الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: وحی کے بیان میں
The Book of Revelation
--. ( بَابٌ: )
--. باب: (وحی کی ابتداء)
( Chapter. )
حدیث نمبر: 4
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
قال ابن شهاب : واخبرني ابو سلمة بن عبد الرحمن ، ان جابر بن عبد الله الانصاري ، قال وهو يحدث عن فترة الوحي، فقال في حديثه: بينا انا امشي إذ سمعت صوتا من السماء فرفعت بصري، فإذا الملك الذي جاءني بحراء جالس على كرسي بين السماء والارض، فرعبت منه فرجعت، فقلت: زملوني، فانزل الله تعالى:" يايها المدثر[1] قم فانذر [2]" [سورة المدثر آية 1-2]، فحمي الوحي وتتابع، تابعه عبد الله بن يوسف ، وابو صالح ، وتابعه هلال بن رداد ، عن الزهري ، وقال يونس ، ومعمر بوادره.قَالَ ابْنُ شِهَابٍ : وَأَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيَّ ، قَالَ وَهُوَ يُحَدِّثُ عَنْ فَتْرَةِ الْوَحْيِ، فَقَالَ فِي حَدِيثِهِ: بَيْنَا أَنَا أَمْشِي إِذْ سَمِعْتُ صَوْتًا مِنَ السَّمَاءِ فَرَفَعْتُ بَصَرِي، فَإِذَا الْمَلَكُ الَّذِي جَاءَنِي بِحِرَاءٍ جَالِسٌ عَلَى كُرْسِيٍّ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، فَرُعِبْتُ مِنْهُ فَرَجَعْتُ، فَقُلْتُ: زَمِّلُونِي، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى:" يَأَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ[1] قُمْ فَأَنْذِرْ [2]" [سورة المدثر آية 1-2]، فَحَمِيَ الْوَحْيُ وَتَتَابَعَ، تَابَعَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ ، وَأَبُو صَالِحٍ ، وَتَابَعَهُ هِلَالُ بْنُ رَدَّادٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، وَقَالَ يُونُسُ ، وَمَعْمَرٌ بَوَادِرُهُ.
ابن شہاب کہتے ہیں مجھ کو ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما سے یہ روایت نقل کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وحی کے رک جانے کے زمانے کے حالات بیان فرماتے ہوئے کہا کہ ایک روز میں چلا جا رہا تھا کہ اچانک میں نے آسمان کی طرف ایک آواز سنی اور میں نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا کیا دیکھتا ہوں کہ وہی فرشتہ جو میرے پاس غار حرا میں آیا تھا وہ آسمان و زمین کے بیچ میں ایک کرسی پر بیٹھا ہوا ہے۔ میں اس سے ڈر گیا اور گھر آنے پر میں نے پھر کمبل اوڑھنے کی خواہش ظاہر کی۔ اس وقت اللہ پاک کی طرف سے یہ آیات نازل ہوئیں۔ «يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ * قُمْ فَأَنذِرْ * وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ * وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ * وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ *» اے لحاف اوڑھ کر لیٹنے والے! اٹھ کھڑا ہو اور لوگوں کو عذاب الٰہی سے ڈرا اور اپنے رب کی بڑائی بیان کر اور اپنے کپڑوں کو پاک صاف رکھ اور گندگی سے دور رہ۔ اس کے بعد وحی تیزی کے ساتھ پے در پے آنے لگی۔ اس حدیث کو یحییٰ بن بکیر کے علاوہ لیث بن سعد سے عبداللہ بن یوسف اور ابوصالح نے بھی روایت کیا ہے۔ اور عقیل کے علاوہ زہری سے ھلال بن رداد نے بھی روایت کیا ہے۔ یونس اور معمر نے اپنی روایت میں لفظ «فُؤَادُهُ» کی جگہ «بَوَادِرُهُ» نقل کیا ہے۔

Narrated Jabir bin 'Abdullah Al-Ansari while talking about the period of pause in revelation reporting the speech of the Prophet "While I was walking, all of a sudden I heard a voice from the sky. I looked up and saw the same angel who had visited me at the cave of Hira' sitting on a chair between the sky and the earth. I got afraid of him and came back home and said, 'Wrap me (in blankets).' And then Allah revealed the following Holy Verses (of Quran): 'O you (i.e. Muhammad)! wrapped up in garments!' Arise and warn (the people against Allah's Punishment),... up to 'and desert the idols.' (74.1-5) After this the revelation started coming strongly, frequently and regularly."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 1, Number 3

حدیث نمبر: 3238
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا عبد الله بن يوسف، اخبرنا الليث، قال: حدثني عقيل، عن ابن شهاب، قال: سمعت ابا سلمة، قال: اخبرني جابر بن عبد اللهرضي الله عنهما، انه سمع النبي صلى الله عليه وسلم، يقول:" ثم فتر عني الوحي فترة فبينا انا امشي سمعت صوتا من السماء فرفعت بصري قبل السماء، فإذا الملك الذي جاءني بحراء قاعد على كرسي بين السماء والارض، فجئثت منه حتى هويت إلى الارض فجئت اهلي، فقلت: زملوني زملوني فانزل الله تعالى يايها المدثر قم فانذر إلى قوله والرجز فاهجر سورة المدثر آية 1 - 5"، قال ابو سلمة: والرجز الاوثان.حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا سَلَمَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" ثُمَّ فَتَرَ عَنِّي الْوَحْيُ فَتْرَةً فَبَيْنَا أَنَا أَمْشِي سَمِعْتُ صَوْتًا مِنَ السَّمَاءِ فَرَفَعْتُ بَصَرِي قِبَلَ السَّمَاءِ، فَإِذَا الْمَلَكُ الَّذِي جَاءَنِي بِحِرَاءٍ قَاعِدٌ عَلَى كُرْسِيٍّ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، فَجُئِثْتُ مِنْهُ حَتَّى هَوَيْتُ إِلَى الْأَرْضِ فَجِئْتُ أَهْلِي، فَقُلْتُ: زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى يَأَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَأَنْذِرْ إِلَى قَوْلِهِ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ سورة المدثر آية 1 - 5"، قَالَ أَبُو سَلَمَةَ: وَالرِّجْزُ الْأَوْثَانُ.
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو لیث نے خبر دی، کہا کہ مجھ سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا کہ میں نے ابوسلمہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ مجھے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے خبر دی اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ نے فرمایا تھا کہ (پہلے غار حراء میں جو جبرائیل علیہ السلام مجھ کو سورۃ اقراء پڑھا کر گئے تھے اس کے بعد) مجھ پر وحی کا نزول (تین سال) بند رہا۔ ایک بار میں کہیں جا رہا تھا کہ میں نے آسمان میں سے ایک آواز سنی اور نظر آسمان کی طرف اٹھائی، میں نے دیکھا کہ وہی فرشتہ جو غار حرا میں میرے پاس آیا تھا (یعنی جبرائیل علیہ السلام) آسمان اور زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا ہوا ہے۔ میں انہیں دیکھ کر اتنا ڈر گیا کہ زمین پر گر پڑا۔ پھر میں اپنے گھر آیا اور کہنے لگا کہ مجھے کچھ اوڑھا دو، مجھے کچھ اوڑھا دو۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ «يا أيها المدثر‏» اللہ تعالیٰ کے ارشاد «فاهجر‏» تک۔ ابوسلمہ نے کہا کہ آیت میں «الرجز» سے بت مراد ہیں۔

