الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: جہاد کے احکام، مسائل و فضائل
The Book of Jihad
4. بَابُ : فَضْلِ الْمُجَاهِدِينَ عَلَى الْقَاعِدِينَ
4. باب: گھر بیٹھ رہنے والوں پر جہاد کے لیے نکلنے والوں کی فضیلت کا بیان۔
Chapter: The Superiority Of The Mujahidin Over Those Who Do Not Go Out To Fight
حدیث نمبر: 3101
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
اخبرنا محمد بن عبد الله بن بزيع، قال: حدثنا بشر يعني ابن المفضل، قال: انبانا عبد الرحمن بن إسحاق، عن الزهري، عن سهل بن سعد، قال: رايت مروان بن الحكم جالسا، فجئت حتى جلست إليه فحدثنا , ان زيد بن ثابت حدثه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم انزل عليه:" لا يستوي القاعدون من المؤمنين والمجاهدون في سبيل الله" , فجاء ابن ام مكتوم وهو يملها علي، فقال: يا رسول الله لو استطيع الجهاد لجاهدت فانزل الله عز وجل وفخذه على فخذي، فثقلت علي حتى ظننت ان سترض فخذي، ثم سري عنه , غير اولي الضرر سورة النساء آية 95" , قال ابو عبد الرحمن: عبد الرحمن بن إسحاق هذا ليس به باس، وعبد الرحمن بن إسحاق يروي عنه علي بن مسهر , وابو معاوية , وعبد الواحد بن زياد، عن النعمان بن سعد ليس بثقة.
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَزِيعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا بِشْرٌ يَعْنِي ابْنَ الْمُفَضَّلِ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِسْحَاق، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: رَأَيْتُ مَرْوَانَ بْنَ الْحَكَمِ جَالِسًا، فَجِئْتُ حَتَّى جَلَسْتُ إِلَيْهِ فَحَدَّثَنَا , أَنَّ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ حَدَّثَهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُنْزِلَ عَلَيْهِ:" لَا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ" , فَجَاءَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ وَهُوَ يُمِلُّهَا عَلَيَّ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ لَوْ أَسْتَطِيعُ الْجِهَادَ لَجَاهَدْتُ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَفَخِذُهُ عَلَى فَخِذِي، فَثَقُلَتْ عَلَيَّ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنْ سَتُرَضُّ فَخِذِي، ثُمَّ سُرِّيَ عَنْهُ , غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ سورة النساء آية 95" , قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِسْحَاق هَذَا لَيْسَ بِهِ بَأْسٌ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِسْحَاق يَرْوِي عَنْهُ عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ , وَأَبُو مُعَاوِيَةَ , وَعَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ سَعْدٍ لَيْسَ بِثِقَةٍ.
سہل بن سعد رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے مروان بن حکم کو بیٹھے دیکھا تو ان کے پاس آ کر بیٹھ گیا، تو انہوں نے ہم سے بیان کیا کہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر آیت: «لا يستوي القاعدون من المؤمنين والمجاهدون في سبيل اللہ» اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے مومن اور بغیر عذر کے بیٹھ رہنے والے مومن برابر نہیں۔ (النساء: ۹۵) نازل ہوئی اور آپ اسے بول کر مجھ سے لکھوا رہے تھے کہ اسی دوران ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ آ گئے (وہ ایک نابینا صحابی تھے) انہوں نے (حسرت بھرے انداز میں) کہا: اگر میں جہاد کر سکتا تو ضرور کرتا (مگر میں اپنی آنکھوں سے مجبور ہوں) تو اس وقت اللہ تعالیٰ ٰ نے (کلام پاک کا یہ ٹکڑا) «غير أولي الضرر» نازل فرمایا۔ ضرر والے یعنی مجبور لوگ اس سے مستثنیٰ ہیں اور (اس ٹکڑے کے نزول کے وقت کی صورت و کیفیت یہ تھی) کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ران میری ران پر ٹکی ہوئی تھی۔ اس آیت کے نزول کا بوجھ مجھ پر (بھی) پڑا اور اتنا پڑا کہ مجھے خیال ہوا کہ میری ران ٹوٹ ہی جائے گی، پھر یہ کیفیت موقوف ہو گئی۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں: اس روایت میں عبدالرحمٰن بن اسحاق ہیں ان سے روایت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور وہ عبدالرحمٰن بن اسحاق جو نعمان بن سعد سے روایت کرتے ہیں ثقہ نہیں ہیں، اور عبدالرحمٰن بن اسحاق سے روایت کی ہے، علی بن مسہر، ابومعاویہ اور عبدالواحد بن زیاد روایت کرتے ہیں بواسطہ نعمان بن سعد جو ثقہ نہیں ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجہاد 31 (2832)، وتفسیرسورة النساء 18 (4592)، سنن ابی داود/الجہاد 20 (2507)، سنن الترمذی/تفسیرسورة النساء (3033)، مسند احمد (5/184، 191) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري
   صحيح البخاري2832زيد بن ثابتأملى عليه لا يستوي القاعدون من المؤمنين
   جامع الترمذي3033زيد بن ثابتأملى عليه لا يستوي القاعدون من المؤمنين والمجاهدون في سبيل الله لو أستطيع الجهاد لجاهدت وكان رجلا أعمى فأنزل الله على رسوله وفخذه على فخذي فثقلت حتى همت ترض فخذي ثم سري عنه فأنزل الله عليه غير أولي الضرر
   سنن أبي داود2507زيد بن ثابتاكتب فكتبت في كتف لا يستوي القاعدون من المؤمنين
   سنن النسائى الصغرى3102زيد بن ثابتلا يستوي القاعدون من المؤمنين والمجاهدون في سبيل الله قال فجاءه ابن أم مكتوم وهو يملها علي لو أستطيع الجهاد لجاهدت وكان رجلا أعمى فأنزل الله على رسوله وفخذه على فخذي حتى همت ترض فخذي ثم سري عنه فأنزل الله غير أولي الضرر
   سنن النسائى الصغرى3101زيد بن ثابتلا يستوي القاعدون من المؤمنين والمجاهدون في سبيل الله فجاء ابن أم مكتوم وهو يملها علي لو أستطيع الجهاد لجاهدت فأنزل الله وفخذه على فخذي فثقلت علي حتى ظننت أن سترض فخذي ثم سري عنه غير أولي الضرر

