الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: جنازہ کے احکام و مسائل
The Book on Jana\'iz (Funerals)
70. باب مَا جَاءَ فِي عَذَابِ الْقَبْرِ
70. باب: عذاب قبر کا بیان۔
حدیث نمبر: 1071
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو سلمة يحيى بن خلف البصري، حدثنا بشر بن المفضل، عن عبد الرحمن بن إسحاق، عن سعيد بن ابي سعيد المقبري، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا قبر الميت "، او قال: " احدكم اتاه ملكان اسودان ازرقان، يقال لاحدهما: المنكر والآخر النكير، فيقولان: ما كنت تقول في هذا الرجل؟ فيقول: ما كان يقول هو: عبد الله ورسوله، اشهد ان لا إله إلا الله وان محمدا عبده ورسوله، فيقولان: قد كنا نعلم انك تقول هذا، ثم يفسح له في قبره سبعون ذراعا في سبعين، ثم ينور له فيه، ثم يقال له: نم، فيقول: ارجع إلى اهلي فاخبرهم، فيقولان: نم كنومة العروس الذي لا يوقظه إلا احب اهله إليه حتى يبعثه الله من مضجعه ذلك، وإن كان منافقا، قال: سمعت الناس يقولون: فقلت مثله: لا ادري، فيقولان: قد كنا نعلم انك تقول ذلك، فيقال للارض: التئمي عليه فتلتئم عليه، فتختلف فيها اضلاعه، فلا يزال فيها معذبا حتى يبعثه الله من مضجعه ذلك ". وفي الباب: عن علي، وزيد بن ثابت، وابن عباس، والبراء بن عازب، وابي ايوب، وانس، وجابر، وعائشة، وابي سعيد، كلهم رووا عن النبي صلى الله عليه وسلم في عذاب القبر. قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة حديث حسن غريب.حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا قُبِرَ الْمَيِّتُ "، أَوْ قَالَ: " أَحَدُكُمْ أَتَاهُ مَلَكَانِ أَسْوَدَانِ أَزْرَقَانِ، يُقَالُ لِأَحَدِهِمَا: الْمُنْكَرُ وَالْآخَرُ النَّكِيرُ، فَيَقُولَانِ: مَا كُنْتَ تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُلِ؟ فَيَقُولُ: مَا كَانَ يَقُولُ هُوَ: عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، فَيَقُولَانِ: قَدْ كُنَّا نَعْلَمُ أَنَّكَ تَقُولُ هَذَا، ثُمَّ يُفْسَحُ لَهُ فِي قَبْرِهِ سَبْعُونَ ذِرَاعًا فِي سَبْعِينَ، ثُمَّ يُنَوَّرُ لَهُ فِيهِ، ثُمَّ يُقَالُ لَهُ: نَمْ، فَيَقُولُ: أَرْجِعُ إِلَى أَهْلِي فَأُخْبِرُهُمْ، فَيَقُولَانِ: نَمْ كَنَوْمَةِ الْعَرُوسِ الَّذِي لَا يُوقِظُهُ إِلَّا أَحَبُّ أَهْلِهِ إِلَيْهِ حَتَّى يَبْعَثَهُ اللَّهُ مِنْ مَضْجَعِهِ ذَلِكَ، وَإِنْ كَانَ مُنَافِقًا، قَالَ: سَمِعْتُ النَّاسَ يَقُولُونَ: فَقُلْتُ مِثْلَهُ: لَا أَدْرِي، فَيَقُولَانِ: قَدْ كُنَّا نَعْلَمُ أَنَّكَ تَقُولُ ذَلِكَ، فَيُقَالُ لِلْأَرْضِ: الْتَئِمِي عَلَيْهِ فَتَلْتَئِمُ عَلَيْهِ، فَتَخْتَلِفُ فِيهَا أَضْلَاعُهُ، فَلَا يَزَالُ فِيهَا مُعَذَّبًا حَتَّى يَبْعَثَهُ اللَّهُ مِنْ مَضْجَعِهِ ذَلِكَ ". وَفِي الْبَاب: عَنْ عَلِيٍّ، وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَالْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، وَأَبِي أَيُّوبَ، وَأَنَسٍ، وَجَابِرٍ، وَعَائِشَةَ، وَأَبِي سَعِيدٍ، كُلُّهُمْ رَوَوْا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي عَذَابِ الْقَبْرِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب میت کو یا تم میں سے کسی کو دفنا دیا جاتا ہے تو اس کے پاس کالے رنگ کی نیلی آنکھ والے دو فرشتے آتے ہیں، ان میں سے ایک کو منکر اور دوسرے کو نکیر کہا جاتا ہے۔ اور وہ دونوں پوچھتے ہیں: تو اس شخص کے بارے میں کیا کہتا تھا۔ وہ (میت) کہتا ہے: وہی جو وہ خود کہتے تھے کہ وہ اللہ کے بندے اور اللہ کے رسول ہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں تو وہ دونوں کہتے ہیں: ہمیں معلوم تھا کہ تو یہی کہے گا پھر اس کی قبر طول و عرض میں ستر ستر گز کشادہ کر دی جاتی ہے، پھر اس میں روشنی کر دی جاتی ہے۔ پھر اس سے کہا جاتا ہے: سو جا، وہ کہتا ہے: مجھے میرے گھر والوں کے پاس واپس پہنچا دو کہ میں انہیں یہ بتا سکوں، تو وہ دونوں کہتے ہیں: تو سو جا اس دلہن کی طرح جسے صرف وہی جگاتا ہے جو اس کے گھر والوں میں اسے سب سے زیادہ محبوب ہوتا ہے، یہاں تک کہ اللہ اسے اس کی اس خواب گاہ سے اٹھائے، اور اگر وہ منافق ہے، تو کہتا ہے: میں لوگوں کو جو کہتے سنتا تھا، وہی میں بھی کہتا تھا اور مجھے کچھ نہیں معلوم۔ تو وہ دونوں اس سے کہتے ہیں: ہمیں معلوم تھا کہ تو یہی کہے گا پھر زمین سے کہا جاتا ہے: تو اسے دبوچ لے تو وہ اسے دبوچ لیتی ہے اور پھر اس کی پسلیاں ادھر کی ادھر ہو جاتی ہیں۔ وہ ہمیشہ اسی عذاب میں مبتلا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ اللہ اسے اس کی اس خواب گاہ سے اٹھائے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوہریرہ کی حدیث حسن غریب ہے،
۲- اس باب میں علی، زید بن ثابت، ابن عباس، براء بن عازب، ابوایوب، انس، جابر، ام المؤمنین عائشہ اور ابوسفیان رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ ان سبھوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عذاب قبر کے متعلق روایت کی ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 12976) (حسن)»

قال الشيخ الألباني: حسن، المشكاة (130)، الصحيحة (1391)
   جامع الترمذي1071عبد الرحمن بن صخرإذا قبر الميت أو قال أحدكم أتاه ملكان أسودان أزرقان يقال لأحدهما المنكر والآخر النكير فيقولان ما كنت تقول في هذا الرجل فيقول ما كان يقول هو عبد الله ورسوله أشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا عبده ورسوله فيقولان قد كنا نعلم أنك تقول هذا ثم يفسح له في قبره س
   مشكوة المصابيح130عبد الرحمن بن صخرإذا قبر الميت اتاه ملكان اسودان ازرقان يقال لاحدهما المنكر والآخر النكير فيقولان ما كنت تقول في هذا الرجل

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 130  
´منکر نکیر کے سوال اور قبر کا عذاب`
«. . . ‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا قُبِرَ الْمَيِّتُ أَتَاهُ مَلَكَانِ - [47] - أَسْوَدَانِ أَزْرَقَانِ يُقَالُ لِأَحَدِهِمَا الْمُنْكَرُ وَالْآخَرُ النَّكِيرُ فَيَقُولَانِ مَا كُنْتَ تَقُولُ فِي هَذَا الرجل فَيَقُول مَا كَانَ يَقُول هُوَ عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ فَيَقُولَانِ قَدْ كُنَّا نَعْلَمُ أَنَّكَ تَقُولُ هَذَا ثُمَّ يُفْسَحُ لَهُ فِي قَبْرِهِ سَبْعُونَ ذِرَاعًا فِي سَبْعِينَ ثُمَّ يُنَوَّرُ لَهُ فِيهِ ثُمَّ يُقَالُ لَهُ نَمْ فَيَقُولُ أَرْجِعُ إِلَى أَهْلِي فَأُخْبِرُهُمْ فَيَقُولَانِ نَمْ كَنَوْمَةِ الْعَرُوسِ الَّذِي لَا يُوقِظُهُ إِلَّا أَحَبُّ أَهْلِهِ إِلَيْهِ حَتَّى يَبْعَثَهُ اللَّهُ مِنْ مَضْجَعِهِ ذَلِكَ وَإِنْ كَانَ مُنَافِقًا قَالَ سَمِعت النَّاس يَقُولُونَ فَقُلْتُ مِثْلَهُ لَا أَدْرِي فَيَقُولَانِ قَدْ كُنَّا نَعْلَمُ أَنَّكَ تَقُولُ ذَلِكَ فَيُقَالُ لِلْأَرْضِ الْتَئِمِي عَلَيْهِ فتلتئم عَلَيْهِ فتختلف فِيهَا أَضْلَاعُهُ فَلَا يَزَالُ فِيهَا مُعَذَّبًا حَتَّى يَبْعَثَهُ الله من مضجعه ذَلِك» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ . . .»
. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جب میت کو قبر میں رکھ دیا جاتا ہے تو اس کے پاس دو فرشتے نیلی آنکھوں والے اور سیاہ رنگ والے آتے ہیں ایک فرشتہ کو منکر اور دوسرے کو نکیر کہا جاتا ہے وہ دونوں اس مردے سے پوچھتے ہیں تو اس شخص کی نسبت کیا کہتا تھا۔ (جو نبی بنا کر تمہارے پاس بھیجے گئے تھے) اگر وہ مردہ مومن تھا تو ان فرشتوں کے جواب میں کہتا ہے وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں۔ اور یقیناً محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ یہ جواب سن کر دونوں فرشتے کہتے ہیں ہم یہ جانتے تھے کہ تم یہ جواب دو گے اس کے بعد اس کی قبر چاروں طرف سے ستر ستر گز کشادہ کر دی جاتی ہے۔ پھر اس کے لیے اس میں روشنی کر دی جاتی ہے، پھر اسے کہا جاتا ہے آرام سے سو جاؤ۔ وہ مردہ ان سے کہتا ہے میں اپنے گھر والوں کے پاس جانا چاہتا ہوں اور جا کر میں انہیں قبر کی باتوں کو بتاؤں گا۔ دونوں فرشتے کہتے ہیں تم اس طرح سو جاؤ جس طرح دلہن سوتی ہے جس کو صرف وہی شخص جگا سکتا ہے جو اس کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب و پپارہ ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کو اس جگہ سے اٹھائے گا یعنی قیامت تک آرام سے لیٹے رہو، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تم کو جگائے گا۔ اور اگر وہ مردہ منافق ہوتا ہے تو ان فرشتوں کے جواب میں کہتا ہے جو کچھ میں لوگوں سے سنا کرتا تھا میں بھی اسی طرح کہہ دیا کرتا تھا۔ میں حقیقت نہیں جانتا۔ دونوں فرشتے اس کے جواب میں کہتے ہیں ہم جانتے تھے کہ تو یہ جواب دے گا، پس زمین کو حکم دیا جاتا ہے کہ تو اس مردے کے اوپر جا اور اس کو دبوچو۔ چنانچہ زمین اس طرح دبوچتی ہے اور بھینچتی ہے کہ اس کی پسلیاں اُدھر کی ادھر اور ادھر کی اُدھر یعنی داہنی طرف کی پہلی بائیں جانب اور بائیں جانب کی پسلی دائیں جانب ہو جاتی ہے وہ ہمیشہ اسی طرح عذاب میں مبتلا رہے گا یہاں تک کہ اس جگہ سے اٹھایا جائے گا۔ اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 130]

تحقیق الحدیث:
اس حدیث کی سند حسن لذاتہ ہے۔
اسے ترمذی نے حسن غریب اور ابن حبان [الاحسان: 7031] نے صحیح قرار دیا ہے۔
یہ حدیث امام بیہقی کی کتاب اثبات عذاب القبر [ح54، 55 بتحقيقي] میں بھی عبدالرحمٰن بن اسحاق المدنی کی سند سے موجود ہے اور عبدالرحمٰن المدنی بقولِ راجح حسن الحدیث ہیں۔

فقہ الحدیث:
➊ مرنے والے سے قبر میں منکر نکیر دو فرشتوں کا سوال کرنا برحق ہے۔
➋ سوال و جواب کے وقت ان فرشتوں کو اس لئے ڈراؤنی شکل میں بھیجا جاتا ہے تاکہ میت کو اپنی گزشتہ زندگی کا احساس اور اللہ کا خوف ہو۔ مومن اللہ کے فضل سے محفوظ رہتا ہے۔
