الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کی فضیلت
The Virtues and Merits of The Companions of The Prophet
5. بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلاً»:
5. باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ اگر میں کسی کو جانی دوست بناتا تو ابوبکر کو بناتا۔
(5) Chapter. The saying of the Prophet: “If I were to take a Khalil...".
حدیث نمبر: 3661
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثني هشام بن عمار، حدثنا صدقة بن خالد، حدثنا زيد بن واقد، عن بسر بن عبيد الله، عن عائذ الله ابي إدريس، عن ابي الدرداء رضي الله عنه، قال: كنت جالسا عند النبي صلى الله عليه وسلم إذ اقبل ابو بكر آخذا بطرف ثوبه حتى ابدى عن ركبته، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" اما صاحبكم فقد غامر فسلم، وقال إني كان بيني وبين ابن الخطاب شيء فاسرعت إليه، ثم ندمت فسالته ان يغفر لي فابى علي فاقبلت إليك، فقال: يغفر الله لك يا ابا بكر ثلاثا، ثم إن عمر ندم فاتى منزل ابي بكر فسال اثم ابو بكر، فقالوا: لا فاتى إلى النبي صلى الله عليه وسلم فسلم فجعل وجه النبي صلى الله عليه وسلم يتمعر حتى اشفق ابو بكر فجثا على ركبتيه، فقال: يا رسول الله والله انا كنت اظلم مرتين، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" إن الله بعثني إليكم فقلتم كذبت، وقال ابو بكر: صدق وواساني بنفسه وماله فهل انتم تاركوا لي صاحبي مرتين فما اوذي بعدها".حَدَّثَنِي هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ وَاقِدٍ، عَنْ بُسْرِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ عَائِذِ اللَّهِ أَبِي إِدْرِيسَ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ أَقْبَلَ أَبُو بَكْرٍ آخِذًا بِطَرَفِ ثَوْبِهِ حَتَّى أَبْدَى عَنْ رُكْبَتِهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَمَّا صَاحِبُكُمْ فَقَدْ غَامَرَ فَسَلَّمَ، وَقَالَ إِنِّي كَانَ بَيْنِي وَبَيْنَ ابْنِ الْخَطَّابِ شَيْءٌ فَأَسْرَعْتُ إِلَيْهِ، ثُمَّ نَدِمْتُ فَسَأَلْتُهُ أَنْ يَغْفِرَ لِي فَأَبَى عَلَيَّ فَأَقْبَلْتُ إِلَيْكَ، فَقَالَ: يَغْفِرُ اللَّهُ لَكَ يَا أَبَا بَكْرٍ ثَلَاثًا، ثُمَّ إِنَّ عُمَرَ نَدِمَ فَأَتَى مَنْزِلَ أَبِي بَكْرٍ فَسَأَلَ أَثَّمَ أَبُو بَكْرٍ، فَقَالُوا: لَا فَأَتَى إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَلَّمَ فَجَعَلَ وَجْهُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَمَعَّرُ حَتَّى أَشْفَقَ أَبُو بَكْرٍ فَجَثَا عَلَى رُكْبَتَيْهِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَاللَّهِ أَنَا كُنْتُ أَظْلَمَ مَرَّتَيْنِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ اللَّهَ بَعَثَنِي إِلَيْكُمْ فَقُلْتُمْ كَذَبْتَ، وَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: صَدَقَ وَوَاسَانِي بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ فَهَلْ أَنْتُمْ تَارِكُوا لِي صَاحِبِي مَرَّتَيْنِ فَمَا أُوذِيَ بَعْدَهَا".
مجھ سے ہشام بن عمار نے بیان کیا، کہا ہم سے صدقہ بن خالد نے بیان کیا، ان سے زید بن واقد نے بیان کیا، ان سے بسر بن عبیداللہ نے، ان سے عائذ اللہ ابوادریس نے اور ان سے ابودرداء رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنے کپڑے کا کنارہ پکڑے ہوئے، گھٹنا ظاہر کئے ہوئے آئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حالت دیکھ کر فرمایا کہ معلوم ہوتا ہے تمہارے دوست کسی سے لڑ کر آئے ہیں۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حاضر ہو کر سلام کیا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے اور عمر بن خطاب کے درمیان کچھ تکرار ہو گئی تھی اور اس سلسلے میں، میں نے جلدی میں ان کو سخت لفظ کہہ دیئے لیکن بعد میں مجھے سخت ندامت ہوئی تو میں نے ان سے معافی چاہی، اب وہ مجھے معاف کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اسی لیے میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے ابوبکر! تمہیں اللہ معاف کرے۔ تین مرتبہ آپ نے یہ جملہ ارشاد فرمایا عمر رضی اللہ عنہ کو بھی ندامت ہوئی اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر پہنچے اور پوچھا کیا ابوبکر گھر پر موجود ہیں؟ معلوم ہوا کہ نہیں تو آپ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ نے سلام کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک غصہ سے بدل گیا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ ڈر گئے اور گھٹنوں کے بل بیٹھ کر عرض کرنے لگے، یا رسول اللہ! اللہ کی قسم زیادتی میری ہی طرف سے تھی۔ دو مرتبہ یہ جملہ کہا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ نے مجھے تمہاری طرف نبی بنا کر بھیجا تھا۔ اور تم لوگوں نے مجھ سے کہا تھا کہ تم جھوٹ بولتے ہو لیکن ابوبکر نے کہا تھا کہ آپ سچے ہیں اور اپنی جان و مال کے ذریعہ انہوں نے میری مدد کی تھی تو کیا تم لوگ میرے دوست کو ستانا چھوڑتے ہو یا نہیں؟ آپ نے دو دفعہ یہی فرمایا: آپ کے یہ فرمانے کے بعد پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ کو کسی نے نہیں ستایا۔

