الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
کتاب: سنتوں کا بیان
Model Behavior of the Prophet (Kitab Al-Sunnah)
28. باب فِي ذِكْرِ الْمِيزَانِ
28. باب: ترازو کا بیان۔
Chapter: The Scale.
حدیث نمبر: 4753
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا عثمان بن ابي شيبة، اخبرنا جرير. ح وحدثنا هناد بن السري، قال: حدثنا ابو معاوية، وهذا لفظ هناد، عن الاعمش، عن المنهال، عن زاذان، عن البراء بن عازب، قال:" خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في جنازة رجل من الانصار، فانتهينا إلى القبر، ولما يلحد، فجلس رسول الله صلى الله عليه وسلم، وجلسنا حوله، كانما على رءوسنا الطير، وفي يده عود ينكت به في الارض، فرفع راسه، فقال: استعيذوا بالله من عذاب القبر، مرتين او ثلاثا , زاد في حديث جرير هاهنا، وقال: وإنه ليسمع خفق نعالهم إذا ولوا مدبرين، حين يقال له: يا هذا، من ربك؟ وما دينك؟ ومن نبيك؟ قال هناد: قال: وياتيه ملكان، فيجلسانه، فيقولان له: من ربك؟ فيقول: ربي الله، فيقولان له: ما دينك؟ فيقول: ديني الإسلام، فيقولان له: ما هذا الرجل الذي بعث فيكم؟ قال: فيقول: هو رسول الله صلى الله عليه وسلم، فيقولان: وما يدريك؟ فيقول: قرات كتاب الله، فآمنت به، وصدقت، زاد في حديث جرير، فذلك قول الله عز وجل: يثبت الله الذين آمنوا بالقول الثابت في الحياة الدنيا وفي الآخرة سورة إبراهيم آية 27، ثم اتفقا، قال: فينادي مناد من السماء ان قد صدق عبدي، فافرشوه من الجنة، وافتحوا له بابا إلى الجنة، والبسوه من الجنة، قال: فياتيه من روحها وطيبها، قال: ويفتح له فيها مد بصره، قال: وإن الكافر، فذكر موته، قال: وتعاد روحه في جسده، وياتيه ملكان فيجلسانه، فيقولان له: من ربك؟ فيقول: هاه هاه هاه لا ادري، فيقولان له: ما دينك؟ فيقول هاه هاه لا ادري، فيقولان: ما هذا الرجل الذي بعث فيكم؟ فيقول: هاه هاه لا ادري، فينادي مناد من السماء ان كذب، فافرشوه من النار، والبسوه من النار، وافتحوا له بابا إلى النار، قال: فياتيه من حرها، وسمومها، قال: ويضيق عليه قبره حتى تختلف فيه اضلاعه" زاد في حديث جرير، قال: ثم يقيض له اعمى، ابكم معه مرزبة من حديد، لو ضرب بها جبل لصار ترابا، قال: فيضربه بها ضربة يسمعها ما بين المشرق والمغرب إلا الثقلين، فيصير ترابا، قال: ثم تعاد فيه الروح".
