الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
The Book of As-Salat (The Prayer)
48. بَابُ هَلْ تُنْبَشُ قُبُورُ مُشْرِكِي الْجَاهِلِيَّةِ، وَيُتَّخَذُ مَكَانَهَا مَسَاجِدَ:
48. باب: کیا دور جاہلیت کے مشرکوں کی قبروں کو کھود ڈالنا اور ان کی جگہ مسجد بنانا درست ہے؟
(48) Chapter. Is it permissible to dig the graves of pagans of the Period of Ignorance, and to use that place as a mosque?
حدیث نمبر: 428
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا مسدد، قال: حدثنا عبد الوارث، عن ابي التياح، عن انس، قال: قدم النبي صلى الله عليه وسلم المدينة، فنزل اعلى المدينة في حي يقال لهم بنو عمرو بن عوف، فاقام النبي صلى الله عليه وسلم فيهم اربع عشرة ليلة، ثم ارسل إلى بني النجار فجاءوا متقلدي السيوف كاني انظر إلى النبي صلى الله عليه وسلم على راحلته، وابو بكر ردفه وملا بني النجار حوله حتى القى بفناء ابي ايوب، وكان يحب ان يصلي حيث ادركته الصلاة، ويصلي في مرابض الغنم، وانه امر ببناء المسجد، فارسل إلى ملإ من بني النجار، فقال:" يا بني النجار، ثامنوني بحائطكم هذا، قالوا: لا، والله لا نطلب ثمنه إلا إلى الله، فقال انس: فكان فيه ما اقول لكم قبور المشركين وفيه خرب وفيه نخل، فامر النبي صلى الله عليه وسلم بقبور المشركين فنبشت، ثم بالخرب فسويت، وبالنخل فقطع، فصفوا النخل قبلة المسجد وجعلوا عضادتيه الحجارة وجعلوا ينقلون الصخر وهم يرتجزون والنبي صلى الله عليه وسلم معهم، وهو يقول:" اللهم لا خير إلا خير الآخره، فاغفر للانصار والمهاجره".حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ، فَنَزَلَ أَعْلَى الْمَدِينَةِ فِي حَيٍّ يُقَالُ لَهُمْ بَنُو عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ، فَأَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِمْ أَرْبَعَ عَشْرَةَ لَيْلَةً، ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَى بَنِي النَّجَّارِ فَجَاءُوا مُتَقَلِّدِي السُّيُوفِ كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى رَاحِلَتِهِ، وَأَبُو بَكْرٍ رِدْفُهُ وَمَلَأُ بَنِي النَّجَّارِ حَوْلَهُ حَتَّى أَلْقَى بِفِنَاءِ أَبِي أَيُّوبَ، وَكَانَ يُحِبُّ أَنْ يُصَلِّيَ حَيْثُ أَدْرَكَتْهُ الصَّلَاةُ، وَيُصَلِّي فِي مَرَابِضِ الْغَنَمِ، وَأَنَّهُ أَمَرَ بِبِنَاءِ الْمَسْجِدِ، فَأَرْسَلَ إِلَى مَلَإٍ مِنْ بَنِي النَّجَّارِ، فَقَالَ:" يَا بَنِي النَّجَّارِ، ثَامِنُونِي بِحَائِطِكُمْ هَذَا، قَالُوا: لَا، وَاللَّهِ لَا نَطْلُبُ ثَمَنَهُ إِلَّا إِلَى اللَّهِ، فَقَالَ أَنَسٌ: فَكَانَ فِيهِ مَا أَقُولُ لَكُمْ قُبُورُ الْمُشْرِكِينَ وَفِيهِ خَرِبٌ وَفِيهِ نَخْلٌ، فَأَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقُبُورِ الْمُشْرِكِينَ فَنُبِشَتْ، ثُمَّ بِالْخَرِبِ فَسُوِّيَتْ، وَبِالنَّخْلِ فَقُطِعَ، فَصَفُّوا النَّخْلَ قِبْلَةَ الْمَسْجِدِ وَجَعَلُوا عِضَادَتَيْهِ الْحِجَارَةَ وَجَعَلُوا يَنْقُلُونَ الصَّخْرَ وَهُمْ يَرْتَجِزُونَ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَهُمْ، وَهُوَ يَقُولُ:" اللَّهُمَّ لَا خَيْرَ إِلَّا خَيْرُ الْآخِرَهْ، فَاغْفِرْ لِلْأَنْصَارِ وَالْمُهَاجِرَهْ".