الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: نیکی اور صلہ رحمی
Chapters on Righteousness And Maintaining Good Relations With Relatives
4. باب مَا جَاءَ فِي عُقُوقِ الْوَالِدَيْنِ
4. باب: ماں باپ کی نافرمانی اور ان سے قطع تعلق بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔
حدیث نمبر: 1901
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا حميد بن مسعدة، حدثنا بشر بن المفضل، حدثنا الجريري، عن عبد الرحمن بن ابي بكرة، عن ابيه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الا احدثكم باكبر الكبائر؟ " قالوا: بلى يا رسول الله، قال: " الإشراك بالله، وعقوق الوالدين "، قال: وجلس وكان متكئا، فقال: " وشهادة الزور، او قول الزور "، فما زال رسول الله صلى الله عليه وسلم يقولها حتى قلنا ليته سكت، قال: وفي الباب عن ابي سعيد، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وابو بكرة اسمه نفيع بن الحارث.حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بنُ مَسْعَدَةَ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، حَدَّثَنَا الْجُرَيْرِيُّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَلَا أُحَدِّثُكُمْ بِأَكْبَرِ الْكَبَائِرِ؟ " قَالُوا: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: " الْإِشْرَاكُ بِاللَّهِ، وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ "، قَالَ: وَجَلَسَ وَكَانَ مُتَّكِئًا، فَقَالَ: " وَشَهَادَةُ الزُّورِ، أَوْ قَوْلُ الزُّورِ "، فَمَا زَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُهَا حَتَّى قُلْنَا لَيْتَهُ سَكَتَ، قَالَ: وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو بَكْرَةَ اسْمُهُ نُفَيْعُ بْنُ الْحَارِثِ.
ابوبکرہ نفیع بن حارث رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں تم لوگوں کو سب سے بڑے کبیرہ گناہ کے بارے میں نہ بتا دوں؟ صحابہ نے کہا: اللہ کے رسول! کیوں نہیں؟ آپ نے فرمایا: اللہ کے ساتھ شرک کرنا اور ماں باپ کی نافرمانی کرنا، راوی کہتے ہیں: آپ اٹھ بیٹھے حالانکہ آپ ٹیک لگائے ہوئے تھے، پھر فرمایا: اور جھوٹی گواہی دینا، یا جھوٹی بات کہنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باربار اسے دہراتے رہے یہاں تک کہ ہم نے کہا: کاش آپ خاموش ہو جاتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الشھادات 10 (2654)، والأدب 6 (5976)، والاستئذان 35 (6273)، والمرتدین 1 (6919)، صحیح مسلم/الإیمان 38 (87)، والمؤلف في الشھادات (2301)، وتفسیر النساء (3019) (تحفة الأشراف: 11679)، و مسند احمد (5/36، 38) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح غاية المرام (277)
حدیث نمبر: 1207
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا محمد بن عبد الاعلى الصنعاني، حدثنا خالد بن الحارث، عن شعبة، حدثنا عبيد الله بن ابي بكر بن انس، عن انس، عن النبي صلى الله عليه وسلم في الكبائر، قال: " الشرك بالله، وعقوق الوالدين، وقتل النفس، وقول الزور ". قال: وفي الباب، عن ابي بكرة، وايمن بن خريم، وابن عمر. قال ابو عيسى: حديث انس حديث حسن صحيح غريب.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى الصَّنْعَانِيُّ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ شُعْبَةَ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْكَبَائِرِ، قَالَ: " الشِّرْكُ بِاللَّهِ، وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ، وَقَتْلُ النَّفْسِ، وَقَوْلُ الزُّورِ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ، وَأَيْمَنَ بْنِ خُرَيْمٍ، وَابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبیرہ گناہوں ۱؎ سے متعلق فرمایا: اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی کو (ناحق) قتل کرنا اور جھوٹی بات کہنا (کبائر میں سے ہیں ۲؎)۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- انس کی حدیث حسن صحیح غریب ہے،
