ: إِنِّي أَنَا الْمَسِيحُ وَإِنَّهُ يُوشَكُ أَنْ يُؤْذَنَ لِي فِي الْخُرُوجِ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَإِنَّهُ فِي بَحْرِ الشَّامِ أَوْ بَحْرِ الْيَمَنِ لَا بَلْ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ مَا هُوَ مَرَّتَيْنِ وَأَوْمَأَ بِيَدِهِ قِبَلَ الْمَشْرِقِ، قَالَتْ: حَفِظْتُ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسَاقَ الْحَدِيثَ.
فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منادی کو پکارتے سنا: لوگو! نماز کے لیے جمع ہو جاؤ، تو میں نکلی اور جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کی، پھر جب آپ نے نماز ختم فرمائی تو ہنستے ہوئے منبر پر جا بیٹھے، اور فرمایا: ہر شخص اپنی جگہ پر بیٹھا رہے پھر فرمایا: کیا تمہیں معلوم ہے میں نے تمہیں کیوں اکٹھا کیا ہے؟ لوگوں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تمہیں جہنم سے ڈرانے اور جنت کا شوق دلانے کے لیے نہیں اکٹھا کیا ہے، بلکہ میں نے تمہیں یہ بتلانے کے لیے اکٹھا کیا ہے کہ تمیم داری نے جو نصرانی شخص تھے آ کر مجھ سے بیعت کی ہے، اور اسلام لے آئے ہیں، انہوں نے مجھ سے ایک واقعہ بیان کیا ہے جو اس بات کے مطابق ہے جو میں نے تمہیں دجال کے متعلق بتائی ہے، انہوں نے مجھ سے بیان کیا ہے کہ وہ ایک سمندری کشتی پر سوار ہوئے، ان کے ہمراہ قبیلہ لخم اور جذام کے تیس آدمی بھی تھے، تو پورے ایک مہینہ بھر سمندر کی لہریں ان کے ساتھ کھیلتی رہیں پھر سورج ڈوبتے وقت وہ ایک جزیرہ کے پاس جا لگے، وہاں سے چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں بیٹھ کر جزیرہ میں داخل ہوئے، وہاں انہیں ایک لمبی دم اور زیادہ بالوں والا ایک دابہ (جانور) ملا، لوگوں نے اس سے کہا: کم بخت تو کیا چیز ہے؟ اس نے جواب دیا: میں جساسہ ہوں، تم اس شخص کے پاس جاؤ جو اس گھر میں ہے، وہ تمہاری خبروں کا بہت مشتاق ہے، جب ہم سے اس نے اس شخص کا نام لیا تو ہم اس جانور سے ڈرے کہ کہیں یہ شیطان نہ ہو، پھر وہاں سے جلدی سے بھاگے اور اس گھر میں جا پہنچے، تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک عظیم الجثہ اور انتہائی طاقتور انسان ہے کہ اس جیسا انسان ہم نے کبھی نہیں دیکھا، جو بیڑیوں میں جکڑا ہوا ہے اور اس کے دونوں ہاتھ گردن سے بندھے ہوئے ہیں، پھر انہوں نے پوری حدیث بیان کی ۱؎ اور ان سے بیسان ۲؎ کے کھجوروں، اور زعر ۳؎ کے چشموں کا حال پوچھا، اور نبی امی کے متعلق دریافت کیا، پھر اس نے اپنے متعلق بتایا کہ میں مسیح دجال ہوں، اور قریب ہے کہ مجھے نکلنے کی اجازت دے دی جائے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ شام کے سمندر میں ہے، یا یمن کے سمندر میں، (پھر آپ نے کہا:) نہیں، بلکہ مشرق کی سمت میں ہے اور آپ نے اپنے ہاتھ سے دو بار مشرق کی جانب اشارہ کیا۔ فاطمہ کہتی ہیں: یہ حدیث میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر یاد کی ہے، اور راوی نے پوری حدیث بیان کی۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الفتن 24 (2942)، سنن الترمذی/الفتن 66 (2253)، ق /الفتن 33 (4074) (تحفة الأشراف: 18024)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/374، 411، 412، 413، 415، 416، 418) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: جس میں ہے کہ اس نے ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور عربوں کا حال پوچھا جیسا کہ مسلم کی روایت میں ہے۔
۲؎: بیسان: شام میں ایک جگہ کا نام ہے۔
۳؎: زعر: یہ بھی شام میں ایک جگہ کا نام ہے۔

Fatimah, daughter of Qais, said: I heard the crier of the Messenger of Allah ﷺ calling: Assemble for the prayer. I Then came out and prayed along with the Messenger of Allah ﷺ: When the Messenger of Allah ﷺ finished his prayer, he sat on the pulpit laughing, and he said: Everyone should remain where he had said his prayer. He then asked: Do you know why I have assembled you because Tamim al-Dari, a Christian, who came and accepted Islam, told me something which agrees with what I was telling you about Lakhm and judhism and that they were storm-tossed for a month. They drew near to an island when the sun was setting. They sat in a boat nearest to them and entered the island where they were met by a very hairy beast. They said: Woe to you! What can you be ? It repled: I am the Jassasah. Go to this man in the monastery, for he is anxious to get news of you. He said: When it named a man to us we were afraid of it least it should be a she-devil. So we went off quickly and entered the monastery, where we found a man with the hugest and strongest frame we had ever seen with his hand joined to his neck. He then narrated the rest of the tradition. He asked them about the palm-trees of Baisan and the spring of Zughar and about the unlettered prophet. He said: I am the messiah (the Antichrist) and will be soon Syrian sea or the Yemen sea: no, on the contrary, it is towards the east that he is. He said it teice and ponted his hand to the east. She said: I memorized this (tradition) from the Messenger of Allah ﷺ, And she narrated the tradition.
USC-MSA web (English) Reference: Book 38 , Number 4312


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم (2942)

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4326  
´جساسہ کا بیان۔`
فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منادی کو پکارتے سنا: لوگو! نماز کے لیے جمع ہو جاؤ، تو میں نکلی اور جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کی، پھر جب آپ نے نماز ختم فرمائی تو ہنستے ہوئے منبر پر جا بیٹھے، اور فرمایا: ہر شخص اپنی جگہ پر بیٹھا رہے پھر فرمایا: کیا تمہیں معلوم ہے میں نے تمہیں کیوں اکٹھا کیا ہے؟ لوگوں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تمہیں جہنم سے ڈرانے اور جنت کا شوق دلانے کے لیے نہیں اکٹھا کیا ہے، بلکہ میں نے تمہیں یہ بتلا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الملاحم /حدیث: 4326]
فوائد ومسائل:
مذکو رہ دونوں روایات صحیح ہیں، اس لیئے ان میں بیان کردہ باتوں پر یقین رکھنا چاہیئے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4326   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.