الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: زیب و زینت اور آرائش کے احکام و مسائل
The Book of Adornment
37. بَابُ : النَّهْىِ لِلْمَرْأَةِ أَنْ تَشْهَدَ الصَّلاَةَ إِذَا أَصَابَتْ مِنَ الْبَخُورِ
37. باب: عورت خوشبو لگا کر نماز پڑھنے کے لیے مسجد نہ جائے۔
Chapter: Prohibition of Women Attending the Prayer if they Have Perfumed Themselves with Incense
حدیث نمبر: 5131
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
اخبرنا محمد بن هشام بن عيسى البغدادي، قال: حدثنا ابو علقمة الفروي عبد الله بن محمد , قال: حدثني يزيد بن خصيفة، عن بسر بن سعيد، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ايما امراة اصابت بخورا فلا تشهد معنا العشاء الآخرة". قال ابو عبد الرحمن: لا اعلم احدا تابع يزيد بن خصيفة، عن بسر بن سعيد على قوله، عن ابي هريرة. وقد خالفه يعقوب بن عبد الله بن الاشج رواه , عن زينب الثقفية.
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ هِشَامِ بْنِ عِيسَى الْبَغْدَادِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَلْقَمَةَ الْفَرْوِيُّ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ , قَالَ: حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ خُصَيْفَةَ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَيُّمَا امْرَأَةٍ أَصَابَتْ بَخُورًا فَلَا تَشْهَدْ مَعَنَا الْعِشَاءَ الْآخِرَةَ". قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: لَا أَعْلَمُ أَحَدًا تَابَعَ يَزِيدَ بْنَ خُصَيْفَةَ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ عَلَى قَوْلِهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ. وَقَدْ خَالَفَهُ يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَشَجِّ رَوَاهُ , عَنْ زَيْنَبَ الثَّقَفِيَّةِ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب عورت خوشبو لگائے ہو تو ہمارے ساتھ عشاء کی جماعت میں نہ آئے۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: مجھے نہیں معلوم کہ کسی نے یزید بن خصیفہ کی بسر بن سعید سے روایت کرتے ہوئے «عن ابی ھریرہ» کہنے میں متابعت کی ہو۔ اس کے برعکس یعقوب بن عبداللہ بن اشج نے اسے روایت کرنے میں «عن زینب الثقفیۃ» کہا ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصلاة 30 (444)، سنن ابی داود/الترجل 7 (4175)، (تحفة الأشراف: 12207)، مسند احمد (2/304)، ویأتي عند المؤلف برقم: 5265 (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یزید بن خصیفہ کی روایت صحیح مسلم میں بھی ہے، یہ بالکل ممکن ہے کہ روایت یزید کے پاس دونوں سندوں سے ہو۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم
   صحيح مسلم998عبد الرحمن بن صخرأيما امرأة أصابت بخورا فلا تشهد معنا العشاء الآخرة
   سنن أبي داود4175عبد الرحمن بن صخرأيما امرأة أصابت بخورا فلا تشهدن معنا العشاء
   سنن النسائى الصغرى5130عبد الرحمن بن صخرإذا خرجت المرأة إلى المسجد فلتغتسل من الطيب كما تغتسل من الجنابة
   سنن النسائى الصغرى5131عبد الرحمن بن صخرأيما امرأة أصابت بخورا فلا تشهد معنا العشاء الآخرة
   سنن النسائى الصغرى5265عبد الرحمن بن صخرأيما امرأة أصابت بخورا فلا تشهد معنا العشاء الآخرة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ غلام مصطفٰے ظهير امن پوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح مسلم 998  
فوائد و مسائل:
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، بیان کرتے ہیں:
«خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: مالي أراكم رافعي أيديكم كأنها أذناب خيل شمس؟ اسكنوا فى الصلاة!»
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا، مجھے کیا ہے کہ میں تمہیں شریر گھوڑوں کی دموں کی طرح ہاتھ اٹھائے ہوئے دیکھ رہا ہوں، نماز میں سکون کیا کرو!۔ [صحيح مسلم181/1،ح:430]
تبصرہ:
➊ اس صحیح حدیث میں رکوع کو جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کی نفی نہیں ہے، بلکہ محدیثین کرام کا اس بات پر اجماع ہے کہ اس کا تعلق تشہد اور سلام کے ساتھ ہے، نہ کہ قیام کے ساتھ، تمیم بن طرفہ کی یہی روایت اختصار کے ساتھ مسند الامام احمد [93/5] میں موجود ہے، جس میں «وهم قعود» (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمان اس حال میں جاری فرمایا کہ صحابہ کرام تشہد میں بیٹھے ہوئے تھے) کے الفاظ ہیں، اس کی وضاھت و تائید دوسری روایت میں سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کے ان الفاظ سے بھی ہوتی ہے:
«كنا اذا صلينا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم قلنا: السلام عليكم ورحمه الله، السلام عليكم ورحمة الله، وأشار بيده الي الجانبين، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: علام تؤمون بأيديكم كأنها أذناب خيل شمس؟ انما يكفي أحدكم أن يضع يده على فخذه، ثم يسلم على أخيه من على يمينه وشماله.»
ہم جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (باجماعت) نماز پڑھتے تھے تو السلام علیکم ورحمۃ اللہ، السلام علیکم ورحمۃ کہتے، انہوں نے اپنے ہاتھ کے ساتھ دونوں جانب اشارہ کیا، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تم اپنے ہاتھوں کے ساتھ یوں اشارہ کیوں کرتے ہو، جیسے وہ شریر گھوڑوں کی دمیں ہوں؟ تم میں سے کسی کو یہ کافی ہے کہ وہ اپنے ہاتھ کو اپنی ران پر رکھے، پھر اپنے بھائی ساتھ نماز پڑھنے والے پر دائیں اور بائیں سلام کہے۔‏‏‏‏ [صحيح مسلم: 181/1 ح: 431]