۲- اس باب میں ابوبکرہ، ایمن بن خریم اور ابن عمر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الشہادات 10 (2653)، والأدب 6 (6871)، صحیح مسلم/الإیمان 38 (88)، سنن النسائی/المحاربہ (تحریم الدم) 3 (4015)، والقسامة 48 (4871)، (التحفہ: 1077) مسند احمد 3/131، 134) والمؤلف في تفسیر النساء (3018) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: کبیرہ گناہ وہ ہے جس کے ارتکاب پر قرآن کریم یا حدیث شریف میں سخت وعید وارد ہو۔
۲؎: کبیرہ گناہ اور بھی بہت سارے ہیں یہاں موقع کی مناسبت سے چند ایک کا تذکرہ فرمایا گیا ہے، یا مقصد یہ بتانا ہے کہ یہ چند مذکورہ گناہ کبیرہ گناہوں میں سب سے زیادہ خطرناک ہیں۔ یہاں مولف کے اس حدیث کو کتاب البیوع میں ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ خرید و فروخت میں بھی جھوٹ کی وہی قباحت ہے جو عام معاملات میں ہے، مومن تاجر کو اس سے پرہیز کرنا چاہیئے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح غاية المرام (277)
حدیث نمبر: 2301
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا حميد بن مسعدة، حدثنا بشر بن المفضل، عن الجريري، عن عبد الرحمن بن ابي بكرة، عن ابيه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " الا اخبركم باكبر الكبائر؟ " قالوا: بلى يا رسول الله، قال: " الإشراك بالله، وعقوق الوالدين، وشهادة الزور، او قول الزور "، قال: فما زال رسول الله صلى الله عليه وسلم يقولها حتى قلنا ليته سكت، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وفي الباب عن عبد الله بن عمرو.حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، عَنِ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِأَكْبَرِ الْكَبَائِرِ؟ " قَالُوا: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: " الْإِشْرَاكُ بِاللَّهِ، وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ، وَشَهَادَةُ الزُّورِ، أَوْ قَوْلُ الزُّورِ "، قَالَ: فَمَا زَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُهَا حَتَّى قُلْنَا لَيْتَهُ سَكَتَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَفِي الْبَابِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو.
ابوبکرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہیں بڑے بڑے (کبیرہ) گناہوں کے بارے میں نہ بتا دوں؟ صحابہ نے عرض کیا: کیوں نہیں؟ اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: اللہ کے ساتھ شرک کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا اور جھوٹی گواہی دینا یا جھوٹی بات بولنا، ابوبکرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آخری بات کو برابر دہراتے رہے یہاں تک کہ ہم لوگوں نے دل میں کہا: کاش! آپ خاموش ہو جاتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما سے بھی حدیث آئی ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 1901) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح غاية المرام (277)
حدیث نمبر: 2733
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا ابو كريب، حدثنا عبد الله بن إدريس، وابو اسامة , عن شعبة، عن عمرو بن مرة، عن عبد الله بن سلمة، عن صفوان بن عسال، قال: قال يهودي لصاحبه اذهب بنا إلى هذا النبي، فقال صاحبه: لا تقل نبي إنه لو سمعك كان له اربعة اعين، فاتيا رسول الله صلى الله عليه وسلم فسالاه عن تسع آيات بينات، فقال لهم: " لا تشركوا بالله شيئا، ولا تسرقوا، ولا تزنوا، ولا تقتلوا النفس التي حرم الله إلا بالحق، ولا تمشوا ببريء إلى ذي سلطان ليقتله، ولا تسحروا، ولا تاكلوا الربا، ولا تقذفوا محصنة، ولا تولوا الفرار يوم الزحف، وعليكم خاصة اليهود ان لا تعتدوا في السبت "، قال: فقبلوا يده ورجله، فقالا: نشهد انك نبي، قال: " فما يمنعكم ان تتبعوني "، قالوا: إن داود دعا ربه ان لا يزال في ذريته نبي وإنا نخاف إن