Narrated Jabir bin `Abdullah: that he heard the Prophet saying, "The Divine Inspiration was delayed for a short period but suddenly, as I was walking. I heard a voice in the sky, and when I looked up towards the sky, to my surprise, I saw the angel who had come to me in the Hira Cave, and he was sitting on a chair in between the sky and the earth. I was so frightened by him that I fell on the ground and came to my family and said (to them), 'Cover me! (with a blanket), cover me!' Then Allah sent the Revelation: "O, You wrapped up (In a blanket)! (Arise and warn! And your Lord magnify And keep pure your garments, And desert the idols." (74.1-5)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 54, Number 461

حدیث نمبر: 4922
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا يحيى، حدثنا وكيع، عن علي بن المبارك، عن يحيى بن ابي كثير، سالت ابا سلمة بن عبد الرحمن، عن اول ما نزل من القرآن، قال: يايها المدثر سورة المدثر آية 1، قلت: يقولون: اقرا باسم ربك الذي خلق سورة العلق آية 1، فقال ابو سلمة: سالت جابر بن عبد الله رضي الله عن ذلك، وقلت له مثل الذي قلت، فقال جابر: لا احدثك إلا ما حدثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" جاورت بحراء، فلما قضيت جواري هبطت، فنوديت، فنظرت عن يميني فلم ار شيئا، ونظرت عن شمالي فلم ار شيئا، ونظرت امامي فلم ار شيئا، ونظرت خلفي فلم ار شيئا، فرفعت راسي فرايت شيئا، فاتيت خديجة، فقلت: دثروني وصبوا علي ماء باردا، قال: فدثروني وصبوا علي ماء باردا، قال: فنزلت يايها المدثر {1} قم فانذر {2} وربك فكبر {3} سورة المدثر آية 1-3".حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْمُبَارَكِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، سَأَلْتُ أَبَا سَلَمَةَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَوَّلِ مَا نَزَلَ مِنَ الْقُرْآنِ، قَالَ: يَأَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ سورة المدثر آية 1، قُلْتُ: يَقُولُونَ: اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ سورة العلق آية 1، فَقَالَ أَبُو سَلَمَةَ: سَأَلْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْ ذَلِكَ، وَقُلْتُ لَهُ مِثْلَ الَّذِي قُلْتَ، فَقَالَ جَابِرٌ: لَا أُحَدِّثُكَ إِلَّا مَا حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" جَاوَرْتُ بِحِرَاءٍ، فَلَمَّا قَضَيْتُ جِوَارِي هَبَطْتُ، فَنُودِيتُ، فَنَظَرْتُ عَنْ يَمِينِي فَلَمْ أَرَ شَيْئًا، وَنَظَرْتُ عَنْ شِمَالِي فَلَمْ أَرَ شَيْئًا، وَنَظَرْتُ أَمَامِي فَلَمْ أَرَ شَيْئًا، وَنَظَرْتُ خَلْفِي فَلَمْ أَرَ شَيْئًا، فَرَفَعْتُ رَأْسِي فَرَأَيْتُ شَيْئًا، فَأَتَيْتُ خَدِيجَةَ، فَقُلْتُ: دَثِّرُونِي وَصُبُّوا عَلَيَّ مَاءً بَارِدًا، قَالَ: فَدَثَّرُونِي وَصَبُّوا عَلَيَّ مَاءً بَارِدًا، قَالَ: فَنَزَلَتْ يَأَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ {1} قُمْ فَأَنْذِرْ {2} وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ {3} سورة المدثر آية 1-3".
ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے وکیع نے بیان کیا، ان سے علی بن مبارک نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے، انہوں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے پوچھا کہ قرآن مجید کی کون سی آیت سب سے پہلے نازل ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ «يا أيها المدثر‏» میں نے عرض کیا کہ لوگ تو کہتے ہیں کہ «اقرأ باسم ربك الذي خلق‏» سب سے پہلے نازل ہوئی۔ ابوسلمہ نے اس پر کہا کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے پوچھا تھا اور جو بات ابھی تم نے مجھ سے کہی وہی میں نے بھی ان سے کہی تھی لیکن جابر رضی اللہ عنہ نے کہا تھا کہ میں تم سے وہی حدیث بیان کرتا ہوں جو ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمائی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ میں غار حرا میں ایک مدت کے لیے خلوت نشیں تھا۔ جب میں وہ دن پورے کر کے پہاڑ سے اترا تو مجھے آواز دی گئی، میں نے اس آواز پر اپنے دائیں طرف دیکھا لیکن کوئی چیز نہیں دکھائی دی۔ پھر بائیں طرف دیکھا ادھر بھی کوئی چیز دکھائی نہیں دی، سامنے دیکھا ادھر بھی کوئی چیز نہیں دکھائی دی۔ پیچھے کی طرف دیکھا اور ادھر بھی کوئی چیز نہیں دکھائی دی۔ اب میں نے اپنا سر اوپر کی طرف اٹھایا تو مجھے ایک چیز دکھائی دی۔ پھر میں خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس آیا اور ان سے کہا کہ مجھے کپڑا اوڑھا دو اور مجھ پر ٹھنڈا پانی ڈالو۔ فرمایا کہ پھر انہوں نے مجھے کپڑا اوڑھا دیا اور ٹھنڈا پانی مجھ پر بہایا۔ فرمایا کہ پھر یہ آیت نازل ہوئی «يا أيها المدثر * قم فأنذر * وربك فكبر‏» یعنی اے کپڑے میں لپٹنے والے! اٹھئیے پھر لوگوں کو عذاب الٰہی سے ڈرایئے اور اپنے پروردگار کی بڑائی بیان کیجئے۔