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا، انہوں نے ابوالتیاح کے واسطہ سے بیان کیا، انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے کہا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو یہاں کے بلند حصہ میں بنی عمرو بن عوف کے یہاں آپ اترے اور یہاں چوبیس راتیں قیام فرمایا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنونجار کو بلا بھیجا، تو وہ لوگ تلواریں لٹکائے ہوئے آئے۔ انس نے کہا، گویا میری نظروں کے سامنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر تشریف فرما ہیں، جبکہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بیٹھے ہوئے ہیں اور بنو نجار کے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چاروں طرف ہیں۔ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابوایوب کے گھر کے سامنے اترے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ پسند کرتے تھے کہ جہاں بھی نماز کا وقت آ جائے فوراً نماز ادا کر لیں۔ آپ بکریوں کے باڑوں میں بھی نماز پڑھ لیتے تھے، پھر آپ نے یہاں مسجد بنانے کے لیے حکم فرمایا۔ چنانچہ بنو نجار کے لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلوا کر فرمایا کہ اے بنو نجار! تم اپنے اس باغ کی قیمت مجھ سے لے لو۔ انہوں نے جواب دیا نہیں یا رسول اللہ! اس کی قیمت ہم صرف اللہ سے مانگتے ہیں۔ انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں جیسا کہ تمہیں بتا رہا تھا یہاں مشرکین کی قبریں تھیں، اس باغ میں ایک ویران جگہ تھی اور کچھ کھجور کے درخت بھی تھے پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین کی قبروں کو اکھڑوا دیا ویرانہ کو صاف اور برابر کرایا اور درختوں کو کٹوا کر ان کی لکڑیوں کو مسجد کے قبلہ کی جانب بچھا دیا اور پتھروں کے ذریعہ انہیں مضبوط بنا دیا۔ صحابہ پتھر اٹھاتے ہوئے رجز پڑھتے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے ساتھ تھے اور یہ کہہ رہے تھے کہ اے اللہ! آخرت کے فائدہ کے علاوہ اور کوئی فائدہ نہیں پس انصار و مہاجرین کی مغفرت فرمانا۔

Narrated Anas: When the Prophet arrived Medina he dismounted at `Awali-i-Medina amongst a tribe called Banu `Amr bin `Auf. He stayed there For fourteen nights. Then he sent for Bani An-Najjar and they came armed with their swords. As if I am looking (just now) as the Prophet was sitting over his Rahila (Mount) with Abu Bakr riding behind him and all Banu An-Najjar around him till he dismounted at the courtyard of Abu Aiyub's house. The Prophet loved to pray wherever the time for the prayer was due even at sheep-folds. Later on he ordered that a mosque should be built and sent for some people of Banu-An-Najjar and said, "O Banu An-Najjar! Suggest to me the price of this (walled) piece of land of yours." They replied, "No! By Allah! We do not demand its price except from Allah." Anas added: There were graves of pagans in it and some of it was unleveled and there were some date-palm trees in it. The Prophet ordered that the graves of the pagans be dug out and the unleveled land be level led and the date-palm trees be cut down . (So all that was done). They aligned these cut date-palm trees towards the Qibla of the mosque (as a wall) and they also built two stone side-walls (of the mosque). His companions brought the stones while reciting some poetic verses. The Prophet was with them and he kept on saying, "There is no goodness except that of the Hereafter, O Allah! So please forgive the Ansars and the emigrants. "
