الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
The Book of As-Salat (The Prayer)
96. بَابُ الصَّلاَةِ بَيْنَ السَّوَارِي فِي غَيْرِ جَمَاعَةٍ:
96. باب: دو ستونوں کے بیچ میں نمازی اگر اکیلا ہو تو نماز پڑھ سکتا ہے۔
(96) Chapter. To offer non-congregational As-Salat (the prayers) between the pillars.
حدیث نمبر: 505
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال: اخبرنا مالك، عن نافع، عن عبد الله بن عمر، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم دخل الكعبة، واسامة بن زيد، وبلال، وعثمان بن طلحة الحجبي فاغلقها عليه ومكث فيها، فسالت بلالا حين خرج: ما صنع النبي صلى الله عليه وسلم؟ قال:"جعل عمودا عن يساره وعمودا عن يمينه وثلاثة اعمدة وراءه، وكان البيت يومئذ على ستة اعمدة ثم صلى"، وقال لنا إسماعيل: حدثني مالك، وقال: عمودين عن يمينه.حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ الْكَعْبَةَ، وَأُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، وَبِلَالٌ، وَعُثْمَانُ بْنُ طَلْحَةَ الْحَجَبِيُّ فَأَغْلَقَهَا عَلَيْهِ وَمَكَثَ فِيهَا، فَسَأَلْتُ بِلَالًا حِينَ خَرَجَ: مَا صَنَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ:"جَعَلَ عَمُودًا عَنْ يَسَارِهِ وَعَمُودًا عَنْ يَمِينِهِ وَثَلَاثَةَ أَعْمِدَةٍ وَرَاءَهُ، وَكَانَ الْبَيْتُ يَوْمَئِذٍ عَلَى سِتَّةِ أَعْمِدَةٍ ثُمَّ صَلَّى"، وَقَالَ لَنَا إِسْمَاعِيلُ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، وَقَالَ: عَمُودَيْنِ عَنْ يَمِينِهِ.
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا ہمیں امام مالک بن انس نے خبر دی نافع سے، انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے اندر تشریف لے گئے اور اسامہ بن زید، بلال اور عثمان بن طلحہ حجبی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ پھر عثمان رضی اللہ عنہ نے کعبہ کا دروازہ بند کر دیا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں ٹھہرے رہے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلے تو میں نے بلال رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اندر کیا کیا؟ انہوں نے کہا کہ آپ نے ایک ستون کو تو بائیں طرف چھوڑا اور ایک کو دائیں طرف اور تین کو پیچھے اور اس زمانہ میں خانہ کعبہ میں چھ ستون تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ ہم سے اسماعیل بن ابی ادریس نے کہا، وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے امام مالک نے یہ حدیث یوں بیان کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دائیں طرف دو ستون چھوڑے تھے۔

Narrated Nafi`: `Abdullah bin `Umar said, "Allah's Apostle entered the Ka`ba along with Usama bin Zaid, Bilal and `Uthman bin Talha Al-Hajabi and closed the door and stayed there for some time. I asked Bilal when he came out, 'What did the Prophet do?' He replied, 'He offered prayer with one pillar to his left and one to his right and three behind.' In those days the Ka`ba was supported by six pillars." Malik said: "There were two pillars on his (the Prophet's) right side."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 9, Number 484

   صحيح البخاري505بلال بن رباحجعل عمودا عن يساره وعمودا عن يمينه وثلاثة أعمدة وراءه كان البيت يومئذ على ستة أعمدة ثم صلى