Narrated Yahya bin Abi Kathir: I asked Aba Salama bin `Abdur-Rahman about the first Sura revealed of the Qur'an. He replied "O you, wrapped-up (i.e. Al Muddaththir)." I said, "They say it was, 'Read, in the Name of your Lord Who created,' (i.e. Surat Al-`Alaq (the Clot)." On that, Abu Salama said, "I asked Jabir bin `Abdullah about that, saying the same as you have said, whereupon he said, 'I will not tell you except what Allah's Messenger had told us. Allah's Messenger said, "I was in seclusion in the cave of Hiram', and after I completed the limited period of my seclusion. I came down (from the cave) and heard a voice calling me. I looked to my right, but saw nothing. Then I looked up and saw something. So I went to Khadija (the Prophet's wife) and told her to wrap me up and pour cold water on me. So they wrapped me up and poured cold water on me." Then, 'O you, (Muhammad) wrapped up! Arise and warn,' (Surat Al Muddaththir) was revealed." (74.1)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 444

حدیث نمبر: 4923
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثني محمد بن بشار، حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، وغيره، قالا: حدثنا حرب بن شداد، عن يحيى بن ابي كثير، عن ابي سلمة،عن جابر بن عبد الله رضي الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" جاورت بحراء"، مثل حديث عثمان بن عمر، عن علي بن المبارك.حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، وَغَيْرُهُ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَرْبُ بْنُ شَدَّادٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ،عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" جَاوَرْتُ بِحِرَاءٍ"، مِثْلَ حَدِيثِ عُثْمَانَ بْنِ عُمَرَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْمُبَارَكِ.
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبدالرحمٰن بن مہدی نے اور ان کے غیر (ابوداؤد طیالسی) نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حرب بن شداد نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے جابر عبداللہ رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں غار حرا میں تنہائی اختیار کئے ہوئے تھا۔ یہ روایت بھی عثمان بن عمر کی حدیث کی طرح ہے جو انہوں نے علی بن مبارک سے بیان کی ہے۔

Narrated Jabir bin `Abdullah: The Prophet said, "I was in a seclusion in the cave of Hira........."(similar to the narration related by `Ali bin Al-Mubarak, 444 above).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 445

حدیث نمبر: 4924
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا إسحاق بن منصور، حدثنا عبد الصمد، حدثنا حرب، حدثنا يحيى، قال: سالت ابا سلمة اي القرآن انزل اول، فقال: يايها المدثر سورة المدثر آية 1، فقلت: انبئت انه اقرا باسم ربك الذي خلق سورة العلق آية 1، فقال ابو سلمة: سالت جابر بن عبد الله اي القرآن انزل اول، فقال: يايها المدثر سورة المدثر آية 1، فقلت: انبئت انه اقرا باسم ربك الذي خلق سورة العلق آية 1، فقال: لا اخبرك إلا بما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" جاورت في حراء فلما قضيت جواري هبطت، فاستبطنت الوادي، فنوديت فنظرت امامي وخلفي، وعن يميني وعن شمالي، فإذا هو جالس على كرسي بين السماء والارض، فاتيت خديجة، فقلت: دثروني وصبوا علي ماء باردا، وانزل علي يايها المدثر {1} قم فانذر {2} وربك فكبر {3} سورة المدثر آية 1-3.حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ، حَدَّثَنَا حَرْبٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا سَلَمَةَ أَيُّ الْقُرْآنِ أُنْزِلَ أَوَّلُ، فَقَالَ: يَأَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ سورة المدثر آية 1، فَقُلْتُ: أُنْبِئْتُ أَنَّهُ اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ سورة العلق آية 1، فَقَالَ أَبُو سَلَمَةَ: سَأَلْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ أَيُّ الْقُرْآنِ أُنْزِلَ أَوَّلُ، فَقَالَ: يَأَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ سورة المدثر آية 1، فَقُلْتُ: أُنْبِئْتُ أَنَّهُ اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ سورة العلق آية 1، فَقَالَ: لَا أُخْبِرُكَ إِلَّا بِمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" جَاوَرْتُ فِي حِرَاءٍ فَلَمَّا قَضَيْتُ جِوَارِي هَبَطْتُ، فَاسْتَبْطَنْتُ الْوَادِيَ، فَنُودِيتُ فَنَظَرْتُ أَمَامِي وَخَلْفِي، وَعَنْ يَمِينِي وَعَنْ شِمَالِي، فَإِذَا هُوَ جَالِسٌ عَلَى كُرْسِيٍّ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، فَأَتَيْتُ خَدِيجَةَ، فَقُلْتُ: دَثِّرُونِي وَصُبُّوا عَلَيَّ مَاءً بَارِدًا، وَأُنْزِلَ عَلَيَّ يَأَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ {1} قُمْ فَأَنْذِرْ {2} وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ {3} سورة المدثر آية 1-3.
ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالصمد نے بیان کیا، کہا ہم سے حرب نے بیان کیا کہ ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ابوسلمہ سے پوچھا کہ قرآن مجید کی کون سی آیت سب سے پہلے نازل ہوئی تھی؟ فرمایا کہ «يا أيها المدثر‏» میں نے کہا کہ مجھے خبر ملی ہے کہ «اقرأ باسم ربك الذي خلق‏» سب سے پہلے نازل ہوئی تھی۔ ابوسلمہ نے بیان کیا کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے پوچھا تھا کہ قرآن کی کون سی آیت سب سے پہلے نازل ہوئی تھی؟ انہوں نے فرمایا کہ «يا أيها المدثر‏» اے کپڑے میں لپٹنے والے! میں نے ان سے یہی کہا تھا کہ مجھے خبر ملی ہے کہ «اقرأ باسم ربك‏» سب سے پہلے نازل ہوئی تھی تو انہوں نے کہا کہ میں تمہیں وہی خبر دے رہا ہوں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے غار حرا میں تنہائی اختیار کی جب میں وہ مدت پوری کر چکا اور نیچے اتر کر وادی کے بیچ میں پہنچا تو مجھے پکارا گیا۔ میں نے اپنے آگے پیچھے دائیں بائیں دیکھا اور مجھے دکھائی دیا کہ فرشتہ آسمان اور زمین کے درمیان کرسی پر بیٹھا ہے۔ پھر میں خدیجہ (رضی اللہ عنہا) کے پاس آیا اور ان سے کہا کہ مجھے کپڑا اوڑھا دو اور میرے اوپر ٹھنڈا پانی ڈالو اور مجھ پر یہ آیت نازل ہوئی «يا أيها المدثر * قم فأنذر * وربك فكبر‏» اے کپڑے میں لپٹنے والے! اٹھئیے پھر لوگوں کو عذاب آخرت سے ڈرایئے اور اپنے پروردگار کی بڑائی کیجئے۔