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ. ح وَحَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، وَهَذَا لَفْظُ هَنَّادٍ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ الْمِنْهَالِ، عَنْ زَاذَانَ، عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ:" خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي جَنَازَةِ رَجُلٍ مِنْ الْأَنْصَارِ، فَانْتَهَيْنَا إِلَى الْقَبْرِ، وَلَمَّا يُلْحَدْ، فَجَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَجَلَسْنَا حَوْلَهُ، كَأَنَّمَا عَلَى رُءُوسِنَا الطَّيْرُ، وَفِي يَدِهِ عُودٌ يَنْكُتُ بِهِ فِي الْأَرْضِ، فَرَفَعَ رَأْسَهُ، فَقَالَ: اسْتَعِيذُوا بِاللَّهِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا , زَادَ فِي حَدِيثِ جَرِيرٍ هَاهُنَا، وَقَالَ: وَإِنَّهُ لَيَسْمَعُ خَفْقَ نِعَالِهِمْ إِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ، حِينَ يُقَالُ لَهُ: يَا هَذَا، مَنْ رَبُّكَ؟ وَمَا دِينُكَ؟ وَمَنْ نَبِيُّكَ؟ قَالَ هَنَّادٌ: قَالَ: وَيَأْتِيهِ مَلَكَانِ، فَيُجْلِسَانِهِ، فَيَقُولَانِ لَهُ: مَنْ رَبُّكَ؟ فَيَقُولُ: رَبِّيَ اللَّهُ، فَيَقُولَانِ لَهُ: مَا دِينُكَ؟ فَيَقُولُ: دِينِيَ الْإِسْلَامُ، فَيَقُولَانِ لَهُ: مَا هَذَا الرَّجُلُ الَّذِي بُعِثَ فِيكُمْ؟ قَالَ: فَيَقُولُ: هُوَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَقُولَانِ: وَمَا يُدْرِيكَ؟ فَيَقُولُ: قَرَأْتُ كِتَابَ اللَّهِ، فَآمَنْتُ بِهِ، وَصَدَّقْتُ، زَادَ فِي حَدِيثِ جَرِيرٍ، فَذَلِكَ قَوْلُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الآخِرَةِ سورة إبراهيم آية 27، ثُمَّ اتَّفَقَا، قَالَ: فَيُنَادِي مُنَادٍ مِنَ السَّمَاءِ أَنْ قَدْ صَدَقَ عَبْدِي، فَأَفْرِشُوهُ مِنَ الْجَنَّةِ، وَافْتَحُوا لَهُ بَابًا إِلَى الْجَنَّةِ، وَأَلْبِسُوهُ مِنَ الْجَنَّةِ، قَالَ: فَيَأْتِيهِ مِنْ رَوْحِهَا وَطِيبِهَا، قَالَ: وَيُفْتَحُ لَهُ فِيهَا مَدَّ بَصَرِهِ، قَالَ: وَإِنَّ الْكَافِرَ، فَذَكَرَ مَوْتَهُ، قَالَ: وَتُعَادُ رُوحُهُ فِي جَسَدِهِ، وَيَأْتِيهِ مَلَكَانِ فَيُجْلِسَانِهِ، فَيَقُولَانِ لَهُ: مَنْ رَبُّكَ؟ فَيَقُولُ: هَاهْ هَاهْ هَاهْ لَا أَدْرِي، فَيَقُولَانِ لَهُ: مَا دِينُكَ؟ فَيَقُولُ هَاهْ هَاهْ لَا أَدْرِي، فَيَقُولَانِ: مَا هَذَا الرَّجُلُ الَّذِي بُعِثَ فِيكُمْ؟ فَيَقُولُ: هَاهْ هَاهْ لَا أَدْرِي، فَيُنَادِي مُنَادٍ مِنَ السَّمَاءِ أَنْ كَذَبَ، فَأَفْرِشُوهُ مِنَ النَّارِ، وَأَلْبِسُوهُ مِنَ النَّارِ، وَافْتَحُوا لَهُ بَابًا إِلَى النَّارِ، قَالَ: فَيَأْتِيهِ مِنْ حَرِّهَا، وَسَمُومِهَا، قَالَ: وَيُضَيَّقُ عَلَيْهِ قَبْرُهُ حَتَّى تَخْتَلِفَ فِيهِ أَضْلَاعُهُ" زَادَ فِي حَدِيثِ جَرِيرٍ، قَالَ: ثُمَّ يُقَيَّضُ لَهُ أَعْمَى، أَبْكَمُ مَعَهُ مِرْزَبَّةٌ مِنْ حَدِيدٍ، لَوْ ضُرِبَ بِهَا جَبَلٌ لَصَارَ تُرَابًا، قَالَ: فَيَضْرِبُهُ بِهَا ضَرْبَةً يَسْمَعُهَا مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ إِلَّا الثَّقَلَيْنِ، فَيَصِيرُ تُرَابًا، قَالَ: ثُمَّ تُعَادُ فِيهِ الرُّوحُ".
براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ انصار کے ایک شخص کے جنازے میں نکلے، ہم قبر کے پاس پہنچے، وہ ابھی تک تیار نہ تھی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے اور ہم بھی آپ کے اردگرد بیٹھ گئے گویا ہمارے سروں پر چڑیاں بیٹھی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی، جس سے آپ زمین کرید رہے تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھایا اور فرمایا: قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ طلب کرو اسے دو بار یا تین بار فرمایا، یہاں جریر کی روایت میں اتنا اضافہ ہے: اور فرمایا: اور وہ ان کے جوتوں کی چاپ سن رہا ہوتا ہے جب وہ پیٹھ پھیر کر لوٹتے ہیں، اسی وقت اس سے پوچھا جاتا ہے، اے جی! تمہارا رب کون ہے؟ تمہارا دین کیا ہے؟ اور تمہارا نبی کون ہے؟ ہناد کی روایت کے الفاظ ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں، اسے بٹھاتے ہیں اور اس سے پوچھتے ہیں: تمہارا رب (معبود) کون ہے؟ تو وہ کہتا ہے، میرا رب (معبود) اللہ ہے، پھر وہ دونوں اس سے پوچھتے ہیں: تمہارا دین کیا ہے؟ وہ کہتا ہے: میرا دین اسلام ہے، پھر پوچھتے ہیں: یہ کون ہے جو تم میں بھیجا گیا تھا؟ وہ کہتا ہے: وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، پھر وہ دونوں اس سے کہتے ہیں: تمہیں یہ کہاں سے معلوم ہوا؟ وہ کہتا ہے: میں نے اللہ کی کتاب پڑھی اور اس پر ایمان لایا اور اس کو سچ سمجھا جریر کی روایت میں یہاں پر یہ اضافہ ہے: اللہ تعالیٰ کے قول «يثبت الله الذين آمنوا» سے یہی مراد ہے (پھر دونوں کی روایتوں کے الفاظ ایک جیسے ہیں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر ایک پکارنے والا آسمان سے پکارتا ہے: میرے بندے نے سچ کہا لہٰذا تم اس کے لیے جنت کا بچھونا بچھا دو، اور اس کے لیے جنت کی طرف کا ایک دروازہ کھول دو، اور اسے جنت کا لباس پہنا دو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: پھر جنت کی ہوا اور اس کی خوشبو آنے لگتی ہے، اور تا حد نگاہ اس کے لیے قبر کشادہ کر دی جاتی ہے۔ اور رہا کافر تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی موت کا ذکر کیا اور فرمایا: اس کی روح اس کے جسم میں لوٹا دی جاتی ہے، اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں، اسے اٹھاتے ہیں اور پوچھتے ہیں: تمہارا رب کون ہے؟ وہ کہتا ہے: ہا ہا! مجھے نہیں معلوم، وہ دونوں اس سے پوچھتے ہیں: یہ آدمی کون ہے جو تم میں بھیجا گیا تھا؟ وہ کہتا ہے: ہا ہا! مجھے نہیں معلوم، پھر وہ دونوں اس سے پوچھتے ہیں: تمہارا دین کیا ہے؟ وہ کہتا ہے: ہا ہا! مجھے نہیں معلوم، تو پکارنے والا آسمان سے پکارتا ہے: اس نے جھوٹ کہا، اس کے لیے جہنم کا بچھونا بچھا دو اور جہنم کا لباس پہنا دو، اور اس کے لیے جہنم کی طرف دروازہ کھول دو، تو اس کی تپش اور اس کی زہریلی ہوا (لو) آنے لگتی ہے اور اس کی قبر تنگ کر دی جاتی ہے یہاں تک کہ اس کی پسلیاں ادھر سے ادھر ہو جاتی ہیں جریر کی روایت میں یہ اضافہ ہے: پھر اس پر ایک اندھا گونگا (فرشتہ) مقرر کر دیا جاتا ہے، اس کے ساتھ لوہے کا ایک گرز ہوتا ہے اگر وہ اسے کسی پہاڑ پر بھی مارے تو وہ بھی خاک ہو جائے، چنانچہ وہ اسے اس کی ایک ضرب لگاتا ہے جس کو مشرق و مغرب کے درمیان کی ساری مخلوق سوائے آدمی و جن کے سنتی ہے اور وہ مٹی ہو جاتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: پھر اس میں روح لوٹا دی جاتی ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏انظر حدیث رقم (3212)، (تحفة الأشراف: 1758) (صحیح)» ‏‏‏‏ حدیث کا پہلا ٹکڑا گزر چکا ہے ملاحظہ ہو حدیث نمبر (3212)