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3101  
´گھر بیٹھ رہنے والوں پر جہاد کے لیے نکلنے والوں کی فضیلت کا بیان۔`
سہل بن سعد رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے مروان بن حکم کو بیٹھے دیکھا تو ان کے پاس آ کر بیٹھ گیا، تو انہوں نے ہم سے بیان کیا کہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر آیت: «لا يستوي القاعدون من المؤمنين والمجاهدون في سبيل اللہ» اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے مومن اور بغیر عذر کے بیٹھ رہنے والے مومن برابر نہیں۔‏‏‏‏ (النساء: ۹۵) نازل ہوئی اور آپ اسے بول کر مجھ س۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الجهاد/حدیث: 3101]
اردو حاشہ:
(1) خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے اپنی جان خطرے میں ڈالنا بلکہ قربان کردینا کوئی معمولی نیکی نہیں۔ اسی لیے مجاہدین کو دوسرے نیک لوگوں پر بہت زیادہ فضیلت حاصل ہے مگر معذور شحص جہاد کی نیت رکھے تو اسے بھی جہاد کا ثواب ملے گا۔
(2) حضرت ابن کلثوم رضی اللہ عنہ نابینا تھے۔ عربی زبان میں مکتوم نابینے کو کہتے ہیں۔ ان کے نام کے بارے میں اختلاف ہے۔ اکثر محققین نے عبداللہ بتایا ہے۔ بعض نے عمرو بھی کہا ہے۔ واللہ أعلم۔
(3) ﴿غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ﴾ (النسائي:4:95) کے الفاظ کے بعد میں اترنے پر کوئی اعتراض نہیں کیونکہ اگر یہ الفاظ نہ ہوتے تب بھی شرعی ادلہ کی رو سے معذور کی رخصت ہے اور نیت کا اجر ملنا بھی قطعی مسئلہ ہے، تاہم جہاد کی اہمیت کے پیش نظر وضاحت کی ضرورت محسوس ہوئی تو وضاحت کردی گئی۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 3101   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2507  
´عذر کی بنا پر جہاد میں نہ جانے کی اجازت کا بیان۔`
زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں تھا تو آپ کو سکینت نے ڈھانپ لیا (یعنی وحی اترنے لگی) (اسی دوران) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ران میری ران پر پڑ گئی تو کوئی بھی چیز مجھے آپ کی ران سے زیادہ بوجھل محسوس نہیں ہوئی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے وحی کی کیفیت ختم ہوئی تو آپ نے فرمایا: لکھو، میں نے شانہ (کی ایک ہڈی) پر «لا يستوي القاعدون من المؤمنين والمجاهدون في سبيل الله» اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے مومن اور بغیر عذر کے بیٹھ رہنے والے مومن برابر نہیں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2507]
فوائد ومسائل:

مریض، نابینا، اپاہج، یا دیگر شرعی عذر کی بنا ء پر اگر کوئی جہاد سے پیچھے رہ جائے۔
تو مباح ہے، لیکن جب نفیر عام کا حکم ہو تو بلا عذر پیچھے رہنا کسی طرح روا نہیں۔


نزول وحی کے وقت رسول اللہ ﷺ پر انتہائی بوجھ پڑتا تھا۔
حتیٰ کے سخت سردی میں بھی آپﷺ کو پسینہ آجاتا تھا۔
اور اگر آپ اونٹنی پر ہوتے تو وہ بھی ٹک کرکھڑی ہوجاتی تھی۔
اور چل نہ سکتی تھی۔


قرآن مجید جس قدر اترتا تھا نبی کریم ﷺ اس کی کتابت کروا دیا کرتے تھے۔
البتہ ابتداء میں احادیث کے لکھنے کی عام اجازت نہ تھی۔
سوائے چند ایک صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین کے زیادہ وثائق جو آپ نے بالخصوص لکھوائے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2507   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.