الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: ایمان اور ارکان ایمان
The Book Of Faith and its Signs
20. بَابُ : عَلامَةُ الْمُنَافِقِ
20. باب: منافق کی پہچان۔
Chapter: The Sign of a Hypocrite
حدیث نمبر: 5023
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
اخبرنا بشر بن خالد، قال: حدثنا محمد بن جعفر، عن شعبة، عن سليمان، عن عبد الله بن مرة، عن مسروق، عن عبد الله بن عمرو، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" اربعة من كن فيه كان منافقا , او كانت فيه خصلة من الاربع، كانت فيه خصلة من النفاق حتى يدعها: إذا حدث كذب، وإذا وعد اخلف، وإذا عاهد غدر، وإذا خاصم فجر".
أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ خَالِدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَن سُلَيْمَانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" أَرْبَعَةٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ كَانَ مُنَافِقًا , أَوْ كَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنَ الْأَرْبَعِ، كَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنَ النِّفَاقِ حَتَّى يَدَعَهَا: إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، وَإِذَا عَاهَدَ غَدَرَ، وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس میں چار چیزیں ہوں، وہ منافق ہے، یا ان چار میں سے کوئی ایک خصلت (عادت) ہو تو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے جب تک کہ وہ اسے چھوڑ نہ دے: جب بات کرے تو جھوٹ بولے، وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے، عہد و پیمان کرے تو توڑ دے، اور جب جھگڑا کرے تو گالی گلوچ کرے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأیمان 24 (34)، المظالم 17 (2459)، الجزیة 17 (3178)، صحیح مسلم/الإیمان 25 (58)، سنن ابی داود/السنة 16 (4488)، سنن الترمذی/الإیمان 14 (2632)، (تحفة الأشراف: 8931)، مسند احمد (2/189، 198) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
   صحيح البخاري2459عبد الله بن عمروأربع من كن فيه كان منافقا أو كانت فيه خصلة من أربعة كانت فيه خصلة من النفاق حتى يدعها إذا حدث كذب إذا وعد أخلف إذا عاهد غدر إذا خاصم فجر
   صحيح البخاري34عبد الله بن عمروأربع من كن فيه كان منافقا خالصا ومن كانت فيه خصلة منهن كانت فيه خصلة من النفاق حتى يدعها إذا اؤتمن خان إذا حدث كذب إذا عاهد غدر إذا خاصم فجر
   صحيح البخاري3178عبد الله بن عمروأربع خلال من كن فيه كن منافقا خالصا إذا حدث كذب وإذا وعد أخلف إذا عاهد غدر إذا خاصم فجر من كانت فيه خصلة منهن كانت فيه خصلة من النفاق حتى يدعها
   صحيح مسلم210عبد الله بن عمروأربع من كن فيه كان منافقا خالصا ومن كانت فيه خلة منهن كانت فيه خلة من نفاق حتى يدعها إذا حدث كذب إذا عاهد غدر إذا وعد أخلف إذا خاصم فجر
   جامع الترمذي2632عبد الله بن عمروأربع من كن فيه كان منافقا وإن كانت خصلة منهن فيه كانت فيه خصلة من النفاق حتى يدعها من إذا حدث كذب إذا وعد أخلف إذا خاصم فجر إذا عاهد غدر
   سنن أبي داود4688عبد الله بن عمروأربع من كن فيه فهو منافق خالص ومن كانت فيه خلة منهن كان فيه خلة من نفاق حتى يدعها إذا حدث كذب إذا وعد أخلف إذا عاهد غدر إذا خاصم فجر
   سنن النسائى الصغرى5023عبد الله بن عمروأربعة من كن فيه كان منافقا أو كانت فيه خصلة من الأربع كانت فيه خصلة من النفاق حتى يدعها إذا حدث كذب إذا وعد أخلف إذا عاهد غدر إذا خاصم فجر
   مشكوة المصابيح56عبد الله بن عمرواربع من كن فيه كان منافقا خالصا ومن كانت فيه خصلة منهن كانت فيه خصلة من النفاق حتى يدعها إذا اؤتمن خان وإذا حدث كذب وإذا عاهد غدر وإذا خاصم فجر