   صحيح البخاري397بلال بن رباحبين الساريتين اللتين على يساره
   جامع الترمذي874بلال بن رباحصلى في جوف الكعبة
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم190بلال بن رباحجعل عمودا عن يساره وعمودين عن يمينه وثلاثة اعمدة وراءه
   مسندالحميدي149بلال بن رباحبين العمودين المقدمين

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 190  
´بیت اللہ کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہونے والا جدھر بھی رخ کر کے نماز پڑھے جائز ہے`
«. . . 226- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم دخل الكعبة هو وأسامة بن زيد وبلال وعثمان ابن طلحة الحجبي فأغلقها عليه ومكث فيها. قال عبد الله بن عمر: فسألت بلالا حين خرج: ماذا صنع رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقال: جعل عمودا عن يساره وعمودين عن يمينه وثلاثة أعمدة وراءه، وكان البيت يومئذ على ستة أعمدة، ثم صلى وجعل بينه وبين الجدار نحوا من ثلاثة أذرع. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، اسامہ بن زید، بلال اور عثمان بن طلحہ الحجمی رضی اللہ عنہم کعبۃ اللہ میں داخل ہوئے تو دروازہ بند کر کے وہاں ٹھہرے رہے، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر آئے تو میں نے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا عمل فرمایا تھا؟ تو انہوں نے جواب دیا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح کھڑے ہوئے کہ بائیں طرف ایک ستون تھا، دائیں طرف دو ستون تھے اور پچھلی طرف تین ستون تھے ان دنوں بیت اللہ کے چھ ستون تھے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی، آپ کے اور دیوار کے درمیان تین ہاتھ کا فاصلہ تھا . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 190]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 505، ومسلم 1329، من حديث مالك به]
تفقہ
➊ کعبہ کے اندر (جدھر بھی رخ کیا جائے) نماز جائز ہے۔
➋ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بیت اللہ کے چھ ستوں تھے۔
➌ جن لوگوں کے پاس بیت اللہ کے انتظام کی ذمہ داری ہے اُن کے لئے جائز ہے کہ بیت اللہ کا دروازہ عام لوگوں کے لئے بند رکھیں۔
➍ راوی سے روایت لینا تقلید نہیں ہے ورنہ یہ لازم آئے گا کہ مجتہدین کو مقلدین کے زمرے میں شامل کیا جائے۔
➎ جب دونوں راوی ثقہ ہوں تو نفی پر اثبات مقدم ہے۔ مثلاً ایک راوی کہتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ میں نماز نہیں پڑھی اور دوسرے راوی نے کہا: آپ نے کعبہ میں نماز پڑھی ہے تو دوسرے راوی کو ہی ترجیح حاصل ہو گی۔
➏ ثقہ کی زیادت مقبول ہے اِلا یہ کہ دوسرے ثقہ راویوں کے خلاف ہو اور تطبیق وغیرہ ممکن نہ ہو سکے۔
➐ کتنا ہی بڑا عالم کیوں نہ ہو! یہ ممکن ہے کہ بعض ایسی حدیثیں اُس سے مخفی رہ جائیں جو دوسروں کو معلوم ہوں لہٰذا اندھا دھند ترکِ ادلہ اور غلو فی تعظیم الرجال کا عقیدہ وطرزِ عمل غلط ہے۔
➑ حصولِ علم اور عمل کے لئے سنت کی جستجو میں رہنا چاہئے۔
➒ نماز پڑھتے ہوئے سترہ تین ہاتھ کے فاصلے پر ہونا چاہئے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 226   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 874  
´کعبہ کے اندر نماز پڑھنے کا بیان۔`