Narrated Abu Ad-Darda: While I was sitting with the Prophet, Abu Bakr came, lifting up one corner of h is garment uncovering h is knee. The Prophet said, "Your companion has had a quarrel." Abu Bakr greeted (the Prophet ) and said, "O Allah's Apostle! There was something (i.e. quarrel) between me and the Son of Al-Khattab. I talked to him harshly and then regretted that, and requested him to forgive me, but he refused. This is why I have come to you." The Prophet said thrice, "O Abu Bakr! May Allah forgive you." In the meanwhile, `Umar regretted (his refusal of Abu Bakr's excuse) and went to Abu Bakr's house and asked if Abu Bakr was there. They replied in the negative. So he came to the Prophet and greeted him, but signs of displeasure appeared on the face of the Prophet till Abu Bakr pitied (`Umar), so he knelt and said twice, "O Allah's Apostle! By Allah! I was more unjust to him (than he to me)." The Prophet said, "Allah sent me (as a Prophet) to you (people) but you said (to me), 'You are telling a lie,' while Abu Bakr said, 'He has said the truth,' and consoled me with himself and his money." He then said twice, "Won't you then give up harming my companion?" After that nobody harmed Abu Bakr.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 57, Number 13

   صحيح البخاري3661عويمر بن مالكالله بعثني إليكم فقلتم كذبت وقال أبو بكر صدق وواساني بنفسه وماله فهل أنتم تاركوا لي صاحبي مرتين فما أوذي بعدها
   صحيح البخاري4640عويمر بن مالكهل أنتم تاركون لي صاحبي يأيها الناس إني رسول الله إليكم جميعا فقلتم كذبت وقال أبو بكر صدقت