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 34  
´منافق کی نشانیوں کے بیان میں`
«. . . أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" أَرْبَعٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ كَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا، وَمَنْ كَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنْهُنَّ كَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنَ النِّفَاقِ حَتَّى يَدَعَهَا إِذَا، اؤْتُمِنَ خَانَ، وَإِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا عَاهَدَ غَدَرَ، وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چار عادتیں جس کسی میں ہوں تو وہ خالص منافق ہے اور جس کسی میں ان چاروں میں سے ایک عادت ہو تو وہ (بھی) نفاق ہی ہے، جب تک اسے نہ چھوڑ دے۔ (وہ یہ ہیں) جب اسے امین بنایا جائے تو (امانت میں) خیانت کرے اور بات کرتے وقت جھوٹ بولے اور جب (کسی سے) عہد کرے تو اسے پورا نہ کرے اور جب (کسی سے) لڑے تو گالیوں پر اتر آئے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 34]

تشریح:
پہلی حدیث میں اور دوسری میں کوئی تعارض نہیں۔ اس لیے کہ اس حدیث میں «منافق خالص» کے الفاظ ہیں، مطلب یہ ہے کہ جس میں چوتھی عادت بھی ہو کہ لڑائی کے وقت گالیاں بکنا شروع کرے تو اس کا نفاق ہر طرح سے مکمل ہے اور اس کی عملی زندگی سراسر نفاق کی زندگی ہے اور جس میں صرف ایک عادت ہو، تو بہرحال نفاق تو وہ بھی ہے۔ مگر کم درجے کا ہے۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد ایمان کی کمی و بیشی ثابت کرنا ہے جو ان احادیث سے ظاہر ہے نیز یہ بتلانا بھی کہ معاصی سے ایمان میں نقصان آ جاتا ہے۔

ان احادیث میں نفاق کی جتنی علامتیں ذکر ہوئی ہیں وہ عمل سے تعلق رکھتی ہیں۔ یعنی مسلمان ہونے کے بعد پھر عمل میں نفاق کا مظاہرہ ہو اور اگر نفاق قلب ہی میں ہے یعنی سرے سے ایمان ہی موجود نہیں اور محض زبان سے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کر رہا ہے تو وہ نفاق تو یقیناً کفر و شرک ہی کے برابر ہے۔ بلکہ ان سے بڑھ کر۔ آیت شریفہ «إِنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ» [النساء: 145] یعنی منافقین دوزخ کے نیچے والے درجے میں ہوں گے۔ یہ ایسے ہی اعتقادی منافقوں کے بارے میں ہے۔ البتہ نفاق کی جو علامتیں عمل میں پائی جائیں، ان کا مطلب بھی یہ ہی ہے کہ قلب کا اعتقاد اور ایمان کا پودا کمزور ہے اور اس میں نفاق کا گھن لگا ہوا ہو خواہ وہ ظاہری طور پر مسلمان بنا ہوا ہو، اس کو عملی نفاق کہتے ہیں۔

نفاق کے معنی ظاہر و باطن کے اختلاف کے ہیں۔ شرع میں منافق اس کو کہتے ہیں جس کا باطن کفر سے بھرپور ہو اور ظاہر میں وہ مسلمان بنا ہوا ہو۔ رہا ظاہری عادات مذکورہ کا اثر سو یہ بات متفق علیہ ہے کہ محض ان خصائل ذمیمہ سے مومن منافق نہیں بن سکتا۔ وہ مومن ہی رہتا ہے۔

