الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اخلاق کے بیان میں
The Book of Al-Adab (Good Manners)
57. بَابُ مَا يُنْهَى عَنِ التَّحَاسُدِ وَالتَّدَابُرِ:
57. باب: حسد اور پیٹھ پیچھے برائی کی ممانعت۔
(57) Chapter. Jealousy and mutual estrangement are forbidden.
حدیث نمبر: Q6064
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
وقوله تعالى: {ومن شر حاسد إذا حسد}.وَقَوْلِهِ تَعَالَى: {وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ}.
‏‏‏‏ اور اللہ تعالیٰ کا (سورۃ الفلق میں) فرمان «ومن شر حاسد إذا حسد‏» اور حسد کرنے والے کی برائی سے تیری پناہ چاہتا ہوں، یا اللہ! جب وہ حسد کرے۔

حدیث نمبر: 6064
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا بشر بن محمد، اخبرنا عبد الله، اخبرنا معمر، عن همام بن منبه، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" إياكم والظن فإن الظن اكذب الحديث، ولا تحسسوا ولا تجسسوا ولا تحاسدوا ولا تدابروا ولا تباغضوا وكونوا عباد الله إخوانا".حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ فَإِنَّ الظَّنَّ أَكْذَبُ الْحَدِيثِ، وَلَا تَحَسَّسُوا وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا تَحَاسَدُوا وَلَا تَدَابَرُوا وَلَا تَبَاغَضُوا وَكُونُوا عِبَادَ اللَّهِ إِخْوَانًا".
ہم سے بشر بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں ہمام بن منبہ نے خبر دی اور انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بدگمانی سے بچتے رہو کیونکہ بدگمانی کی باتیں اکثر جھوٹی ہوتی ہیں، لوگوں کے عیوب تلاش کرنے کے پیچھے نہ پڑو، آپس میں حسد نہ کرو، کسی کی پیٹھ پیچھے برائی نہ کرو، بغض نہ رکھو، بلکہ سب اللہ کے بندے آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو۔

Narrated Abu Huraira: The Prophet said, "Beware of suspicion, for suspicion is the worst of false tales; and do not look for the others' faults and do not spy, and do not be jealous of one another, and do not desert (cut your relation with) one another, and do not hate one another; and O Allah's worshipers! Be brothers (as Allah has ordered you!")
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 73, Number 90

   صحيح البخاري6724عبد الرحمن بن صخرإياكم والظن فإن الظن أكذب الحديث ولا تحسسوا ولا تجسسوا
   صحيح البخاري6066عبد الرحمن بن صخرإياكم والظن فإن الظن أكذب الحديث ولا تحسسوا ولا تجسسوا ولا تناجشوا
   صحيح البخاري5143عبد الرحمن بن صخرإياكم والظن فإن الظن أكذب الحديث لا تجسسوا لا تحسسوا لا تباغضوا
   صحيح البخاري6064عبد الرحمن بن صخرإياكم والظن فإن الظن أكذب الحديث ولا تحسسوا ولا تجسسوا ولا تحاسدوا
   صحيح مسلم6536عبد الرحمن بن صخرإياكم والظن فإن الظن أكذب الحديث ولا تحسسوا ولا تجسسوا ولا تنافسوا
   جامع الترمذي1988عبد الرحمن بن صخرإياكم والظن فإن الظن أكذب الحديث
   سنن أبي داود4917عبد الرحمن بن صخرإياكم والظن فإن الظن أكذب الحديث ولا تحسسوا ولا تجسسوا
   صحيفة همام بن منبه6عبد الرحمن بن صخرإياكم والظن إياكم والظن إياكم والظن فإن الظن أكذب الحديث ولا تناجشوا
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم291عبد الرحمن بن صخرإياكم والظن، فإن الظن اكذب الحديث، ولا تحسسوا، ولا تجسسوا، ولا تنافسوا، ولا تحاسدوا، ولا تباغضوا، ولا تدابروا، وكونوا عباد الله إخوانا
   بلوغ المرام1284عبد الرحمن بن صخر‏‏‏‏إياكم والظن فإن الظن اكذب الحديث
   مسندالحميدي1117عبد الرحمن بن صخرإياكم والظن، فإن الظن أكذب الحديث

