الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں
The Book of Tauhid (Islamic Monotheism)
24. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ} :
24. باب: اللہ تعالیٰ کا (سورۃ قیامت میں) ارشاد ”اس دن بعض چہرے تروتازہ ہوں گے، وہ اپنے رب کو دیکھنے والے ہوں گے، یا دیکھ رہے ہوں گے“۔
(24) Chapter. The Statement of Allah: “Some faces that Day shall be Nadirah (shining and radiant). Looking at their Lord.” (V.75:22,23)
حدیث نمبر: 7436
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا عبدة بن عبد الله، حدثنا حسين الجعفي، عن زائدة، حدثنا بيان بن بشر، عن قيس بن ابي حازم، حدثنا جرير، قال:" خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلة البدر، فقال: إنكم سترون ربكم يوم القيامة كما ترون هذا لا تضامون في رؤيته".حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْجُعْفِيُّ، عَنْ زَائِدَةَ، حَدَّثَنَا بَيَانُ بْنُ بِشْرٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، قَالَ:" خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ الْبَدْرِ، فَقَالَ: إِنَّكُمْ سَتَرَوْنَ رَبَّكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَمَا تَرَوْنَ هَذَا لَا تُضَامُونَ فِي رُؤْيَتِهِ".
ہم سے عبدۃ بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے حسین جعفی نے بیان کیا ان سے زائد نے، ان سے بیان بن بشر نے، ان سے قیس بن ابی حازم نے اور ان سے جریر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چودھویں رات کو ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ تم اپنے رب کو قیامت کے دن اس طرح دیکھو گے جس طرح اس چاند کو دیکھ رہے ہو۔ اس کے دیکھنے میں کوئی مزاحمت نہیں ہو گی۔ کھلم کھلا دیکھو گے، بےتکلف، بےمشقت، بےزحمت۔

Narrated Jarir: Allah's Apostle came out to us on the night of the full moon and said, "You will see your Lord on the Day of Resurrection as you see this (full moon) and you will have no difficulty in seeing Him."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 93, Number 531

   صحيح البخاري554جرير بن عبد اللهسترون ربكم كما ترون هذا القمر لا تضامون في رؤيته فإن استطعتم أن لا تغلبوا على صلاة قبل طلوع الشمس وقبل غروبها فافعلوا ثم قرأ وسبح بحمد ربك قبل طلوع الشمس وقبل الغروب
   صحيح البخاري7436جرير بن عبد اللهسترون ربكم يوم القيامة كما ترون هذا لا تضامون في رؤيته
   صحيح البخاري7434جرير بن عبد اللهسترون ربكم كما ترون هذا القمر لا تضامون في رؤيته فإن استطعتم أن لا تغلبوا على صلاة قبل طلوع الشمس وصلاة قبل غروب الشمس فافعلوا
   صحيح البخاري7435جرير بن عبد اللهسترون ربكم عيانا
   صحيح البخاري573جرير بن عبد اللهسترون ربكم كما ترون هذا لا تضامون أو لا تضاهون في رؤيته فإن استطعتم أن لا تغلبوا على صلاة قبل طلوع الشمس وقبل غروبها فافعلوا ثم قال سبح بحمد ربك قبل طلوع الشمس وقبل غروبها
   صحيح البخاري4851جرير بن عبد اللهسترون ربكم كما ترون هذا لا تضامون في رؤيته فإن استطعتم أن لا تغلبوا على صلاة قبل طلوع الشمس وقبل غروبها فافعلوا ثم قرأ وسبح بحمد ربك قبل طلوع الشمس وقبل الغروب
   صحيح مسلم1434جرير بن عبد اللهسترون ربكم كما ترون هذا القمر لا تضامون في رؤيته فإن استطعتم أن لا تغلبوا على صلاة قبل طلوع الشمس وقبل غروبها يعني العصر والفجر ثم قرأ جرير وسبح بحمد ربك قبل طلوع الشمس وقبل غروبها
   جامع الترمذي2551جرير بن عبد اللهستعرضون على ربكم فترونه كما ترون هذا القمر لا تضامون في رؤيته فإن استطعتم أن لا تغلبوا على صلاة قبل طلوع الشمس وصلاة قبل غروبها فافعلوا ثم قرأ وسبح بحمد ربك قبل طلوع الشمس وقبل الغروب
   سنن أبي داود4729جرير بن عبد اللهسترون ربكم كما ترون هذا لا تضامون في رؤيته فإن استطعتم أن لا تغلبوا على صلاة قبل طلوع الشمس وقبل غروبها فافعلوا ثم قرأ هذه الآية فسبح بحمد ربك قبل طلوع الشمس وقبل غروبها
   سنن ابن ماجه177جرير بن عبد اللهسترون ربكم كما ترون هذا القمر لا تضامون في رؤيته فإن استطعتم أن لا تغلبوا على صلاة قبل طلوع الشمس وقبل غروبها فافعلوا ثم قرأ وسبح بحمد ربك قبل طلوع الشمس وقبل الغروب
   المعجم الصغير للطبراني96جرير بن عبد الله لا إيمان لمن لا أمانة له ، ولا صلاة لمن لا طهور له ، ولا دين لمن لا صلاة له ، إنما موضع الصلاة من الدين كموضع الرأس من الجسد
   مسندالحميدي817جرير بن عبد اللههل ترون هذا القمر؟ فإنكم سترون ربكم كما ترون هذا القمر، لا تضامون في رؤيته، فمن استطاع منكم أن لا يغلب على صلاة قبل طلوع الشمس، ولا قبل غروبها فليفعل