اس روایت نے بھی اوپر والی روایت کا مطلب واضح کر دیا ہے، اس پر مستزاد محدثین کا فہم سونے پر سہاگہ ہے، لہٰذا اس حدیث سے رفع الیدین کے منسوخ ہونے کا دعویٰ کرنا اہل حق کو زیبا نہیں، کسی محدیث نے اس حدیث کو عدم رفع الیدین کے لیے پیش نہیں کیا، ایک مومن کا ایمان اس بات کو کیسے تسلیم کر لے کہ جو کام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پہلے خود کرتے تھے، وہی کام اپنے صحابہ کو کرتے دیکھا تو اس کو سرکش گھوڑوں کی دموں کی حرکت سے تشبیہ دے دی؟

◈ اس حدیث کے بارے میں دیوبندیوں کے شیخ الہند محمود الحسن دیوبندی صاحب کہتے ہیں:
باقی اذناب خیل کی روایت سے جواب دینا ازروئے انصاف درست نہیں، کیونکہ وہ سلام کے بارے میں ہے۔ [تقارير شيخ الهند:65، مطبوعه اداره تاليفات اشرفيه ملتان]

◈ اس حدیث کے بارے میں جناب محمد تقی عثمانی حیاتی دیوبندی کہتے ہیں:
لیکن انصاف کی بات یہ ہے کہ اس حدیث سے حنفیہ کا استدلال مشتبہ اور کمزور ہے، کیونکہ ابن القبطیہ کی روایت میں سلام کے وقت کی جو تصریح موجود ہے، اس کی موجودگی میں ظاہر اور متبادر یہی ہے کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث رفع عند السلام سے متعلق ہے اور دونوں حدیثوں کو الگ الگ قرار دینا جب کہ دونوں کا راوی بھی ایک ہے اور متن بھی قریب قریب ہے، بُعد سے خالی نہیں، حقیقت یہی ہے کہ حدیث ایک ہی ہے اور رفع عندالسلام سے متعلق ہے، ابن القبطیہ کا طریق مفصل ہے اور دوسرا مختصر و مجمل، لہذا دوسرے طریق کو پہلے طریق پر ہی محمول کرنا چاہیے، شاید یہی وجہ ہے کہ حضرت انور شاہ صاحب کشمیری نور اللہ مرقہ نے اس حدیث کو حنفیہ کے دلائل میں ذکر نہیں کیا۔