Narrated Yahya: I asked Aba Salama, "Which Sura of the Qur'an was revealed first?" He replied, "O you, wrapped-up' (Al-Muddaththir)." I said, "I have been informed that it was, 'Read, in the Name of your Lord who created........ (i.e. Surat Al-Alaq).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 446

حدیث نمبر: 4925
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا يحيى بن بكير، حدثنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب. ح وحدثني عبد الله بن محمد، حدثنا عبد الرزاق، اخبرنا معمر، قال الزهري: فاخبرني ابو سلمة بن عبد الرحمن، عن جابر بن عبد الله رضي الله عنهما، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم وهو يحدث عن فترة الوحي، فقال في حديثه:" فبينا انا امشي إذ سمعت صوتا من السماء، فرفعت راسي فإذا الملك الذي جاءني بحراء جالس على كرسي بين السماء والارض، فجئثت منه رعبا، فرجعت، فقلت: زملوني زملوني فدثروني، فانزل الله تعالى يايها المدثر إلى والرجز فاهجر سورة المدثر آية 1 - 5 قبل ان تفرض الصلاة وهي الاوثان".حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ. ح وحَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، قَالَ الزُّهْرِيُّ: فَأَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُحَدِّثُ عَنْ فَتْرَةِ الْوَحْيِ، فَقَالَ فِي حَدِيثِهِ:" فَبَيْنَا أَنَا أَمْشِي إِذْ سَمِعْتُ صَوْتًا مِنَ السَّمَاءِ، فَرَفَعْتُ رَأْسِي فَإِذَا الْمَلَكُ الَّذِي جَاءَنِي بِحِرَاءٍ جَالِسٌ عَلَى كُرْسِيٍّ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، فَجَئِثْتُ مِنْهُ رُعْبًا، فَرَجَعْتُ، فَقُلْتُ: زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي فَدَثَّرُونِي، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى يَأَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ إِلَى وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ سورة المدثر آية 1 - 5 قَبْلَ أَنْ تُفْرَضَ الصَّلَاةُ وَهِيَ الْأَوْثَانُ".
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے (دوسری سند) اور مجھ سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے خبر دی، کہا مجھ کو ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے خبر دی اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم درمیان میں وحی کا سلسلہ رک جانے کا حال بیان فرما رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں رو رہا تھا کہ میں نے آسمان کی طرف سے آواز سنی۔ میں نے اپنا سر اوپر اٹھایا تو وہی فرشتہ نظر آیا جو میرے پاس غار حرا میں آیا تھا۔ وہ آسمان و زمین کے درمیان کرسی پر بیٹھا ہوا تھا۔ میں اس کے ڈر سے گھبرا گیا پھر میں گھر واپس آیا اور خدیجہ سے کہا کہ مجھے کپڑا اوڑھا دو، مجھے کپڑا اوڑھا دو۔ انہوں نے مجھے کپڑا اوڑھا دیا پھر اللہ تعالیٰ نے آیت «يا أيها المدثر‏» سے «والرجز فاهجر‏» تک نازل کی۔ یہ سورت نماز فرض کئے جانے سے پہلے نازل ہوئی تھی «الرجز‏» سے مراد بت ہے۔

Narrated Jabir bin `Abdullah: I heard the Prophet describing the period of pause of the Divine Inspiration. He said in his talk, "While I was walking, I heard voices from the sky. I looked up, and behold ! I saw the same Angel who came to me in the cave of Hira' sitting on a chair between the sky and the earth. I was too much afraid of him (so I returned to my house) and said, 'Fold me up in garments!' They wrapped me up. Then Allah revealed: 'O you wrapped...and desert the idols before the prayer became compulsory.' Rujz means idols.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 447

حدیث نمبر: 4926
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا عبد الله بن يوسف، حدثنا الليث، عن عقيل، قال ابن شهاب: سمعت ابا سلمة، قال: اخبرني جابر بن عبد الله، انه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يحدث عن فترة الوحي:" فبينا انا امشي سمعت صوتا من السماء، فرفعت بصري قبل السماء، فإذا الملك الذي جاءني بحراء قاعد على كرسي بين السماء والارض، فجئثت منه حتى هويت إلى الارض، فجئت اهلي، فقلت: زملوني زملوني، فزملوني، فانزل الله تعالى يايها المدثر قم فانذر إلى قوله فاهجر سورة المدثر آية 1 - 5، قال ابو سلمة: والرجز: الاوثان، ثم حمي الوحي وتتابع.حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: سَمِعْتُ أَبَا سَلَمَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحَدِّثُ عَنْ فَتْرَةِ الْوَحْيِ:" فَبَيْنَا أَنَا أَمْشِي سَمِعْتُ صَوْتًا مِنَ السَّمَاءِ، فَرَفَعْتُ بَصَرِي قِبَلَ السَّمَاءِ، فَإِذَا الْمَلَكُ الَّذِي جَاءَنِي بِحِرَاءٍ قَاعِدٌ عَلَى كُرْسِيٍّ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، فَجَئِثْتُ مِنْهُ حَتَّى هَوَيْتُ إِلَى الْأَرْضِ، فَجِئْتُ أَهْلِي، فَقُلْتُ: زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي، فَزَمَّلُونِي، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى يَأَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَأَنْذِرْ إِلَى قَوْلِهِ فَاهْجُرْ سورة المدثر آية 1 - 5، قَالَ أَبُو سَلَمَةَ: وَالرِّجْزَ: الْأَوْثَانَ، ثُمَّ حَمِيَ الْوَحْيُ وَتَتَابَعَ.
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا کہ میں نے ابوسلمہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم درمیان میں وحی کے سلسلے کے رک جانے سے متعلق بیان فرما رہے تھے کہ میں چل رہا تھا کہ میں نے آسمان کی طرف سے آواز سنی۔ اپنی نظر آسمان کی طرف اٹھا کر دیکھا تو وہی فرشتہ نظر آیا جو میرے پاس غار حرا میں آیا تھا۔ وہ کرسی پر آسمان اور زمین کے درمیان میں بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے اسے دیکھ کر اتنا ڈرا کہ زمین پر گر پڑا۔ پھر میں اپنی بیوی کے پاس آیا اور ان سے کہا کہ مجھے کپڑا اوڑھا دو، مجھے کپڑا اوڑھا دو! مجھے کپڑا اوڑھا دو۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «يا أيها المدثر‏» سے «والرجز فاهجر‏» تک ابوسلمہ نے بیان کیا کہ «الرجز» بت کے معنی میں ہے۔ پھر وحی گرم ہو گئی اور سلسلہ نہیں ٹوٹا۔

