الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: قربانی کے احکام و مسائل
The Book on Sacrifices
12. باب مَا جَاءَ فِي الذَّبْحِ بَعْدَ الصَّلاَةِ
12. باب: نماز عید کے بعد قربانی کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1508
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا علي بن حجر , اخبرنا إسماعيل بن إبراهيم , عن داود بن ابي هند , عن الشعبي، عن البراء بن عازب , قال: خطبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم في يوم نحر , فقال: " لا يذبحن احدكم حتى يصلي " , قال: فقام خالي , فقال: يا رسول الله , هذا يوم اللحم فيه مكروه , وإني عجلت نسكي لاطعم اهلي , واهل داري , او جيراني , قال: " فاعد ذبحا آخر " , فقال: يا رسول الله , عندي عناق لبن وهي خير من شاتي لحم افاذبحها؟ قال: " نعم , وهي خير نسيكتيك , ولا تجزئ جذعة بعدك " , قال: وفي الباب , عن جابر , وجندب , وانس , وعويمر بن اشقر , وابن عمر، وابي زيد الانصاري، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح , والعمل على هذا عند اكثر اهل العلم ان لا يضحى بالمصر حتى يصلي الإمام , وقد رخص قوم من اهل العلم لاهل القرى في الذبح إذا طلع الفجر , وهو قول ابن المبارك , قال ابو عيسى: وقد اجمع اهل العلم ان لا يجزئ الجذع من المعز , وقالوا: إنما يجزئ الجذع من الضان.حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ , أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ , عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ , عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ , قَالَ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي يَوْمِ نَحْرٍ , فَقَالَ: " لَا يَذْبَحَنَّ أَحَدُكُمْ حَتَّى يُصَلِّيَ " , قَالَ: فَقَامَ خَالِي , فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , هَذَا يَوْمٌ اللَّحْمُ فِيهِ مَكْرُوهٌ , وَإِنِّي عَجَّلْتُ نُسُكِي لِأُطْعِمَ أَهْلِي , وَأَهْلَ دَارِي , أَوْ جِيرَانِي , قَالَ: " فَأَعِدْ ذَبْحًا آخَرَ " , فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , عِنْدِي عَنَاقُ لَبَنٍ وَهِيَ خَيْرٌ مِنْ شَاتَيْ لَحْمٍ أَفَأَذْبَحُهَا؟ قَالَ: " نَعَمْ , وَهِيَ خَيْرُ نَسِيكَتَيْكَ , وَلَا تُجْزِئُ جَذَعَةٌ بَعْدَكَ " , قَالَ: وَفِي الْبَاب , عَنْ جَابِرٍ , وَجُنْدَبٍ , وَأَنَسٍ , وَعُوَيْمِرِ بْنِ أَشْقَرَ , وَابْنِ عُمَرَ، وَأَبِي زَيْدٍ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنْ لَا يُضَحَّى بِالْمِصْرِ حَتَّى يُصَلِّيَ الْإِمَامُ , وَقَدْ رَخَّصَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ لِأَهْلِ الْقُرَى فِي الذَّبْحِ إِذَا طَلَعَ الْفَجْرُ , وَهُوَ قَوْلُ ابْنِ الْمُبَارَكِ , قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ أَجْمَعَ أَهْلُ الْعِلْمِ أَنْ لَا يُجْزِئَ الْجَذَعُ مِنَ الْمَعْزِ , وَقَالُوا: إِنَّمَا يُجْزِئُ الْجَذَعُ مِنَ الضَّأْنِ.