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 8, Number 420

   صحيح البخاري3795أنس بن مالكلا عيش إلا عيش الآخرة فأصلح الأنصار والمهاجرة
   صحيح البخاري2834أنس بن مالكاللهم إن العيش عيش الآخره فاغفر للأنصار والمهاجره
   صحيح البخاري3796أنس بن مالكالأنصار يوم الخندق تقول نحن الذين بايعوا محمدا على الجهاد ما حيينا أبدا فأجابهم اللهم لا عيش إلا عيش الآخره فأكرم الأنصار والمهاجره
   صحيح البخاري4099أنس بن مالكخرج رسول الله إلى الخندق فإذا المهاجرون والأنصار يحفرون في غداة باردة فلم يكن لهم عبيد يعملون ذلك لهم فلما رأى ما بهم من النصب والجوع قال اللهم إن العيش عيش الآخره فاغفر للأنصار والمهاجره فقالوا مجيبين له نحن الذين بايعوا محمدا على الجهاد ما بقينا أبدا
   صحيح البخاري4100أنس بن مالكجعل المهاجرون والأنصار يحفرون الخندق حول المدينة وينقلون التراب على متونهم وهم يقولون نحن الذين بايعوا محمدا على الإسلام ما بقينا أبدا قال يقول النبي وهو يجيبهم اللهم إنه لا خير إلا خير الآخره فبارك في الأنصار والمهاجره
   صحيح البخاري7201أنس بن مالكاللهم إن الخير خير الآخره فاغفر للأنصار والمهاجره
   صحيح البخاري6413أنس بن مالكاللهم لا عيش إلا عيش الآخره فأصلح الأنصار والمهاجره
   صحيح البخاري2961أنس بن مالكاللهم لا عيش إلا عيش الآخره فأكرم الأنصار والمهاجره
   صحيح البخاري428أنس بن مالكاللهم لا خير إلا خير الآخره فاغفر للأنصار والمهاجره
   صحيح البخاري2835أنس بن مالكاللهم إنه لا خير إلا خير الآخره فبارك في الأنصار والمهاجره
   صحيح مسلم4674أنس بن مالكاللهم لا عيش إلا عيش الآخره فأكرم الأنصار والمهاجره
   صحيح مسلم4676أنس بن مالكاللهم إن الخير خير الآخره فاغفر للأنصار والمهاجره
   صحيح مسلم4673أنس بن مالكاللهم لا عيش إلا عيش الآخره فاغفر للأنصار والمهاجره
   صحيح مسلم4675أنس بن مالكاللهم لا خير إلا خير الآخره فانصر الأنصار والمهاجره
   جامع الترمذي3857أنس بن مالكاللهم لا عيش إلا عيش الآخره فأكرم الأنصار والمهاجره
   سنن أبي داود453أنس بن مالكاللهم لا خير إلا خير الآخره فانصر الأنصار والمهاجره
   سنن النسائى الصغرى703أنس بن مالكاللهم لا خير إلا خير الآخرة فانصر الأنصار والمهاجرة
   سنن ابن ماجه742أنس بن مالكألا إن العيش عيش الآخره فاغفر للأنصار والمهاجره

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 703  
´قبروں کو اکھیڑنے اور ان کی جگہ مسجد بنانے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ آئے تو اس کے ایک کنارے بنی عمرو بن عوف نامی ایک قبیلہ میں اترے، آپ نے ان میں چودہ دن تک قیام کیا، پھر آپ نے بنو نجار کے لوگوں کو بلا بھیجا تو وہ اپنی تلواریں لٹکائے ہوئے آئے، آپ ان کے ساتھ چلے گویا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہا ہوں کہ آپ اپنی سواری پر ہیں، اور ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کے پیچھے سوار ہیں، اور بنی نجار کے لوگ آپ کے اردگرد ہیں، یہاں تک کہ آپ ابوایوب رضی اللہ عنہ کے دروازے پر اترے، جہاں نماز کا وقت ہوتا وہاں آپ نماز پڑھ لیتے، یہاں تک کہ آپ بکریوں کے باڑوں میں بھی نماز پڑھ لیتے، پھر آپ کو مسجد بنانے کا