الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: روزوں کے احکام و مسائل و فضائل
The Book of Fasting
43. بَابُ : ذِكْرِ الاِخْتِلاَفِ عَلَى مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي يَعْقُوبَ فِي حَدِيثِ أَبِي أُمَامَةَ فِي فَضْلِ الصَّائِمِ
43. باب: روزہ دار کی فضیلت کے سلسلے میں ابوامامہ رضی الله عنہ والی حدیث میں محمد بن ابی یعقوب پر راویوں کے اختلاف کا ذکر۔
Chapter: Mentioning the differences in the reports from Muhammad bin Abi Yaqub in the Hadith of Abi Umamah About The Virtue Of Fasting
حدیث نمبر: 2242
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
اخبرنا بشر بن خالد، قال: حدثنا محمد بن جعفر، عن شعبة، عن سليمان، عن إبراهيم، عن علقمة، ان ابن مسعود لقي عثمان بعرفات فخلا به فحدثه , وان عثمان , قال لابن مسعود: هل لك في فتاة ازوجكها؟ فدعا عبد الله علقمة فحدثه، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال:" من استطاع منكم الباءة فليتزوج، فإنه اغض للبصر، واحصن للفرج، ومن لم يستطع فليصم، فإن الصوم له وجاء".
أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ خَالِدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، أَنَّ ابْنَ مَسْعُودٍ لَقِيَ عُثْمَانَ بِعَرَفَاتٍ فَخَلَا بِهِ فَحَدَّثَهُ , وَأَنَّ عُثْمَانَ , قَالَ لِابْنِ مَسْعُودٍ: هَلْ لَكَ فِي فَتَاةٍ أُزَوِّجُكَهَا؟ فَدَعَا عَبْدُ اللَّهِ عَلْقَمَةَ فَحَدَّثَهُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمُ الْبَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ، فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ، وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ، وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَلْيَصُمْ، فَإِنَّ الصَّوْمَ لَهُ وِجَاءٌ".
علقمہ سے روایت ہے کہ ابن مسعود (رضی اللہ عنہ)، عثمان (رضی اللہ عنہ) سے عرفات میں ملے، تو وہ انہیں لے کر تنہائی میں چلے گئے اور ان سے باتیں کیں، عثمان رضی اللہ عنہ نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے کہا: کیا آپ کو کسی دوشیزہ کی خواہش ہے کہ میں آپ کی اس سے شادی کرا دوں؟ تو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے علقمہ کو بھی بلا لیا (آ جاؤ کوئی خاص بات نہیں ہے اور جب وہ آ گئے) تو انہوں نے عثمان رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: جو شخص تم میں سے نان و نفقہ کی طاقت رکھے اسے چاہیئے کہ وہ شادی کر لے کیونکہ یہ چیز نگاہ کو نیچی رکھنے اور شرمگاہ کو محفوظ رکھنے کا بہترین ذریعہ ہے، اور جو طاقت نہ رکھے، تو اسے چاہیئے کہ روزہ رکھے کیونکہ روزہ اس کے لیے «وجاء» ہے (یعنی وہ اسے خصی بنا دے گا، اس کی شہوت کو توڑ دے گا)۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصوم 10 (1905) مختصراً، النکاح2 (5065)، صحیح مسلم/الصوم1 (1400)، سنن ابی داود/النکاح1 (2046)، سنن الترمذی/الصوم1 (1081) تعلیقًا، سنن ابن ماجہ/الصوم1 (1845) مطولًا، تحفة الأشراف: 9417، مسند احمد 1/ 378، 447، سنن الدارمی/النکاح2 (2212)، ویأتي عند المؤلف 3209، 3210، 3213 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
   صحيح البخاري5066عبد الله بن مسعودمن استطاع الباءة فليتزوج فإنه أغض للبصر وأحصن للفرج ومن لم يستطع فعليه بالصوم فإنه له وجاء
   صحيح البخاري5065عبد الله بن مسعودمن استطاع منكم الباءة فليتزوج ومن لم يستطع فعليه بالصوم فإنه له وجاء
   صحيح البخاري1905عبد الله بن مسعودمن استطاع الباءة فليتزوج فإنه أغض للبصر وأحصن للفرج ومن لم يستطع فعليه بالصوم فإنه له وجاء
   صحيح مسلم3400عبد الله بن مسعودمن استطاع منكم الباءة فليتزوج فإنه أغض للبصر وأحصن للفرج ومن لم يستطع فعليه بالصوم فإنه له وجاء
   صحيح مسلم3398عبد الله بن مسعودمن استطاع منكم الباءة فليتزوج فإنه أغض للبصر وأحصن للفرج ومن لم يستطع فعليه بالصوم فإنه له وجاء
   سنن أبي داود2046عبد الله بن مسعودمن استطاع منكم الباءة فليتزوج فإنه أغض للبصر وأحصن للفرج ومن لم يستطع منكم فعليه بالصوم فإنه له وجاء
   سنن النسائى الصغرى3211عبد الله بن مسعودمن استطاع منكم الباءة فلينكح فإنه أغض للبصر وأحصن للفرج ومن لا فليصم فإن الصوم له وجاء
   سنن النسائى الصغرى2241عبد الله بن مسعودعليكم بالباءة فإنه أغض للبصر وأحصن للفرج ومن لم يستطع فعليه بالصوم فإنه له وجاء
   سنن النسائى الصغرى3210عبد الله بن مسعودمن استطاع منكم الباءة فليتزوج ومن لم يستطع فعليه بالصوم فإنه له وجاء
   سنن النسائى الصغرى3213عبد الله بن مسعودمن استطاع منكم الباءة فليتزوج
   سنن النسائى الصغرى2242عبد الله بن مسعودمن استطاع منكم الباءة فليتزوج فإنه أغض للبصر وأحصن للفرج ومن لم يستطع فليصم فإن الصوم له وجاء
   سنن النسائى الصغرى3209عبد الله بن مسعودمن استطاع الباءة فليتزوج فإنه أغض للبصر وأحصن للفرج ومن لم يستطع فليصم فإنه له وجاء
   سنن النسائى الصغرى2243عبد الله بن مسعودمن استطاع منكم الباءة فليتزوج ومن لم يجد فعليه بالصوم فإنه له وجاء
   سنن النسائى الصغرى2244عبد الله بن مسعودمن استطاع منكم الباءة فليتزوج فإنه أغض للبصر وأحصن للفرج
   سنن ابن ماجه1845عبد الله بن مسعودمن استطاع منكم الباءة فليتزوج فإنه أغض للبصر وأحصن للفرج ومن لم يستطع فعليه بالصوم فإنه له وجاء
   المعجم الصغير للطبراني486عبد الله بن مسعودعليكم بالباءة فمن لم يجد فعليه بالصوم فإنه له وجاء
   بلوغ المرام824عبد الله بن مسعود يا معشر الشباب من استطاع منكم الباءة فليتزوج ،‏‏‏‏ فإنه أغض للبصر ،‏‏‏‏ وأحصن للفرج ومن لم يستطع فعليه بالصوم ،‏‏‏‏ فإنه له وجاء
   مسندالحميدي115عبد الله بن مسعوديا معشر الشباب من استطاع منكم الباءة فلينكح فإنه أغض للبصر، وأحصن للفرج، ومن لا فليصم فإن الصوم له وجاء

