الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: شکار کے احکام و مسائل
Chapters on Hunting
1. بَابُ : قَتْلِ الْكِلاَبِ إِلاَّ كَلْبَ صَيْدٍ أَوْ زَرْعٍ
1. باب: شکاری یا کھیت کی رکھوالی کرنے والے کتوں کے علاوہ دوسرے کتوں کو قتل کرنے کا حکم۔
حدیث نمبر: 3200
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا شبابة ، حدثنا شعبة ، عن ابي التياح ، قال: سمعت مطرفا يحدث، عن عبد الله بن مغفل " ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، امر بقتل الكلاب، ثم قال: ما لهم وللكلاب، ثم رخص لهم في كلب الصيد.
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا شَبَابَةُ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ ، قَالَ: سَمِعْتُ مُطَرِّفًا يُحَدِّثُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ " أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَمَرَ بِقَتْلِ الْكِلَابِ، ثُمَّ قَالَ: مَا لَهُمْ وَلِلْكِلَابِ، ثُمَّ رَخَّصَ لَهُمْ فِي كَلْبِ الصَّيْدِ.
عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتوں کے مار ڈالنے کا حکم دیا، پھر آپ نے فرمایا: انہیں کتوں سے کیا مطلب؟ پھر آپ نے انہیں شکاری کتے رکھنے کی اجازت دے دی ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الطہارة 27 (280)، سنن ابی داود/الطہارة 37 (74)، سنن النسائی/الطہارة 53 (67)، المیاہ 7 (337، 338)، (تحفة الأشراف: 9665)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/86، 5/56)، سنن الدارمی/الصید 2 (2049) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: کتوں سے کیا مطلب یعنی کتا پالنا بے فائدہ ہے بلکہ وہ نجس جانور ہے، اندیشہ ہے کہ برتن یا کپڑے کو گندہ کر دے،لیکن کتوں کا قتل صحیح مسلم کی حدیث سے منسوخ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتوں کے قتل سے منع کیا، اس کے بعد اور فرمایا: کالے کتے کو مار ڈالو وہ شیطان ہے (انجاح)۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
   سنن أبي داود74عبد الله بن مغفلأمر بقتل الكلاب ثم قال ما لهم ولها فرخص في كلب الصيد
   صحيح مسلم4021عبد الله بن مغفلأمر رسول الله بقتل الكلاب ثم قال ما بالهم وبال الكلاب ثم رخص في كلب الصيد وكلب الغنم
   سنن ابن ماجه3200عبد الله بن مغفلأمر بقتل الكلاب ثم قال ما لهم وللكلاب ثم رخص لهم
   سنن ابن ماجه3201عبد الله بن مغفلأمر بقتل الكلاب ثم قال ما لهم وللكلاب ثم رخص لهم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 74  
´جب کتا برتن میں منہ ڈال دے`
«. . . أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِقَتْلِ الْكِلَابِ، ثُمَّ قَالَ مَا لَهُمْ وَلَهَا، فَرَخَّصَ فِي كَلْبِ الصَّيْدِ، وَفِي كَلْبِ الْغَنَمِ، وَقَالَ: إِذَا وَلَغَ الْكَلْبُ فِي الْإِنَاءِ، فَاغْسِلُوهُ سَبْعَ مِرَارٍ، وَالثَّامِنَةُ عَفِّرُوهُ بِالتُّرَابِ . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتوں کو قتل کرنے کا حکم دیا پھر فرمایا: لوگوں کو ان سے کیا سروکار؟، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شکاری کتوں اور بکریوں کے نگراں کتوں کے پالنے کی اجازت دی، اور فرمایا: جب کتا برتن میں منہ ڈال دے، تو اسے سات بار دھوؤ اور آٹھویں بار مٹی سے مانجھو . . . [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 74]
فوائد و مسائل:
➊ کتا جس برتن میں منہ مار جائے اس میں موجود چیز (بشکل طعام و شراب) کو گرا دیا جائے اور برتن کو سات یا آٹھ بار دھویا جائے اور ایک بار مٹی سے ضرور مانجا جائے۔
➋ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے بعض شاگردوں نے مٹی سے مانجنے کا ذکر چھوڑ دیا ہے تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اصل روایت میں یہ ہے ہی نہیں۔ احتمال ہےکہ انہوں نے اختصار سےکام لیا ہو۔ جبکہ محمد بن سیرین، ابوایوب سختیانی، حسن بصری اور ابورافع رحمها اللہ نے مٹی سے مانجنے کا ذکر کیا ہے۔ اور ثقہ کی زیادت مقبول ہوا کرتی ہے . . . . اسی قاعدے کے تحت سیدنا عبداللہ بن مغفل کی روایت آٹھویں بار کی قابل قبول ہے۔
➌ جدید تحقیقات مؤید ہیں کہ کتے کے جراثیم کے لیے مٹی ہی کماحقہ قاتل ہے۔
➍ کتا خواہ شکاری ہو اس کا لعاب نجس ہے۔ شکار کے معاملے میں خاص استثنا معلوم ہوتا ہے۔
➎ کتوں کو بالعموم قتل کرنا منسوخ ہے تاکہ ان کی نسل کلی طور پر تباہ نہ ہو جائے۔
➏ شکار اور حفاظت کے لیے کتے کا رکھنا جائز ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 74   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.