الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں
The Book of Adhan
1. بَابُ بَدْءُ الأَذَانِ:
1. باب: اس بیان میں کہ اذان کیونکر شروع ہوئی۔
(1) Chapter. How the Adhan for Salat (prayer) was started.
حدیث نمبر: Q603
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
وقوله عز وجل: وإذا ناديتم إلى الصلاة اتخذوها هزوا ولعبا ذلك بانهم قوم لا يعقلون سورة المائدة آية 58 وقوله: إذا نودي للصلاة من يوم الجمعة سورة الجمعة آية 9.وَقَوْلُهُ عَزَّ وَجَلَّ: وَإِذَا نَادَيْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ اتَّخَذُوهَا هُزُوًا وَلَعِبًا ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لا يَعْقِلُونَ سورة المائدة آية 58 وَقَوْلُهُ: إِذَا نُودِيَ لِلصَّلاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ سورة الجمعة آية 9.
‏‏‏‏ اور اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی وضاحت کہ اور جب تم نماز کے لیے اذان دیتے ہو، تو وہ اس کو مذاق اور کھیل بنا لیتے ہیں۔ یہ اس وجہ سے کہ یہ لوگ ناسمجھ ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جب تمہیں جمعہ کے دن نماز جمعہ کے لیے پکارا جائے۔ (تو اللہ کی یاد کرنے کے لیے فوراً چلے آؤ۔)

حدیث نمبر: 603
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا عمران بن ميسرة، حدثنا عبد الوارث، حدثنا خالد الحذاء، عن ابي قلابة، عن انس، قال: ذكروا النار والناقوس، فذكروا اليهود، والنصارى،: ذكروا النار" فامر بلال ان يشفع الاذان وان يوتر الإقامة".حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ مَيْسَرَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: ذَكَرُوا النَّارَ وَالنَّاقُوسَ، فَذَكَرُوا الْيَهُودَ، وَالنَّصَارَى،: ذَكَرُوا النَّارَ" فَأُمِرَ بِلَالٌ أَنْ يَشْفَعَ الْأَذَانَ وَأَنْ يُوتِرَ الْإِقَامَةَ".
ہم سے عمران بن میسرہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالوارث بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے خالد حذاء نے ابوقلابہ عبداللہ بن زید سے، انہوں نے انس رضی اللہ عنہ سے کہ (نماز کے وقت کے اعلان کے لیے) لوگوں نے آگ اور ناقوس کا ذکر کیا۔ پھر یہود و نصاریٰ کا ذکر آ گیا۔ پھر بلال رضی اللہ عنہ کو یہ حکم ہوا کہ اذان کے کلمات دو دو مرتبہ کہیں اور اقامت میں ایک ایک مرتبہ۔

Narrated Anas: The people mentioned the fire and the bell (they suggested those as signals to indicate the starting of prayers), and by that they mentioned the Jews and the Christians. Then Bilal was ordered to pronounce Adhan for the prayer by saying its wordings twice, and for the Iqama (the call for the actual standing for the prayers in rows) by saying its wordings once. (Iqama is pronounced when the people are ready for the prayer).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 11, Number 577

   صحيح البخاري605أنس بن مالكيشفع الأذان يوتر الإقامة
   صحيح البخاري607أنس بن مالكيشفع الأذان يوتر الإقامة إلا الإقامة
   صحيح مسلم838أنس بن مالكأمر بلال أن يشفع الأذان يوتر الإقامة
   صحيح مسلم841أنس بن مالكأمر بلال أن يشفع الأذان يوتر الإقامة
   صحيح مسلم839أنس بن مالكأمر بلال أن يشفع الأذان يوتر الإقامة
   جامع الترمذي193أنس بن مالكأمر بلال أن يشفع الأذان يوتر الإقامة
   سنن أبي داود508أنس بن مالكيشفع الأذان يوتر الإقامة
   سنن النسائى الصغرى628أنس بن مالكأمر بلالا أن يشفع الأذان يوتر الإقامة
   سنن ابن ماجه730أنس بن مالكأمر بلال أن يشفع الأذان يوتر الإقامة
   بلوغ المرام146أنس بن مالكان يشفع الاذان شفعا ويوتر الإقامة إلا الإقامة يعني: إلا قد قامت الصلاة
   صحيح البخاري603أنس بن مالكيشفع الاذان وان يوتر الإقامة
   المعجم الصغير للطبراني163أنس بن مالك أمر بلال أن يشفع الأذان ويوتر الإقامة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 146  
´اذان کے کلمات دو، دو مرتبہ`
«. . . وعن انس رضي الله عنه قال: امر بلال: ان يشفع الاذان شفعا ويوتر الإقامة إلا الإقامة يعني: إلا قد قامت الصلاة . . .»
. . . سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بلال رضی اللہ عنہ کو اذان کے کلمات دو، دو مرتبہ اور تکبیر «قد قامت الصلاة» کے علاوہ باقی جملہ کلمات کو ایک، ایک مرتبہ کہنے کا حکم دیا گیا . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 146]