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ عبدالله شميم حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيفه همام بن منبه 6  
´حسد اور پیٹھ پیچھے برائی کی ممانعت`
«. . . قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ، إِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ، إِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ، فَإِنَّ الظَّنَّ أَكْذَبُ الْحَدِيثِ، وَلا تَنَاجَشُوا، وَلا تَحَاسَدُوا، وَلا تَنَافَسُوا، وَلا تَبَاغَضُوا، وَلا تَدَابَرُوا، وَكُونُوا عِبَادَ اللَّهِ إِخْوَانًا " . . . .»
. .۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بدگمانی سے بچتے رہو، بدگمانی سے بچتے رہو، کیونکہ بدگمانی کی باتیں اکثر جھوٹی ہوتی ہیں، اور (بغیر نیت خرید کے) کسی کے بھاؤ پر بھاؤ نہ بڑھاؤ، اور آپس میں حسد نہ کرو، اور نہ نفسانیت سے ایک دوسرے سے آگے بڑھو، اور آپس میں دشمنی پیدا نہ کرو، اور کسی کی پیٹھ پیچھے برائی نہ کرو، بلکہ سب اللہ کے بندے آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو۔ . . . [صحيفه همام بن منبه: 6]

شرح الحدیث:
مذکورہ حدیث میں چند ایسی ممنوع اشیاء کا ذکر ہے جو باہم مسلمانوں میں نفرت اور عداوت کا باعث بنتی ہیں۔ اور یہ ایسی معاشرتی برائیاں ہیں جو ہمارے معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہیں، اس حدیث پاک میں چند اخلاقی امور کی تلقین کی جا رہی ہے جو اصلاح معاشرہ کے لیے بے حد ضروری ہیں۔

بدگمانی سے بچو:
بدگمانی، دوسرے کے متعلق جھوٹا وہم ہے، اور جو جھوٹ ہی کی ایک قسم ہے:
«فَإِنَّ الظَّنَّ أَكْذَبُ الْحَدِيْثِ»
پس بدگمانی کی اکثر باتیں جھوٹی ہوتی ہیں۔
امام بغوى رحمة الله عليه فرماتے ہیں:
«إِيَاكُمْ وَالظَّنَّ» کا معنی برے گمان سے بچو، ایسا گمان جس میں دوسرے شخص کے ہر کام میں بدنیتی نظر آتی ہے، جس کے نتیجے میں دو افراد کے درمیان برادرانہ تعلقات خراب ہو جاتے ہیں۔ وہ گمان مراد نہیں جن کا انسان مالک ہی نہیں، دل میں خودبخود پیدا ہو جاتے ہیں، اسی لیے فرمایا:
«يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ» [الحجرات: 12]
اے ایمان والو! بہت ساری بدگمانی کی باتوں سے پرہیز کرو، بے شک بعض بدگمانی گناه ہیں۔
مذکورہ آیت میں مطلق گمان کو گناہ نہیں گردانا گیا بلکہ بعض گمان کو گناہ کہا گیا ہے، اور وہ برا گمان ہے۔ اور وہ گمان جو گناہ نہیں وہ کسی کے متعلق حسن ظن رکھنا ہے۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
«إِنَّ حُسْنَ الظَنِّ مِنْ حُسْنِ الْعِبَادَة»
احمد شاکر نے اسے صحیح الاسناد کہا ہے۔ [مسند احمد، رقم: 7943 - سنن ابو داؤد، كتاب الأدب، رقم: 4993]
یقیناً اچھا گمان بہترین عبادت سے ہے۔
مزید برآں علامہ بغوی رحمة الله عليه فرماتے ہیں:
سفیان ثوری رحمة الله عليه کا کہنا ہے کہ گمان دو طرح کا ہے:
➊ انسان کسی کے متعلق برا گمان رکھے، اور اس کو آگے بیان بھی کرے، تو ایسے گمان پر گناہ ہے۔
➋ اس سے مراد وہ گمان ہے جس کو انسان آگے بیان نہ کرے، ایسے گمان پر گناہ نہیں ہے۔
[شرح السنة: 110/13]
زجاج رحمة الله عليه فرماتے ہیں کہ:
بدکرداروں اور فاسقوں کے ظاہری اعمال سے جو کچھ ظاہر ہوتا ہے، ان کے بارے میں ویسا ہی (برا گمان) رکھنے میں کوئی حرج نہیں، اور جس مسلمان کا ظاہر اچھا ہے، اس کے بارے میں بدگمانی جائز نہیں۔ اور جس کا ظاہر خراب ہو، اس کے بارے میں بدگمانی رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