حکم ہوا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی نجار کے لوگوں کو بلوایا، وہ آئے تو آپ نے فرمایا: بنو نجار! تم مجھ سے اپنی اس زمین کی قیمت لے لو، ان لوگوں نے کہا: اللہ کی قسم ہم اس کی قیمت صرف اللہ تعالیٰ سے طلب کرتے ہیں، انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اس میں مشرکین کی قبریں، کھنڈر اور کھجور کے درخت تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو مشرکین کی قبریں کھود ڈالی گئیں، کھجور کے درخت کاٹ دیئے گئے، اور کھنڈرات ہموار کر دیئے گئے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کھجور کے درختوں کو مسجد کے قبلہ کی جانب لائن میں رکھ دیا، اور چوکھٹ کے دونوں پٹ پتھر کے بنائے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پتھر ڈھوتے، اور اشعار پڑھتے جاتے تھے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ تھے، وہ لوگ کہہ رہے تھے: اے اللہ! بھلائی صرف آخرت کی بھلائی ہے، انصار و مہاجرین کی تو مدد فرما۔ [سنن نسائي/كتاب المساجد/حدیث: 703]
703 ۔ اردو حاشیہ:
➊ ہجرت کے موقع پر تشریف آوری کا ذکر ہے۔ آپ مدینہ منورہ کی مضافاتتی بستی قباء میں ٹھہرے تھے۔ آپ چند دن یہاں ٹھہرے رہے، چار یا چودہ دن۔
➋ بنو نجار آپ کا ننھیال تھا۔ ہاشم کی بیوی اور عبدالمطلب کی والدہ اس قبیلے سے تھیں۔ آپ نے ان کی عزت افزائی کرنی چاہی، اس لیے انہیں پیغام بھیجا۔
➌ بکریوں کے باڑے سے مراد وہ جگہ ہے جہاں بکریاں باندھی جاتی ہوں۔
➍ یہ احاطہ آپ کی عا رضی رہائش گاہ کے بالکل سامنے تھا۔ آپ نے اسے مسجد اور اپنی رہائش کے لیے مناسب خیال فرمایا۔
مشرکین کی قبریں چونکہ مشرکین کی قبریں قابل احترام نہیں ہیں، لہٰذا انہیں اکھیڑا جا سکتا ہے۔ یہ قبریں پر ان ی تھیں۔ ان کے قریبی ورثاء فوت ہوچکے ہوں گے ورنہ مسلمان ورثاء کی دل شکنی بھی منع ہے۔ روایات میں ہے کہ وہ احاطہ بنونجار کے دو یتیم بچوں کا تھا، اسی لیے آپ نے باوجود پیش کش کے بلاقیمت لینا منظور نہ کیا بلکہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو کہہ کر ان بچوں کو قیمت دلوائی۔
رجز ایک قسم کا شعر اور ہم آہنگ سا کلام ہوتا ہے۔ اس میں وزن بھی ہوتا ہے۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی جنگ میں یا کسی خاص موقع پر اس قسم کا کلام پڑھ لیا تو آپ شاعرنہ بن گئے کیونکہ شاعر وہ ہوتا ہے جو شعر کو بطور پیشہ اور فن اپناتا ہے، نہ کہ وہ جو کبھی کبھار کوئی ہم آہنگ اور باوزن کلام بول لے جس میں شعر کہنے کا کوئی قصد بھی نہ ہو یا کسی کا کہا: ہوا شعر پڑھ لے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 703   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث742  
´مسجد کس جگہ بنانی جائز ہے؟`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مسجد نبوی کی زمین قبیلہ بنو نجار کی ملکیت تھی، جس میں کھجور کے درخت اور مشرکین کی قبریں تھیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا: تم مجھ سے اس کی قیمت لے لو، ان لوگوں نے کہا: ہم ہرگز اس کی قیمت نہ لیں گے، انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد بنا رہے تھے اور صحابہ آپ کو (سامان دے رہے تھے) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: سنو! زندگی تو دراصل آخرت کی زندگی ہے، اے اللہ! تو مہاجرین اور انصار کو بخش دے، انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: مسجد کی تعمیر سے پہلے جہاں نماز کا وقت ہو ج۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب المساجد والجماعات/حدیث: 742]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مسجد کے لیے زمین خریدنا جائز ہے اور زمین کا مالک مسجد کی انتظامیہ کے ہاتھ زمین فروخت کرسکتا ہے۔