امانت سے مراد امانت الٰہی یعنی حدود اسلامی ہیں۔ اللہ نے قرآن پاک میں اسی کے بارے میں فرمایا ہے۔ «إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ» [الاحزاب: 72] یعنی ہم نے اپنی امانت کو آسمان و زمین اور پہاڑوں پر پیش کیا مگر انہوں نے اپنی کمزوریوں کو دیکھ کر اس بار امانت کے اٹھانے سے انکار کر دیا۔ مگر انسان نے اس کے لیے اقرار کر لیا۔ اس کو معلوم نہ تھا کہ یہ کتنا بڑا بوجھ ہے اس کے بعد باہمی طور پر ہر قسم کی امانت مراد ہیں، وہ مالی ہوں یا جانی یا قولی، ان سب کو ملحوظ خاطر رکھنا اور پورے طور پر ان کی حفاظت کرنا ایمان کی پختگی کی دلیل ہے۔ بات بات میں جھوٹ بولنا بھی بڑی مذموم عادت ہے۔ خدا ہر مسلمان کو بچائے۔ آمین
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 34   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 56  
´منافق کی علامات`
«. . . ‏‏‏‏وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «أَرْبَعٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ كَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا وَمَنْ كَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنْهُنَّ كَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنَ النِّفَاقِ حَتَّى يَدَعَهَا إِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ وَإِذَا حَدَّثَ كَذَبَ وَإِذَا عَاهَدَ غَدَرَ وَإِذا خَاصم فجر» . . .»
. . . سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص میں یہ چاروں علامتیں موجود ہوں گی وہ خالص اور پکا منافق ہو گا اور جس میں ان چاروں میں سے کوئی ایک بات ہے تو نفاق کی ایک علامت ہو گی یہاں تک کہ اس کو چھوڑ دے (وہ چار باتیں یہ ہیں) جب امانت رکھی جائے تو خیانت کرے اور جب بات کرے تو جھوٹ بولے اور جب عہد و اقرار کرے تو اس کے خلاف کر کے اس کو توڑ دے اور جب جھگڑے تو گالی گلوچ بکے۔ اس حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/0: 56]

تخریج:
[صحيح بخاري 34]،
[صحيح مسلم 210]

