الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: حج کے احکام و مناسک
The Book on Hajj
46. باب مَا جَاءَ فِي الصَّلاَةِ فِي الْكَعْبَةِ
46. باب: کعبہ کے اندر نماز پڑھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 874
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا قتيبة، حدثنا حماد بن زيد، عن عمرو بن دينار، عن ابن عمر، عن بلال، ان النبي صلى الله عليه وسلم " صلى في جوف الكعبة ". قال ابن عباس: لم يصل ولكنه كبر، قال: وفي الباب عن اسامة بن زيد، والفضل بن عباس، وعثمان بن طلحة، وشيبة بن عثمان. قال ابو عيسى: حديث بلال حديث حسن صحيح، والعمل عليه عند اكثر اهل العلم لا يرون بالصلاة في الكعبة باسا، وقال مالك بن انس: لا باس بالصلاة النافلة في الكعبة، وكره ان تصلى المكتوبة في الكعبة، وقال الشافعي: لا باس ان تصلى المكتوبة والتطوع في الكعبة، لان حكم النافلة والمكتوبة في الطهارة والقبلة سواء.حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ بِلَالٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " صَلَّى فِي جَوْفِ الْكَعْبَةِ ". قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لَمْ يُصَلِّ وَلَكِنَّهُ كَبَّرَ، قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، وَالْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ، وَعُثْمَانَ بْنِ طَلْحَةَ، وَشَيْبَةَ بْنِ عُثْمَانَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ بِلَالٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ لَا يَرَوْنَ بِالصَّلَاةِ فِي الْكَعْبَةِ بَأْسًا، وقَالَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ: لَا بَأْسَ بِالصَّلَاةِ النَّافِلَةِ فِي الْكَعْبَةِ، وَكَرِهَ أَنْ تُصَلَّى الْمَكْتُوبَةُ فِي الْكَعْبَةِ، وقَالَ الشَّافِعِيُّ: لَا بَأْسَ أَنْ تُصَلَّى الْمَكْتُوبَةُ وَالتَّطَوُّعُ فِي الْكَعْبَةِ، لِأَنَّ حُكْمَ النَّافِلَةِ وَالْمَكْتُوبَةِ فِي الطَّهَارَةِ وَالْقِبْلَةِ سَوَاءٌ.
بلال رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کے اندر نماز پڑھی۔ جب کہ ابن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں: آپ نے نماز نہیں پڑھی بلکہ آپ نے صرف تکبیر کہی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- بلال رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں اسامہ بن زید، فضل بن عباس، عثمان بن طلحہ اور شیبہ بن عثمان رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ وہ کعبہ کے اندر نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے،
۴- مالک بن انس کہتے ہیں: کعبے میں نفل نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں، اور انہوں نے کعبہ کے اندر فرض نماز پڑھنے کو مکروہ کہا ہے،
۵- شافعی کہتے ہیں: کعبہ کے اندر فرض اور نفل کوئی بھی نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں اس لیے کہ نفل اور فرض کا حکم وضو اور قبلے کے بارے میں ایک ہی ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 2039) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/الصلاة 30 (397)، و81 (486)، و96 (504)، والتہجد 25 (1167)، والحج 51 (1598)، والجہاد 127 (2988)، والمغازي 49 (4289)، و77 (4400)، صحیح مسلم/الحج 28 (1329)، سنن ابی داود/ الحج 93 (2023)، سنن النسائی/المساجد 5 (691)، والقبلة 6 (748)، والحج 126 (2908)، و127 (2909)، سنن ابن ماجہ/المناسک 79 (3063)، موطا امام مالک/الحج 63 (193)، مسند احمد (2/33، 55، 113، 1200، 138)، سنن الدارمی/المناسک 43 (1908) من غیر ہذا الطریق وبتغیر یسیر فی السیاق۔»

وضاحت:
۱؎: راجح بلال رضی الله عنہ کی روایت ہے کیونکہ اس سے کعبہ کے اندر نماز پڑھنا ثابت ہو رہا ہے، رہی ابن عباس رضی الله عنہما کی نفی، تو یہ نفی ان کے اپنے علم کی بنیاد پر ہے کیونکہ اسامہ بن زید رضی الله عنہما نے انہیں اسی کی خبر دی تھی اور اسامہ کے اس سے انکار کی وجہ یہ ہے کہ جب یہ لوگ کعبہ کے اندر گئے تو ان لوگوں نے دروازہ بند کر لیا اور ذکر و دعا میں مشغول ہو گئے جب اسامہ نے دیکھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دعا میں مشغول ہیں تو وہ بھی ایک گوشے میں جا کر دعا میں مشغول ہو گئے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دوسرے گوشے میں تھے اور بلال رضی الله عنہ آپ سے قریب تھے اور آپ دونوں کے بیچ میں تھے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز چونکہ بہت ہلکی تھی اور اسامہ خود ذکر و دعا میں مشغول و منہمک تھے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے بیچ میں بلال حائل تھے اس لیے اسامہ کو آپ کے نماز پڑھنے کا علم نہ ہو سکا ہو گا اسی بنا پر انہوں نے اس کی نفی کی، «واللہ اعلم» ۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3063)