Narrated Jabir bin `Abdullah: That he heard Allah's Messenger describing the period of pause of the Divine Inspiration, and in his description he said, "While I was walking I heard a voice from the sky. I looked up towards the sky, and behold! I saw the same Angel who came to me in the Cave of Hira', sitting on a chair between the sky and the earth. I was so terrified by him that I fell down on the ground. Then I went to my wife and said, 'Wrap me in garments! Wrap me in garments!' They wrapped me, and then Allah revealed: "O you, (Muhammad) wrapped-up! Arise and warn...and desert the idols." (74.1-5) Abu Salama said....Rujz means idols." After that, the Divine Inspiration started coming more frequently and regularly.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 448

حدیث نمبر: 4954
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
قال محمد بن شهاب: فاخبرني ابو سلمة بن عبد الرحمن، ان جابر بن عبد الله الانصاري رضي الله عنهما، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يحدث عن فترة الوحي، قال في حديثه:" بينا انا امشي سمعت صوتا من السماء فرفعت بصري، فإذا الملك الذي جاءني بحراء جالس على كرسي بين السماء والارض ففرقت منه، فرجعت، فقلت: زملوني زملوني، فدثروه، فانزل الله تعالى يايها المدثر {1} قم فانذر {2} وربك فكبر {3} وثيابك فطهر {4} والرجز فاهجر {5} سورة المدثر آية 1-5"، قال ابو سلمة: وهي الاوثان التي كان اهل الجاهلية يعبدون، قال: ثم تتابع الوحي.قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ شِهَابٍ: فَأَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُحَدِّثُ عَنْ فَتْرَةِ الْوَحْيِ، قَالَ فِي حَدِيثِهِ:" بَيْنَا أَنَا أَمْشِي سَمِعْتُ صَوْتًا مِنَ السَّمَاءِ فَرَفَعْتُ بَصَرِي، فَإِذَا الْمَلَكُ الَّذِي جَاءَنِي بِحِرَاءٍ جَالِسٌ عَلَى كُرْسِيٍّ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ فَفَرِقْتُ مِنْهُ، فَرَجَعْتُ، فَقُلْتُ: زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي، فَدَثَّرُوهُ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى يَأَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ {1} قُمْ فَأَنْذِرْ {2} وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ {3} وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ {4} وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ {5} سورة المدثر آية 1-5"، قَالَ أَبُو سَلَمَةَ: وَهِيَ الْأَوْثَانُ الَّتِي كَانَ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ يَعْبُدُونَ، قَالَ: ثُمَّ تَتَابَعَ الْوَحْيُ.
محمد بن شہاب نے بیان کیا، انہیں ابوسلمہ رضی اللہ عنہ نے خبر دی اور ان سے جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وحی کے کچھ دنوں کے لیے رک جانے کا ذکر فرما رہے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں چل رہا تھا کہ میں نے اچانک آسمان کی طرف سے ایک آواز سنی۔ میں نے نظر اٹھا کر دیکھا تو وہی فرشتہ (جبرائیل علیہ السلام) جو میرے پاس غار حرا میں آیا تھا، آسمان اور زمین کے درمیان کرسی پر بیٹھا ہوا نظر آیا۔ میں ان سے بہت ڈرا اور گھر واپس آ کر میں نے کہا کہ مجھے چادر اڑھا دو چنانچہ گھر والوں نے مجھے چادر اڑھا دی، پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «يا أيها المدثر * قم فأنذر * وربك فكبر * وثيابك فطهر * والرجز فاهجر‏» اے کپڑے میں لپٹنے والے! اٹھئیے پھر لوگوں کو ڈرایئے اور اپنے پروردگار کی بڑائی بیان کیجئے اور اپنے کپڑوں کو پاک رکھیئے۔ ابوسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ «الرجز» جاہلیت کے بت تھے جن کی وہ پرستش کیا کرتے تھے۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر وحی برابر آنے لگی۔
حدیث نمبر: 4955
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا ابن بكير، حدثنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، عن عروة، ان عائشة رضي الله عنها، قالت:" اول ما بدئ به رسول الله صلى الله عليه وسلم الرؤيا الصالحة، فجاءه الملك، فقال: اقرا باسم ربك الذي خلق {1} خلق الإنسان من علق {2} اقرا وربك الاكرم {3} سورة العلق آية 1-3".حَدَّثَنَا ابْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:" أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ، فَجَاءَهُ الْمَلَكُ، فَقَالَ: اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ {1} خَلَقَ الإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ {2} اقْرَأْ وَرَبُّكَ الأَكْرَمُ {3} سورة العلق آية 1-3".
ہم سے ابن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عروہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ شروع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سچے خواب دکھائے جانے لگے۔ پھر آپ کے پاس فرشتہ آیا اور کہا «اقرأ باسم ربك الذي خلق * خلق الإنسان من علق * اقرأ وربك الأكرم‏» کہ آپ پڑھئے، اپنے پروردگار کے نام کے ساتھ جس نے (سب کو پیدا کیا ہے) جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا ہے۔ آپ پڑھا کیجئے اور آپ کا پروردگار بڑا کریم ہے۔

Narrated Aisha: The commencement of the Divine Inspiration to Allah's Messenger was in the form of true dreams. The Angel came to him and said, "Read, in the Name of your Lord Who has created (all that exists), has created man a clot. Read! And your Lord is Most Generous" ..(96.1,2,3)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 479

حدیث نمبر: 4956
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا عبد الله بن محمد، حدثنا عبد الرزاق، اخبرنا معمر، عن الزهري. ح وقال الليث، حدثني عقيل، قال محمد: اخبرني عروة،عن عائشة رضي الله عنها: اول ما بدئ به رسول الله صلى الله عليه وسلم الرؤيا الصادقة، جاءه الملك، فقال: اقرا باسم ربك الذي خلق {1} خلق الإنسان من علق {2} اقرا وربك الاكرم {3} الذي علم بالقلم {4} سورة العلق آية 1-4".حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ. ح وَقَالَ اللَّيْثُ، حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ، قَالَ مُحَمَّدٌ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ،عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرُّؤْيَا الصَّادِقَةُ، جَاءَهُ الْمَلَكُ، فَقَالَ: اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ {1} خَلَقَ الإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ {2} اقْرَأْ وَرَبُّكَ الأَكْرَمُ {3} الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ {4} سورة العلق آية 1-4".
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے (دوسری سند) اور اللیث نے بیان کیا کہ ان سے عقیل نے بیان کیا، ان سے محمد نے بیان کیا، انہیں عروہ نے خبر دی اور انہیں عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی ابتداء سچے خوابوں سے کی گئی اور کہا «اقرأ باسم ربك الذي خلق * خلق الإنسان من علق * اقرأ وربك الأكرم * الذي علم بالقلم‏» کہ آپ پڑھئے، اپنے پروردگار کے نام کی مدد سے جس نے سب کو پیدا کیا ہے، جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے بنایا۔ آپ پڑھا کیجئے اور آپ کا پروردگار بڑا کریم ہے، جس نے قلم کو ذریعہ تعلیم بنایا۔