کسی کے بھاؤ پر بھاؤ نہ بڑھاؤ:
مراد یہ ہے کہ ایک چیز کا خریدنا منظور نہ ہو، لیکن دوسرے کو دھوکا دینے کے لیے جھوٹ سے اس چیز کی قیمت بڑھائے، اسی طرح کوئی شخص کسی شے کا بھاؤ کر رہا ہو تو تم اس میں دخل اندازی مت کرو۔ دھوکا دینے کے لیے جھوٹ سے بھاؤ بڑھانے والا گنہگار ہے۔

تم حسد نہ کرو:
حسد انسانی فطرت کا جزو لا ینفك ہے، حسد کا معنی یہ ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے کے پاس کوئی چیز یا نعمت دیکھے اور تمنا کرے کہ یہ چیز میرے پاس ہو، اور اس شخص (جس کے پاس وہ نعمت ہے) سے زائل اور ختم ہو جائے، جبکہ بعض لوگ یہ چاہتے ہیں کہ وہ نعمت ہمیں اگرچہ حاصل نہ ہو لیکن وہ شخص بھی اس نعمت سے محروم ہو جائے۔ اس قسم کا حسد کرنے والے زیادہ خبیث اور بدکردار ہوتے ہیں۔ یاد رہے! اس حدیث میں حسد سے منع کیا گیا ہے، کیونکہ حسد حرام ہے۔
الله تعالیٰ نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کو بالعموم تمام مخلوقات کے شر سے پناہ مانگنے کی تعلیم دی ہے، اور کچھ برائیوں سے بالخصوص پناہ مانگنے کی نصیحت فرمائی ہے، ان میں سے حسد بھی ہے۔ جیسا کہ سورة الفلق میں ہے:
«وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ .......»
اے نبی! کہہ دیجئے: کہ میں حاسد کے حسد سے تیری پناہ چاہتا ہوں، جب وہ اپنا حسد ظاہر کرتا ہے۔
تاکہ محسور کو نقصان نہ پہنچائے، بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ حاسد کے مفہوم میں وہ آدمی بھی داخل ہے جس کی نظر لگ جاتی ہے، اس لیے کہ جو آدمی حاسد، بدطینت اور خبیث النفس ہوتا ہے اسی کی نظر برئی ہوتی ہے۔
عمر بن عبد العزیز رحمة الله عليه فرماتے ہیں:
میں نے حاسد سے زیادہ کسی ظالم کو مظلوم کے مشابہ نہیں دیکھا، حسد کے سبب ظالم ہوتا ہے، لیکن نعمت سے محرومی کے سبب مظلوم معلوم ہوتا ہے۔ [تيسير الرحمن، ص: 1783]
حسد کے حرام ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ الله نے جسے کچھ بھی دیا ہے بغیر حکمت کے نہیں دیا، وہ خواہ اس کا فضل و کرم سہی، خواہ اس آدمی کی محنت کا صلہ ہو، دینے والا تو بہرحال الله خالق کل اور مختار کل ہے، تو نعمت پر اعتراض دراصل الله کے فضل و کرم پر اعتراض ہے، جبکہ مخلوق کو یہ حق حاصل نہیں کہ اپنے خالق پر اعتراض کرے وہ ہر چیز پر قادر ہے، جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ جب انسان کسی سے حسد کرتا ہے تو اپنے بھائی کے نقصان کے در پے ہوتا ہے، پھر غیبت، جھوٹ وغیرہ جیسی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ جس کا وہ مرتکب ہوتا ہے۔

