الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: زیب و زینت اور آرائش کے احکام و مسائل
The Book of Adornment
14. بَابُ : الإِذْنِ بِالْخِضَابِ
14. باب: خضاب لگانے کی اجازت کا بیان۔
Chapter: Permission to Dye the Hair
حدیث نمبر: 5072
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
اخبرنا عبيد الله بن سعد بن إبراهيم، قال: حدثنا عمي، قال: حدثنا ابي، عن صالح، عن ابن شهاب، قال: قال ابو سلمة: إن ابا هريرة، قال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم. ح واخبرنا يونس بن عبد الاعلى، قال: انبانا ابن وهب، قال: اخبرني يونس، عن ابن شهاب، عن ابي سلمة بن عبد الرحمن اخبره، عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" اليهود , والنصارى لا تصبغ فخالفوهم".
أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَمِّي، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ صَالِحٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: قَالَ أَبُو سَلَمَةَ: إِنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. ح وأَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَخْبَرَهُ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" الْيَهُودُ , وَالنَّصَارَى لَا تَصْبُغُ فَخَالِفُوهُمْ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہود و نصاریٰ خضاب نہیں لگاتے، لہٰذا تم ان کی مخالفت کرو۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأنبیاء 50 (3462)، (تحفة الأشراف: 15190، 15347)، مسند احمد (2/240، 260، 309، 401) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی ان کی مخالفت میں خضاب لگاؤ۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5072  
´خضاب لگانے کی اجازت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہود و نصاریٰ خضاب نہیں لگاتے، لہٰذا تم ان کی مخالفت کرو۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الزينة من السنن/حدیث: 5072]
اردو حاشہ:
(1) مخالفت کرنے سے مراد بال رنگنا ہے اور اس کی کئی صورتیں ہیں:٭ان کو سیاہ رنگ سے رنگ لیا جائے۔ لیکن حدیث میں اس کی ممانعت ہے۔٭ حنا، یعنی مہندی سے رنگا جائے اور حنا کا رنگ معروف ہے یعنی سرخ۔٭ حنا اور کتم سے رنگا جائے اور یہ رنگ سیاہی مائل سرخ ہوتا ہے۔
(2) ڈاڑھی اور سرکے بالوں کو رنگنا واجب ہے یا مستحب؟ اس مسئلے میں اہل علم کا اختلاف ہے، تاہم حق یہ ہے کہ احادیث مبارکہ میں بالوں کو رنگنے ہی کا حکم ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: «ان اليهود والنصارى لايصبغون فخالفوهم» یہودی اورعیسائی اپنے بال نہیں رنگتے، تم ان کی مخالفت کرو، یعنی بالوں کو رنگو۔ (صحیح البخاري، اللباس، باب الخضاب، حدیث:5899، وصحیح مسلم، اللباس، باب فی مخالفة الیهود فی الصبغ، حدیث:2103) اس حدیث میں مطلقاً مخالفت کا حکم ہے۔ مطلب یہ ہے کہ بالوں کو سفید نہ رہنے دو بلکہ ان کو رنگ لو، خواہ کسی رنگ سے ہو، بالوں کو کالا کرنے کے قائل اسی مطلق حکم سے استدلال کرتے ہیں لیکن یہ استدلال درست نہیں کیونکہ نبی ﷺ نے بالکل سیاہ رنگ کے خضاب سے منع فرمایا ہے جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے کہ فتح مکہ والے دن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے والد حضرت ابوقحافہ رضی اللہ عنہ کو نبی ﷺ کی خدمت میں لایا گیا تو ان کےسر اور ڈاڑھی کے بال ثغامہ بوٹی کی طرح سفید تھے۔ نبی ﷺ نے انہیں دیکھ کر فرمایا: «غيروا هذا بشئ واجتنبوا لسواد» اسے کسی رنگ سے بدل دو لیکن سیاہ رنگ سے بچنا۔ (صحیح مسلم، اللباس، باب استحباب خضاب الشیب.... حدیث:2102) اس حدیث مبارکہ سے واضح ہوگیا کہ سراور ڈاڑھی کے بالوں کو رنگنے کا حکم تو ہے لیکن کالے رنگ کے علاوہ کسی اور رنگ سے انہیں رنگا جائے گا۔ باقی رہا یہ مسئلہ کہ بالوں کو رنگنا فرض ہے یا مستحب؟ تو اس کے متعلق علماء کی دونوں رائے ہیں۔ بعض اہل علم وجوب کے قائل ہیں اور بعض اسے مستحب ہی سمجھتے ہیں۔ ہمارے خیال میں استحباب والا موقف اقرب الی الصواب ہے۔ حافظ عبدالمنان رحمہ اللہ ایک استفتا کا جواب دیتے ہوئے رقم طراز ہیں: احادیث میں رسول اللہ ﷺ کےبالوں کو رنگنے کا بھی ذکر ہے اور نہ رنگنے کا بھی جس سے پتا چلتا ہے کہ آپ کا رنگنے سےمتعلق امر ندب (استحباب) پرمحمول ہے، البتہ کل کے کل بال سفید ہوجائیں کوئی ایک بال بھی سیاہ نہ رہے تو پھر رنگنے کی مزید تاکید ہے جیسا کہ ابوقحافہ، والد ابی بکر رضی اللہ عنہما والی حدیث سے عیاں ہے۔ دیکھئے (احکام ومسائل:531/1) مولانا صفی الرحمن مبارک پوری رحمہ اللہ صحیح مسلم کی شرح میں لکھتے ہیں خضاب کا حکم استحباب کےلیے ہونا چاہیے نہ کہ وجوب کے لیے، اس کےلیے کہ حضرت علی، ابی بن کعب، سلمہ بن اکوع اور حضرت انس اور صحابہ کی ایک جماعت نے خضاب کے حکم پر عمل نہیں کیا۔ رضی اللہ عنہم۔ مزید برآں یہ کہ ان کے علاوہ دوسرے بہت سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا طرز عمل بھی اس پر شاید ہے۔ گویا انہوں نے اس کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ان میں ممتاز ہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 5072   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.