تبعناك ان تقتلنا اليهود , وفي الباب عن يزيد بن الاسود، وابن عمر، وكعب بن مالك، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، وَأَبُو أُسَامَةَ , عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ، قَالَ: قَالَ يَهُودِيٌّ لِصَاحِبِهِ اذْهَبْ بِنَا إِلَى هَذَا النَّبِيِّ، فَقَالَ صَاحِبُهُ: لَا تَقُلْ نَبِيٌّ إِنَّهُ لَوْ سَمِعَكَ كَانَ لَهُ أَرْبَعَةُ أَعْيُنٍ، فَأَتَيَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَاهُ عَنْ تِسْعِ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ، فَقَالَ لَهُمْ: " لَا تُشْرِكُوا بِاللَّهِ شَيْئًا، وَلَا تَسْرِقُوا، وَلَا تَزْنُوا، وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ، وَلَا تَمْشُوا بِبَرِيءٍ إِلَى ذِي سُلْطَانٍ لِيَقْتُلَهُ، وَلَا تَسْحَرُوا، وَلَا تَأْكُلُوا الرِّبَا، وَلَا تَقْذِفُوا مُحْصَنَةً، وَلَا تُوَلُّوا الْفِرَارَ يَوْمَ الزَّحْفِ، وَعَلَيْكُمْ خَاصَّةً الْيَهُودَ أَنْ لَا تَعْتَدُوا فِي السَّبْتِ "، قَالَ: فَقَبَّلُوا يَدَهُ وَرِجْلَهُ، فَقَالَا: نَشْهَدُ أَنَّكَ نَبِيٌّ، قَالَ: " فَمَا يَمْنَعُكُمْ أَنْ تَتَّبِعُونِي "، قَالُوا: إِنَّ دَاوُدَ دَعَا رَبَّهُ أَنْ لَا يَزَالَ فِي ذُرِّيَّتِهِ نَبِيٌّ وَإِنَّا نَخَافُ إِنْ تَبِعْنَاكَ أَنْ تَقْتُلَنَا الْيَهُودُ , وفي الباب عن يَزِيدَ بْنِ الْأَسْوَدِ، وَابْنِ عُمَرَ، وَكَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
صفوان بن عسال رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک یہودی نے اپنے ساتھی سے کہا: چلو اس نبی کے پاس لے چلتے ہیں۔ اس کے ساتھی نے کہا نبی نہ کہو۔ ورنہ اگر انہوں نے سن لیا تو ان کی چار آنکھیں ہو جائیں گی، پھر وہ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور آپ سے (موسیٰ علیہ السلام کو دی گئیں) نو کھلی ہوئی نشانیوں کے متعلق پوچھا۔ آپ نے ان سے کہا (۱) کسی کو اللہ کا شریک نہ بناؤ (۲) چوری نہ کرو (۳) زنا نہ کرو (۴) ناحق کسی کو قتل نہ کرو (۵) کسی بےگناہ کو حاکم کے سامنے نہ لے جاؤ کہ وہ اسے قتل کر دے (۶) جادو نہ کرو (۷) سود مت کھاؤ (۸) پارسا عورت پر زنا کی تہمت مت لگاؤ (۹) اور دشمن سے مقابلے کے دن پیٹھ پھیر کر بھاگنے کی کوشش نہ کرو۔ اور خاص تم یہودیوں کے لیے یہ بات ہے کہ «سبت» (سنیچر) کے سلسلے میں حد سے آگے نہ بڑھو، (آپ کا جواب سن کر) انہوں نے آپ کے ہاتھ پیر چومے اور کہا: ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نبی ہیں۔ آپ نے فرمایا: پھر تمہیں میری پیروی کرنے سے کیا چیز روکتی ہے؟ انہوں نے کہا: داود علیہ السلام نے اپنے رب سے دعا کی تھی کہ ان کی اولاد میں ہمیشہ کوئی نبی رہے۔ اس لیے ہم ڈرتے ہیں کہ اگر ہم نے آپ کی اتباع (پیروی) کی تو یہودی ہمیں مار ڈالیں گے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں یزید بن اسود، ابن عمر اور کعب بن مالک رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الأدب 16 (3705)، وأعادہ المؤلف في التفسیر (3144) والنسائی فی الکبری فی السیر (8656) وفی المحاربة (3541) (تحفة الأشراف: 4951) وأحمد (4/239) (ضعیف) (سند میں ”عبد اللہ بن سلمہ“ مختلط ہو گئے تھے)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (3705) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (808)، والذي هنا أتم وانظر الآتي برقم (613 / 3365)، ضعيف سنن النسائي (275 / 4078) //
حدیث نمبر: 3018