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2242  
´روزہ دار کی فضیلت کے سلسلے میں ابوامامہ رضی الله عنہ والی حدیث میں محمد بن ابی یعقوب پر راویوں کے اختلاف کا ذکر۔`
علقمہ سے روایت ہے کہ ابن مسعود (رضی اللہ عنہ)، عثمان (رضی اللہ عنہ) سے عرفات میں ملے، تو وہ انہیں لے کر تنہائی میں چلے گئے اور ان سے باتیں کیں، عثمان رضی اللہ عنہ نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے کہا: کیا آپ کو کسی دوشیزہ کی خواہش ہے کہ میں آپ کی اس سے شادی کرا دوں؟ تو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے علقمہ کو بھی بلا لیا (آ جاؤ کوئی خاص بات نہیں ہے اور جب وہ آ گئے) تو انہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2242]
اردو حاشہ:
(1) یہ واقعہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت کا ہے۔ چونکہ اس وقت حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو نکاح کی ضرورت نہ تھی، لہٰذا پیش کش قبول نہ فرمائی بلکہ علقمہ کو بلا لیا کیونکہ یہ کوئی راز کی بات نہ تھی اور حدیث بیان فرمائی۔
(2) نکاح اس شخص کے لیے ضروری ہے جو اس کی ضرورت محسوس کرتا ہے، جو ضرورت محسوس نہ کرتا ہو، اس کے لیے نکاح ضروری نہیں، جیسے بوڑھا شخص۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 2242   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1845  
´نکاح (شادی بیاہ) کی فضیلت کا بیان۔`
علقمہ بن قیس کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ منیٰ میں تھا، تو عثمان رضی اللہ عنہ انہیں لے کر تنہائی میں گئے، میں ان کے قریب بیٹھا تھا، عثمان رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: کیا آپ چاہتے ہیں آپ کی شادی کسی نوجوان لڑکی سے کرا دوں جو آپ کو ماضی کے حسین لمحات کی یاد دلا دے؟ جب عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ عثمان رضی اللہ عنہ ان سے اس کے علاوہ کوئی راز کی بات نہیں کہنا چاہتے، تو انہوں نے مجھ کو قریب آنے کا اشارہ کیا، میں قریب آ گیا، اس وقت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہہ رہے تھے کہ اگر آپ ایسا کہتے ہیں تو رسول اللہ صلی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1845]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
گزرے وقتوں کی یاد سے مراد یہ ہے کہ جس طرح آپ پہلے ازدواجی زندگی گزار رہے تھے اور اطمینان و مسرت کا وقت گزر رہا تھا، اب پھر آپ کو شادی کی ضرورت ہے تاکہ آپ کو دوبارہ وہی خوشی اور وہی اطمینان و سکون حاصل ہو جس کا حصول شادی کے بغیر ممکن نہیں۔