براء بن عازب رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے دن ہمیں خطبہ دیا، آپ نے خطبہ کے دوران فرمایا: جب تک نماز عید ادا نہ کر لے کوئی ہرگز قربانی نہ کرے۔ براء کہتے ہیں: میرے ماموں کھڑے ہوئے ۱؎، اور انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ ایسا دن ہے جس میں (زیادہ ہونے کی وجہ سے) گوشت قابل نفرت ہو جاتا ہے، اس لیے میں نے اپنی قربانی جلد کر دی تاکہ اپنے بال بچوں اور گھر والوں یا پڑوسیوں کو کھلا سکوں؟ آپ نے فرمایا: پھر دوسری قربانی کرو، انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے پاس دودھ پیتی پٹھیا ہے اور گوشت والی دو بکریوں سے بہتر ہے، کیا میں اس کو ذبح کر دوں؟ آپ نے فرمایا: ہاں! وہ تمہاری دونوں قربانیوں سے بہتر ہے، لیکن تمہارے بعد کسی کے لیے جذعہ (بچے) کی قربانی کافی نہ ہو گی ۲؎۔ اس باب میں جابر، جندب، انس، عویمر بن اشقر، ابن عمر اور ابوزید انصاری رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ جب تک امام نماز عید نہ ادا کر لے شہر میں قربانی نہ کی جائے،
۳- اہل علم کی ایک جماعت نے جب فجر طلوع ہو جائے تو گاؤں والوں کے لیے قربانی کی رخصت دی ہے، ابن مبارک کا بھی یہی قول ہے،
۴- اہل علم کا اجماع ہے کہ بکری کے جذع (چھ ماہ کے بچے) کی قربانی درست نہیں ہے، وہ کہتے ہیں البتہ بھیڑ کے جذع کی قربانی درست ہے ۳؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/العیدین 3 (951)، و 5 (955)، و 8 (957)، و 10 (968)، و 17 (976)، و 23 (983)، والأضاحي 1 (5545)، و 8 (5556-5557) و 11 (5560) و 12 (5563)، والأیمان والندور 15 (6673)، صحیح مسلم/الأضاحي 1 (1961)، سنن ابی داود/ الأضاحي 5 (2800)، سنن النسائی/العیدین 8 (1564)، والضحایا 17 (4400)، (تحفة الأشراف: 1769)، و مسند احمد (4/280، 297، 302، 303) وسنن الدارمی/الأضاحي 7 (2005) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: ان کا نام ابوبردہ بن نیار تھا۔
۲؎: یعنی یہ حکم تمہارے لیے خاص ہے کیونکہ تمہارے لیے اس وقت مجبوری ہے ورنہ قربانی میں «مسنہ» (دانتا یعنی دو دانت والا) ہی جائز ہے، بکری کا «جذعہ» وہ ہے جو سال پورا کر کے دوسرے سال میں قدم رکھ چکا ہو اس کی بھی قربانی صرف ابوبردہ رضی الله عنہ کے لیے جائز کی گئی تھی، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قربانی کے جانور کو ذبح کرنے کا صحیح وقت نماز عید کے بعد ہے، اگر کسی نے نماز عید کی ادائیگی سے پہلے ہی جانور ذبح کر دیا تو اس کی قربانی نہیں ہوئی، اسے دوبارہ قربانی کرنی چاہیئے۔
۳؎: بھیڑ کے «جذعہ» (چھ ماہ) کی قربانی عام مسلمانوں کے لیے دانتا میسر نہ ہونے کی صورت میں جائز ہے، جب کہ بکری کے جذعہ (ایک سالہ) کی قربانی صرف ابوبردہ رضی الله عنہ کے لیے جائز کی گئی تھی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (2495)، صحيح أبي داود (2495 - 2496)
   صحيح البخاري5560براء بن عازبنصلي ثم نرجع فننحر فمن فعل هذا فقد أصاب سنتنا ومن نحر فإنما هو لحم يقدمه لأهله ليس من النسك في شيء ذبحت قبل أن أصلي وعندي جذعة خير من مسنة فقال اجعلها مكانها ولن تجزي أو توفي عن أحد بعدك
   صحيح البخاري5556براء بن عازبمن ذبح قبل الصلاة فإنما يذبح لنفسه ومن ذبح بعد الصلاة فقد تم نسكه وأصاب سنة المسلمين
   صحيح البخاري955براء بن عازبمن صلى صلاتنا ونسك نسكنا فقد أصاب النسك ومن نسك قبل الصلاة فإنه قبل الصلاة ولا نسك له فقال أبو بردة بن نيار خال البراء يا رسول الله فإني نسكت شاتي قبل الصلاة وعرفت أن اليوم يوم أكل وشرب وأحببت أن تكون شاتي أول ما يذبح في بيتي فذبحت شاتي وتغديت قبل أن آتي