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا محمد بن عبد الاعلى الصنعاني، حدثنا خالد بن الحارث، عن شعبة، حدثنا عبيد الله بن ابي بكر بن انس، عن انس بن مالك، عن النبي صلى الله عليه وسلم في الكبائر، قال: " الشرك بالله وعقوق الوالدين وقتل النفس وقول الزور "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب صحيح، ورواه روح بن عبادة، عن شعبة، وقال: عن عبد الله بن ابي بكر، ولا يصح.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى الصَّنْعَانِيُّ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ شُعْبَةَ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْكَبَائِرِ، قَالَ: " الشِّرْكُ بِاللَّهِ وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ وَقَتْلُ النَّفْسِ وَقَوْلُ الزُّورِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ، وَرَوَاهُ رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، عَنْ شُعْبَةَ، وَقَالَ: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، وَلَا يَصِحُّ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کبیرہ گناہ: اللہ کے ساتھ شریک کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، (ناحق) کسی کو قتل کرنا، جھوٹ کہنا یا جھوٹ بولنا ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے،
۲- اس کو روح بن عبادہ نے بھی شعبہ یہ روایت کیا ہے، لیکن (عبیداللہ کی جگہ عبداللہ بن ابی بکر کہا ہے، (عبیداللہ ہی صحیح ہے) لیکن یہ صحیح نہیں ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 1207 (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: حدیث مولف ارشاد باری: «إن تجتنبوا كبآئر ما تنهون عنه» (النساء: 31) کی تفسیر میں لائے ہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح غاية المرام (277)
حدیث نمبر: 3019
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا حميد بن مسعدة بصري، حدثنا بشر بن المفضل، حدثنا الجريري، عن عبد الرحمن بن ابي بكرة، عن ابيه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الا احدثكم باكبر الكبائر؟ قالوا: بلى يا رسول الله، قال: الإشراك بالله، وعقوق الوالدين، قال: وجلس وكان متكئا، قال: وشهادة الزور او قال قول الزور، قال: فما زال رسول الله صلى الله عليه وسلم يقولها حتى قلنا ليته سكت "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب.حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ بَصْرِيٌّ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، حَدَّثَنَا الْجُرَيْرِيُّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَلَا أُحَدِّثُكُمْ بِأَكْبَرِ الْكَبَائِرِ؟ قَالُوا: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: الْإِشْرَاكُ بِاللَّهِ، وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ، قَالَ: وَجَلَسَ وَكَانَ مُتَّكِئًا، قَالَ: وَشَهَادَةُ الزُّورِ أَوْ قَالَ قَوْلُ الزُّورِ، قَالَ: فَمَا زَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُهَا حَتَّى قُلْنَا لَيْتَهُ سَكَتَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
ابوبکرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں تمہیں بڑے سے بڑا گناہ نہ بتاؤں؟ صحابہ نے عرض کیا: جی ہاں، اللہ کے رسول! ضرور بتائیے۔ آپ نے فرمایا: اللہ کے ساتھ شریک کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے ٹیک لگائے ہوئے تھے پھر اٹھ بیٹھے اور فرمایا: جھوٹی گواہی دینا، یا جھوٹی بات کہنا، آپ یہ بات باربار دہراتے رہے یہاں تک کہ ہم اپنے جی میں کہنے لگے کاش آپ خاموش ہو جاتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 1901، و2301 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح غاية المرام (277)
حدیث نمبر: 3020
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا عبد بن حميد، حدثنا يونس بن محمد، حدثنا الليث بن سعد، عن هشام بن سعد، عن محمد بن زيد بن مهاجر بن قنفذ التيمي، عن ابي امامة الانصاري، عن عبد الله بن انيس الجهني، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن من اكبر الكبائر: الشرك بالله، وعقوق الوالدين، واليمين الغموس، وما حلف حالف بالله يمين صبر فادخل فيها مثل جناح بعوضة إلا جعلت نكتة في قلبه إلى يوم القيامة "، قال ابو عيسى: وابو امامة الانصاري هو ابن ثعلبة ولا نعرف اسمه وقد روى عن النبي صلى الله عليه وسلم احاديث، قال ابو عيسى: وهذا حديث حسن غريب.حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ مُهَاجِرِ بْنِ قُنْفُذٍ الْتَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْأَنْصَارِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُنَيْسٍ الْجُهَنِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ مِنْ أَكْبَرِ الْكَبَائِرِ: الشِّرْكُ بِاللَّهِ، وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ، وَالْيَمِينُ الْغَمُوسُ، وَمَا حَلَفَ حَالِفٌ بِاللَّهِ يَمِينَ صَبْرٍ فَأَدْخَلَ فِيهَا مِثْلَ جَنَاحِ بَعُوضَةٍ إِلَّا جُعِلَتْ نُكْتَةً فِي قَلْبِهِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَأَبُو أُمَامَةَ الْأَنْصَارِيُّ هُوَ ابْنُ ثَعْلَبَةَ وَلَا نَعْرِفُ اسْمَهُ وَقَدْ رَوَى عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَادِيثَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
عبداللہ بن انیس جہنی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بڑے گناہوں میں سب سے بڑے گناہ یہ ہیں: اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا ہے، جھوٹی قسم کھانا۔ تو جس کسی نے بھی ایسی قسم کھائی جس پر وہ مجبور کر دیا گیا اور (اسی پر فیصلہ کا انحصار ہے) پھر اس نے اس میں مچھر کے پر کے برابر جھوٹ شامل کر دیا تو اس کے دل میں ایک (کالا) نکتہ ڈال دیا جائے گا جو قیامت تک قائم اور باقی رہے گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،
۲- ابوامامہ انصاری ثعلبہ کے بیٹے ہیں اور ان کا نام ہمیں نہیں معلوم ہے، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیثیں روایت کی ہیں۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 5147) (حسن)»

قال الشيخ الألباني: حسن، المشكاة (3777 / التحقيق الثاني)
حدیث نمبر: 3021
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا محمد بن بشار، حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، عن فراس، عن الشعبي، عن عبد الله بن عمرو، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " الكبائر: الإشراك بالله، وعقوق الوالدين او قال اليمين الغموس " شك شعبة، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ فِرَاسٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " الْكَبَائِرُ: الْإِشْرَاكُ بِاللَّهِ، وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ أَوْ قَالَ الْيَمِينُ الْغَمُوسُ " شَكَّ شُعْبَةُ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کبائر یہ ہیں: اللہ کے ساتھ شریک کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، یا کہا: جھوٹی قسم کھانا۔ اس میں شعبہ کو شک ہو گیا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأیمان والنذور 16 (6675)، والدیات 2 (6870)، والمرتدین 1 (6920) (تحفة الأشراف: 8835) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 3144
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا ابو داود، ويزيد بن هارون، وابو الوليد، واللفظ لفظ يزيد والمعنى واحد، عن شعبة، عن عمرو بن مرة، عن عبد الله بن سلمة، عن صفوان بن عسال، ان يهوديين قال احدهما لصاحبه اذهب بنا إلى هذا النبي نساله، فقال: لا تقل له نبي فإنه إن سمعنا نقول نبي كانت له اربعة اعين، فاتيا النبي صلى الله عليه وسلم، فسالاه عن قول الله عز وجل: ولقد آتينا موسى تسع آيات بينات سورة الإسراء آية 101، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا تشركوا بالله شيئا، ولا تزنوا، ولا تقتلوا النفس التي حرم الله إلا بالحق، ولا تسرقوا، ولا تسحروا، ولا تمشوا ببريء إلى سلطان فيقتله، ولا تاكلوا الربا، ولا تقذفوا محصنة، ولا تفروا من الزحف شك شعبة وعليكم يا معشر اليهود خاصة ان لا تعدوا في السبت، فقبلا يديه ورجليه "، وقالا: نشهد انك نبي، قال: فما يمنعكما ان تسلما؟