اسی طرح مسجد کے دوسرے کاموں کے لیے مثلاً:
تعمیرومرمت، پانی اور بجلی کے نظام کی تنصیب کی محنت پر اجرت وصول کرنا جائز ہے۔

(2)
مسجد کے لیے زمین مفت دے دینا یا مسجد کے کام بلامعاوضہ کردینا اور مسجد کی ضرورت کی اشیاء بلا قیمت دے دینا افضل اور بہت ثواب کا باعث ہے۔

(3)
رسول اللہ ﷺ ثواب کے کام میں بنفس نفیس شریک ہوتے تھے۔
اس طرح یا قبیلے کا معزز فرد اور عالم اگر خود ایسے کاموں میں شریک ہوتو اچھی بات ہے کیونکہ اس سے دوسروں کو ترغٰیب ہوتی ہےاور جو لوگ پہلے سے کام میں شریک ہیں ان کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔

(4)
غیر مسلموں کی قبروں کا وہ احترام نہیں جو مسلمانوں کی قبروں کا ہے اس لیے انھیں بوقت ضرورت مسمار کیا جا سکتا ہے۔

(5)
قبرستان میں نماز پڑھنا منع ہے لیکن اگر قبروں کے نشانات ختم ہوجائیں تو وہ جگہ عام زمین کے حکم میں ہوجائے گی پھر وہاں مسجد بنائی جاسکتی ہے۔

(6)
اسی طرح بت خانہ اور گرجا وغیرہ مسمار کرکے وہاں مسجد تعمیر کرنا درست ہے۔
یا عمارت میں اس انداز سے تبدیلی کرلی جائےکہ ظاہری طور پر بت خانہ یا گرجا معلوم نہ ہو مسجد معلوم ہو۔

(7)
ایسے شعر پڑھنا اور سننا جائز ہیں جن کے الفاظ ومعانی میں کوئی خلاف شریعت چیز نہ ہو لیکن موسیقی کے آلات کا استعمال حرام ہے۔

(8)
جہاں مسجد قریب نہ ہو وہاں کسی بھی مناسب جگہ نماز ادا کی جاسکتی ہے، اس سے اس جگہ پر مسجد کے احکام لاگو نہیں ہوں گے جب تک مسجد کی نیت سے عمارت بنالی جائے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 742   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3857  
´ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کے مناقب کا بیان`
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: «اللهم لا عيش إلا عيش الآخره فأكرم الأنصار والمهاجره» بار الٰہا زندگی تو آخرت کی زندگی ہے، تو انصار و مہاجرین کی تکریم فرما ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3857]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ حدیث اگلی حدیث کے استشہاد میں لائے ہیں،
یہی اس باب سے اس کی مناسبت ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3857   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 428  
428. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: نبی ﷺ (جب ہجرت کر کے) مدینہ تشریف لائے تو عمرو بن عوف نامی قبیلے میں پڑاؤ کیا جو مدینے کی بالائی جانب واقع تھا، نبی ﷺ نے ان لوگوں میں چودہ شب قیام فرمایا، پھر آپ نے بنونجار کو بلایا تو وہ تلواریں لٹکائے ہوئے آ پہنچے (حضرت انس ؓ کہتے ہیں:) گویا میں نبی ﷺ کو دیکھ رہا ہوں کہ آپ اپنی اونٹنی پر سوار ہیں، ابوبکر صدیق آپ کے ردیف اور بنونجار کے لوگ آپ کے گرد ہیں، یہاں تک کہ آپ نے حضرت ابو ایوب انصاری ؓ کے گھر سامنے اپنا پالان ڈال دیا۔ آپ اس بات کو پسند کرتے تھے کہ جس جگہ نماز کا وقت ہو جائے وہیں پڑھ لیں، حتی کہ آپ بکریوں کے باڑے میں بھی نماز پڑھ لیتے تھے۔ پھر آپ نے مسجد بنانے کا حکم دیا اور بنو نجار کے لوگوں کو بلا کر فرمایا: اے بنو نجار! تم اپنا یہ باغ ہمارے ہاتھ بیچ دو۔ انھوں نے عرض کیا: ایسا نہیں ہو سکتا، اللہ کی قسم! ہم۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:428]
