تفسير ابن كثير



سورۃ آل عمران

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
إِذْ تَقُولُ لِلْمُؤْمِنِينَ أَلَنْ يَكْفِيَكُمْ أَنْ يُمِدَّكُمْ رَبُّكُمْ بِثَلَاثَةِ آلَافٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ مُنْزَلِينَ[124] بَلَى إِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا وَيَأْتُوكُمْ مِنْ فَوْرِهِمْ هَذَا يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ آلَافٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ مُسَوِّمِينَ[125] وَمَا جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرَى لَكُمْ وَلِتَطْمَئِنَّ قُلُوبُكُمْ بِهِ وَمَا النَّصْرُ إِلَّا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ[126] لِيَقْطَعَ طَرَفًا مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَوْ يَكْبِتَهُمْ فَيَنْقَلِبُوا خَائِبِينَ[127] لَيْسَ لَكَ مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ أَوْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ أَوْ يُعَذِّبَهُمْ فَإِنَّهُمْ ظَالِمُونَ[128] وَلِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ يَغْفِرُ لِمَنْ يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ[129]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] جب تو ایمان والوں سے کہہ رہا تھا کیا تمھیں کسی طرح کافی نہ ہوگا کہ تمھارا رب تین ہزار فرشتوں کے ساتھ تمھاری مدد کرے، جو اتارے ہوئے ہوں۔ [124] کیوں نہیں! اگر تم صبر کرو اور ڈرتے رہو اور وہ اپنے اسی جوش میں تم پر آپڑیں تو تمھارا رب پانچ ہزار فرشتوں کے ساتھ تمھاری مدد کرے گا، جو خاص نشان والے ہوں گے۔ [125] اور اللہ نے اسے نہیں بنایا مگر تمھارے لیے ایک خوشخبری اور تاکہ تمھارے دل اس کے ساتھ مطمئن ہو جائیں اور مدد نہیں ہے مگر اللہ کے پاس سے، جو سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔ [126] تاکہ وہ ان لوگوں کا ایک حصہ کاٹ دے جنھوں نے کفر کیا، یا انھیں ذلیل کر دے، پس وہ ناکام واپس لوٹ جائیں۔ [127] تیرے اختیار میں اس معاملے سے کچھ بھی نہیں، یا وہ ان پر مہربانی فرمائے، یا انھیں عذاب دے، کیوں کہ بلا شبہ وہ ظالم ہیں۔ [128] اور اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے، وہ جسے چاہتا ہے بخش دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے عذاب دیتا ہے اور اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔ [129]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] (اور یہ شکر گزاری باعﺚ نصرت وامداد ہو) جب آپ مومنوں کو تسلی دے رہے تھے، کیا آسمان سے تین ہزار فرشتے اتار کر اللہ تعالیٰ کا تمہاری مدد کرنا تمہیں کافی نہ ہوگا، [124] کیوں نہیں، بلکہ اگر تم صبر و پرہیزگاری کرو اور یہ لوگ اسی دم تمہارے پاس آجائیں تو تمہارا رب تمہاری امداد پانچ ہزار فرشتوں سے کرے گا جو نشاندار ہوں گے [125] اور یہ تو محض تمہارے دل کی خوشی اور اطمینان قلب کے لئے ہے، ورنہ مدد تو اللہ ہی کی طرف سے ہے جو غالب اور حکمتوں واﻻ ہے [126] (اس امداد الٰہی کا مقصد یہ تھا کہ اللہ) کافروں کی ایک جماعت کو کاٹ دے یا انہیں ذلیل کر ڈالے اور (سارے کے سارے) نامراد ہو کر واپس چلے جائیں [127] اے پیغمبر! آپ کے اختیار میں کچھ نہیں، اللہ تعالیٰ چاہے تو ان کی توبہ قبول کرے یا عذاب دے، کیونکہ وه ﻇالم ہیں [128] آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اللہ ہی کا ہے، وه جسے چاہے بخشے جسے چاہے عذاب کرے، اللہ تعالیٰ بخشش کرنے واﻻ مہربان ہے [129]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] جب تم مومنوں سے یہ کہہ (کر ان کے دل بڑھا) رہے تھے کہ کیا یہ کافی نہیں کہ پروردگار تین ہزار فرشتے نازل کر کے تمہیں مدد دے [124] ہاں اگر تم دل کو مضبوط رکھو اور (خدا سے) ڈرتے رہو اور کافر تم پر جوش کے ساتھ دفعتہً حملہ کردیں تو پروردگار پانچ ہزار فرشتے جن پر نشان ہوں گے تمہاری مدد کو بھیجے گا [125] اور اس مدد کو خدا نے تمھارے لیے (ذریعہٴ) بشارت بنایا یعنی اس لیے کہ تمہارے دلوں کو اس سے تسلی حاصل ہو ورنہ مدد تو خدا ہی کی ہے جو غالب (اور) حکمت والا ہے [126] (یہ خدا نے) اس لیے (کیا) کہ کافروں کی ایک جماعت کو ہلاک یا انہیں ذلیل ومغلوب کر دے کہ (جیسے آئے تھے ویسے ہی) ناکام واپس جائیں [127] (اے پیغمبر) اس کام میں تمہارا کچھ اختیار نہیں (اب دو صورتیں ہیں) یا خدا انکے حال پر مہربانی کرے یا انہیں عذاب دے کہ یہ ظالم لوگ ہیں [128] اور جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب خدا ہی کا ہے وہ جسے چاہے بخش دے اور جسے چاہے عذاب کرے اور خدا بخشنے والا مہربان ہے [129]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 124، 125، 126، 127، 128، 129،