لغوی تشریح:
«أُمِرَ» صیغہ مجہول ہے۔ اس میں حکم صادر فرمانے والے خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ سنن نسائی میں اس کی صراحت موجود ہے۔
«أَنْ يَشْفَعَ الْآذَانَ» یعنی ہر کلمہ دو دو مرتبہ ادا کرے۔
«وَيُوتِرَ الْإِقَامَةَ» اقامت میں ہر کلمہ ایک ایک مرتبہ کہے۔
«إِلَّا الْإِقَامَةَ» بجز اقامت، یعنی «قَدْ قَامَتِ الصَّلّاةُ» کے۔ اسے دو دو مرتبہ کہا جائے گا۔
«وَلَمْ يَذْكُرْ مُسْلِمٌ الْإِسْتِثْنَاءَ» اور مسلم نے «إِلَّا الْإِقَامَةَ» یعنی استثنا والی عبارت نقل نہیں کی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 146   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 603  
´باب: اس بیان میں کہ اذان کیونکر شروع ہوئی`
«. . . عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: ذَكَرُوا النَّارَ وَالنَّاقُوسَ، فَذَكَرُوا الْيَهُودَ، وَالنَّصَارَى،: ذَكَرُوا النَّارَ " فَأُمِرَ بِلَالٌ أَنْ يَشْفَعَ الْأَذَانَ وَأَنْ يُوتِرَ الْإِقَامَةَ " . . . .»
. . . ´ ہم سے خالد حذاء نے ابوقلابہ عبداللہ بن زید سے، انہوں نے انس رضی اللہ عنہ سے کہ (نماز کے وقت کے اعلان کے لیے) لوگوں نے آگ اور ناقوس کا ذکر کیا۔ پھر یہود و نصاریٰ کا ذکر آ گیا۔ پھر بلال رضی اللہ عنہ کو یہ حکم ہوا کہ اذان کے کلمات دو دو مرتبہ کہیں اور اقامت میں ایک ایک مرتبہ۔ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَذَانِ/بَابُ بَدْءُ الأَذَانِ:: 603]

تشریح:
امیرالمحدثین حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الاذان قائم فرما کر باب بدء الاذان کو قرآن پاک کی دو آیات مقدسہ سے شروع فرمایا جس کا مقصد یہ ہے کہ اذان کی فضیلت قرآن شریف سے ثابت ہے اور اس طرف بھی اشارہ ہے کہ اذان کی ابتدا مدینہ میں ہوئی کیونکہ یہ دونوں سورتیں جن کی آیات نقل کی گئی ہیں یعنی سورۃ مائدہ اور سورۃ جمعہ یہ مدینہ میں نازل ہوئی ہیں۔

اذان کی تفصیلات کے متعلق حضرت مولانا عبیداللہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
«وهوفي اللغة الاعلام وفي الشرع الاعلام بوقت الصلوٰة بالفاظ مخصوصة»
یعنی لغت میں اذان کے معنی اطلاع کرنا اور شرع میں مخصوص لفظوں کے ساتھ نمازوں کے اوقات کی اطلاع کرنا۔

ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں تعمیر مسجد نبوی کے بعد سوچا گیا کہ مسلمانوں کو نماز کے لیے وقت مقررہ پر کس طرح اطلاع کی جائے۔ چنانچہ یہود و نصاریٰ و مجوس کے مروجہ طریقے سامنے آئے۔ جو وہ اپنی عبادت گاہوں میں لوگوں کو بلانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اسلام میں ان سب چیزوں کو ناپسند کیا گیا کہ عبادت الٰہی کے بلانے کے لیے گھنٹے یا ناقوس کا استعمال کیا جائے۔ یا اس کی اطلاع کے لیے آگ روشن کر دی جائے۔ یہ مسئلہ درپیش ہی تھا کہ ایک صحابی عبداللہ بن زید انصاری خزرجی رضی اللہ عنہ نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص ان کو نماز کے وقتوں کی اطلاع کے لیے مروجہ اذان کے الفاظ سکھا رہا ہے۔ وہ صبح اس خواب کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کرنے آئے تو دیکھا گیا کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی دوڑے چلے آ رہے ہیں۔ اور آپ بھی حلفیہ بیان دیتے ہیں کہ خواب میں ان کو بھی ہوبہو ان ہی کلمات کی تلقین کی گئی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان بیانات کو سن کر خوش ہوئے۔ اور فرمایاکہ یہ خواب بالکل سچے ہیں۔ اب یہی طریقہ رائج کر دیا گیا۔ یہ خواب کا واقعہ مسجد نبوی کی تعمیر کے بعد پہلے سال ہی کا ہے۔ جیسا کہ حافظ نے تہذیب التہذیب میں بیان کیا ہے کہ آپ نے جناب عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے فرمایاکہ تم یہ الفاظ بلال کو سکھا دو، ان کی آواز بہت بلند ہے۔