فقہ الحدیث:
➊ گالیاں دینا کبیرہ گناہ ہے۔
➋ سچا مسلمان کبھی غدار نہیں ہوتا۔
➌ اس حدیث میں منافق کی اہم اور مشہور چار خصلتیں بیان کی گئی ہیں، جب کہ کتاب و سنت میں اس کی مزید کئی عادات و اطوار کا ذکر ملتا ہے۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث\صفحہ نمبر: 56   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5023  
´منافق کی پہچان۔`
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس میں چار چیزیں ہوں، وہ منافق ہے، یا ان چار میں سے کوئی ایک خصلت (عادت) ہو تو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے جب تک کہ وہ اسے چھوڑ نہ دے: جب بات کرے تو جھوٹ بولے، وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے، عہد و پیمان کرے تو توڑ دے، اور جب جھگڑا کرے تو گالی گلوچ کرے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الإيمان وشرائعه/حدیث: 5023]
اردو حاشہ:
(1) حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک مسلمان شخص کو اخلاق رۡذیلہ سے اجتناب کرنا چاہیئے بالخصوص وہ برے اعمال جن کاحدیث میں ذکر ہوا ہے، چیزیں عملی نفاق کو مستلزم ہیں جو تقاضائے ایمان کے باکل منافی ہیں۔ قرآن وحدیث میں کچھ اور علامات نفاق بھی مذکور ہیں، مثلا: نماز میں سستی کرنا، دکھلاوے کی عبادت کرنا، دینی معاملات میں تذبذب کاشکار ہوتا نیز ذاتی مفادات ہی کو پیش نظر رکھنا وغیرہ،تاہم اس حدیث مبارکہ میں بطور خاص جن چار چیزوں کا ذکر کیا گیاہے ان کاتعلق لوگوں کےعام باہمی معاملات سے ہے اور عموما انھی معاملات میں اتار چڑھاؤ باہمی اختلاف وفساد کا سبب بنتا ہے، اس لیے شریعت مطہرہ نے ان علامات کو نمایا ں طور پر ذکر کیا ہے۔ واللہ أعلم۔
(2) یہاں منافق سے اعتقادی منافق مراد نہیں کہ اسے دائرہ اسلام ہی سے خارج قرار دے دیا جائے کیونکہ اس (اعتقادی منافق) کا علم وحی کے بغیر نہیں ہوسکتا، بلکہ اس سے عملی منافق مراد ہے، یعنی جس کے کام منافقوں جیسے ہوں۔ اور یہ کام واقعی منافقوں کے ہیں۔مطلب یہ کہ ایسا شخص عملی منافق ہوتاہے، نیز یہ اس وقت ہےجب یہ خصلتیں اس میں بختہ ہوں اور وہ ان کا عادی بن جائے یعنی جب بھی بات کرے، جھوٹ ہی بولے۔ جب بھی وعدہ کرے، خلاف ورزی ہی کرے۔جب بھی عہد کرے، تو ڑدے وغیرہ کیونکہ کبھی کبھار جھوٹ یا وعدہ خلافی یا گالی گلوچ تو ہر ایک سے ہوسکتے ہیں۔ اتنے سے کسی کو منافق نہیں کہا جائے گا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 5023   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2632  
´منافق کی پہچان کا بیان۔`
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چار خصلتیں جس شخص میں ہوں گی وہ (مکمل) منافق ہو گا۔ اور جس میں ان میں سے کوئی ایک خصلت ہو گی، اس میں نفاق کی ایک خصلت ہو گی یہاں تک کہ وہ اسے چھوڑ دے: وہ جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے، جب جھگڑا کرے تو گالیاں بکے اور جب معاہدہ کرے تو بے وفائی کرے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الإيمان/حدیث: 2632]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس کا عمل منافقوں جیسا ہے۔
اس کے عمل میں نفاق ہے،
لیکن ہم اس کے منافق ہونے کا فیصلہ نہیں کرسکتے۔
اسے اس کے ایمان میں جھوٹا ٹھہرا کر منافق قرار نہیں دے سکتے۔
ایسا تو صرف رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ہوسکتا تھا۔
کیوں کہ آپ ﷺ صاحب وحی تھے،
وحی الٰہی کی روشنی میں آپﷺ کسی کے بارے میں کہہ سکتے تھے کہ فلاں منافق ہے مگر ہمیں اور آپ کو کسی کے منافق ہونے کا فیصلہ کرنے کاحق و اختیار نہیں ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2632   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4688  
´ایمان کی کمی اور زیادتی کے دلائل کا بیان۔`
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چار خصلتیں جس میں ہوں وہ خالص منافق ہے اور جس میں ان میں سے کوئی ایک خصلت ہو تو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے یہاں تک کہ وہ اسے چھوڑ دے: جب بات کرے تو جھوٹ بولے، وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے، معاہدہ کرے تو اس کو نہ نبھائے، اگر کسی سے جھگڑا کرے تو گالی گلوچ دے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4688]
فوائد ومسائل:
نفاق بنیادی طور پر قول وعمل کے شدید تضاد کا نام ہے، اگر کسی نے اقرارباللسان کیا، لیکن اس کے اعمال اس کے برعکس ہیں تو اس کا اقرار غیر حقیقی یا انتہائی کمزورہے۔
آپؐ نے جن چیزوں کو علامات نفاق قراردیا ہے وہ اعمال شنیعہ ہی ہیں۔
یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ اعمال سے ایمان میں کمی بیشی ہوتی ہے۔
یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اگر چہ کسی پر مسلمان ہونے یا نہ ہونے کا حکم اس کے دعوی اور اعمال کے مطابق لگایا جاسکتا ہے، لیکن بعض بنیادی عمل ایسے ہیں کہ صرف زبانی اقرار والے عموماان کا اہتمام نہیں کرسکتے۔
چاہے وہ بڑے بڑے اعمال جیسے نماز وغیرہ کا اہتمام کرتے بھی ہوں، جہاں نیکی ایمان میں اضافے اور ترقی کا باعث بنتی ہے تو وہاں ہر گناہ اور برائی ایمان میں کمی لاتی ہے اور کسی مسلمان میں نفاق کی علامتوں کا پایا جانا ہی قبیح اور بڑا عیب ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4688   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.