Narrated `Aisha: The commencement of (the Divine Inspirations to) Allah's Messenger was in the form of true dreams. The Angel came to him and said, "Read! In the Name of your Lord Who has created all exists), has created man from a clot. Read! And your Lord is Most Generous, Who has taught (the writing) by the pen (the first person to write was Prophet Idris. (96.1-4)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 480

حدیث نمبر: 6214
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا يحيى بن بكير، حدثنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، قال: سمعت ابا سلمة بن عبد الرحمن يقول: اخبرني جابر بن عبد الله، انه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" ثم فتر عني الوحي فبينا انا امشي سمعت صوتا من السماء، فرفعت بصري إلى السماء، فإذا الملك الذي جاءني بحراء قاعد على كرسي بين السماء والارض".حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا سَلَمَةَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ يَقُولُ: أَخْبَرَنِي جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" ثُمَّ فَتَرَ عَنِّي الْوَحْيُ فَبَيْنَا أَنَا أَمْشِي سَمِعْتُ صَوْتًا مِنَ السَّمَاءِ، فَرَفَعْتُ بَصَرِي إِلَى السَّمَاءِ، فَإِذَا الْمَلَكُ الَّذِي جَاءَنِي بِحِرَاءٍ قَاعِدٌ عَلَى كُرْسِيٍّ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ".
ہم سے ابن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے کہ میں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ مجھے جابر بن عبداللہ نے خبر دی، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر میرے پاس وحی آنے کا سلسلہ بند ہو گیا۔ ایک دن میں چل رہا تھا کہ میں نے آسمان کی طرف سے ایک آواز سنی، میں نے آسمان کی طرف نظر اٹھائی تو میں نے پھر اس فرشتہ کو دیکھا جو میرے پاس غار حرا میں آیا تھا، وہ آسمان و زمین کے درمیان کرسی پر بیٹھا ہوا تھا۔

Narrated Jabir bin `Abdullah: That he heard Allah's Apostle saying. "Then there was a pause in the revelation of the Divine Inspiration to me. Then while I was walking all of a sudden I heard a voice from the sky, and I raised my sight towards the sky and saw the same angel who had visited me in the cave of Hira,' sitting on a chair between the sky and the earth."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 73, Number 233