   صحيح البخاري5563براء بن عازبمن صلى صلاتنا واستقبل قبلتنا فلا يذبح حتى ينصرف عندي جذعة هي خير من مسنتين آذبحها قال نعم ثم لا تجزي عن أحد بعدك قال عامر هي خير نسيكتيه
   صحيح البخاري951براء بن عازبنصلي ثم نرجع فننحر فمن فعل فقد أصاب سنتنا
   صحيح البخاري968براء بن عازباذبحها ولن تجزي جذعة عن أحد بعدك
   صحيح البخاري965براء بن عازبنصلي ثم نرجع فننحر فمن فعل ذلك فقد أصاب سنتنا ومن نحر قبل الصلاة فإنما هو لحم قدمه لأهله ليس من النسك في شيء
   صحيح البخاري976براء بن عازبنبدأ بالصلاة ثم نرجع فننحر فمن فعل ذلك فقد وافق سنتنا ومن ذبح قبل ذلك فإنما هو شيء عجله لأهله ليس من النسك في شيء ذبحت وعندي جذعة
   صحيح البخاري983براء بن عازبمن صلى صلاتنا ونسك نسكنا فقد أصاب النسك ومن نسك قبل الصلاة فتلك شاة لحم فقام أبو بردة بن نيار فقال يا رسول الله والله لقد نسكت قبل أن أخرج إلى الصلاة وعرفت أن اليوم يوم أكل وشرب فتعجلت وأكلت وأطعمت أهلي وجيراني فقال رسول الله تلك شاة
   صحيح البخاري5545براء بن عازبنصلي ثم نرجع فننحر من فعله فقد أصاب سنتنا ومن ذبح قبل فإنما هو لحم قدمه لأهله ليس من النسك في شيء
   صحيح مسلم5076براء بن عازبلا يضحين أحد حتى يصلي قال رجل عندي عناق لبن هي خير من شاتي لحم قال فضح بها ولا تجزي جذعة عن أحد بعدك
   صحيح مسلم5069براء بن عازبمن ضحى قبل الصلاة فإنما ذبح لنفسه ومن ذبح بعد الصلاة فقد تم نسكه وأصاب سنة المسلمين
   صحيح مسلم5070براء بن عازبهي خير نسيكتيك ولا تجزي جذعة عن أحد بعدك
   صحيح مسلم5077براء بن عازباجعلها مكانها ولن تجزي عن أحد بعدك
   صحيح مسلم5073براء بن عازبنصلي ثم نرجع فننحر فمن فعل ذلك فقد أصاب سنتنا ومن ذبح فإنما هو لحم قدمه لأهله ليس من النسك في شيء عندي جذعة خير من مسنة فقال اذبحها ولن تجزي عن أحد بعدك
   صحيح مسلم5072براء بن عازبمن صلى صلاتنا ووجه قبلتنا ونسك نسكنا فلا يذبح حتى يصلي فقال خالي يا رسول الله قد نسكت عن ابن لي فقال ذاك شيء عجلته لأهلك فقال إن عندي شاة خير من شاتين قال ضح بها فإنها خير نسيكة
   جامع الترمذي1508براء بن عازبلا يذبحن أحدكم حتى يصلي قال فقام خالي فقال يا رسول الله هذا يوم اللحم فيه مكروه وإني عجلت نسكي لأطعم أهلي وأهل داري أو جيراني قال فأعد ذبحا آخر فقال يا رسول الله عندي عناق لبن وهي خير من شاتي لحم أفأذبحها قال نعم وهي خير نسيكتيك ولا تجزئ جذعة بعدك
   سنن أبي داود2801براء بن عازبشاتك شاة لحم فقال يا رسول الله إن عندي داجنا جذعة من المعز فقال اذبحها ولا تصلح لغيرك
   سنن أبي داود2800براء بن عازبمن صلى صلاتنا ونسك نسكنا فقد أصاب النسك ومن نسك قبل الصلاة فتلك شاة لحم فقام أبو بردة بن نيار فقال يا رسول الله والله لقد نسكت قبل أن أخرج إلى الصلاة وعرفت أن اليوم يوم أكل وشرب فتعجلت فأكلت وأطعمت أهلي وجيراني فقال رسول الله تلك شاة
   سنن النسائى الصغرى1582براء بن عازبمن صلى صلاتنا ونسك نسكنا فقد أصاب النسك ومن نسك قبل الصلاة فتلك شاة لحم فقال أبو بردة بن نيار يا رسول الله والله لقد نسكت قبل أن أخرج إلى الصلاة عرفت أن اليوم يوم أكل وشرب فتعجلت فأكلت وأطعمت أهلي وجيراني فقال رسول الله تلك شاة لحم قا
   سنن النسائى الصغرى1564براء بن عازبنصلي ثم نذبح فمن فعل ذلك فقد أصاب سنتنا ومن ذبح قبل ذلك فإنما هو لحم يقدمه لأهله عندي جذعة خير من مسنة قال اذبحها ولن توفي عن أحد بعدك