Narrated Al-Bara ibn Azib: We went out with the Messenger of Allah ﷺ accompanying the bier of a man of the Ansar. When we reached his grave, it was not yet dug. So the Messenger of Allah ﷺ sat down and we also sat down around him as if birds were over our heads. He had in his hand a stick with which he was scratching the ground. He then raised his head and said: Seek refuge with Allah from the punishment in the grave. He said it twice or thrice. The version of Jabir adds here: He hears the beat of their sandals when they go back, and at that moment he is asked: O so and so! Who is your Lord, what is your religion, and who is your Prophet? Hannad's version says: Two angels will come to him, make him sit up and ask him: Who is your Lord? He will reply: My Lord is Allah. They will ask him: What is your religion? He will reply: My religion is Islam. They will ask him: What is your opinion about the man who was sent on a mission among you? He will reply: He is the Messenger of Allah ﷺ. They will ask: Who made you aware of this? He will reply: I read Allah's Book, believed in it, and considered it true; which is verified by Allah's words: "Allah's Book, believed in it, and considered it true, which is verified by Allah's words: "Allah establishes those who believe with the word that stands firm in this world and the next. " The agreed version reads: Then a crier will call from Heaven: My servant has spoken the truth, so spread a bed for him from Paradise, clothe him from Paradise, and open a door for him into Paradise. So some of its air and perfume will come to him, and a space will be made for him as far as the eye can see. He also mentioned the death of the infidel, saying: His spirit will be restored to his body, two angels will come to him, make him sit up and ask him: Who is your Lord? He will reply: Alas, alas! I do not know. They will ask him: What is your religion? He will reply: Alas, alas! I do not know. They will ask: Who was the man who was sent on a mission among you? He will reply: Alas, alas! I do not know. Then a crier will call from Heaven: He has lied, so spread a bed for him from Hell, clothe him from Hell, and open for him a door into Hell. Then some of its heat and pestilential wind will come to him, and his grave will be compressed, so that his ribs will be crushed together. Jabir's version adds: One who is blind and dumb will then be placed in charge of him, having a sledge-hammer such that if a mountain were struck with it, it would become dust. He will give him a blow with it which will be heard by everything between the east and the west except by men and jinn, and he will become dust. Then his spirit will be restored to him.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4735


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: حسن
مشكوة المصابيح (131، 1630)
الاعمش صرح بالسماع عند الحاكم (1/ 37 ح 107) والطبراني في حديث الطوال (25) وسندهما حسن، قال معاذ علي زئي: وھما يغنيان عن الحديث ابي داود (4753) ولفظه ’’وكأنما علي رءوسنا الطير‘‘ قد ثبت في حديث غيره، انظر شرح مشكل الآثار للطحاوي (10/ 239 ح 4061 وسنده صحيح)
