الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: چور کا ہاتھ کاٹنے سے متعلق احکام و مسائل
The Book of Cutting off the Hand of the Thief
2. بَابُ : امْتِحَانِ السَّارِقِ بِالضَّرْبِ وَالْحَبْسِ
2. باب: اعتراف جرم کی خاطر چور کو مارنے یا قید میں ڈالنے کا بیان۔
Chapter: Making A Suspected thief Admit to His Crime By Beating and Detaining Him
حدیث نمبر: 4880
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
اخبرنا علي بن سعيد بن مسروق، قال: حدثنا عبد الله بن المبارك، عن معمر، عن بهز بن حكيم، عن ابيه، عن جده: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" حبس رجلا في تهمة , ثم خلى سبيله".
أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ سَعِيدِ بْنِ مَسْرُوقٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ بَهْزِ بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" حَبَسَ رَجُلًا فِي تُهْمَةٍ , ثُمَّ خَلَّى سَبِيلَهُ".
بہز بن حکیم کے دادا معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو ایک الزام میں قید میں رکھا، پھر اسے رہا کر دیا۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (حسن)»

قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
   جامع الترمذي1417معاوية بن حيدةحبس رجلا في تهمة ثم خلى عنه
   سنن أبي داود3630معاوية بن حيدةحبس رجلا في تهمة
   سنن النسائى الصغرى4880معاوية بن حيدةحبس ناسا في تهمة
   سنن النسائى الصغرى4880معاوية بن حيدةحبس رجلا في تهمة ثم خلى سبيله
   جامع الترمذي1417معاوية بن حيدةحبس رجلا في تهمة ثم خلى عنه
   سنن أبي داود3630معاوية بن حيدةحبس رجلا في تهمة
   سنن النسائى الصغرى4880معاوية بن حيدةحبس ناسا في تهمة
   سنن النسائى الصغرى4880معاوية بن حيدةحبس رجلا في تهمة ثم خلى سبيله

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1417  
´کسی تہمت و الزام میں گرفتار کرنے کا بیان۔`
معاویہ بن حیدہ قشیری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو تہمت ۱؎ کی بنا پر قید کیا، پھر (الزام ثابت نہ ہونے پر) اس کو رہا کر دیا۔ [سنن ترمذي/كتاب الديات/حدیث: 1417]
اردو حاشہ:
وضاخت:


1؎:
اس تہمت اورالزام کے کئی سبب ہوسکتے ہیں:
اس نے جھوٹی گواہی دی ہوگی،
یا اس کے خلاف کسی نے اس کے مجرم ہونے کا دعوی پیش کیا ہوگا،
یا اس کے ذمہ کسی کا قرض باقی ہوگا،
پھر اس کا جرم ثابت نہ ہونے پر اسے رہا کر دیا گیا ہو گا حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جرم ثابت ہونے سے قبل قید وبند کرنا ایک شرعی امر ہے۔

2؎:
پوری حدیث کے لیے دیکھئے سنن ابی داؤد حوالہ ٔ مذکور۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1417   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1417  
´کسی تہمت و الزام میں گرفتار کرنے کا بیان۔`
معاویہ بن حیدہ قشیری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو تہمت ۱؎ کی بنا پر قید کیا، پھر (الزام ثابت نہ ہونے پر) اس کو رہا کر دیا۔ [سنن ترمذي/كتاب الديات/حدیث: 1417]
اردو حاشہ:
وضاخت:


1؎:
اس تہمت اورالزام کے کئی سبب ہوسکتے ہیں:
اس نے جھوٹی گواہی دی ہوگی،
یا اس کے خلاف کسی نے اس کے مجرم ہونے کا دعوی پیش کیا ہوگا،
یا اس کے ذمہ کسی کا قرض باقی ہوگا،
پھر اس کا جرم ثابت نہ ہونے پر اسے رہا کر دیا گیا ہو گا حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جرم ثابت ہونے سے قبل قید وبند کرنا ایک شرعی امر ہے۔

2؎:
پوری حدیث کے لیے دیکھئے سنن ابی داؤد حوالہ ٔ مذکور۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1417   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3630  
´قرض وغیرہ کی وجہ سے کسی کو قید کرنے کا بیان۔`
معاویہ بن حیدہ قشیری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک الزام میں ایک شخص کو قید میں رکھا۔ [سنن ابي داود/كتاب الأقضية /حدیث: 3630]
فوائد ومسائل:
فائدہ: جس شخص پر الزام ہو مگر حقیقت واضح نہ ہو تو اسے حقیقت واضح ہونے تک تحقیق کی غرض سے مختصر وقت کے لئے قید کرنا جائز ہے۔
تاہم قید کاعرصہ بلاوجہ غیر معمولی طور پر لمبا کرنا (جیسا کہ آج کل معمول ہے۔
)
شرعا ً محل نظر ہے، اس سے بہت سے مفاسد جنم لیتے ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3630   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3630  
´قرض وغیرہ کی وجہ سے کسی کو قید کرنے کا بیان۔`
معاویہ بن حیدہ قشیری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک الزام میں ایک شخص کو قید میں رکھا۔ [سنن ابي داود/كتاب الأقضية /حدیث: 3630]
فوائد ومسائل:
فائدہ: جس شخص پر الزام ہو مگر حقیقت واضح نہ ہو تو اسے حقیقت واضح ہونے تک تحقیق کی غرض سے مختصر وقت کے لئے قید کرنا جائز ہے۔
تاہم قید کاعرصہ بلاوجہ غیر معمولی طور پر لمبا کرنا (جیسا کہ آج کل معمول ہے۔
)
شرعا ً محل نظر ہے، اس سے بہت سے مفاسد جنم لیتے ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3630   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.