◈ مشہور حنفی، امام ابن ابی العز رحمہ اللہ (م 792ھ) اس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں۔۔۔:
«وما استدل به من حديث جابر بن سمرة رضى الله عنه قال: خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: مالي أراكم رافعي أيديكم كأنها أذناب خيل شمس؟ اسكنوا فى الصلاة! رواه مسلم، وأن الأمر بالسكون فى الصلاة ينافي الرفع عندالركوع والرفع منه لا يقوي، لأنه قد جاء فى رواية أخري لمسلم عنه، قال: صلينا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فكنا اذا سلمنا، قلنا بأيدينا: السلام عليكم، فنظر الينا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: ما لكم تشيرون بأيديكم كأنها أذناب خيل شمس، اذا سلم أحدكم فليلتفت الي صاحبه، ولا يؤمي بيده۔ وأيضا فلا نسلم أن الأمر بالسكون فى الصلا ينافي الرفع عند الركوع والرفع منه، لأن الأمر بالسكون ليس المراد منه ترك الحركة فى الصلاة مطلقا، بل الحركة المنافية للصلاة بدليل شرع الحركة للركوع والسجود ورفع اليدين عند تكبيرة الافتتاح وتكبير القنوت وتكبيرات العيدين، فان قيل: خرج ذلك بدليل، قيل: وكذلك خرج الرفع عند الركوع والرفع منه بدليل، فعلم أن المراد منه الاشارة بالسلام باليد.»
اور جو سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی صحیح مسلم والی حدیث سے استدلال کیا جاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سرکش گھوڑوں کی دموں کی طرح ہاتھ اٹھانے سے منع فرمایا اور نماز میں سکون کا حکم فرمایا، نیز یہ کہنا کہ نماز میں سکون کا حکم رکوع جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کے منافی ہے، کوئی قوی بات نہیں، کیونکہ جابر رضی اللہ عنہ سے ہی مروی صحیح مسلم کی دوسری روایت میں ہے، ہم (صحابہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (باجماعت) نماز پڑھتے تھے، جب ہم سلام پھیرتے تو اپنے ہاتھوں کے ساتھ (اشارہ کر کے) السلام علیکم کہتے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری طرف دیکھا تو فرمایا، تمہیں کیا ہے کہ تم اپنے ہاتھوں کے ساتھ ایسے اشارہ کرتے ہو، جیسے وہ شریر گھوڑوں کی دمیں ہوں، جب تم میں سے کوئی سلام پھیرے تو اپنے (ساتھ والے) بھائی کی طرف منہ پھیرے، ہاتھ کے ساتھ اشارہ نہ کرے۔ اسی طرح ہم اس بات کو بھی تسلیم نہیں کرتے کہ نماز میں سکون کا حکم رکوع کو جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کی نفی کرتا ہے، کیونکہ سکون کے حکم سے مراد یہ نہیں کہ نماز میں بالکل حرکت ختم چھوڑ دی جائے، بلکہ اس حرکت کی نفی ہے جو نماز کے منافی ہے، دلیل یہ ہے کہ رکوع، سجدہ، تکبیر تحریمہ، قنوت کی تکبیر اور عیدین کی تکبیرات کے ساتھ رفع الیدین مشروع ہے(وہ بھی تو حرکت ہے)۔ اگر کوئی یہ کہے کہ یہ حرکت دلیل کے ساتھ (ممانعت سے) خارج ہو گئی ہے۔ تو اسے بھی یہی جواب دیا جائے گا کہ رکوع کو جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت کی رفع الیدین بھی دلیل کے ساتھ (ممانعت سے) خارج ہوگئی ہے۔ معلوم ہوا کہ اس (صحیح مسلم کی حدیث جابر رضی اللہ عنہ) سے مراد سلام کے وقت ہاتھ سے اشارہ کرنا ہے۔ [التنبيه على مشكلات الهداية لابن ابي العز الحنفي: 570/2، 571]
↰ اتنی وضاحت کے بعد بھی اگر کوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری سنت رفع الیدین کے خلاف یہ حدیث پیش کرے تو اس پر افسوس ہے کہ وہ جہالت پر مبنی اس طرح کی بعید و عجیب باتیں کرتا ہے!

◈ حافظ ابن الملقن رحمہ اللہ (723۔804ھ) اس حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں:
«وهو حديث جابر بن سمرة، فجعله معارضا لما قدمناه من أقبح الجهالات لسنة سيدنا رسول الله صلى الله عليه وسلم، لأنه لم يرد فى رفع الأيدي فى الركوع والرفع منه، وانما كانوا يرفعون أيديهم فى حالة السلام من الصلاة ويشيرون بها الي الجانبين، يريدون بذلك السلام على من على الجانبين، وهذا لا اختلاف فيه بين أهل الحديث، ومن له أدني اختلاط بأهله، وبرهان ذلك أن مسلم بن الحجاج رواه فى صحيحه من طريقين.»
وہ جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے، اسے ہماری پیش کردہ روایات (رفع الیدین) کے مخالف بنانا ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے قبیح ترین جہالت ہے، کیونکہ یہ حدیث رکوع کو جانے اور رکوع سے سر اٹھانے کے بارے میں نہیں ہے، اصل بات یہ ہے کہ صحابہ کرام نماز سے سلام پھیرنے کی حالت میں اپنے ہاتھوں کو اٹھا کر دونوں طرف اشارہ کرتے تھے، وہ اس سے سلام کرنے کا ارادہ کرتے تھے، اس بارے میں محدثین اور ان سے ادنیٰ سا بھی تعلق رکھنے والوں مین کوئی اختلاف نہیں، اس کی دلیل یہ ہے کہ امام مسلم نے اس حدیث کو اپنی صحیح میں دو سندوں کے ساتھ روایت کیا ہے۔۔۔ [البدر المنير لابن الملقن:485/3]