حدیث نمبر: 6982
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا يحيى بن بكير حدثنا الليث عن عقيل عن ابن شهاب. وحدثني عبد الله بن محمد حدثنا عبد الرزاق حدثنا معمر قال الزهري فاخبرني عروة عن عائشة رضي الله عنها انها قالت اول ما بدئ به رسول الله صلى الله عليه وسلم من الوحي الرؤيا الصادقة في النوم، فكان لا يرى رؤيا إلا جاءت مثل فلق الصبح، فكان ياتي حراء فيتحنث فيه- وهو التعبد- الليالي ذوات العدد، ويتزود لذلك ثم يرجع إلى خديجة فتزوده لمثلها، حتى فجئه الحق وهو في غار حراء فجاءه الملك فيه فقال اقرا. فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: «فقلت ما انا بقارئ فاخذني فغطني حتى بلغ مني الجهد ثم ارسلني. فقال اقرا. فقلت ما انا بقارئ. فاخذني فغطني الثانية حتى بلغ مني الجهد، ثم ارسلني فقال اقرا. فقلت ما انا بقارئ. فغطني الثالثة حتى بلغ مني الجهد، ثم ارسلني فقال اقرا باسم ربك الذي خلق» . حتى بلغ: {ما لم يعلم} فرجع بها ترجف بوادره حتى دخل على خديجة فقال: «زملوني زملوني» . فزملوه حتى ذهب عنه الروع فقال: «يا خديجة ما لي» . واخبرها الخبر وقال: «قد خشيت على نفسي» . فقالت له كلا ابشر، فوالله لا يخزيك الله ابدا، إنك لتصل الرحم، وتصدق الحديث، وتحمل الكل، وتقري الضيف، وتعين على نوائب الحق. ثم انطلقت به خديجة حتى اتت به ورقة بن نوفل بن اسد بن عبد العزى بن قصي- وهو ابن عم خديجة اخو ابيها، وكان امرا تنصر في الجاهلية، وكان يكتب الكتاب العربي فيكتب بالعربية من الإنجيل ما شاء الله ان يكتب، وكان شيخا كبيرا قد عمي- فقالت له خديجة اي ابن عم اسمع من ابن اخيك. فقال ورقة ابن اخي ماذا ترى فاخبره النبي صلى الله عليه وسلم ما راى فقال ورقة هذا الناموس الذي انزل على موسى، يا ليتني فيها جذعا اكون حيا، حين يخرجك قومك. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «اومخرجي هم» . فقال ورقة نعم، لم يات رجل قط بما جئت به إلا عودي، وإن يدركني يومك انصرك نصرا مؤزرا. ثم لم ينشب ورقة ان توفي، وفتر الوحي فترة حتى حزن النبي صلى الله عليه وسلم فيما بلغنا حزنا غدا منه مرارا كي يتردى من رءوس شواهق الجبال، فكلما اوفى بذروة جبل لكي يلقي منه نفسه، تبدى له جبريل فقال يا محمد إنك رسول الله حقا. فيسكن لذلك جاشه وتقر نفسه فيرجع، فإذا طالت عليه فترة الوحي غدا لمثل ذلك، فإذا اوفى بذروة جبل تبدى له جبريل فقال له مثل ذلك. قال ابن عباس: {فالق الإصباح} ضوء الشمس بالنهار، وضوء القمر بالليل.حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ عُقَيْلٍ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ. وَحَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ قَالَ الزُّهْرِيُّ فَأَخْبَرَنِي عُرْوَةُ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّهَا قَالَتْ أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْوَحْيِ الرُّؤْيَا الصَّادِقَةُ فِي النَّوْمِ، فَكَانَ لاَ يَرَى رُؤْيَا إِلاَّ جَاءَتْ مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْحِ، فَكَانَ يَأْتِي حِرَاءً فَيَتَحَنَّثُ فِيهِ- وَهْوَ التَّعَبُّدُ- اللَّيَالِيَ ذَوَاتِ الْعَدَدِ، وَيَتَزَوَّدُ لِذَلِكَ ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى خَدِيجَةَ فَتُزَوِّدُهُ لِمِثْلِهَا، حَتَّى فَجِئَهُ الْحَقُّ وَهْوَ فِي غَارِ حِرَاءٍ فَجَاءَهُ الْمَلَكُ فِيهِ فَقَالَ اقْرَأْ. فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «فَقُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِئٍ فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدَ ثُمَّ أَرْسَلَنِي. فَقَالَ اقْرَأْ. فَقُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِئٍ. فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّانِيَةَ حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدَ، ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ اقْرَأْ. فَقُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِئٍ. فَغَطَّنِي الثَّالِثَةَ حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدُ، ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ» . حَتَّى بَلَغَ: {مَا لَمْ يَعْلَمْ} فَرَجَعَ بِهَا تَرْجُفُ بَوَادِرُهُ حَتَّى دَخَلَ عَلَى خَدِيجَةَ فَقَالَ: «زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي» . فَزَمَّلُوهُ حَتَّى ذَهَبَ عَنْهُ الرَّوْعُ فَقَالَ: «يَا خَدِيجَةُ مَا لِي» . وَأَخْبَرَهَا الْخَبَرَ وَقَالَ: «قَدْ خَشِيتُ عَلَى نَفْسِي» . فَقَالَتْ لَهُ كَلاَّ أَبْشِرْ، فَوَاللَّهِ لاَ يُخْزِيكَ اللَّهُ أَبَدًا، إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَتَصْدُقُ الْحَدِيثَ، وَتَحْمِلُ الْكَلَّ، وَتَقْرِي الضَّيْفَ، وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ. ثُمَّ انْطَلَقَتْ بِهِ خَدِيجَةُ حَتَّى أَتَتْ بِهِ وَرَقَةَ بْنَ نَوْفَلِ بْنِ أَسَدِ بْنِ عَبْدِ الْعُزَّى بْنِ قُصَيٍّ- وَهْوَ ابْنُ عَمِّ خَدِيجَةَ أَخُو أَبِيهَا، وَكَانَ امْرَأً تَنَصَّرَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، وَكَانَ يَكْتُبُ الْكِتَابَ الْعَرَبِيَّ فَيَكْتُبُ بِالْعَرَبِيَّةِ مِنَ الإِنْجِيلِ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَكْتُبَ، وَكَانَ شَيْخًا كَبِيرًا قَدْ عَمِيَ- فَقَالَتْ لَهُ خَدِيجَةُ أَيِ ابْنَ عَمِّ اسْمَعْ مِنِ ابْنِ أَخِيكَ. فَقَالَ وَرَقَةُ ابْنَ أَخِي مَاذَا تَرَى فَأَخْبَرَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا رَأَى فَقَالَ وَرَقَةُ هَذَا النَّامُوسُ الَّذِي أُنْزِلَ عَلَى مُوسَى، يَا لَيْتَنِي فِيهَا جَذَعًا أَكُونُ حَيًّا، حِينَ يُخْرِجُكَ قَوْمُكَ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَوَمُخْرِجِيَّ هُمْ» . فَقَالَ وَرَقَةُ نَعَمْ، لَمْ يَأْتِ رَجُلٌ قَطُّ بِمَا جِئْتَ بِهِ إِلاَّ عُودِيَ، وَإِنْ يُدْرِكْنِي يَوْمُكَ أَنْصُرْكَ نَصْرًا مُؤَزَّرًا. ثُمَّ لَمْ يَنْشَبْ وَرَقَةُ أَنْ تُوُفِّيَ، وَفَتَرَ الْوَحْيُ فَتْرَةً حَتَّى حَزِنَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا بَلَغَنَا حُزْنًا غَدَا مِنْهُ مِرَارًا كَيْ يَتَرَدَّى مِنْ رُءُوسِ شَوَاهِقِ الْجِبَالِ، فَكُلَّمَا أَوْفَى بِذِرْوَةِ جَبَلٍ لِكَيْ يُلْقِيَ مِنْهُ نَفْسَهُ، تَبَدَّى لَهُ جِبْرِيلُ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ إِنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ حَقًّا. فَيَسْكُنُ لِذَلِكَ جَأْشُهُ وَتَقِرُّ نَفْسُهُ فَيَرْجِعُ، فَإِذَا طَالَتْ عَلَيْهِ فَتْرَةُ الْوَحْيِ غَدَا لِمِثْلِ ذَلِكَ، فَإِذَا أَوْفَى بِذِرْوَةِ جَبَلٍ تَبَدَّى لَهُ جِبْرِيلُ فَقَالَ لَهُ مِثْلَ ذَلِكَ. قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: {فَالِقُ الإِصْبَاحِ} ضَوْءُ الشَّمْسِ بِالنَّهَارِ، وَضَوْءُ الْقَمَرِ بِاللَّيْلِ.
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا ‘ ان سے عقیل بن خالد نے بیان کیا ‘ اور ان سے ابن شہاب نے بیان کیا (دوسری سند امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا) کہ مجھ سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا مجھ سے عبدالرزاق نے بیان کیا ‘ ان سے معمر نے بیان کیا ‘ ان سے زہری نے کہا کہ مجھے عروہ نے خبر دی اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کی ابتداء سونے کی حالت میں سچے خواب کے ذریعہ ہوئی۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو خواب بھی دیکھتے تو وہ صبح کی روشنی کی طرح سامنے آ جاتا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غار حرا میں چلے جاتے اور اس میں تنہا اللہ کی یاد کرتے تھے چند مقررہ دنوں کے لیے (یہاں آتے) اور ان دنوں کا توشہ بھی ساتھ لاتے۔ پھر خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس واپس تشریف لے جاتے اور وہ پھر اتنا ہی توشہ آپ کے ساتھ کر دیتیں یہاں تک کہ حق آپ کے پاس اچانک آ گیا اور آپ غار حرا ہی میں تھے۔ چنانچہ اس میں فرشتہ آپ کے پاس آیا اور کہا کہ پڑھیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ آخر اس نے مجھے پکڑ لیا اور زور سے دابا اور خوب دابا جس کی وجہ سے مجھ کو بہت تکلیف ہوئی۔ پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا کہ پڑھیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر وہی جواب دیا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ اس نے مجھے ایسا دابا کہ میں بے قابو ہو گیا یا انہوں نے اپنا زور ختم کر دیا اور پھر چھوڑ کر اس نے مجھ سے کہا کہ پڑھیے اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا ہے۔ الفاظ «ما لم يعلم‏» تک۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے تو آپ کے مونڈھوں کے گوشت (ڈر کے مارے) پھڑک رہے تھے۔ جب گھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم داخل ہوئے تو فرمایا کہ مجھے چادر اڑھا دو ‘ مجھے چادر اڑھا دو، چنانچہ آپ کو چادر اڑھا دی گئی اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خوف دور ہو گیا تو فرمایا کہ خدیجہ میرا حال کیا ہو گیا ہے؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سارا حال بیان کیا اور فرمایا کہ مجھے اپنی جان کا ڈر ہے۔ لیکن خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کہا اللہ کی قسم ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا، آپ خوش رہئیے اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا۔ آپ تو صلہ رحمی کرتے ہیں، بات سچی بولتے ہیں، ناداروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق کی وجہ سے پیش آنے والی مصیبتوں پر لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ پھر آپ کو خدیجہ رضی اللہ عنہا ورقہ بن نوفل بن اسد بن عبدالعزیٰ بن قصی کے پاس لائیں جو خدیجہ رضی اللہ عنہا کے والد خویلد کے بھائی کے بیٹے تھے۔ جو زمانہ جاہلیت میں عیسائی ہو گئے تھے اور عربی لکھ لیتے تھے اور وہ جتنا اللہ تعالیٰ چاہتا عربی میں انجیل کا ترجمہ لکھا کرتے تھے، وہ اس وقت بہت بوڑھے ہو گئے تھے اور بینائی بھی جاتی رہی تھی۔ ان سے خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کہا: بھائی! اپنے بھتیجے کی بات سنو۔ ورقہ نے پوچھا: بھتیجے تم کیا دیکھتے ہو؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو دیکھا تھا وہ سنایا تو ورقہ نے کہا کہ یہ تو وہی فرشتہ (جبرائیل علیہ السلام) ہے جو موسیٰ علیہ السلام پر آیا تھا۔ کاش میں اس وقت جوان ہوتا جب تمہیں تمہاری قوم نکال دے گی اور زندہ رہتا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا یہ مجھے نکالیں گے؟ ورقہ نے کہا کہ ہاں۔ جب بھی کوئی نبی و رسول وہ پیغام لے کر آیا جسے لے کر آپ آئے ہیں تو اس کے ساتھ دشمنی کی گئی اور اگر میں نے تمہارے وہ دن پا لیے تو میں تمہاری بھرپور مدد کروں گا لیکن کچھ ہی دنوں بعد ورقہ کا انتقال ہو گیا اور وحی کا سلسلہ کٹ گیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی وجہ سے اتنا غم تھا کہ آپ نے کئی مرتبہ پہاڑ کی بلند چوٹی سے اپنے آپ کو گرا دینا چاہا لیکن جب بھی آپ کسی پہاڑ کی چوٹی پر چڑھے تاکہ اس پر سے اپنے آپ کو گرا دیں تو جبرائیل علیہ السلام آپ کے سامنے آ گئے اور کہا کہ یا محمد! آپ یقیناً اللہ کے رسول ہیں۔ اس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سکون ہوتا اور آپ واپس آ جاتے لیکن جب وحی زیادہ دنوں تک رکی رہی تو آپ نے ایک مرتبہ اور ایسا ارادہ کیا لیکن جب پہاڑ کی چوٹی پر چڑھے تو جبرائیل علیہ السلام سامنے آئے اور اسی طرح کی بات پھر کہی۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا (سورۃ الانعام) میں لفظ «‏‏‏‏فالق الإصباح‏» سے مراد دن میں سورج کی روشنی اور رات میں چاند کی روشنی ہے۔