، قالا: إن داود دعا الله ان لا يزال في ذريته نبي وإنا نخاف إن اسلمنا ان تقتلنا اليهود "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، وَيَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، وَأَبُو الْوَلِيدِ، وَاللَّفْظُ لَفْظُ يَزِيدَ وَالْمَعْنَى وَاحِدٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ، أَنَّ يَهُودِيَّيْنِ قَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ اذْهَبْ بِنَا إِلَى هَذَا النَّبِيِّ نَسْأَلُهُ، فَقَالَ: لَا تَقُلْ لَهُ نَبِيٌّ فَإِنَّهُ إِنْ سَمِعَنَا نَقُولُ نَبِيٌّ كَانَتْ لَهُ أَرْبَعَةُ أَعْيُنٍ، فَأَتَيَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَاهُ عَنْ قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى تِسْعَ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ سورة الإسراء آية 101، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تُشْرِكُوا بِاللَّهِ شَيْئًا، وَلَا تَزْنُوا، وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ، وَلَا تَسْرِقُوا، وَلَا تَسْحَرُوا، وَلَا تَمْشُوا بِبَرِيءٍ إِلَى سُلْطَانٍ فَيَقْتُلَهُ، وَلَا تَأْكُلُوا الرِّبَا، وَلَا تَقْذِفُوا مُحْصَنَةً، وَلَا تَفِرُّوا مِنَ الزَّحْفِ شَكَّ شُعْبَةُ وَعَلَيْكُمْ يَا مَعْشَرَ الْيَهُودَ خَاصَّةً أَنْ لَا تَعْدُوا فِي السَّبْتِ، فَقَبَّلَا يَدَيْهِ وَرِجْلَيْهِ "، وَقَالَا: نَشْهَدُ أَنَّكَ نَبِيٌّ، قَالَ: فَمَا يَمْنَعُكُمَا أَنْ تُسْلِمَا؟، قَالَا: إِنَّ دَاوُدَ دَعَا اللَّهَ أَنْ لَا يَزَالَ فِي ذُرِّيَّتِهِ نَبِيٌّ وَإِنَّا نَخَافُ إِنْ أَسْلَمْنَا أَنْ تَقْتُلَنَا الْيَهُودُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
صفوان بن عسال رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ یہود میں سے ایک یہودی نے دوسرے یہودی سے کہا: اس نبی کے پاس مجھے لے چلو، ہم چل کر ان سے (کچھ) پوچھتے ہیں، دوسرے نے کہا: انہیں نبی نہ کہو، اگر انہوں نے سن لیا کہ تم انہیں نبی کہتے ہو تو (مارے خوشی کے) ان کی چار آنکھیں ہو جائیں گی۔ پھر وہ دونوں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور آپ سے اللہ تعالیٰ کے اس قول «ولقد آتينا موسى تسع آيات بينات» ہم نے موسیٰ کو نو نشانیاں دیں (اسرائیل: ۱۰۱)، کے بارے میں پوچھا کہ وہ نو نشانیاں کیا تھیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، زنا نہ کرو، ناحق کسی شخص کا قتل نہ کرو، چوری نہ کرو، جادو نہ کرو، کسی بری (بےگناہ) شخص کو (مجرم بنا کر) بادشاہ کے سامنے نہ لے جاؤ کہ وہ اسے قتل کر دے، سود نہ کھاؤ، کسی پاک دامن عورت پر زنا کی تہمت نہ لگاؤ، دشمن کی طرف بڑھتے ہوئے بڑے لشکر سے نکل کر نہ بھاگو۔ شعبہ کو شک ہو گیا ہے (کہ آپ نے نویں چیز یہ فرمائی ہے) اور تم خاص یہودیوں کے لیے یہ بات ہے کہ ہفتے کے دن میں زیادتی (الٹ پھیر) نہ کرو، (یہ جواب سن کر) ان دونوں نے آپ کے ہاتھ پیر چومے اور کہا: ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے نبی ہیں۔ آپ نے فرمایا: پھر تمہیں اسلام قبول کر لینے سے کیا چیز روک رہی ہے؟ دونوں نے جواب دیا داود (علیہ السلام) نے دعا کی تھی کہ ان کی اولاد میں ہمیشہ کوئی نہ کوئی نبی ہو گا (اور آپ ان کی ذریت میں سے نہیں ہیں) اب ہمیں ڈر ہے کہ ہم اگر آپ پر ایمان لے آتے ہیں تو ہمیں یہود قتل نہ کر دیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 2733، سنن ابن ماجہ/الأدب 16 (3705)، والنسائی فی الکبری فی السیر (8656) وفی المحاربة (3541) (تحفة الأشراف: 4951) وقد أخرجہ: مسند احمد (4/239) (ضعیف) (سند میں عبد اللہ بن سلمہ صدوق ہیں، لیکن حافظہ میں تبدیلی آ گئی تھی)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (3705) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (808)، وتقدم برقم (517 - 2889)، ضعيف سنن النسائي (275 / 4078) //

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.