   صحيح البخاري505بلال بن رباحجعل عمودا عن يساره وعمودا عن يمينه وثلاثة أعمدة وراءه كان البيت يومئذ على ستة أعمدة ثم صلى
   صحيح البخاري397بلال بن رباحبين الساريتين اللتين على يساره
   جامع الترمذي874بلال بن رباحصلى في جوف الكعبة
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم190بلال بن رباحجعل عمودا عن يساره وعمودين عن يمينه وثلاثة اعمدة وراءه
   مسندالحميدي149بلال بن رباحبين العمودين المقدمين

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 190  
´بیت اللہ کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہونے والا جدھر بھی رخ کر کے نماز پڑھے جائز ہے`
«. . . 226- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم دخل الكعبة هو وأسامة بن زيد وبلال وعثمان ابن طلحة الحجبي فأغلقها عليه ومكث فيها. قال عبد الله بن عمر: فسألت بلالا حين خرج: ماذا صنع رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقال: جعل عمودا عن يساره وعمودين عن يمينه وثلاثة أعمدة وراءه، وكان البيت يومئذ على ستة أعمدة، ثم صلى وجعل بينه وبين الجدار نحوا من ثلاثة أذرع. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، اسامہ بن زید، بلال اور عثمان بن طلحہ الحجمی رضی اللہ عنہم کعبۃ اللہ میں داخل ہوئے تو دروازہ بند کر کے وہاں ٹھہرے رہے، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر آئے تو میں نے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا عمل فرمایا تھا؟ تو انہوں نے جواب دیا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح کھڑے ہوئے کہ بائیں طرف ایک ستون تھا، دائیں طرف دو ستون تھے اور پچھلی طرف تین ستون تھے ان دنوں بیت اللہ کے چھ ستون تھے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی، آپ کے اور دیوار کے درمیان تین ہاتھ کا فاصلہ تھا . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 190]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 505، ومسلم 1329، من حديث مالك به]
تفقہ
➊ کعبہ کے اندر (جدھر بھی رخ کیا جائے) نماز جائز ہے۔
➋ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بیت اللہ کے چھ ستوں تھے۔
➌ جن لوگوں کے پاس بیت اللہ کے انتظام کی ذمہ داری ہے اُن کے لئے جائز ہے کہ بیت اللہ کا دروازہ عام لوگوں کے لئے بند رکھیں۔
➍ راوی سے روایت لینا تقلید نہیں ہے ورنہ یہ لازم آئے گا کہ مجتہدین کو مقلدین کے زمرے میں شامل کیا جائے۔
➎ جب دونوں راوی ثقہ ہوں تو نفی پر اثبات مقدم ہے۔ مثلاً ایک راوی کہتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ میں نماز نہیں پڑھی اور دوسرے راوی نے کہا: آپ نے کعبہ میں نماز پڑھی ہے تو دوسرے راوی کو ہی ترجیح حاصل ہو گی۔
➏ ثقہ کی زیادت مقبول ہے اِلا یہ کہ دوسرے ثقہ راویوں کے خلاف ہو اور تطبیق وغیرہ ممکن نہ ہو سکے۔
➐ کتنا ہی بڑا عالم کیوں نہ ہو! یہ ممکن ہے کہ بعض ایسی حدیثیں اُس سے مخفی رہ جائیں جو دوسروں کو معلوم ہوں لہٰذا اندھا دھند ترکِ ادلہ اور غلو فی تعظیم الرجال کا عقیدہ وطرزِ عمل غلط ہے۔
➑ حصولِ علم اور عمل کے لئے سنت کی جستجو میں رہنا چاہئے۔
➒ نماز پڑھتے ہوئے سترہ تین ہاتھ کے فاصلے پر ہونا چاہئے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 226   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 874  
´کعبہ کے اندر نماز پڑھنے کا بیان۔`
بلال رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کے اندر نماز پڑھی۔ جب کہ ابن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں: آپ نے نماز نہیں پڑھی بلکہ آپ نے صرف تکبیر کہی۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 874]
اردو حاشہ:
1؎:
راجح بلال رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کیونکہ اس سے کعبہ کے اندر نماز پڑھنا ثابت ہو رہا ہے،
رہی ابن عباس رضی اللہ عنہما کی نفی،
تو یہ نفی ان کے اپنے علم کی بنیاد پر ہے کیونکہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما نے انہیں اسی کی خبر دی تھی اور اسامہ کے اس سے انکار کی وجہ یہ ہے کہ جب یہ لوگ کعبہ کے اندر گئے تو ان لوگوں نے دروازہ بند کر لیا اور ذکر و دعا میں مشغول ہو گئے جب اسامہ نے دیکھا کہ نبی اکرم ﷺ دعا میں مشغول ہیں تو وہ بھی ایک گوشے میں جا کر دعا میں مشغول ہو گئے،
نبی اکرم ﷺ دوسرے گوشے میں تھے اور بلال رضی اللہ عنہ آپ سے قریب تھے اور آپ دونوں کے بیچ میں تھے،
نبی اکرم ﷺ کی نماز چونکہ بہت ہلکی تھی اور اسامہ خود ذکر و دعا میں مشغول و منہمک تھے اور نبی اکرم ﷺ ان کے بیچ میں بلال حائل تھے اس لیے اسامہ کو آپ کے نماز پڑھنے کا علم نہ ہو سکا ہو گا اسی بنا پر انہوں نے اس کی نفی کی،
واللہ اعلم۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 874   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.