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث177  
´جہمیہ کا انکار صفات باری تعالیٰ۔`
جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، آپ نے چودہویں کے چاند کی طرف دیکھا، اور فرمایا: عنقریب تم لوگ اپنے رب کو دیکھو گے جس طرح اس چاند کو دیکھ رہے ہو کہ اس کے دیکھنے میں تمہیں کوئی پریشانی لاحق نہیں ہو رہی ہے، لہٰذا اگر تم طاقت رکھتے ہو کہ سورج کے نکلنے اور ڈوبنے سے پہلے نماز سے پیچھے نہ رہو تو ایسا کرو۔‏‏‏‏ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی: «وسبح بحمد ربك قبل طلوع الشمس وقبل الغروب» اپنے رب کی تسبیح و تحمید بیان کیجئے سورج کے نکلنے اور ڈوبنے سے پہلے (سور۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 177]
اردو حاشہ:
(1)
فرقہ جہمیہ، جہم بن صفوان کی طرف منسوب ہے، اس بدعتی فرقے کا اہل سنت سے کئی مسائل میں اختلاف ہے، مثلا:
یہ لوگ بندے کو مجبور محض قرار دیتے ہیں، اسی لیے انہیں جبریہ بھی کہتے ہیں اور اللہ کی صفات کا انکار کرتے ہیں۔
وہ اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ صفات الہی تسلیم کرنے سے اللہ تعالیٰ کو مخلوق کے مشابہ ماننا پڑتا ہے جو اللہ کی شان کے لائق نہیں، حالانکہ اہل سنت اللہ کی صفات کو مخلوقات کی صفات کے مشابہ قرار نہیں دیتے بلکہ کہتے ہیں کہ جس طرح اس کی ذات بندوں کی ذات سے مشابہ نہیں، اسی طرح اس کی صفات کو تسلیم کرنے سے اس کی بندوں سے تشبیہ لازم نہیں آتی بلکہ بندوں کی صفات بندوں کی حالت سے مناسبت رکھتی ہیں اور اللہ کی صفات ویسی ہیں جیسی اس کی شان کے لائق ہیں اور یہ تشبیہ نہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ۖ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ﴾ (شوریٰ: 11)
یعنی اس کی مثل کوئی چیز نہیں اور وہ خوب سننے والا دیکھنے والا ہے۔