رشک کرو:
لیکن رشک کرنا جائز و درست ہے، رشک یعنی دوسرے کو جو نعمت الله نے دی ہے، اس کی آرزو کرنا یہ درست ہے۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
«لا حسد إلا على اثنتين: رجل آتاه الله الكتاب وقام به آناء الليل، ورجل اعطاه الله مالا فهو يتصدق به آناء الليل والنهار» [صحيح بخاري، كتاب فضائل القرآن، رقم: 5025]
رشک تو دو ہی آدمیوں پر ہو سکتا ہے، ایک تو اس پر جسے الله نے قرآن مجید کا علم دیا اور وہ اس کے ساتھ رات کی گھڑیوں میں کھڑا ہو کر نماز پڑھتا رہا۔ اور دوسرا آدمی وہ جسے الله تعالیٰ نے مال دیا اور وہ اسے محتاجوں پر رات دن خیرات کرتا رہا۔

تم نفسانیت سے ایک دوسرے سے آگے مت بڑھو:
طبرانی رحمة الله عليه اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
تم ایک دوسرے کی رِیس کرتے ہوئے، ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر دنیا کا مال و دولت حاصل کرنے کی کوشش نہ کرو۔ بلکہ ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر نیکی کے کام کرنے کی کوشش کرو۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: «فَلْيَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُوْن» [المطففون: 26] انہی (نیکی کے) کاموں میں رغبت کرنے والوں کو رغبت کرنی چاہیے۔
گویا یہاں منافست کا معنی رشک کرنا ہے، اور بعض لوگ اس کا معنی حسد کرتے ہیں، وہ درست نہیں۔

تم ایک دوسرے سے دشمنی پیدا نہ کرو، بغض نہ رکھو۔
بغض محبت کی ضد ہے، لہذا ایک دوسرے سے بغض رکھنے کے بجائے ایک دوسرے سے محبت رکھنی چاہیے، کیونکہ سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ الله تعالیٰ کا ارشاد ہے:
«إِنَّمَا الْمُؤمِنُوْنَ إِخْوَةٌ» [الحجرات:10]
بےشک مومنین آپس میں بھائی ہیں۔
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ میں بھی اسلامی اخوت کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے، عبدالله بن عمر رضی الله عنہما سے مروی ہے، رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«المسلم اخو المسلم لا يظلمه ولا يسلمه» [صحيح بخاري، كتاب المظالم، رقم: 2442]
مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرے اور نہ اسے رسوا کرے۔
اور سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«إن المؤمن للمؤمن كالبنيان يشد بعضه بعضا، وشبك اصابعه» [صحيح بخاري، كتاب الصلوة، رقم: 481]
بے شک مومن مومن کے لیے عمارت کی مانند ہے، جس کا ایک حصہ دوسرے حصہ کو طاقت پہنچاتا ہے۔ اور آپ نے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں داخل کیا۔
اور اگر یہ بغض دین کی خاطر ہو، «أَلْحُبُّ لِلّهِ وَالْبُغْضُ فِي للّه» کے پیش نظر تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ قرآن مجید میں کفار سے بغض رکھنے کا حکم ہے، اور ان سے دوستی اور محبت کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ ارشاد فرمایا:
«لَّا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ۖ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللَّـهِ فِي شَيْءٍ إِلَّا أَن تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً ۗ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّـهُ نَفْسَهُ ۗ وَإِلَى اللَّـهِ الْمَصِيرُ» [آل عمران: 28]
اہل ایمان، مومنون کو چھوڑ کر کافروں کو ہرگز دوست نہ بنائیں اور جو کوئی ایسا کرے گا تو اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں الایہ کہ تم ان کافروں کے شر سے بچنا چاہو اور اللہ تمہیں اپنی ذات سے ڈراتا ہے اور اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
امام بخاری رحمه الله نے سیدنا ابو الدردا رضی الله عنہ سے روایت بیان کی ہے کہ:
«إنا لنكشر فى وجوه اقوام وإن قلوبنا لتلعنهم» [صحيح بخاري، كتاب الادب، قبل حديث، رقم: 6131 تعليقا]
ہم بعض لوگوں کے سامنے مسکرا دیتے ہیں، لیکن ہمارے دل انہیں لعنت کر رہے ہوتے ہیں۔