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3661  
3661. حضرت ابودرداء ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نبی کریم ﷺ کے پاس بیٹھا ہوا تھا، اتنے میں حضرت ابوبکر ؓ اپنی چادر کاایک کنارہ اٹھائے ہوئے آئے یہاں تک کہ آپ کا گھٹناننگا ہوگیا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: تمہارے دوست کسی سے لڑکر آئے ہیں۔ پھر حضرت ابو بکر نے سلام کیااور کہا: اللہ کے رسول ﷺ! میرے اور ابن خطاب ؓ کے درمیان کسی بات پر کچھ جھگڑا ہوگیا تھا۔ میں نے جلدی سے انھیں سخت سست کہہ دیا۔ پھر مجھے ندامت ہوئی۔ میں نے ان سے معذرت کی اور معافی کا سوال کیا لیکن انھوں نے انکار کردیا۔ اب میں آپ کے پاس حاضر ہوا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ابوبکر !اللہ تجھے معاف فرمائے۔ آپ نے یہ تین مرتبہ کہا۔ پھر ایسا ہوا کہ حضرت عمر ؓ شرمندہ ہوئے اور حضرت ابوبکر ؓ کے گھر پر آئے اور دریافت کیا کہ ابو بکر یہاں موجود ہیں؟گھر والوں نے جواب دیا: نہیں۔ پھر حضرت عمر نبی کریم۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3661]
حدیث حاشیہ:
ابویعلیٰ کی روایت میں ہے کہ جب عمر ؓ رسول کریم ﷺ کے پاس آئے تو آپ نے منہ پھیرلیا۔
دوسری طرف سے آئے تو ادھر سے بھی منہ پھیر لیا۔
سامنے بیٹھے تو ادھر سے بھی منہ پھیر لیا آخر انہوں نے سبب پوچھا تو آپ نے فرمایا:
ابوبکر نے تم سے معذرت کی اور تم نے قبول نہ کی۔
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے ابوبکر صدیق ؓ کی فضیلت تمام صحابہ پر نکلی۔
حضرت علی ؓ نے فرمایا کہ ان کا خطاب صدیق آسمان سے اترا۔
اس حدیث سے شیعہ حضرات کو سبق لینا چاہیے۔
جب آپ حضرت عمر ؓ پر حضرت ابوبکر ؓ کے لیے اتنے غصہ ہوئے حالانکہ پہلے زیادتی ابوبکر ہی کی تھی مگرجب انہوں نے معافی چاہی تو حضرت عمر ؓ کو فوراً معاف کرنا چاہیے تھا۔
پھر شیعہ حضرات کس منہ سے آنحضرت ﷺ کے یار غار کو برا بھلا کہتے ہیں۔
ان لوگوں کو خدا سے ڈرنا چاہیے۔
دیکھا گیا ہے کہ حضرات شیخین پر تبرا کرنے والوں کا برا حشر ہوا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 3661   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3661  
3661. حضرت ابودرداء ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نبی کریم ﷺ کے پاس بیٹھا ہوا تھا، اتنے میں حضرت ابوبکر ؓ اپنی چادر کاایک کنارہ اٹھائے ہوئے آئے یہاں تک کہ آپ کا گھٹناننگا ہوگیا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: تمہارے دوست کسی سے لڑکر آئے ہیں۔ پھر حضرت ابو بکر نے سلام کیااور کہا: اللہ کے رسول ﷺ! میرے اور ابن خطاب ؓ کے درمیان کسی بات پر کچھ جھگڑا ہوگیا تھا۔ میں نے جلدی سے انھیں سخت سست کہہ دیا۔ پھر مجھے ندامت ہوئی۔ میں نے ان سے معذرت کی اور معافی کا سوال کیا لیکن انھوں نے انکار کردیا۔ اب میں آپ کے پاس حاضر ہوا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ابوبکر !اللہ تجھے معاف فرمائے۔ آپ نے یہ تین مرتبہ کہا۔ پھر ایسا ہوا کہ حضرت عمر ؓ شرمندہ ہوئے اور حضرت ابوبکر ؓ کے گھر پر آئے اور دریافت کیا کہ ابو بکر یہاں موجود ہیں؟گھر والوں نے جواب دیا: نہیں۔ پھر حضرت عمر نبی کریم۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3661]
حدیث حاشیہ:

فتح الباری میں طبرانی کے حوالے سے لکھا ہے کہ جب عمر ؓ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ بار باران سے منہ پھیرتے رہے آخر انھوں نے عرض کی:
اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اس زندگی کا کیا فائدہ جس میں آپ ناراض ہوں کیا وجہ ہے؟آپ نے فرمایا:
ابو بکر تم سے بار بار معافی مانگتا رہا لیکن تم نے معاف نہیں کیا۔
حضرت عمر ؓ نے عرض کی:
اللہ کے رسول اللہ ﷺ!انھوں نے جتنی مرتبہ مجھ سے معذرت کی ہے میں اتنی ہی مرتبہ ان کے لیے اللہ سے مغفرت کی دعاکرتا ہوں۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کے بعد کسی کو پیدا نہیں فرمایا جو ابوبکر ؓ سے مجھے زیادہ محبوب ہو۔
حضرت ابو بکر ؓ نے کہا:
اللہ کے رسول اللہ ﷺ!میرے بھی ان کے متعلق یہی جذبات ہیں۔
(المعجم الکبیر للطبراني: 285/12)

حضرت ابو بکر ؓ کو تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین پر فضیلت حاصل ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ فاضل کو چاہیے وہ اپنے سے افضل کو ناراض نہ کرے۔

کسی کے سامنے اس کی تعریف کرنا جائز ہے لیکن یہ اس وقت جب ممدوح کے فتنے میں پڑنے کا اندیشہ نہ ہو۔
اگر اس تعریف سے اس کے اندرخود پسندی پیدا ہونے کا اندیشہ ہوتو اس سے بچنا چاہیے4۔
اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ انسان کو اس کی مرضی کے خلاف فعل پر غصہ آنا طبعی چیز ہے لیکن دین میں پختہ انسان اپنی ناراضی جلدی ختم کردیتا ہے اور غیر نبی معصوم نہیں ہوتا اگرچہ فضیلت میں انتہا کو پہنچ جائے۔
(فتح الباري: 33/7، 34)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 3661   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.