(2)
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ کا دیدار ممکن ہے، قیامت کو اور جنت میں مومنوں کو اللہ کا دیدار ہو گا۔
دنیا میں اس لیے ممکن نہیں کہ موجودہ جسم اور موجودہ قوتوں کے ساتھ بندہ اللہ کے دیدار کی تاب نہیں لا سکتا بلکہ اس دنیا کی کوئی قوت اس کی زیارت کی متحمل نہیں ہو سکتی اسی لیے جب اللہ تعالیٰ نے پہاڑ پر تجلی فرمائی تو پہاڑ ریزہ ریزہ ہو گیا اور موسی علیہ السلام بے ہوش ہو گئے (دیکھیے:  سورۃ الاعراف: 143)
لیکن عالم آخرت میں اللہ تعالیٰ بندوں کو طاقت عطا فرمائے گا کہ وہ اللہ کی تجلی کو برداشت کر سکیں۔

(3)
اس حدیث کا مقصد اللہ تعالیٰ کو چاند سے محض تشبیہ دینا نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ جس طرح دنیا میں لاکھوں افراد بیک وقت چاند کو دیکھ سکتے ہیں اور انہیں اس میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی، اسی طرح جنت میں بے شمار مومن بیک وقت دیدار الہی کا شرف حاصل کر سکیں گے اور انہیں اس میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔

(4)
نماز باقاعدی سے ادا کرنا، بالخصوص نماز فجر اور عصر قضا نہ ہونے دینا ایک بہت بڑا نیک عمل ہے، جس کا بدلہ زیارت باری تعالیٰ ہے۔

(5)
اس کا مطلب یہ نہیں کہ باقی تین نمازوں کی کوئی اہمیت نہیں، بلکہ جو شخص فجر اور عصر باقاعدگی سے ادا کرتا ہے، وہ دوسری نمازیں بدرجہ اولیٰ باقاعدگی سے ادا کرتا ہے کیونکہ فجر کی نماز کے وقت نیند اور سستی کا غلبہ ہوتا ہے اور عصر کے وقت کاروبار وغیرہ کے روزمرہ کاموں میں انتہائی مصروفیت ہوتی ہے، اس لیے انہیں بروقت اور باجماعت ادا کرنا دوسری نمازوں کی نسبت مشکل ہے۔
جو شخص یہ مشکل کام کر لیتا ہے، وہ دوسری نمازیں بھی آسانی سے ادا کر سکتا ہے اور اس طرح جنت میں داخل ہونے اور اللہ کی زیارت سے مشرف ہونے کی امید رکھ سکتا ہے۔