   سنن النسائى الصغرى2003براء بن عازبخرجنا مع رسول الله في جنازة فلما انتهينا إلى القبر ولم يلحد فجلس وجلسنا حوله كأن على رءوسنا الطير
   سنن ابن ماجه1549براء بن عازبجلس وجلسنا كأن على رءوسنا الطير
   سنن أبي داود3212براء بن عازبجلس النبي مستقبل القبلة وجلسنا معه
   سنن ابن ماجه1548براء بن عازبخرجنا مع رسول الله في جنازة فقعد حيال القبلة
   سنن أبي داود4754براء بن عازبعن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: فذكر نحوه
   سنن أبي داود4753براء بن عازباستعيذوا بالله من عذاب القبر ليسمع خفق نعالهم إذا ولوا مدبرين حين يقال له يا هذا من ربك وما دينك ومن نبيك قال هناد قال ويأتيه ملكان فيجلسانه فيقولان له من ربك فيقول ربي الله فيقولان له ما دينك فيقول ديني الإسلام فيقولان له ما هذا الرجل الذي بعث فيكم
   مشكوة المصابيح131براء بن عازبوياتيه ملكان فيجلسانه فيقولان له من ربك فيقول ربي الله فيقولان له ما دينك فيقول ديني الإسلام فيقولان له ما هذا الرجل
   المعجم الصغير للطبراني347براء بن عازب يقال للكافر : من ربك ؟ ، فيقول : لا أدري ، فهو تلك الساعة أصم أعمى أبكم ، فيضربه بمرزبة ، لو ضرب بها جبل صار ترابا ، فيسمعها كل الثقلين ، قال : وسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم قرأ : يثبت الله الذين آمنوا بالقول الثابت فى الحياة الدنيا وفي الآخرة ويضل الله الظالمين سورة إبراهيم آية 27

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 131  
´منکر نکیر کے سوال اور قبر کا عذاب`
«. . . عَن الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «وَيَأْتِيهِ مَلَكَانِ فَيُجْلِسَانِهِ فَيَقُولَانِ لَهُ مَنْ رَبُّكَ فَيَقُولُ رَبِّيَ اللَّهُ فَيَقُولَانِ لَهُ مَا دِينُكَ فَيَقُولُ ديني الْإِسْلَام فَيَقُولَانِ لَهُ مَا هَذَا الرَّجُلُ الَّذِي بُعِثَ فِيكُمْ قَالَ فَيَقُول هُوَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَقُولَانِ وَمَا يُدْرِيكَ فَيَقُولُ قَرَأْتُ كِتَابَ اللَّهِ فَآمَنْتُ بِهِ وَصَدَّقْتُ زَاد فِي حَدِيث جرير فَذَلِك قَول الله عز وَجل (يثبت الله الَّذين آمنُوا بالْقَوْل الثَّابِت) ‏‏‏‏الْآيَة ثمَّ اتفقَا قَالَ فينادي مُنَاد من السَّمَاء أَن قد صدق عَبدِي فأفرشوه مِنَ الْجَنَّةِ وَافْتَحُوا لَهُ بَابًا إِلَى الْجَنَّةِ وألبسوه من الْجنَّة قَالَ فيأتيه من روحها وطيبها قَالَ وَيفتح لَهُ فِيهَا مد بَصَره قَالَ وَإِن الْكَافِر فَذكر مَوته قَالَ وتعاد رُوحُهُ فِي جَسَدِهِ وَيَأْتِيهِ مَلَكَانِ فَيُجْلِسَانِهِ فَيَقُولَانِ لَهُ مَنْ رَبُّكَ فَيَقُولُ هَاهْ هَاهْ لَا أَدْرِي - [48] - فَيَقُولَانِ لَهُ مَا دِينُكَ فَيَقُولُ هَاهْ هَاهْ لَا أَدْرِي فَيَقُولَانِ مَا هَذَا الرَّجُلُ الَّذِي بُعِثَ فِيكُمْ فَيَقُولُ هَاهْ هَاهْ لَا أَدْرِي فَيُنَادِي مُنَادٍ مِنَ السَّمَاءِ أَنَّ كَذَبَ فَأَفْرِشُوهُ مِنَ النَّارِ وَأَلْبِسُوهُ مِنَ النَّارِ وَافْتَحُوا لَهُ بَابًا إِلَى النَّارِ قَالَ فَيَأْتِيهِ مِنْ حَرِّهَا وَسَمُومِهَا قَالَ وَيُضَيَّقُ عَلَيْهِ قَبْرُهُ حَتَّى تَخْتَلِفَ فِيهِ أَضْلَاعُهُ ثمَّ يقيض لَهُ أعمى أبكم مَعَهُ مِرْزَبَّةٌ مِنْ حَدِيدٍ لَوْ ضُرِبَ بِهَا جبل لصار تُرَابا قَالَ فَيَضْرِبُهُ بِهَا ضَرْبَةً يَسْمَعُهَا مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمغْرب إِلَّا الثقلَيْن فَيصير تُرَابا قَالَ ثمَّ تُعَاد فِيهِ الرّوح» . رَوَاهُ أَحْمد وَأَبُو دَاوُد ‏‏‏‏ . . .»
. . . سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(قبر میں) مردے کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اس میت کو اٹھا کر بٹھا تے ہیں، دونوں اس سے دریافت کرتے ہیں کہ «من ربك؟» تمہارا رب کون ہے؟ (اگر وہ مومن ہے تو جواب میں کہتا ہے) «ربي الله» میرا رب اللہ ہے۔ پھر وہ دونوں فرشتے پوچھتے ہیں، «ما دينك» تیرا دین کیا ہے؟ وہ جواب دیتا ہے «ديني الاسلام» میرا دین اسلام ہے، پھر وہ دونوں دریافت کرتے ہیں وہ کون شخص ہے جو تمہارے پاس بھیجا گیا ہے۔ وہ جواب دیتا ہے، وہ اللہ کے رسول ہیں۔ پھر وہ دونوں فرشتے اس مردے سے سوال کرتے ہیں۔ ان باتوں کو تم کو کس نے بتایا؟ وہ جواب دیتا ہے میں نے اللہ کی کتاب پڑھی ہے، اس پر ایمان لایا اور اس کی تصدیق کی، رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس آیت کریمہ «يثبت الله الَّذين آمنُوا بالْقَوْل الثَّابِت» الخ کہ اللہ تعالیٰ مومنوں کو پکی بات کے ساتھ مضبوط رکھتا ہے۔ کا یہی مطلب ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر آسمان سے پکارنے والا پکارتا ہے، میرے بندے نے سچ کہا اس کے لیے جنت کا بچھونا بچھا دو، اور اس کے لیے جنت کی طرف کھڑکی کھول دو چنانچہ جنت کی طرف سے اس کے لیےکھڑکی کھول دی جاتی ہے جس سے جنت کی ہوایئں اور خوشبوئیں آتی رہتی ہیں اور منتہاۓ نظر تک اس کی قبر کشادہ کر دی جاتی ہے۔ کافر کی موت کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اس کی روح اس کے جسم میں لوٹا دی جاتی ہے اس کے پاس دو فرشتے آ کر اسے بٹھاتے ہیں اس سے پوچھتے ہیں تیرا رب کون ہے؟ وہ جواب دیتا ہے۔ ہاۓ ہاۓ میں نہیں جانتا۔ پھر وہ دونوں فرشتے دریافت کرتے ہیں تیرا دین کیا ہے؟ وہ جواب دیتا ہے ہاۓ افسوس میں نہیں جانتا۔ پھر اس سے پوچھتے ہیں کہ ان حضرت کے بارے میں کیا کہتے ہو جو تمہارے پاس بھیجے گئے تھے؟ وہ جواب دیتا ہے، ہاۓ ہاۓ میں نہیں جانتا۔ آسمان سے آواز دینے والا آواز دیتا ہے کہ یہ جھوٹا ہے اس کے لیے آگ کا بچھونا بچھا دو۔ اور آگ ہی کا لباس پہنا دو۔ اور دوزخ کی طرف اس کے لیے دروازہ کھول دو۔ چنانچہ جہنم کی طرف دروازہ کھول دیا جاتا ہے، جس سے اس کی گرم ہوایئں اور لویئں اس کے پاس آتی ہیں اور اس کے لیے اس کی قبر تنگ کر دی جاتی ہے یہاں تک کہ ادھر کی پسلیاں ادھر اور ادھرکی پسلیاں ادھر نکل آتی ہیں، پھراس پر ایک اندھا، بہرا فرشتہ مقرر کر دیا جاتا ہے جس کے پاس لوہے کا ایک گرز ہوتا ہے کہ اگر اس سے پہاڑ کو مارا جائے تو وہ مٹی ہو جائے۔ اس گرز سے اس مردے کافر کو مارتا ہے، جس کے چیخنے اور چلانے کی آواز مشرق سے مغرب تک انسانوں اور جنوں کے علاوہ تمام چیزیں سنتی ہیں اور اس مار سے وہ مٹی اور ریزہ ریزہ ہو جاتا ہے پھر اس کی روح اس میں لوٹا دی جاتی ہے۔ (ایسا ہی عذاب قیامت ہوتا رہے گا۔) اس حدیث کو ابوداؤد نے رویت کیا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 131]