تم ایک دوسرے سے قطع تعلقی نہ کرو:
اس حدیث میں ایک دوسرے سے قطع تعلقی کرنے، پشت پھیر لینے، منہ موڑ لینے اور بے رخی اختیار کرنے سے بھی منع کر دیا گیا ہے۔ ایک صحیح مسلم کی روایت میں «لَا تَقَاطَعُوْا» کے الفاظ بھی ہیں کہ ایک دوسرے سے تعلق نہ توڑو، غصہ انسانی فطرت کا حصہ ہے، اگر کسی دوست پر غصہ آ ہی جائے تو اسلام نے انسانی نفسیات کا لحاظ رکھتے ہوئے تین دن تک اسے جائز رکھا ہے، تین دنوں سے زیادہ روٹھے رہنا اور ایک دوسرے سے گفتگو نہ کرنا، یہ نفرت و حقارت کا سبب بن سکتا ہے اس صورتحال سے بچنے کے لیے آپ صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ:
«لا يحل لرجل ان يهجر اخاه فوق ثلاث ليال، يلتقيان فيعرض هذا ويعرض هذا، وخيرهما الذى يبدا بالسلام» [صحيح بخاري، كتاب الادب، رقم: 6077]
کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع کلامی کرے (بائیکاٹ کرے) دونوں آپس میں ملتے ہیں، ایک اس طرف منہ پھیر لیتا ہے اور دوسرا دوسری طرف رخ پھیر لیتا ہے۔ ان میں سے بہتر وہ ہے جو سلام کرنے میں پہل کرے۔

تم سب الله کے بندے آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو:
اس حدیث کے آخر میں بھائی بھائی بن کر رہنے کا حکم فرمایا ہے، تاکہ مسلمان آپس میں اکھٹے اور مضبوط رہیں۔ کیونکہ تم سب مسلمان ایک ہی برادری کے افراد ہو، مسلمان جہاں کہیں بھی ہو دوسرے مسلمان کا بھائی ہے۔ ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر کچھ حقوق ہیں جو اخوت اسلامی کے تقاضے بھی ہیں کہ دوسرے پر ظلم نہ کرے، ضرورت کے وقت اس کا ساتھ نہ چھوڑے، اس کو نفرت کی نگاہ سے نہ دیکھے اور اس سے دروغ گوئی نہ کرے وغیرہ، ویسے تو ہر قول رسول ہی ایسا ہے کہ اسے ہر وقت یاد رکھا جائے مگر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا یہ مقدس وعظ ایسا ہے جو ہر وقت یاد رکھا جائے، اور اس پر عمل کیا جائے تو یقینا امت کا بیڑا پار ہو سکے گا۔ الله عظیم و برتر سب کو ایسی ہمت اور طاقت عطا کرے۔ «آمين يا رب العالمين!»
   صحیفہ ہمام بن منبہ شرح حافظ عبداللہ شمیم، حدیث\صفحہ نمبر: 82   
   الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1284  
بدگمانی سے بچو
«وعن ابي هريرة رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: ‏‏‏‏إياكم والظن فإن الظن اكذب الحديث . متفق عليه»
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گمان سے بچو کیونکہ گمان سب سے جھوٹی بات ہے۔ متفق عليه۔ [بلوغ المرام/كتاب الجامع: 1284]
تخریج:
[بخاري 6066]،
[مسلم، البر والصلة / 38]،
[تحفة الاشراف 172/10]
صحیح بخاری میں پوری حدیث اس طرح ہے:
«ولا تحسسوا ولا تجسسوا ولا تناجشوا ولا تحاسدوا ولا تباغضوا ولا تدابروا وكونوا عباد الله إخوانا»
اور نہ ٹوہ لگاؤ، نہ جاسوسی کرو، نہ دھوکے سے (خرید و فروخت میں) بولی بڑھاؤ، نہ ایک دوسرے پر حسد کرو، نہ ایک دوسرے سے دل میں کینہ رکھو اور نہ ایک دوسرے سے قطع تعلق کرو اور اللہ کے بندے بھائی بھائی بن جاؤ۔

