الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: دعا کے فضائل و آداب اور احکام و مسائل
Chapters on Supplication
13. بَابُ : رَفْعِ الْيَدَيْنِ فِي الدُّعَاءِ
13. باب: دعا میں دونوں ہاتھ اٹھانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3865
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو بشر بكر بن خلف , حدثنا ابن ابي عدي , عن جعفر بن ميمون , عن ابي عثمان , عن سلمان , عن النبي صلى الله عليه وسلم , قال:" إن ربكم حيي كريم , يستحيي من عبده ان يرفع إليه يديه , فيردهما صفرا او قال خائبتين".
حَدَّثَنَا أَبُو بِشْرٍ بَكْرُ بْنُ خَلَفٍ , حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ , عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مَيْمُونٍ , عَنْ أَبِي عُثْمَانَ , عَنْ سَلْمَانَ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" إِنَّ رَبَّكُمْ حَيِيٌّ كَرِيمٌ , يَسْتَحْيِي مِنْ عَبْدِهِ أَنْ يَرْفَعَ إِلَيْهِ يَدَيْهِ , فَيَرُدَّهُمَا صِفْرًا أَوْ قَالَ خَائِبَتَيْنِ".
سلمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا رب «حی» (بڑا باحیاء، شرمیلا) اور کریم ہے، اسے اس بات سے شرم آتی ہے کہ اس کا بندہ اس کے سامنے ہاتھ پھیلائے تو وہ انہیں خالی یا نامراد لوٹا دے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصلاة 358 (1488)، سنن الترمذی/الدعوات 105 (3556)، (تحفة الأشراف: 4494)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/438) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: یعنی صالح مومن کی دعا خالی نہیں جاتی، یا تو دنیا ہی میں قبول کر لی جاتی ہے، یا پھر آخرت میں اسے اس کا بہتر بدلہ ملے گا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: حسن
وله شاھد حسن عند امالي المحاملي (433 وسنده حسن، /نديم ظهير)
   جامع الترمذي3556سلمان بن الإسلامالله حيي كريم يستحيي إذا رفع الرجل إليه يديه أن يردهما صفرا خائبتين
   سنن أبي داود1488سلمان بن الإسلامربكم حيي كريم يستحيي من عبده إذا رفع يديه إليه أن يردهما صفرا
   سنن ابن ماجه3865سلمان بن الإسلامربكم حيي كريم يستحيي من عبده أن يرفع إليه يديه فيردهما صفرا أو قال خائبتين
   بلوغ المرام1344سلمان بن الإسلام إن ربكم حيي كريم يستحي من عبده إذا رفع إليه يديه أن يردهما صفرا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3865  
´دعا میں دونوں ہاتھ اٹھانے کا بیان۔`
سلمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا رب «حی» (بڑا باحیاء، شرمیلا) اور کریم ہے، اسے اس بات سے شرم آتی ہے کہ اس کا بندہ اس کے سامنے ہاتھ پھیلائے تو وہ انہیں خالی یا نامراد لوٹا دے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الدعاء/حدیث: 3865]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اللہ تعالی بندے کی ہر دعا قبول فرماتا ہے (بشرطیکہ کوئی ایسی وجہ موجود نہ ہو جو قبولیت کے راستے میں رکاوٹ ہو۔)
لیکن قبولیت کا اثر بعض اوقات دنیا میں ظاہر ہوتا ہے اور بعض اوقات آخرت میں۔

(2)
دعا کرتے وقت دونوں ہاتھ اٹھانے چاہئیں۔

(3)
اس حدیث میں اللہ تعالی کی صفت علو کا اثبات ہے، یعنی وہ اپنی ذات کے لحاظ سے عرش پر مستوی ہے، ہر جگہ موجود نہیں، البتہ اس کا علم، اس کی قدرت اور رحمت ہر شے کو محیط ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3865   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1344  
´ذکر اور دعا کا بیان`
سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارا پروردگار بڑا شرم و حیاء والا، سخی و کریم ہے۔ جب بندہ اس کے حضور اپنے ہاتھ پھیلاتا ہے تو اسے اس کے ہاتھوں کو خالی لوٹاتے شرم آتی ہے۔ نسائی کے سوا چاروں نے اسے روایت کیا ہے اور حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1344»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، الصلاة، باب الدعاء حديث:1488، والترمذي، الدعوات، حديُ:3556، وابن ماجه، الدعاء، حديث:3865، والحاكم:1 /497 جعفر بن ميمون ضعّفه الجمهور، وللحديث شواهد ضعيفة.»
تشریح:
1.مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ سنن ابن ماجہ (اردو) کی تحقیق میں اسے حسن قرار دیا ہے اور مزید لکھا ہے کہ زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ یہ موقوف ہے‘ نیز شیخ البانی رحمہ اللہ اس کی بابت لکھتے ہیں: «‏‏‏‏إِسْنَادُ الْمَوْقُوفِ أَصَحُّ» مذکورہ روایت سند کے لحاظ سے موقوفاً زیادہ درست ہے۔
لیکن پھر انھوں نے اس کے مرفوع شواہد کا تذکرہ بھی کیا ہے اور آخر میں لکھا ہے: «فَالْحَدِیثُ صَحِیحٌ قَطْعًا» یہ حدیث قطعی طور پر صحیح ہے۔
بنابریں مذکورہ روایت دیگر شواہد کی بنا پر قابل عمل ہے۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (المشکاۃ للألباني‘ التحقیق الثاني:۲ /۴۱۳‘ رقم: ۲۱۸۴‘ وسنن ابن ماجہ، (اردو) طبع دارالسلام بتحقیق زبیر علیزئي‘ رقم: ۳۸۶۵) 2.اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا جائز ہے اور یہ آداب دعا میں سے ہے۔
3.اللہ کی بارگاہ میں اٹھے ہوئے بندۂ محتاج کے ہاتھ خالی واپس نہیں کیے جاتے۔
4.دعائے استسقا کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دونوں ہاتھ عام معمول سے زیادہ ہی بلند فرماتے تھے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں دعا کے لیے ہاتھ اٹھانے کی جو نفی ہے‘ اس سے مراد استسقا کی طرح رفع الیدین میں مبالغہ کرنے کی نفی ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 1344   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1488  
´دعا کا بیان۔`
سلمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا رب بہت باحیاء اور کریم (کرم والا) ہے، جب اس کا بندہ اس کے سامنے اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتا ہے تو انہیں خالی لوٹاتے ہوئے اسے اپنے بندے سے شرم آتی ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1488]
1488. اردو حاشیہ: اللہ عزوجل کا حیا کرنا اس کی خاص صفت ہے۔ اور اسی طرح ہے جس طرح اس کی ذات کو لائق ہے۔ اہل السنۃ کا اللہ تعالیٰ کی تمام صفات پرایمان ہے۔ ان کی تفصیل وکنہ میں جانا اور پڑنا درست نہیں ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1488   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.