تحقیق الحدیث:
یہ حدیث (آخری جملے / کے بعد کو چھوڑ کر) حسن ہے۔
اسے أحمد و ابوداود کے علاوہ نسائی [3002] ابن ماجہ [1548، 1549] ہناد بن السری [کتاب الزہد 1؍205۔ 207 ح339] اور بیہقی [اثبات عذاب القبر ح 20، بتحقیقی] وغیرہم نے مختصراً ومطولاً روایت کیا ہے۔
امام بیہقی نے فرمایا:
«هذا حديث صحيح الإسناد»
یہ حدیث سند کے لحاظ سے صحیح ہے۔ [شعب الايمان 357/1ح 395]
مزید تفصیل کے لئے دیکھئے الحدیث حضرو [14 ص 22، 23]
◄ اس حدیث کے راویوں کا مختصر اور جامع تذکرہ درج ذیل ہے:
➊ سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ مشہور جلیل القدر صحابی ہیں .
➋ ابوعمر زاذان الکندی الکوفی جمہور محدثین کے نزدیک ثقہ و صدوق ہیں۔ دیکھئے: الحدیث [14ص24۔ 26] اور توضیح الاحکام [550/1۔ 556]
لہٰذا ان پر جرح مردود ہے اور وہ صحیح الحدیث ہیں۔
➌ منہال بن عمرو جمہور محدثین کے نزدیک ثقہ وصدوق ہیں،
لہٰذا ان کی حدیث صحیح یا حسن ہوتی ہے۔ دیکھئے: الحدیث [14 ص29] اور توضیح الاحکام [1؍556۔ 56۔]
➍ سلیمان بن مہران الاعمش ثقہ مدلس راوی ہیں اور انہوں نے سماع کی تصریح کر دی ہے۔ دیکھئے: سنن ابی داود [4754]
دوسرے یہ کہ سلیمان الاعمش اس روایت میں منفرد نہیں ہیں بلکہ ان کی متابعت موجود ہے۔
◄ خلاصہ یہ کہ یہ حدیث حسن لذاتہ ہے۔
اسے قرطبی، ابن قیم، ابن تیمیہ اور منذری وغیرہم نے صحیح یا حسن قرار دیا ہے۔ [حاشية اثبات عذاب القبر للبيهقي ص2۔ يسر الله لنا طبعه]
↰ لہٰذا بعض منکرینِ حدیث کا اس حدیث پر جرح کرنا یا اسے قرآن مجید کے خلاف قرار دے کر رد کر دینا مر دود ہے۔

فقہ الحدیث:
➊ عذاب قبر اور ثواب قبر دونوں برحق ہیں۔
➌ اللہ تعالیٰ آسمان پر ہے۔
➌ قبر میں اخروی و برزخی طور پر سوال و جواب کے وقت اعادۂ روح برحق ہے اور یہ قرآن مجید کے خلاف نہیں ہے۔ قرآن جس اعادۂ روح کی نفی کرتا ہے وہ دنیاوی اعادہ ہے اور حدیث جس کا اثبات کرتی ہے اس سے مراد برزخی اعادہ ہے۔ دیکھئے: [شرح عقيده طحاويه ص399، المكتب الاسلامي، طبعه ثانيه 1984ء]
➍ شیخ ابن ابی العز الحنفی فرماتے ہیں:
«وذهب إليٰ موجب هذا الحديث جميع أهل السنة والحديث»
تمام اہلِ سنت: اہلِ حدیث اس حدیث (یعنی حدیث براء رضی اللہ عنہ) کے قائل ہیں۔ [شرح عقيده طحاويه ص398]
➎ تقلید کرنا جائز نہیں ہے۔ نجات صرف اسی میں ہے کہ آدمی قران و حدیث اور اجماع پر سلف و صالحین کے فہم کی روشنی میں عمل کرے اسی منہج پر عقیدے کی بنیاد رکھے اور ساری زندگی تحقیق و عمل میں گزار دے۔
➏ عذاب قبر اسی دنیاوی قبر میں ہوتا ہے جسے زمین پر ارد گرد کے جانور سنتے ہیں۔