غزوہ بدر اور تائید الٰہی ٭٭

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ تسلیاں دینا بعض تو کہتے ہیں بدر والے دن تھا حسن بصری، عامر شعبی، ربیع بن انس رحمہ اللہ علیہم وغیرہ کا یہی قول ہے [تفسیر ابن ابی حاتم:519/2] ‏‏‏‏ ابن جریر رحمہ اللہ کا بھی اسی سے اتفاق ہے عامر شعبیرحمہ اللہ کا قول ہے کہ مسلمانوں کو یہ خبر ملی تھی کہ کرز بن جابر مشرکوں کی امداد میں آئے گا اس پر اس امداد کا وعدہ ہوا تھا لیکن نہ وہ نہیں آیا اور نہ ہی یہ گئے

ربیع بن انس رحمہ اللہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی مدد کیلئے پہلے تو ایک ہزار فرشتے بھیجے پھر تین ہزار ہو گئے پھر پانچ ہزار، [تفسیر ابن جریر الطبری:178/7] ‏‏‏‏

یہاں اس آیت میں تین ہزار اور پانچ ہزار سے مدد کرنے کا وعدہ ہے اور بدر کے واقعہ کے بیان کے وقت ایک ہزار فرشتوں کی امداد کا وعدہ ہے۔ فرمایا آیت «اَنِّىْ مُمِدُّكُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلٰىِٕكَةِ مُرْدِفِيْنَ» [8-الأنفال:9] ‏‏‏‏ اور تطبیق دونوں آیتوں میں یہی ہے کیونکہ «مُرْدِفِيْنَ» کا لفظ موجود ہے پس پہلے ایک ہزار اترے پھر ان کے بعد تین ہزار پورے ہوئے آخر پانچ ہزار ہو گئے، بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ وعدہ جنگ بدر کے لیے تھا نہ کہ جنگ احد کیلئے، بعض کہتے ہیں جنگ احد کے موقعہ پر وعدہ ہوا تھا مجاہد، عکرمہ،ضحاک، زہری، موسیٰ بن عقبہ رحمہ اللہ علیہم وغیرہ کا یہی قول ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ چونکہ مسلمان میدان چھوڑ کر ہٹ گئے اس لیے یہ فرشتے نازل نہ ہوئے، کیونکہ «وَاِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا لَا يَضُرُّكُمْ كَيْدُھُمْ شَـيْـــًٔـا» [3-آل عمران:120] ‏‏‏‏ ساتھ ہی فرمایا تھا یعنی اگر تم صبر کرو اور تقویٰ کرو فور کے معنی وجہ اور غضب کے ہیں مسومین کے معنی علامت والے۔
1268

سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں فرشتوں کی نشانی بدر والے دن سفید رنگ کے لباس کی تھی [تفسیر ابن ابی حاتم:565/2] ‏‏‏‏

اور ان کے گھوڑوں کی نشانی ماتھے کی سفیدی تھی، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ان کی نشانی سرخ تھی، سیدنا مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں گردن کے بالوں اور دم کا نشان تھا اور یہی نشان آپ کے لشکریوں کا تھا یعنی صوف کا۔ مکحول رحمہ اللہ کہتے ہیں فرشتوں کی نشانی ان کی پگڑیاں تھیں جو سیاہ رنگ کے عمامے تھے اور حنین والے دن سرخ رنگ عمامے تھے،

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں بدر کے علاوہ فرشتے کبھی جنگ میں شامل نہیں ہوئے [ابن ابی شیبہ:354/14] ‏‏‏‏ اور سفید رنگ عماموں کی علامت تھی یہ صرف مدد کیلئے اور تعداد بڑھانے کیلئے تھے نہ کہ لڑائی کیلئے، یہ بھی مروی ہے کہ جنگِ بدر میں سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کے فر پر سفید رنگ کا صافہ تھا اور فرشتوں پر زرد رنگ کا [تفسیر ابن ابی حاتم:567/2] ‏‏‏‏