Narrated `Aisha: The commencement of the Divine Inspiration to Allah's Apostle was in the form of good righteous (true) dreams in his sleep. He never had a dream but that it came true like bright day light. He used to go in seclusion (the cave of) Hira where he used to worship(Allah Alone) continuously for many (days) nights. He used to take with him the journey food for that (stay) and then come back to (his wife) Khadija to take his food like-wise again for another period to stay, till suddenly the Truth descended upon him while he was in the cave of Hira. The angel came to him in it and asked him to read. The Prophet replied, "I do not know how to read." (The Prophet added), "The angel caught me (forcefully) and pressed me so hard that I could not bear it anymore. He then released me and again asked me to read, and I replied, "I do not know how to read," whereupon he caught me again and pressed me a second time till I could not bear it anymore. He then released me and asked me again to read, but again I replied, "I do not know how to read (or, what shall I read?)." Thereupon he caught me for the third time and pressed me and then released me and said, "Read: In the Name of your Lord, Who has created (all that exists). Has created man from a clot. Read and Your Lord is Most Generous...up to..... ..that which he knew not." (96.15) Then Allah's Apostle returned with the Inspiration, his neck muscles twitching with terror till he entered upon Khadija and said, "Cover me! Cover me!" They covered him till his fear was over and then he said, "O Khadija, what is wrong with me?" Then he told her everything that had happened and said, 'I fear that something may happen to me." Khadija said, 'Never! But have the glad tidings, for by Allah, Allah will never disgrace you as you keep good reactions with your Kith and kin, speak the truth, help the poor and the destitute, serve your guest generously and assist the deserving, calamityafflicted ones." Khadija then accompanied him to (her cousin) Waraqa bin Naufal bin Asad bin `Abdul `Uzza bin Qusai. Waraqa was the son of her paternal uncle, i.e., her father's brother, who during the Pre-Islamic Period became a Christian and used to write the Arabic writing and used to write of the Gospels in Arabic as much as Allah wished him to write. He was an old man and had lost his eyesight. Khadija said to him, "O my cousin! Listen to the story of your nephew." Waraqa asked, "O my nephew! What have you seen?" The Prophet described whatever he had seen. Waraqa said, "This is the same Namus (i.e., Gabriel, the Angel who keeps the secrets) whom Allah had sent to Moses. I wish I were young and could live up to the time when your people would turn you out." Allah's Apostle asked, "Will they turn me out?" Waraqa replied in the affirmative and said: "Never did a man come with something similar to what you have brought but was treated with hostility. If I should remain alive till the day when you will be turned out then I would support you strongly." But after a few days Waraqa died and the Divine Inspiration was also paused for a while and the Prophet became so sad as we have heard that he intended several times to throw himself from the tops of high mountains and every time he went up the top of a mountain in order to throw himself down, Gabriel would appear before him and say, "O Muhammad! You are indeed Allah's Apostle in truth" whereupon his heart would become quiet and he would calm down and would return home. And whenever the period of the coming of the inspiration used to become long, he would do as before, but when he used to reach the top of a mountain, Gabriel would appear before him and say to him what he had said before. (Ibn `Abbas said regarding the meaning of: 'He it is that Cleaves the daybreak (from the darkness)' (6.96) that Al-Asbah. means the light of the sun during the day and the light of the moon at night).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 87, Number 111


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.