«هذا الرجل» سے حاضر نہیں بلکہ غائب مراد ہے کیونکہ مومن کہتا ہے: «هُوَ» وہ۔ یہ صیغۂ غائب ہے۔
«هذا الرجل» سے مراد یہ نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبر میں دکھائے جاتے ہیں۔ صحیح حدیث میں آیا ہے کہ میت اس سوال کے جواب میں کہتی ہے: «اي رجل» کون سا آدمی؟ ديكهئے: [المستدرك للحاكم 3801/1 ح1709، وسنده حسن، و صحيح ابن حبان، الاحسان: 3119/3103و صححه الحاكم و وافقه الذهبي]
اگر قبر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا دیدار ہوتا تو مرنے والا یہ کبھی نہ پوچھتا کون سا آدمی؟
➍ آج کل «ولاتليتَ» سے بعض تقلیدی لوگ تقلید ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، حالانکہ اس سے مراد کتاب اللہ کی تلاوت یا انبیاء کرام علیہم السلام کی اتباع ہے۔
➎ میت قبر میں کیا جواب دے گی؟ اس کی اطلاع اللہ تعالیٰ اپنے ان دونوں فرشتوں کو پہلے ہی کر دیتا ہے اور فرشتے وہی کرتے ہیں جن کا انہیں حکم دیا جاتا ہے۔ فرشتے اپنی مرضی سے نہ کچھ کہتے ہیں اور نہ کچھ کرتے ہیں، لہٰذا ان کا یہ کہنا ہمیں علم تھا کہ تم یہی بات کہو گے۔ اللہ کی وحی سے ہے۔ اللہ ہی زمین و آسمان کا کلی غیب یعنی سب جانتا ہے۔
➏ عذاب قبر اور قبر کا کھلنا، تنگ ہونا برحق ہے، اگرچہ اس کی صحیح کیفیت اور مشاہدے کا علم اہل دنیا کو نہیں ہے۔
➐ نیک مومن کو قبر میں سُلا دیا جاتا ہے، لہٰذا اب اس کا اہل دنیا اور دنیا سے کوئی رابطہ و تعلق باقی نہیں ہے۔ یہ عقیدہ رکھنا کہ سوئی ہوئی یہ میت قبر سے باہر کی دنیا کو دیکھتی اور لوگوں کی آوازیں سنتی ہے، غلط اور مردود ہے۔ جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے موت دے کر ایک سو سال مارے رکھا تھا جب اسے زندہ کیا تو اسے یہ پتا نہیں تھا کہ وہ سو سال مرا رہا ہے بلکہ وہ کہنے لگا: میں (عالمِ موت میں) ایک دن یا اس کا کچھ حصہ رہا ہوں۔ ديكهئے: [سورة البقرة: 259]
➑ دلہن کی طرح سو جانے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ قبر والے نیک انسان کی ہر سال شادی ہوتی ہے، لہٰذا ہر سال اس کا عرس منانا چاہئے۔ اہل بدعت اپنے بعض مزعومہ اولیاء کی قبروں پر ہر سال جو عرس مناتے ہیں اس کا کوئی ثبوت قرآن، حدیث، اجماع اور آثار سلف صالحین سے ثابت نہیں ہے بلکہ یہ عمل بدعت ہے جس پر ادلۂ اربعہ میں سے کوئی دلیل نہیں ہے۔
➒ بغیر تحقیق کے عام لوگوں کی سنی سنائی اور غیر مدلل باتوں پر عمل کرنا جائز نہیں ہے۔
➓ ثواب قبر اور عذابِ قبر دونوں برحق ہیں۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث\صفحہ نمبر: 130   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.