اس حدیث اور اس کے علاوہ اور بھی متعدد احادیث میں تکبیر (اقامت) کے الفاظ ایک ایک مرتبہ ادا کرنے کا ذکر ہے۔
علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
«قال الخطابي مذهب جمهور العلماء والذي جري به العمل فى الحرمين والحجاز والشام واليمن ومصر و المغرب الي اقصي بلاد الاسلام ان الاقامة فرادي» [نيل]
یعنی امام خطابی نے کہا کہ جمہور علماءکا یہی فتویٰ ہے تکبیر اقامت اکہری کہی جائے۔ حرمین اور حجاز اور شام اور یمن اور مصر اور دور دراز تک تمام ممالک اسلامیہ غربیہ میں یہی معمول ہے کہ تکبیر اقامت اکہری کہی جاتی ہے۔

اگرچہ تکبیر اقامت میں جملہ الفاظ کا دو دو دفعہ مثل اذان کے کہنا بھی جائز ہے۔ مگر ترجیح اسی کو ہے کہ تکبیر اقامت اکہری کہی جائے۔ مگر برادران احناف اس کا نہ صرف انکار کرتے ہیں بلکہ اکہری تکبیر سن کر بیشتر چونک جاتے ہیں اور دوبارہ تکبیر اپنے طریق پر کہلواتے ہیں۔ یہ رویہ کس قدر غلط ہے کہ ایک امر جائز جس پر دنیائے اسلام کا عمل ہے اس سے اس قدر نفرت کی جائے۔ بعض علمائے احناف نے اکہری تکبیر والی حدیث کو منسوخ قرار دیا ہے۔ اور کئی طرح کی تاویلات رکیکہ سے کام لیا ہے۔

حضرت الشیخ الکبیر والمحدث الجلیل علامہ عبدالرحمن مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
«والحق ان احاديث افراد الاقامة صحيحة ثابتة محكمة ليست بمنسوخة ولابمؤلة۔» [تحفة الاحوذي]
یعنی حق بات یہی ہے کہ اکہری تکبیر کی احادیث صحیح اور ثابت ہیں۔ اس قدر مضبوط کہ نہ وہ منسوخ ہیں اورنہ تاویل کے قابل ہیں۔ اسی طرح تکبیر دو دو دفعہ کہنے کی احادیث بھی محکم ہیں۔ پس میرے نزدیک تکبیر اکہری کہنا بھی جائز ہے اور دوہری کہنا بھی جائز ہے۔ تکبیر اکہری کے وقت الفاظ «قد قامت الصلوٰة قد قامت الصلوٰة» دو دو دفعہ کہنے ہوں گے جیسا کہ روایات میں مذکور ہے۔