بلال رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کے اندر نماز پڑھی۔ جب کہ ابن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں: آپ نے نماز نہیں پڑھی بلکہ آپ نے صرف تکبیر کہی۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 874]
اردو حاشہ:
1؎:
راجح بلال رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کیونکہ اس سے کعبہ کے اندر نماز پڑھنا ثابت ہو رہا ہے،
رہی ابن عباس رضی اللہ عنہما کی نفی،
تو یہ نفی ان کے اپنے علم کی بنیاد پر ہے کیونکہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما نے انہیں اسی کی خبر دی تھی اور اسامہ کے اس سے انکار کی وجہ یہ ہے کہ جب یہ لوگ کعبہ کے اندر گئے تو ان لوگوں نے دروازہ بند کر لیا اور ذکر و دعا میں مشغول ہو گئے جب اسامہ نے دیکھا کہ نبی اکرم ﷺ دعا میں مشغول ہیں تو وہ بھی ایک گوشے میں جا کر دعا میں مشغول ہو گئے،
نبی اکرم ﷺ دوسرے گوشے میں تھے اور بلال رضی اللہ عنہ آپ سے قریب تھے اور آپ دونوں کے بیچ میں تھے،
نبی اکرم ﷺ کی نماز چونکہ بہت ہلکی تھی اور اسامہ خود ذکر و دعا میں مشغول و منہمک تھے اور نبی اکرم ﷺ ان کے بیچ میں بلال حائل تھے اس لیے اسامہ کو آپ کے نماز پڑھنے کا علم نہ ہو سکا ہو گا اسی بنا پر انہوں نے اس کی نفی کی،
واللہ اعلم۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 874   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:505  
505. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ، حضرت اسامہ بن زید ؓ، حضرت بلال ؓ اور حضرت عثمان بن طلحہ حجبی ؓ خانہ کعبہ کے اندر داخل ہوئے، پھر اندر سے حضرت عثمان ؓ نے دروازہ بند کر دیا اور آپ کعبے کے اندر ٹھہرے رہے۔ جب باہرتشریف لائے تو میں نے حضرت بلال ؓ سے پوچھا: نبی ﷺ نے (بیت اللہ کے اندر) کیا کام کیا؟ انھوں نے بتایا: آپ نے ایک ستون کو اپنی بائیں جانب اور ایک کو دائیں جانب اور تین ستونوں کو اپنے عقب میں کر لیا، اس وقت کعبے کی عمارت چھ ستونوں پر تھی، پھر آپ نے نماز پڑھی۔ (امام بخاری ؓ کہتے ہیں: ہم سے) اسماعیل نے بیان کیا کہ مجھ سے امام مالک ؒ نے فرمایا: آپ نے دو ستونوں کو اپنی دائیں جانب کیا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:505]
حدیث حاشیہ:
عبدالحمید بن محمود بیان کرتے ہیں کہ ہم نے ایک امیر کے پیچھے نماز پڑھی۔
لوگوں نے ہمیں مجبور کردیا، اس بنا پر ہم نے دوستونوں کے درمیان نماز پڑھی۔
نماز کے بعد حضرت انس بن مالک ؓ نے فرمایا کہ ہم عہد رسالت میں اس سے بچنے کی کوشش کرتے تھے۔
(جامع الترمذي، الصلاة، حدیث: 229)
اسی طرح قرہ بن ایاس مزنی روایت کرتے ہیں کہ عہد رسالت میں ہمیں ستونوں کے درمیان صف بنانے سے منع کیا جاتا تھا اور اس سے سختی کے ساتھ روکا جاتا تھا۔
(سنن ابن ماجة، إقامة الصلوات، حدیث: 1002)
ان روایات سے معلوم ہوا کہ ستونوں کے درمیان نماز پڑھنا منع ہے۔
امام بخاری ؒ نے عنوان میں غیر جماعۃ کی قید لگا کر واضح کردیا کہ اس ممانعت کاتعلق نماز باجماعت سے ہے، اگر کوئی اکیلا پڑھتا ہے تواس میں چنداں حرج نہیں۔
اس کے لیے انھوں نے رسول اللہ ﷺ کا عمل پیش کیا ہے کہ آپ نے بیت اللہ کے اندر دوستونوں کے درمیان نماز ادا کی، چنانچہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شراح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں:
ستونوں کے درمیان اکیلا آدمی نماز پڑھ سکتا ہے، کراہت صرف بحالت جماعت ستونوں کے درمیان نماز پڑھنے میں ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 505   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.