➐ اس راویت میں جو آیا ہے کہ پھر وہ اسے ہتھوڑے کی ایک ضرب مارتا ہے جسے انسانوں اور جنوں کے سوا مشرق و مغرب کے ہر چیز سنتی ہے، پھر وہ مٹی بن جاتا ہے، پھر اس میں روح لوٹائی جاتی ہے اس خاص متن میں اعمش کے سماع کی تصریح نہیں ملی، لہٰذا یہ متن مشکوک ہے اور ساری حدیث حسن ہے۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث\صفحہ نمبر: 131   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2003  
´جنازے کے لیے کھڑے ہونے کا بیان۔`
براء بن عازب رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک جنازے میں نکلے، جب ہم قبر کے پاس پہنچے تو وہ تیار نہیں ہوئی تھی، چنانچہ آپ بیٹھ گئے تو ہم بھی آپ کے اردگرد بیٹھ گئے، گویا ہمارے سر پر پرندے بیٹھے ہوئے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 2003]
اردو حاشہ:
(1) بیٹھ گئے۔ گویا دفن کرنے سے پہلے بیٹھا جا سکتا ہے بشرطیکہ میت کو زمین پر رکھ دیا گیا ہو۔
(2) پرندے بیٹھے ہیں۔ یہ سکون اور خاموشی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احترام کے ساتھ ساتھ موقع و محل کی مناسبت سے تھی کہ قبر بنائی جا رہی ہے، میت پاس رکھی ہے اور قبر کے کنارے بیٹھے ہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 2003   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1548  
´قبرستان میں بیٹھنے کا بیان۔`
براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک جنازہ میں نکلے، تو آپ قبلہ کی طرف رخ کر کے بیٹھے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1548]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
قبر پر پاؤں رکھ کر گزرنا منع ہے۔
اور کسی قبر پر مجاور بن کر بیٹھنا بھی منع ہے۔
لیکن قبروں کے درمیان کسی ضرورت کے تحت بیٹھنا جائز ہے۔
مثلاً قبر ابھی تیار نہیں ہوئی تو اس انتظا ر میں بیٹھ جانا درست ہے۔

(2)
نماز کے علاوہ بھی قبلے کی طرف منہ کرکے بیٹھنا بہتر ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1548   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3212  
´قبر کے پاس کس طرح بیٹھیں؟`
براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک انصاری کے جنازے میں نکلے، قبر پر پہنچے تو ابھی قبر کی بغل کھدی ہوئی نہ تھی، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قبلہ کی طرف منہ کر کے بیٹھے اور ہم بھی آپ کے ساتھ بیٹھے۔ [سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3212]
فوائد ومسائل:
قبر کے پاس یا قبرستان میں کسی ضرورت کے تحت بیٹھ جانے میں کوئی حرج نہیں۔
اور قبلہ رو ہوکر بیٹھنا مستحب ہے۔
مگر قبر کا مجاور بن کر بیٹھنا حرام ہے۔
یاعین قبر کے اوپر بیٹھنا بھی ناجائز ہے۔
(مذید دیکھئے حدیث 3225)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3212   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.