◈ شارح مسلم حافظ نووی رحمہ اللہ (م 676ھ) لکھتے ہیں:
«وأما حديث جابر بن سمرة، فاحتجاجهم به من أعجب الأشياء، وأقبح أنواع الجهالة بالسنة، لأن الحديث لم يرد فى رفع الأيدي فى الركوع والرفع منه، ولكنهم كانوا يرفعون أيديهم فى حالة السلام من الصلاة ويشيرون بها الي الجانبين، يريدون بذلك السلام على من عن الجانبين، وهذا لا خلاف فيه بين أهل الحديث ومن له أدني اختلاط بأهل الحديث، ويبينه أن مسلم بن الحجاج رحمه الله رواه فى صحيحه من طريقين.»
رہی سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث تو ان (احناف) کا اس سے دلیل لینا بہت بڑا عجوبہ اور سنت رسول سے جہالت کا قبیح ترین نمونہ ہے، کیونکہ یہ حدیث رکوع جاتے اور سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کے بارے میں نہیں، بلکہ صحابہ کرام نماز سے سلام پھیرنے کی حالت میں اپنے ہاتھوں کو اٹھاتے اور ان کے ساتھ دونوں جانب اشارہ کرتے تھے، ان کا ارادہ دونوں جانب سلام کرنے کا ہوتا تھا۔ اس بات میں محدثین اور ان سے ادنیٰ سا تعلق رکھنے والوں میں سے کسی کا کوئی اختلاف نہیں، اس کی وضاحت اس بات سے ہوتی ہے کہ امام مسلم بن الحجاج رحمہ اللہ نے اس حدیث کو اپنی صحیح میں دو سندوں سے روایت کیا ہے۔ [المجموع:403/3]

◈ امام ابن حبان رحمہ اللہ (م354ھ) نے اس حدیث پر یوں باب قائم کیا ہے:
«ذكر الخبر المقتضي للفظة المختصرة التى تقدم ذكرنا لها، بأن القوم انما بالسكون فى الصلاة عند الاشارة بالتسليم دون رفع اليدين عند الركوع.»
اس حدیث کا بیان جو تقاضا کرتی ہے کہ ہمارے پہلے ذکر کردہ مختصر الفاظ سے مراد یہ ہے کہ صحابہ کرام کو صرف نماز میں سلام کا اشارہ کرتے وقت سکون کا حکم دیا گیا تھا، نہ کہ رکوع میں رفع الیدین کرتے وقت۔ [صحيح ابن حبان:تحت حديث:1880]

◈ امیر المؤمنین فی الحدیث، فقیہ الامت، سیدنا امام بخاری رحمہ اللہ (م256ھ) اس حدیث جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں لکھتے ہیں:
«فانما كان هذا التشهد، لا فى القيام، كان يسلم يعضهم على بعض، فنهي النبى صلى الله عليه وسلم عن رفع الأيدي فى التشهد، ولا يحتج بهذا من لا حظ من العلم، هذا معروف مشهور، لا اختلاف فيه، ولو كان كما ذهب اليه لكان رفع الأيدي فى أول التكبيرة وأيضا تكبيرات صلاة العيدين منهيا عنها، لأنه لم يستثن رفعا دون رفع، وقد بينه حديث.»
یہ حدیث تشہد کے بارے میں تھی، نہ کہ قیام کے بارے میں، صحابہ کرام (ہاتھ اٹھا کر) ایک دوسرے پر سلام کہتے تھے، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تشہد میں ہاتھوں کو اٹھانے سے منع فرما دیا، اس حدیث سے کوئی بھی ایسا شخص (رفع الیدین کی ممانعت پر) دلیل نہیں لے گا جس کو علم کا کچھ حصہ نصیب ہوا ہو، یہ بات مشہور و معروف ہے، اس میں کوئی اختلاف نہیں، اگر بات ایسے ہوتی، جیسے یہ مانع (مانع رفع الیدین) گیا ہے تو پہلی تکبیر اور عید کی تکبیرات کے ساتھ رفع الیدین بھی منع ہونا چاہیے تھا، کیونکہ (اس حدیث میں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رفع الیدین کا کوئی موقع مستثنیٰ نہیں فرمایا، پھر (دوسری) حدیث نے بھی اس کی وضاحت کر دی ہے۔ [جزء رفع اليدين للامام البخاري:ص61۔62]