(6)
چاند کے ساتھ تشبیہ دینے میں اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے علو (اوپر ہونے)
کا بھی اثبات ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 177   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2551  
´جنت میں رب تبارک و تعالیٰ کے دیدار کا بیان۔`
جریر بن عبداللہ بجلی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ نے چودہویں رات کے چاند کی طرف دیکھا اور فرمایا: تم لوگ اپنے رب کے سامنے پیش کئے جاؤ گے اور اسے اسی طرح دیکھو گے جیسے اس چاند کو دیکھ رہے ہو، اسے دیکھنے میں کوئی مزاحمت اور دھکم پیل نہیں ہو گی۔ اگر تم سے ہو سکے کہ سورج نکلنے سے پہلے اور اس کے ڈوبنے کے بعد کی نماز (فجر اور مغرب) میں مغلوب نہ ہو تو ایسا کرو، پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: «سبح بحمد ربك قبل طلوع الشمس وقبل الغروب» سورج نکلنے سے پہلے اور سورج ڈوبنے سے پہلے اپنے رب کی تسبی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب صفة الجنة/حدیث: 2551]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
سورج نکلنے سے پہلے اور سورج ڈوبنے سے پہلے اپنے رب کی تسبیح تعریف کے ساتھ بیان کرو۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2551   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4729  
´رویت باری تعالیٰ کا بیان۔`
جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ نے چودہویں شب کے چاند کی طرف دیکھا، اور فرمایا: تم لوگ عنقریب اپنے رب کو دیکھو گے، جیسے تم اسے دیکھ رہے ہو، تمہیں اس کے دیکھنے میں کوئی زحمت نہ ہو گی، لہٰذا اگر تم قدرت رکھتے ہو کہ تم فجر اور عصر کی نماز میں مغلوب نہ ہو تو ایسا کرو پھر آپ نے یہ آیت «فسبح بحمد ربك قبل طلوع الشمس وقبل غروبها» اور اپنے رب کی تسبیح کرو، سورج کے نکلنے اور ڈوبنے سے پہلے (سورۃ طہٰ: ۱۳۰) پڑھی ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4729]
فوائد ومسائل:
1: قیامت میں اور جنت میں رب ذوالجلال کا دیدار عین حق ہے اور یہ شرف اہل ایمان کو انتہائی آسانی کے ساتھ اور بغیر کسی دھکم پیل کے حاصل ہو گا۔
مگر وہی ایمان دار اس سے بہرہ ور ہوں گے جو نمازوں کی پابندی کرنے والے ہوں گے۔

2: جو شخص طلوع آفتاب سے پہلے فجر اور غروب آفتاب سے پہلے نماز عصر کی پابندی کر لے وہ نمازوں سے بھی غافل نہیں روہ سکتا۔

3: رسول ؐ کا چاند کی طرف دیکھ کر یہ مسئلہ بیان کرنا نظر کو نظرسے تشبیہ دینے کے لئے تھا۔
ورنہ عزوجل کے مثل کوئی شے نہیں ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4729   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7436  
7436. سیدنا جریر ؓ سے روایت ہے، انہوں نےکہا: رسول اللہ ﷺ چودھویں کی رات ہمارے ہاں تشریف لائے اور فرمایا: تم قیامت کے دن اپنے پروردگار کو اس طرح دیکھو گے جیسے تم چاند کو دیکھ رہے ہو۔ اس کے دیکھنے میں تمہیں کوئی مزاحمت ورکاوٹ نہ ہوگی اور نہ کوئی مشقت ہی اٹھانا پڑے گی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7436]
حدیث حاشیہ:
قیامت کے دن دیدار باری تعالیٰ حق ہے جو ہرمومن مسلمان کو بلاوقت ہوگا جیسے چودھویں رات کا چاند سب کو صاف نظر آنا ہے۔
اللھم ارزقنا آمین۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 7436   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7436  
7436. سیدنا جریر ؓ سے روایت ہے، انہوں نےکہا: رسول اللہ ﷺ چودھویں کی رات ہمارے ہاں تشریف لائے اور فرمایا: تم قیامت کے دن اپنے پروردگار کو اس طرح دیکھو گے جیسے تم چاند کو دیکھ رہے ہو۔ اس کے دیکھنے میں تمہیں کوئی مزاحمت ورکاوٹ نہ ہوگی اور نہ کوئی مشقت ہی اٹھانا پڑے گی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7436]
حدیث حاشیہ:

مذکورہ بالا تینوں احادیث حضرت جرید بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مختلف طرق سے مروی ایک ہی حدیث ہے، جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے از خود بیان فرمایا:
تم قیامت کے دن اپنے رب سے محودیدار ہوگے جبکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی احادیث سے پتا چلتا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تھا۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ مختلف واقعات ہیں۔
کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ازخود بتایا اور کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے سوال کرنے پر اس سے ہمیں مطلع فرمایا کہ اہل ایمان کو قیامت کے دن دیدار الٰہی نصیب ہوگا۔
چنانچہ ایک حدیث میں صراحت ہے:
تم میں سے کوئی بھی موت سے پہلے اپنے ر ب عزوجل کو نہیں دیکھ سکے گا۔
(صحیح مسلم، الفتن، حدیث: 7356(2931)
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث سے ثابت کیا ہے کہ آیت کریمہ میں اپنے رب کریم کو کھلی آنکھ سے دیکھنے کا بیان ہے۔

