الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: طلاق کے احکام و مسائل
The Book of Divorce
6. بَابُ : الثَّلاَثِ الْمَجْمُوعَةِ وَمَا فِيهِ مِنَ التَّغْلِيظِ
6. باب: اکٹھی تین طلاقیں دینا سخت ناپسندیدہ عمل ہے۔
Chapter: Three Simultaneous Divorces And A Stern Warning Against That
حدیث نمبر: 3430
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
اخبرنا سليمان بن داود، عن ابن وهب، قال: اخبرني مخرمة، عن ابيه، قال: سمعت محمود بن لبيد، قال:" اخبر رسول الله صلى الله عليه وسلم عن رجل طلق امراته ثلاث تطليقات جميعا، فقام غضبانا، ثم قال:" ايلعب بكتاب الله، وانا بين اظهركم"، حتى قام رجل وقال: يا رسول الله، الا اقتله؟.
أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ، عَنْ ابْنِ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مَخْرَمَةُ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ مَحْمُودَ بْنَ لَبِيدٍ، قَالَ:" أُخْبِرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثَ تَطْلِيقَاتٍ جَمِيعًا، فَقَامَ غَضْبَانًا، ثُمَّ قَالَ:" أَيُلْعَبُ بِكِتَابِ اللَّهِ، وَأَنَا بَيْنَ أَظْهُرِكُمْ"، حَتَّى قَامَ رَجُلٌ وَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَا أَقْتُلُهُ؟.
محمود بن لبید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک شخص کے بارے میں بتایا گیا کہ اس نے اپنی بیوی کو اکٹھی تین طلاقیں دے دی ہیں، (یہ سن کر) آپ غصے سے کھڑے ہو گئے اور فرمانے لگے: میرے تمہارے درمیان موجود ہوتے ہوئے بھی تم اللہ کی کتاب (قرآن) کے ساتھ کھلواڑ کرنے لگے ہو ۱؎، (آپ کا غصہ دیکھ کر اور آپ کی بات سن کر) ایک شخص کھڑا ہو گیا اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیوں نہ میں اسے قتل کر دوں؟۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 11237) (ضعیف) (سند میں مخرمہ کا اپنے والد سے سماع نہیں ہے)»

وضاحت:
۱؎: یعنی اللہ کا حکم کیا ہے اسے نہیں دیکھتے؟ میں تمہارے درمیان موجود ہوں مجھ سے نہیں پوچھتے اور سمجھتے؟ اللہ کے فرمان کے خلاف عمل کرنے لگے ہو کیا اب یہی ہو گا۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3430  
´اکٹھی تین طلاقیں دینا سخت ناپسندیدہ عمل ہے۔`
محمود بن لبید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک شخص کے بارے میں بتایا گیا کہ اس نے اپنی بیوی کو اکٹھی تین طلاقیں دے دی ہیں، (یہ سن کر) آپ غصے سے کھڑے ہو گئے اور فرمانے لگے: میرے تمہارے درمیان موجود ہوتے ہوئے بھی تم اللہ کی کتاب (قرآن) کے ساتھ کھلواڑ کرنے لگے ہو ۱؎، (آپ کا غصہ دیکھ کر اور آپ کی بات سن کر) ایک شخص کھڑا ہو گیا اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیوں نہ میں اسے قتل کر دوں؟۔ [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3430]
اردو حاشہ:
(1) شریعت نے انسانو ں کی کمزوری اور جلد بازی کو مدنظر رکھتے ہوئے طلاق کے تین مواقع رکھے ہیں اور پہلی دو طلاقوں کے بعد رجوع کی رعایت بھی رکھی ہے تاکہ یہ انتہائی مضبوط تعلق کسی انسان کی جلد بازی کا شکار نہ ہوجائے بلکہ دو طلاقوں کے بعد وہ اچھی طرح سوچ سمجھ لے اور جذبات سے الگ ہو کر فیصلہ کرے۔ جس شخص نے تینوں طلاقیں اکٹھی دے دیں‘ اس نے یہ تمام مواقع گنوا دیے‘ اور اس اہم تعلق کو اشتعال اور جلد بازی کی نذر کردیا حتیٰ کہ اس عورت سے نئے نکاح کا امکان بھی نہ رہا‘ نیز اس نے اس صریح قرآنی ہدایت کی نافرمانی کی ﴿الطَّلاقُ مَرَّتَانِ﴾ (البقرۃ2:229) طلاق دوبار ہے یعنی طلاق الگ الگ ہونی چاہیے‘ لہٰذا یہ شخص سزا کا مستوجب ہے۔ تبھی تو دوسرے آدمی نے اسے قتل کرنے کی اجازت طلب کی کیونکہ کتاب اللہ کو مذاق بنانا‘ نیز علانیہ مخالفت کرنا ناقابل برداشت ہے۔ تبھی آپ سخت ناراض ہوئے۔
(2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تین طلاقیں اکٹھی دینا خلاف شرع اور بدعت ہے۔ امام مالک اور ابوحنیفہ رحمہ اللہ اسی کے قائل ہیں مگر امام شافعی اور احمد رحمہ اللہ اسے حرام نہیں سمجھتے کہ تین طلاقیں مرد کا حق تھا اس نے جیسے چاہا استعمال کرلیا۔ اگر مواقع ضائع کیے ہیں تو اس نے اپنے کیے ہیں۔ البتہ وہ اسے خلاف اولیٰ سمجھتے ہیں۔ لیکن ان کا مسلک اس حدیث کے خلاف ہے۔ اگر حیض کی طلاق کو حرام اور بدعت کہا جا سکتا ہے تو اس کو کیوں نہیں؟ جب کہ رسول اللہﷺ نے دونوں مقامات پر ناراضی کا اظہار فرمایا ہے۔
(3) اگر کوئی شخص اس حرام کا ارتکاب کرے تو جمہور اہل علم کے نزدیک تینوں طلاقیں واقع ہوجائیں گی اور وہ عورت اس پر حرام ہوجائے گی۔ ا س کے برعکس دوسرا موقف یہ ہے کہ یہ ایک طلاق شمار ہوگی۔ اس کی دلیل صحیح مسلم میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی ایک روایت ہے کہ رسول اللہﷺ اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے ابتدائی دور میں تین طلاقیں ایک شمار ہوتی تھیں۔ حضرت عمر نے بطور سزا تین ہی کی تنفیذ فرما دی‘ اس لیے بعض اہل علم ایسی صورت میں تین کے بجائے ایک کے وقوع کے قائل ہیں کیونکہ اس نے طلاق کا ایک موقع استعمال کیا ہے۔ باقی رہا تین کا لفظ تو وہ خلاف شرع ہونے کی وجہ سے غیر معتبر ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ان تین قراردینا صرف تعزیر اور سزا تھی‘ سیاسی وانتظامی مسئلہ تھا۔ شرعی حکم اپنی جگہ برقرار ہے۔ یہ بات عقلاً اور نقلاً زیادہ درست معلوم ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں یہ مسلک (ایک واقع ہونا) عوام الناس کے لیے مفید ہے‘ خصوصاً جبکہ ایک صحیح حدیث بھی اس مسلک کی تائید کرتی ہے ورنہ لوگ حلالہ جیسے ذلیل اور غیرت کش فعل کا ارتکاب کرتے ہیں جو شرعاً اور اخلاقاً بہت بڑا جرم ہے۔ حضرت علی اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ جیسے فقہاء صحابہ سے بھی یہ مسلک منقول ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 3430   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.