   سنن النسائى الصغرى4399براء بن عازبلا يذبح حتى يصلي أعد ذبحا آخر قال فإن عندي عناق لبن هي أحب إلي من شاتي لحم قال اذبحها فإنها خير نسيك
   سنن النسائى الصغرى4400براء بن عازبمن صلى صلاتنا ونسك نسكنا فقد أصاب النسك ومن نسك قبل الصلاة فتلك شاة لحم فقال أبو بردة يا رسول الله والله لقد نسكت قبل أن أخرج إلى الصلاة وعرفت أن اليوم يوم أكل وشرب فتعجلت فأكلت وأطعمت أهلي وجيراني فقال رسول الله تلك شاة لحم قال فإن
   المعجم الصغير للطبراني466براء بن عازب نهى أن يذبح الرجل أضحيته قبل أن يصلي

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1508  
´نماز عید کے بعد قربانی کرنے کا بیان۔`
براء بن عازب رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے دن ہمیں خطبہ دیا، آپ نے خطبہ کے دوران فرمایا: جب تک نماز عید ادا نہ کر لے کوئی ہرگز قربانی نہ کرے۔‏‏‏‏ براء کہتے ہیں: میرے ماموں کھڑے ہوئے ۱؎، اور انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ ایسا دن ہے جس میں (زیادہ ہونے کی وجہ سے) گوشت قابل نفرت ہو جاتا ہے، اس لیے میں نے اپنی قربانی جلد کر دی تاکہ اپنے بال بچوں اور گھر والوں یا پڑوسیوں کو کھلا سکوں؟ آپ نے فرمایا: پھر دوسری قربانی کرو، انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے پاس دودھ پیتی پٹھیا ہے اور گوشت والی ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الأضاحى/حدیث: 1508]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
ان کا نام ابوبردہ بن نیار تھا۔

2؎:
یعنی یہ حکم تمہارے لیے خاص ہے کیوں کہ تمہارے لیے اس وقت مجبوری ہے ورنہ قربانی میں مسنہ (دانتایعنی دودانت والا) ہی جائز ہے،
بکری کا جذعہ وہ ہے جو سال پورا کرکے دوسرے سال میں قدم رکھ چکا ہواس کی بھی قربانی صرف ابوبردہ کے لیے جائز کی گئی تھی،
اس حدیث سے معلوم ہواکہ قربانی کے جانور کو ذبح کرنے کا صحیح وقت صلاۃ عید کے بعد ہے،
اگر کسی نے صلاۃ عید کی ادائیگی سے پہلے ہی جانور ذبح کردیا تو اس کی قربانی نہیں ہوئی،
اسے دوبارہ قربانی کرنی چاہیے۔

3؎:
بھیڑ کے جذعہ (چھ ماہ) کی قربانی عام مسلمانوں کے لیے دانتا میسر نہ ہونے کی صورت میں جائز ہے،
جب کہ بکری کے جذعہ (ایک سالہ) کی قربانی صرف ابوبردہ رضی اللہ عنہ کے لیے جائز کی گئی تھی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1508   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2801  
´کس عمر کے جانور کی قربانی جائز ہے؟`
براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میرے ابوبردہ نامی ایک ماموں نے نماز سے پہلے قربانی کر لی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: یہ تمہاری بکری گوشت کی بکری ہوئی، انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! میرے پاس بکریوں میں سے ایک پلی ہوئی جذعہ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسی کو ذبح کر ڈالو، لیکن تمہارے سوا اور کسی کے لیے ایسا کرنا درست نہیں۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الضحايا /حدیث: 2801]
فوائد ومسائل:
مذکورہ بالا احادیث 2798 اور 2799 کو اسی پر محمول کرنا راحج ہے۔
کہ بھیڑ کا ایک سالہ جانور جو دو دانتا نہ ہو جائزہے۔
مگر بکری کی قسم سے جائز نہیں۔
جیسا کہ تفصیل میں گزر چکا ہے۔
دیکھئے (فوائد ومسائل حدیث 2797)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2801   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.