حضرت علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
«وهو مع قلة الفاظه مشتمل على مسائل العقائد كما بين ذلك الحافظ فى الفتح نقلا عن القرطبي۔»
یعنی اذان میں اگرچہ الفاظ تھوڑے ہیں مگر اس میں عقائد کے بہت سے مسائل آ گئے ہیں جیسا کہ فتح الباری میں حافظ نے قرطبی سے نقل کیا ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ: اذان کے کلمات باوجود قلت الفاظ دین کے بنیادی عقائد اور شعائر پر مشتمل ہیں۔ سب سے پہلا لفظ «الله اكبر» یہ بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ موجود ہے اور سب سے بڑا ہے، یہ لفظ اللہ تعالیٰ کی کبریائی اورعظمت پر دلالت کرتاہے۔ «اشهد ان لا اله الا الله» بجائے خود ایک عقیدہ ہے اور کلمہ شہادت کا جزء۔ یہ لفظ بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اکیلا اور یکتا ہے۔ اور وہی معبود ہے۔ کلمہ شہادت کا دوسرا جز «اشهدان محمدارسول الله» ہے۔ جس سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت و نبوت کی گواہی دی جاتی ہے۔ «حي على الصلوٰة» پکار ہے اس کی کہ جس نے اللہ کی وحدانیت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی دے دی وہ نماز کے لیے آئے کہ نماز قائم کی جا رہی ہے۔ اس نماز کے پہنچانے والے اور اپنے قول و فعل سے اس کے طریقوں کو بتلانے والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی شہادت کے بعد فوراً ہی اس کی دعوت دی گئی۔ اور اگر نماز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھ لی اور بتمام واکمال آپ نے اسے ادا کیا تو یہ اس بات کی ضامن ہے کہ آپ نے فلاح حاصل کرلی۔ «حي على الفلاح» نماز کے لیے آئیے! آپ کو یہاں فلاح یعنی بقاء دائم اور حیات آخرت کی ضمانت دی جائے گی، آئیے، چلے آئیے۔ کہ اللہ کے سوا عبادت کے لائق اور کوئی نہیں۔ اس کی عظمت و کبریائی کے سایہ میں آپ کو دنیا اور آخرت کے شرور و آفات سے پناہ مل جائے گی۔ اوّل بھی اللہ ہے اور آخر بھی اللہ۔ خالق کل، مالک یکتا اور معبود، پس اس کی دی ہوئی ضمانت سے بڑھ کر اور کون سی ضمانت ہو سکتی ہے۔ «الله اكبر، الله اكبر، لااله الا الله» ۔ [تفہیم البخاری]
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 603   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 628  
´اذان دہری کہنے کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ کو اذان دہری اور اقامت اکہری کہنے کا حکم دیا۔ [سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 628]
628 ۔ اردو حاشیہ:
➊ ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اقامت کے اکثر کلمات ایک ایک ہیں مگر احناف اذان و اقامت کو برابر رکھتے ہیں، یعنی دو دو کلمات اور اسے ضروری سمجھتے ہیں، یعنی اکہری اقامت کو کافی نہیں سمجھتے، حالانکہ یہ روایات انتہائی صحیح ہیں مگر وہ ان کی دور ازکار تاویلات کرتے ہیں کہ یہاں سانس کا ذکر ہے، یعنی اذان کے کلمات کو دو سانسوں میں ادا کیا جائے اور اقامت کے کلمات کو ایک سانس میں۔ لیکن یہ تاویل باطل ہو جاتی ہے جب قد قامت الصلاۃ کو مستثنیٰ کیا جاتا ہے۔ اگر سانس کی بات ہوتی تو اس استثنا کی ضرورت نہ پڑتی کیونکہ یہ ایک ہی سانس میں ادا کیے جاتے ہیں۔
➋ اذان کے اکثر کلمات دو دو ہیں، سب نہیں، مثلا: آخر میں لا الہ الا اللہ ایک دفعہ ہے اور شروع میں اللہ اکبر چار دفعہ ہے مگر وہ دو دو اکٹھے کہے جاتے ہیں۔ اسی طرح اقامت کے اکثر کلمات اکہرے ہیں جب کہ شروع میں اللہ اکبر دو دفعہ ہے مگر انہیں اکٹھا کہا جاتا ہے۔ مزید تفصیل کے لیے اس کتاب کا ابتدائیہ دیکھیے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 628   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:603  
603. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نماز کے اعلان کے لیے لوگوں نے آگ اور ناقوس کا ذکر کیا، اس سلسلے میں انہوں نے یہودونصاریٰ کا بھی تذکرہ کیا تو حضرت بلال ؓ کو حکم دیا گیا کہ وہ اذان کے کلمات دو دو مرتبہ اور اقامت کے ایک ایک مرتبہ کہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:603]
حدیث حاشیہ:
(1)
مذکورہ روایت میں بہت اختصار ہے، چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ جب مسلمان تعداد میں زیادہ ہو گئے تو انھوں نے ایک تجویز پاس کی کہ نماز کے وقت کے لیے کوئی علامت مقرر کریں جس سے نماز کے وقت کا علم ہوجایا کرے تو کچھ نے آگ جلانے اور کچھ نے ناقوس بجانے کا مشورہ دیا۔
(صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 606)
اس سے زیادہ وضاحت ایک اور روایت میں ہے کہ لوگوں نے ناقوس بجانے کی تجویز دی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اسے تو عیسائی لوگ استعمال کرتے ہیں۔
پھر بگل پھونکنے کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا:
یہ تو یہود کی علامت ہے۔
لوگوں نے کہا:
کسی بلندجگہ پر آگ کا الاؤروشن کردیا جائے تو آپ نے فرمایا:
یہ تو مجوسیوں کا شعار ہے۔
(فتح الباري: 105/2-
106)

ایک روایت میں نماز کے وقت جھنڈا بلند کرنے کا بھی ذکر ہے۔
(2)
رسول اللہ ﷺ اس سلسلے میں کافی پریشان رہتے تھے اور آپ کی پریشانی دیکھ کر حضرت عبداللہ بن زید بن عبدربہ بھی بہت فکر مند ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے انھیں اذان کے متعلق خواب دیکھنے کی سعادت نصیب فرمادی۔
چونکہ وہ بیمار تھے، اس لیے اذان دینے کےلیے حضرت بلال ؓ کا نام تجویز ہوا کہ عبداللہ بن زید ؓ انھیں کلمات اذان کی تلقین کریں اور بلال بآواز بلند اس کا اعلان کریں۔
(سنن أبي داود، الأذان، حدیث: 498)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 603   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.