(2)
شادی شدہ زندگی میں میاں بیوی کی عمر میں تفاوت کو بہت زیادہ اہمیت حاصل نہیں۔
اگر ذہنی ہم آہنگی موجود ہو اور مرد اس قابل ہو کہ اپنی بیوی کی فطری ضروریات خوش اسلوبی سے پوری کر سکے تو ادھیڑ عمر مرد کم عمر عورت سے نکاح کر سکتا ہے۔

(3)
تین افراد میں سے دو افراد کا تیسرے کو الگ کر کے بات چیت کرنا منع ہے لیکن اگر تیسرے آدمی کی دل شکنی کا اندیشہ نہ ہو تو بعض حالات میں اس کی گنجائش ہے، ویسے بھی مذکورہ بالا واقعہ میں دونوں کے الگ ہو جانے کے باوجود حضرت علقمہ ؓ اتنے دور نہیں تھے کہ ان کی بات چیت نہ سن سکیں۔

(4)
حضرت عبداللہ کو اس وقت نکاح کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی اس لیے انہوں نے یہ نہیں فرمایا کہ لڑکی والوں سے رابطہ قائم کیا جائے، البتہ حضرت عثمان کی خیر خواہی کا شکر ادا کرنے کے لیے فرما دیا کہ نکاح واقعی ایک اہم اور مفید چیز ہے۔

(5)
نکاح کی طاقت رکھنے کا مطلب جسمانی طور پر نکاح کے قابل ہونا اور مالی طور پر بیوی کے لازمی اخراجات پورے کرنے کے قابل ہونا ہے۔
موجودہ معاشرے میں رائج رسم و رواج پر کیے جانے والے بے جا اخراجات کی طاقت مراد نہیں۔
معاشرے سے ان فضول رسموں کو ختم کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔

(6)
نکاح کا سب سے بڑا فائدہ گناہ کی زندگی سے حفاظت اور جنسی خواہشات کی جائز ذریعے سے تکمیل ہے۔
نکاح کرتے وقت یہ مقصد پیش نظر رکھنا چاہیے، دوسرے فوائد خود ہی حاصل ہو جائیں گے۔