حدیث حاشیہ:
بنونجار سے آپ ﷺ کی قرابت تھی۔
آپ کے دادا عبدالمطلب کی ان لوگوں میں ننہال تھی۔
یہ لوگ اظہارخوشی اوروفاداری کے لیے تلواریں باندھ کر آپ کے استقبال کے لیے حاضر ہوئے اور خصوصی شان کے ساتھ آپ کولے گئے۔
آپ نے شروع میں حضرت ابوایوب ؓ کے گھر قیام فرمایا، کچھ دنوں کے بعد مسجدنبوی کی تعمیرشروع ہوئی، اوریہاں سے پرانی قبروں اور درختوں وغیرہ سے زمین کو صاف کیا۔
یہیں سے ترجمہ باب نکلتا ہے۔
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ کھجور کے ان درختوں کی لکڑیوں سے قبلہ کی دیوار بنائی گئی تھی۔
ان کو کھڑاکرکے اینٹ اور گارے سے مضبوط کردیاگیاتھا۔
بعض کا قول ہے کہ چھت کے قبلہ کی جانب والے حصہ میں ان لکڑیوں کو استعمال کیا گیاتھا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 428   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:428  
428. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: نبی ﷺ (جب ہجرت کر کے) مدینہ تشریف لائے تو عمرو بن عوف نامی قبیلے میں پڑاؤ کیا جو مدینے کی بالائی جانب واقع تھا، نبی ﷺ نے ان لوگوں میں چودہ شب قیام فرمایا، پھر آپ نے بنونجار کو بلایا تو وہ تلواریں لٹکائے ہوئے آ پہنچے (حضرت انس ؓ کہتے ہیں:) گویا میں نبی ﷺ کو دیکھ رہا ہوں کہ آپ اپنی اونٹنی پر سوار ہیں، ابوبکر صدیق آپ کے ردیف اور بنونجار کے لوگ آپ کے گرد ہیں، یہاں تک کہ آپ نے حضرت ابو ایوب انصاری ؓ کے گھر سامنے اپنا پالان ڈال دیا۔ آپ اس بات کو پسند کرتے تھے کہ جس جگہ نماز کا وقت ہو جائے وہیں پڑھ لیں، حتی کہ آپ بکریوں کے باڑے میں بھی نماز پڑھ لیتے تھے۔ پھر آپ نے مسجد بنانے کا حکم دیا اور بنو نجار کے لوگوں کو بلا کر فرمایا: اے بنو نجار! تم اپنا یہ باغ ہمارے ہاتھ بیچ دو۔ انھوں نے عرض کیا: ایسا نہیں ہو سکتا، اللہ کی قسم! ہم۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:428]
حدیث حاشیہ:

عنوان یہ ہے کہ مشرکین کی قبروں کو اکھاڑ کر وہاں مسجد بنانا جائز ہے اور دلیل یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے مقابر کو مساجد بنانا ناجائز ہے۔
ان کی قبروں کو مساجد بنانے کی دوصورتیں ممکن ہیں:
۔
قبروں کو اکھاڑانہ جائے بلکہ انھیں باقی رکھ کر مسجد بنادی جائے۔
اس صورت میں بت پرستی سے مشابہت ہوگی، جوناجائز ہے۔
۔
قبروں کو اکھاڑ کرمسجد بنائی جائے۔
اس صورت میں قبور انبیاء علیہم السلام کی اہانت لازم آگئے گی، لہذا یہ صورت بھی ناجائز ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ انبیاء علیہم السلام کے مقابرکو مساجد بنانا کسی صورت میں بھی جائز نہیں۔
اس کے برعکس مشرکین وکفار کی قبروں کو مساجد میں تبدیل کیا جاسکتا ہے، بشرطیکہ انھیں اکھاڑ کر جو کچھ ان سے برآمد ہوا سے باہر پھینک دیا جائے اور صاف زمین پر مسجد تعمیر کی جائے۔
کفار ومشرکین کی قبروں کو اکھاڑنا جائز ہے، کیونکہ ان کی اہانت ممنوع نہیں، نیز (وما يكره من الصلاة في القبور)
عنوان کا دوسرا جز نہیں بلکہ مشرکین کی قبروں کو مساجد میں تبدیل کرنے کی دوسری دلیل یا علت ہے اور اس کا عطف قول پر ہے۔
عنوان کے معنی یہ ہوں گے:
کیا مشرکین کی قبور کو اکھاڑ کر مساجد بنادیاجائے۔
کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے قبور انبیاء علیہم السلام کو مساجد بنانے والوں پر لعنت فرمائی ہے اور اس لیے کہ قبروں میں نماز پڑھنا مکروہ ہے۔