فوائد:
➊ قرطبی نے فرمایا کہ اس جگہ ظن سے مراد ایسی تہمت ہے جس کا کوئی سبب نہ ہو مثلا ایک آدمی کے بدکار یا شرابی ہونے کا خیال دل میں جما لینا حالانکہ اس سے ایسی کوئی بات سرزد نہیں ہوئی کہ اسے ایسا سمجھا جائے۔ اس لئے اس کے ساتھ ہی فرمایا «ولا تجسسوا» جاسوسی مت کرو۔ کیونکہ جب کسی شخص کے برے ہونے کا خیال دل میں جگہ پکڑ لیتا ہے حالانکہ اس کی کوئی دلیل نہیں ہوتی تو آدمی وہ بات ثابت کرنے کے لئے جاسوسی کرتا ہے ٹوہ لگاتا ہے کان لگاتا ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرما دیا۔ یہ حدیث اس آیت سے بہت ملتی جلتی ہے۔
«يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ ۖ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا» [49-الحجرات:12]
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو بہت گمان سے بچو کیونکہ بعض گمان گناہ ہیں اور نہ جاسوسی کرو اور نہ تم میں سے بعض دوسرے کی غیبت کرے۔
آیت میں مسلمان کی عزت کو محفوظ رکھنے کی بہت ہی زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ چنانچہ پہلے تو کسی بھی مسلم بھائی کے معاملے میں خواہ مخواہ کے گمان سے منع فرمایا جس کا کوئی باعث اور کوئی سبب نہ ہو اگر گمان کرنے والا کہے کہ میں اس گمان کی تحقیق کے لئے جستجو کرتا ہوں تو اسے کہا گیا «وَلَا تَجَسَّسُوا» جاسوسی مت کرو۔ اگر وہ کہے جاسوسی کے بغیر ہی مجھے یہ بات ثابت ہو گئی ہے تو کہا: گیا «وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا» ایک دوسرے کی غیبت (دوسرے بھائی کی عدم موجودگی میں وہ بات جو اسے ناپسند ہو خواہ اس میں وہ موجود ہی ہو) مت کرو۔ [فتح الباري]
➋ ظن کی دو حالتیں ہیں۔ ایک ظن غالب جو کسی دلیل یا مضبوط علامت کے ساتھ قوی ہو جائے اس پر عمل کرنا درست ہے شریعت کے اکثر احکام اسی پر مبنی ہیں اور دنیا کے تقریبا تمام کام اسی پر چلتے ہیں۔ مثلا عدالتوں کے فیصلے گواہوں کی گواہی باہمی تجارت، ٹیلی فون اور خطوط کے ذریعے اطلاعات اور خبر واحد کے راویوں کی روایت وغیرہ ان سب چیزوں میں غور و فکر جانچ پڑتال اور پوری کوشش سے حاصل ہونے والا علم بھی ظن غالب ہے اور اس پر عمل واجب ہے اسے ظن اس لئے کہتے ہیں کہ اس کی جانب مخالف کا ادنیٰ سا امکان رہتا ہے مثلاً ہو سکتا ہے گواہ کی گواہی درست نہ ہو، اطلاع دینے والا جھوٹ بول رہا ہو۔ راوی کو غلطی لگی ہو وغیرہ لیکن اس امکان کا کوئی اعتبار نہیں کیونکہ اگر اس امکان پر جائیں تو دنیا کا کوئی کام ہو ہی نہ سکے۔ اس لئے اپنی پوری کوشش کے بعد دلائل سے جو علم حاصل ہو ظن غالب ہونے کے باوجود اس پر عمل واجب ہے۔