(7)
فحاشی سے بچاؤ اسلامی معاشرے کی ایک اہم خوبی ہے، اس کے حصول کے لیے ہر جائز ذریعہ اختیار کرنا چاہیے، اور فحاشی کا ہر راستہ بند کرنا چاہیے۔

(8)
اسلامی شریعت کی یہ خوبی ہے کہ یہ انسان کی فطرت کے مطالبات کی نفی نہیں کرتی بلکہ ان کے حصول کے جائز ذرائع مہیا کرتی ہے۔

(9)
روزہ رکھ کر انسان نامناسب خیالات اور جذبات کو کنٹرول کرسکتا ہے۔
اس وجہ سے فطری خواہش بھی بے لگام نہیں ہوتی، اس لیے اگر کسی نوجوان لڑکے یا لڑکی کی شادی میں کسی وجہ سے تاخیر ہو جائے تو اسے چاہیے کہ نفلی روزے کثرت سے رکھے اور جذبات میں ہیجان پیدا کرنے والے ماحول، اس قسم کے لٹریچر کے مطالعے، جذبات انگیز نغمات سننے اور فلمیں وغیرہ دیکھنے سے پرہیز کرے تاکہ جوانی کا جوش، گناہ میں ملوث نہ کرسکے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1845   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2046  
´نکاح کی ترغیب کا بیان۔`
علقمہ کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ منیٰ میں چل رہا تھا کہ اچانک ان کی ملاقات عثمان رضی اللہ عنہ سے ہو گئی تو وہ ان کو لے کر خلوت میں گئے، جب عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے محسوس کیا کہ انہیں (شادی کی) ضرورت نہیں ہے تو مجھ سے کہا: علقمہ! آ جاؤ ۱؎ تو میں گیا تو عثمان رضی اللہ عنہ ۲؎ نے ان سے کہا: ابوعبدالرحمٰن! کیا ہم آپ کی شادی ایک کنواری لڑکی سے نہ کرا دیں، شاید آپ کی دیرینہ طاقت و نشاط واپس آ جائے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر آپ ایسی بات کہہ رہے ہیں تو میں تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سن چکا ہو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب النكاح /حدیث: 2046]
فوائد ومسائل:

اس حدیث سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے۔
کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پہلی بیوی فوت ہوگئی تھی۔
اور اب وہ بیوی کے بغیر زندگی گزار رہے تھے۔
حضرت عثمان کے علم میں یہ بات تھی۔
اس لئے انہوں نے ملاقات پر پہلے انہیں خلوت میں دوبارہ نکاح کی ترغیب دی وہ آمادہ نہ ہوئے تو پھر ان کے ساتھی کےسامنے دوبارہ یہ کوشش کی۔
بہرحال اس حدیث س کئی فوائد معلوم ہوئے مثلا جس شخص کے پاس اپنا گھر آباد کرنے کے لئے نان ونفقہ اور  سکنیٰ کے لازمی مصارف موجود ہوں۔
اس کیلئے متاھل زندگی گزارنا مستحب ہے۔
بالخصوص جوانوں کو تو اس کی بہت زیادہ ترغیب دی گئی ہے۔


نظر اور شرمگاہ کی پاکیزگی کو انسان کی دینی اور معاشرتی زندگی میں بنیادی اہمیت حاصل ہے۔
ان کی حفاظت معاشرے میں امن وامان بھائی چارے عمومی راحت خیر وبرکت اور اللہ فضل و انعامات کی ضامن ہے اور ان کا فساد معاشرتی بگاڑ فتنے عداوت اور دلوں کی بے سکونی کا باعث ہے۔
اور نتیجتاً اللہ کی ناراضگی حصے میں آتی ہے۔


مالی اعتبار سے کمزور شخص جو شادی نہ کرسکتا ہو اسے بمقابلہ دیگر علاجوں کے روزے رکھنے چاہیں امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ ایسے شخص کو قرض لے کر بھی یہ بار اُٹھانے کی ترغیب دیتے ہیں۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2046   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.