اگرچہ لغوی اعتبار سے لفظ نظر چار معنوں میں استعمال ہوتا ہے:
۔
غوروفکر کرنا جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(أَفَلَا يَنظُرُونَ إِلَى الْإِبِلِ كَيْفَ خُلِقَتْ)
کیا وہ اونٹ کی طرح نہیں دیکھتے کہ وہ کس طرح پیدا کیاگیا۔
(الغاشیة: 17/88)
۔
انتظارکرنا جیسا کہ قران مجید میں ہے:
(مَا يَنْظُرُونَ إِلا صَيْحَةً وَاحِدَةً)
وہ صرف ایک زور دار چیخ کا انتظار کررہے ہیں۔
(یٰس: 49)
رحم وکرم کرنا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے کفار کے متعلق فرمایا ہے:
(وَلَا يَنظُرُ إِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ)
قیامت کے دن اللہ ان کی طرف نہیں دیکھے گا، یعنی ان پر رحم وکرم نہیں کرے گا۔
(آل عمران 77)
۔
کھلی آنکھ سے دیکھنا، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(يَنظُرُونَ إِلَيْكَ تَدُورُ أَعْيُنُهُمْ كَالَّذِي يُغْشَىٰ عَلَيْهِ مِنَ الْمَوْتِ)
وہ آپ کی طرف اس شخص کی طرح دیکھیں گے جس پر موت کی غشی ڈالی گئی ہو۔
(محمد 20/47)

واضح رہے کہ مذکورہ احادیث میں تشبیہ یا عتبار روئیت کے ہے، یعنی چاند کے دیکھنے کو اللہ تعالیٰ کی روئیت کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے۔
یہ تشبیہ باعتبار مرئی کے نہیں ہے، یعنی چاند کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ تشبیہ نہیں دی گئی کیونکہ اللہ تعالیٰ کے مشابہ کوئی چیز نہیں۔
حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ روئیت باری کے متعلق احادیث حد تواتر کو پہنچی ہوئی ہیں۔
(فتح الباري: 536/13)
ان احادیث کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تم یقیناً اپنے رب کو دیکھو گے اس روئیت میں کوئی شک وشبہ یا تعجب و مشقت نہ ہوگی۔
اور نہ اسے دیکھنے میں کوئی رکاوٹ ہی سامنے ہوگی بلکہ ہر اہل ایمان کھلی آنکھ سے اپنے رب کو اس طرح دیکھے گا جس طرح چودھویں رات کا چاند دیکھا جاتاہے۔
اگرچہ روئیت کے لیے ایک دوسرے کے سامنے ہونا اور آنکھ سے شعاعوں کا نکلنا جومرئی (دیکھی جانے والی چیز)
پر پھیل جائیں اور دیکھنے والے کی آنکھ میں مرئی (دیکھی جانے والی چیز)
کی صورت کا منقش ہونا ضروری ہے تاہم یہ تمام شرائط عام اشیاء کے لیے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ان سے بالاتر ہے اور اس کے لیے ایسی شرائط کا ثابت کرنا محال ہے۔
شارحین صحیح بخاری نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مذکورہ روئیت جہت کے بغیر ہوگی کیونکہ وہ جہت سے پاک ہے۔
اس کلام کی کوئی حیثیت نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے لیے جہت علو ثابت ہے۔
دراصل یہ فلاسفہ اور متکلمین کے خیالات ہیں جنھیں ہمارے بعض شارحین نے اختیار کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ اور اس کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات نہیں ہیں۔
ہم ایسی باتوں کو تسلیم نہیں کرتے کیونکہ یہ خود ساختہ اور من گھڑت ہیں۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 7436   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.