➋ اگر رفع الیدین نماز میں سکون کے منافی ہے تو شروع نماز میں، نیز وتروں اور عیدین کا رفع الیدین کیوں کیا جاتا ہے؟ شروع نماز رفع الیدین نماز میں داخل ہے، جیسا کہ سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: «كان اذا كبر رفع يديه.» نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب اللہ اکبر کہتے تو رفع الیدین کرتے تھے۔ [صحيح مسلم: 168/1 ح: 391] یہ بات مسلم ہے کہ نماز تکبیر تحریمہ سے شروع ہو جاتی ہے۔

الحاصل:
حدیث جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کا تعلق بلااختلاف سلام کے ساتھ ہے، اس عدم رفع الیدین لینے والا امام بخاری، حافظ نووي اور حافظ ابن الملقن رحمہم اللہ کے نزدیک جاہل اور محمود الحسن دیوبندی وتقی عثمانی دیوبندی صاحبان کے نزدیک ناانصاف ہے۔
   ماہنامہ السنہ جہلم ، شمارہ نمبر 12، حدیث\صفحہ نمبر: 968   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5131  
´عورت خوشبو لگا کر نماز پڑھنے کے لیے مسجد نہ جائے۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب عورت خوشبو لگائے ہو تو ہمارے ساتھ عشاء کی جماعت میں نہ آئے۔‏‏‏‏ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: مجھے نہیں معلوم کہ کسی نے یزید بن خصیفہ کی بسر بن سعید سے روایت کرتے ہوئے «عن ابی ھریرہ» کہنے میں متابعت کی ہو۔ اس کے برعکس یعقوب بن عبداللہ بن اشج نے اسے روایت کرنے میں «عن زینب الثقفیۃ» کہا ہے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الزينة من السنن/حدیث: 5131]
اردو حاشہ:
(1) امام نسائیؒ کے اس قول کا مطلب یہ ہے کہ مذکورہ روایت یزید بن خصیفہ نے بسر بن سعید سے بیان کی ہے اوراسے حضرت ہریرہ رضی اللہ عنہ کی مسند بنایا ہے جب کہ ان کے علاوہ کسی نے بھی اسے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی مسند نہیں بنایا کہ بلکہ یعقوب بن عبداللہ بن اشج نے یزید کی مخالفت کی ہے اوراس روایت کو بسر بن سعید سے بیان کرتے ہوئے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی بجائے حضرت زینب ثقفیہ رضی اللہ عنہا (حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی اہلیہ محترمہ) کی مسند بنایا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ امام نسائیؒ کے نزدیک یعقوب بن عبداللہ بن اشج کی روایت راجح ہے۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ یزید بن عبداللہ بن خصیفہ ثقہ راوی ہے اور ثقہ راوی کی حدیث میں زیادتی، جبکہ وہ اوثق کی روایت کے منافی یا اس کے مخالف نہ ہو، تو قابل قبول ہوتی ہے، لہٰذا یعقوب بن عبداللہ بن اشج کی مخالفت سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ واللہ أعلم۔
(2) اس حدیث مبارکہ سے یہ اہم مسئلہ ثابت ہوتا ہے کہ عورتیں نماز پڑھنے کی خاطر مسجد جا سکتی ہیں۔
(3) بخور ایک قسم کی خوشبو ہے۔ جب اسے آگ سے سلگایا جاتا ہے تو خوشبو محسوس ہوتی ہے، جیسے آج کل اگربتی وغیرہ۔ لیکن یہاں عام خوشبو مراد ہے کیونکہ کسی قسم کی خوشبو لگا کر بھی گھر سے باہر جانا عورت کے لیے جائز نہیں، خواہ مسجد کو جائے یا کہیں اور۔ عشاء کی نماز کا خصوصی ذکر اس لیے کہ اندھیرے میں عورتوں کے لیے خطرہ زیادہ ہوتا ہے یا اس لیے کہ عورتیں اپنے خاوندوں کے لیے عموماً رات کو خوشبو لگاتی ہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 5131   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.