دوسرا ظن وہ ہے جو دل میں آ جاتا ہے مگر اس کی کوئی دلیل نہیں ہوتی، دلیل نہ ہونے کی وجہ سے دل میں اس کے ہونے یا نہ ہونے کی بات برابر ہوتی ہے اسے شک بھی کہتے ہیں یا اس کے ہونے کا امکان اس کے نہ ہونے سے بھی کم ہوتا ہے۔ یہ وہم کہلاتا ہے۔ ان کی یہ صورتیں مذموم ہیں اور ان سے اجتناب واجب ہے۔ «إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ» بے شک بعض گمان گناه ہیں سے یہی مراد ہے اور «إِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا» [يونس: 36] بے شک گمان حق کے مقابلہ میں کچھ فائدہ نہیں دیتا اور «وَمَا تَهْوَى الْأَنفُسُ» [النجم: 23] یہ لوگ صرف اپنے گمان کی اور اپنی خواہشات کی پیروی کر رہے ہیں میں اسی ظن کا ذکر ہے۔
➌ جیسا کہ اوپر گزرا حدیث میں ایسے ظن (گمان) سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے جو بے دلیل ہو مثلاٍ ایک آدمی جو ظاہر میں صالح ہے اس کے عیوب پر اللہ کی طرف سے پردہ پڑا ہوا ہے عام مشاہدہ میں وہ عفیف اور امانتدار ہے اس کی بد دیانتی یا گناہ گار ہونے کی کوئی دلیل یا علامت نہیں اس کے متعلق بدگمانی کرنا حرام ہے۔ ہاں اگر گمان کرنے کی کوئی واقعی دلیل یا علامت موجود ہو تو اس وقت گمان منع نہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے ہر گمان سے منع نہیں فرمایا۔ بلکہ فرمایا: «اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ» زیادہ گمان سے بچو کیونکہ بعض گمان گناہ ہیں۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں فرمایا: «ما يجوز من الظن» جو گمان جائز ہیں۔ اور اس میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ حدیث ذکر کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «ما اظن فلانا وفلانا يعرفان من ديننا شيئا» میں فلاں اور فلاں کے متعلق گمان نہیں کرتا کہ وہ ہمارے دین میں سے کچھ بھی جانتے ہیں۔ لیث نے فرمایا: یہ دونوں آدمی منافق تھے۔ انتھی۔ اس جائز گمان سے وہ گمان مراد ہے جس کی علامات اور دلیلیں واضح ہوں۔
➍ اگر دل میں کسی شخص کے برا ہونے کا خیال آئے مگر آدمی اسے اپنے دل میں جگہ نہ دے نہ ہی اس کا پیچھا کرے نہ اس کی غیبت کرے تو اس میں کوئی گناہ نہیں۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«ان الله تجاوز لامتي عما حدثت به انفسها ما لم تعمل او تكلم به» [مسلم/ الإيمان 332]
اللہ تعالیٰ نے میری امت کو وہ باتیں معاف کر دی ہیں جو وہ اپنے دل سے کریں جب تک ان پر عمل نہ کریں یا زبان پر لائیں۔
➎ بدگمانی سب سے زیادہ جھوٹی بات ہے کیونکہ جب کوئی شخص کسی کے متعلق بدگمانی کرتا ہے تو وہ فیصلہ کر لیتا ہے کہ وہ شخص ایسا ایسا ہے چونکہ حقیقت میں وہ شخص ایسا نہیں ہوتا اس لئے اس کے اس فیصلے کو جھوٹ کہا گیا اور بدترین اس لئے کہ اس نے بغیر کسی قرینے یا سب کے محض نفس اور شیطان کے کہنے پر اسے برا قرار دے لیا۔ جب کہ اس کے برے ہونے کی سرے سے کوئی بنیاد ہی نہیں۔



   شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث\صفحہ نمبر: 160   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1284  
´برے اخلاق و عادات سے ڈرانے اور خوف دلانے کا بیان`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بدگمانی سے بچو کیونکہ بدگمانی بہت بڑا جھوٹ ہے۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1284»
تخریج:
«أخرجه البخاري، النكاح، باب لايخطب علي خبطة أخيه حتي ينكح أو يدع، حديث:5143، ومسلم، البر والصلة، باب تحريم الظن والتجسس...،حديث:2563.»
تشریح:
ظن کو سب سے بڑا جھوٹ اس لیے کہا گیا ہے کہ انسان اپنے دل ہی دل میں گمان و ظن کی پرورش کرتا رہتا ہے‘ پھر اسے زبان پر لاتا ہے۔
جھوٹ کی بنیاد کوئی نہیں ہوتی جب کہ برے گمان والا اپنے دل میں ایک بنیاد قائم کرتا ہے اور سامعین پر اس کا جھوٹا ہونا مخفی رہ جاتا ہے‘ چنانچہ عام جھوٹوں کی طرح اس کا پتہ نہیں چل سکتا‘ لہٰذا یہ سب سے بڑا جھوٹ ہے‘ اس لیے علماء نے اسے تہمت قرار دیا ہے۔
اور تہمت لگانا بہت بڑا گناہ ہے۔
گویا ظن کا دوسرا نام تہمت ہے اور تہمت کبیرہ گناہ ہے۔
اس لیے اس سے پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ جس معاشرے میں بدگمانی پرورش پائے گی وہاں حسن ظن نام کی کوئی چیز ترقی نہیں کر سکتی اور نہ اس معاشرے کے افراد کے درمیان اعتماد کی فضا ہی پیدا ہو سکتی ہے بلکہ ایک دوسرے کو مشکوک نگاہوں سے دیکھا جائے گا۔
بہرحال یہ معاشرے کی تعمیر و ترقی کی علامت نہیں بلکہ زوال و تخریب کی نشانی ہے۔
صالح معاشرے میں بدگمانی کے جراثیم کو پھولنے پھلنے نہیں دینا چاہیے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 1284   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1988  
´بدگمانی کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بدگمانی سے بچو، اس لیے کہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب البر والصلة/حدیث: 1988]
اردو حاشہ:
وضاحت: 1؎:
اسی حدیث میں بدگمانی سے بچنے کی سخت تاکید ہے،
کیوں کہ یہ جھوٹ کی بدترین قسم ہے اس لیے عام حالات میں ہرمسلمان کی بابت اچھا خیال رکھنا ضروری ہے سوائے اس کے کہ کوئی واضح ثبوت اس کے برعکس موجود ہو۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1988   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4917  
´بدظنی اور بدگمانی کی ممانعت۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ظن و گمان کے پیچھے پڑنے سے بچو یا بدگمانی سے بچو، اس لیے کہ بدگمانی سب سے بڑا جھوٹ ہے، نہ ٹوہ میں پڑو اور نہ جاسوسی کرو۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4917]
فوائد ومسائل:
ظن کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے، ظن بمعنی گمان، ظن بمعنی علم و یقین۔
لیکن یہاں طن سےے مراد وہ غلط اور برے گمان ہیں جو کسی سے متعلق دل میں جگہ پا جاتے ہیں اور فی الواقع ان کی کوئی دلیل نہیں ہوتی اور شریعت اس کی تائید نہیں کرتی۔
ظن کی بحث کے لیے مولانا محمد اسماعیل سلفی ؒ کی کتاب حجیت حدیث ایک اہم اور قابلِ مطالعہ کتاب ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4917   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6064  
6064. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: اپنے آپ کو بد گمانی سے بچاؤ کیونکہ بد گمانی کی باتیں اکثر جھوٹی ہوتی ہیں ایک دوسرے کے عیوب کی جستجو نہ کرو اور نہ کسی کی جاسوسی ہی کرو۔ آپس میں حسد نہ کرو۔ ایک دوسرے سے پیٹھ نہ پھیرو اور نہ باہم بغض ہی رکھو۔ اللہ کے بندو! آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6064]
حدیث حاشیہ:
اللہ پاک ہر مسلمان کو اس ارشاد نبوی پر عمل کی توفیق بخشے آمین۔
تحسسوا اور تجسسو ہر دو میں ایک تا حذف ہو گئی ہے، خطابی نے اس کا مطلب بتایا کہ لوگوں کے عیوب کی تلاش نہ کرو، تحسسو کا مادہ حاسہ ہے مطلق تلاش کے لئے بھی یہ مستعمل ہے جیسے آیت سورۃ یوسف میں حضرت یعقوب کا قول نقل ہوا ہے، اذْهَبُوا فَتَحَسَّسُوا مِنْ يُوسُفَ وَأَخِيهِ (یوسف: 87)
جاؤ یوسف اور اس کے بھائی کو تلاش کرو۔
ظن سے بدگمانی مراد ہے یعنی بغیرتحقیق کئے دل میں بد گمانی بٹھا لینا یہ سچے مسلمان کا شیوہ نہیں ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 6064   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.