(وما يكره من الصلاة في القبور)
عنوان کا دوسرا جز نہیں، اس لیے کہ قبروں میں نماز مکروہ ہونے کے متعلق امام بخاری ؒ آئندہ ایک عنوان قائم کررہےہیں جس کے الفاظ یہ ہیں:
(باب كراهية الصلاة في المقابر) (صحیح البخاري، الصلاة، باب: 52)
اگر (وما يكره من الصلاة في القبور)
کو عنوان کا جز تسلیم کیاجائے تو ابواب کا تکرار ہوتا ہے جو اصولاً درست نہیں، کیونکہ اگر تراجم کی غرض ایک ہوتو الفاظ کی تبدیلی سے بھی تکرار ہوجاتا ہے۔
لیکن اگر الفاظ ایک ہوں اور اغراض الگ الگ ہوں تو یہ تکرار نہیں ہوتا لیکن یہاں دونوں ابواب کی غرض ایک ہے اور الفاظ بھی تقریباً ملتے جلتے ہیں۔
اس طرح کا تکرار تراجم بخاری میں نہیں ہے، لہذا (وما يكره من الصلاة في القبور)
کو عنوان علت قراردیا جائے گا، اسے عنوان کا جز نہیں بنایا جائے گا۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس جگہ مسجد نبوی تعمیر کی گئی ہے وہاں پہلے مشرکین کا قبرستان تھا اور یہ قبرستان بنو نجار کی ملکیت تھا۔
رسول اللہ ﷺ نے اسے خریدنے کی خواہش ظاہر کی۔
ابتداء میں ان حضرات نے قیمت لینے سے انکار کردیا، تاہم اس کی قیمت ادا کرکے اسے خرید لیا گیا۔
اس سے معلوم ہوا کہ قبرستان اگروقف نہ ہو بلکہ کسی کی ملکیت ہوتو اسے فروخت یاہبہ کرنا جائز ہے۔
اس کے برعکس اگروقف ہوتواس کی خریدوفروخت یا اسے کسی دوسرے کو ہبہ کرنا جائز نہیں۔

حافظ ابن حجر ؒ نے علامہ بیضاوی ؒ کے حوالے سے لکھا ہے کہ یہودونصاریٰ قبور انبیاء علیہم السلام کو سجدہ تعظیمی کرتے اور انھیں قبلہ بناتے تھے، یعنی ان کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے تھے، اس لیے ان پر لعنت کی گئی، اگر کسی صالح بزرگ کے قرب میں محض برکت سے کے خیال سے مسجد بنائی جائے تووعید میں داخل نہ ہوگی۔
(فتح الباري: 680/1)
اس کا مطلب یہ ہے کہ ممانعت نبوی صرف اس خطرے کے پیش نظر ہے کہ قبر کو وثن اور بت نہ بنالیا جائے، لیکن ان کے نزدیک اگرا س بات کا اندیشہ نہ ہو تو ممانعت کی کوئی وجہ نہیں۔
ہمیں افسوس ہے کہ حافظ ا بن حجر ؒ جیسے حساس شخص نے اس رائے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا، حالانکہ گزشتہ قوموں میں شرک باللہ اور توسل بغیر اللہ کے لیے چور دروازہ یہاں سے ہی کھلتارہا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے اس مسئلے کی نزاکت کے پیش نظر بڑی شدت کے ساتھ اس کی تردید فرمائی کہ یہود ونصاریٰ پر اللہ کی لعنت ہو جنھوں نے انبیاء علیہم السلام وصالحین کی قبروں پر مساجد تعمیر کرلیں اور یہ بھی فرمایا کہ جب ان میں کوئی نیک آدمی مرجاتاتو اس کی قبر پر مسجد بنالیتے تھےاور اس میں اس کی تصاویر آویزاں کردیتے تھے۔
یہی لوگ قیامت کے دن بدترین انسان ہوں گے۔
قرآن کریم نے اس قسم کی ذہنیت کے حامل لوگوں کی بات نقل کی ہے کہ اصحاب کہف کے مرنے کے بعد لوگوں نے طے کیا کہ انھیں اپنے حال پر چھوڑدیا جائے اور غار کا دروازہ بندکردیا جائے، لیکن شہر کے بااثر لوگوں نے برملاکہا کہ ہم ان کی یادگار کے طور پر ان کی قبروں پر مسجد بنائیں گے۔
(الکھف: 21: 18)
ان کامقصد بھی غالباً یہی تھا کہ ہم ان کے اجسام اور ان کی تربت سے برکت کے لیے اس مسجد میں نمازیں پڑھیں گے،اس لیے حافظ ا بن حجر ؒ کی نقل کردہ رائے صحیح نہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 428   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.