پھر فرمایا کہ یہ فرشتوں کا نازل کرنا اور تمہیں اس کی خبر دینا صرف تمہاری خوشی، دلجوئی اور اطمینان کیلئے ہے ورنہ اللہ کو قدرت ہے کہ ان کو اتارے بغیر بلکہ بغیر تمہارے لڑے بھی تمہیں غالب کر دے مدد اسی کی طرف سے ہے جیسے اور جگہ ہے آیت «فَإِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّىٰ إِذَا أَثْخَنتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً حَتَّىٰ تَضَعَ الْحَرْبُ أَوْزَارَهَا ۚ ذَٰلِكَ وَلَوْ يَشَاءُ اللَّـهُ لَانتَصَرَ مِنْهُمْ وَلَـٰكِن لِّيَبْلُوَ بَعْضَكُم بِبَعْضٍ ۗ وَالَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ فَلَن يُضِلَّ أَعْمَالَهُمْ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بَالَهُمْ وَيُدْخِلُهُمُ الْجَنَّةَ عَرَّفَهَا لَهُمْ» ‏‏‏‏ [47-محمد: 6- 4] ‏‏‏‏، اگر اللہ چاہتا تو ان سے خود ہی بدلہ لے لیتا لیکن وہ ہر ایک کو آزما رہا ہے اللہ تعالیٰ کی راہ میں جو قتل کئے جائیں ان کے اعمال اکارت نہیں ہوتے اللہ انہیں راہ دکھائے گا ان کے اعمال سنوار دے گا اور انہیں جنت میں لے جائے گا جس کی تعریف وہ کر چکا ہے، وہ عزت والا ہے اور اپنے ہر کام میں حکمت رکھتا ہے۔

یہ جہاد کا حکم بھی طرح طرح کی حکمتوں پر مبنی ہے اس سے کفار ہلاک ہوں گے یا ذلیل ہوں گے یا نامراد واپس ہو جائیں گے۔
1269

اس کے بعد بیان ہوتا ہے کہ دنیا اور آخرت کے کل امور اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں، اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں کسی امر کا اختیار نہیں جیسے فرمایا آیت «فَاِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلٰغُ وَعَلَيْنَا الْحِسَابُ» [13-الرعد:40] ‏‏‏‏ تمہارا ذمہ صرف تبلیغ ہے حساب تو تمہارے ذمہ ہے

اور جگہ ہے آیت «لَّيْسَ عَلَيْكَ هُدَاهُمْ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ» [2-البقرة:272] ‏‏‏‏، ان کی ہدایت تمہارے ذمہ نہیں اللہ جسے چاہے ہدایت دے

اور «اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَاءُ» [28-القصص:56] ‏‏‏‏، تو جسے چاہے ہدایت نہیں کر سکتا بلکہ اللہ جسے چاہے ہدایت کرتا ہے، پس میرے بندوں میں تجھے کوئی اختیار نہیں جو حکم پہنچے اسے اوروں کو پہنچا دے تیرے ذمہ یہی ہے۔ ممکن ہے اللہ انہیں توبہ کی توفیق دے اور برائی کے بعد وہ بھلائی کرنے لگیں اور اللہ رحیم ان کی توبہ قبول فرما لے یا ممکن ہے کہ انہیں ان کے کفرو گناہ کی بناء پر عذاب کرے تو یہ ظالم اس کے بھی مستحق ہیں۔
1270

صحیح بخاری میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز میں جب دوسری رکعت کے رکوع سے سر اٹھاتے اور «سَمِعَ اﷲُ لِمَنْ حَمِدَهُ، رَبَّنَا ولَکَ الْحَمْدُ» کہہ لیتے تو کفار پر بد دعا کرتے کہ اے اللہ فلاں فلاں پر لعنت کر اس کے بارے میں یہ آیت «لَيْسَ لَكَ مِنَ الْاَمْرِ شَيْءٌ اَوْ يَتُوْبَ عَلَيْھِمْ اَوْ يُعَذِّبَھُمْ فَاِنَّھُمْ ظٰلِمُوْنَ» [3-آل عمران:128] ‏‏‏‏نازل ہوئی [صحیح بخاری:4069] ‏‏‏‏ مسند احمد میں ان کافروں کے نام بھی آئے ہیں مثلاً حارث بن ہشام سہیل بن عمرو صفوان بن امیہ اور اسی میں ہے کہ بالآخر ان کو ہدایت نصیب ہوئی اور یہ مسلمان ہو گئے، [سنن ترمذي:3004،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏

ایک روایت میں ہے کہ چار آدمیوں پر یہ بد دعا تھی جس سے روک دیئے گئے۔ [سنن ترمذي:3005،قال الشيخ الألباني:حسن صحیح] ‏‏‏‏ صحیح بخاری میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی پر بد دعا کرنا یا کسی کے حق میں نیک دعا کرنا چاہتے تو رکوع کے بعد «سمع اللہ» ‏‏‏‏ اور «ربنا» پڑھ کر دعا مانگتے کبھی کہتے اے اللہ! ولید بن ولید سلمہ بن ہشام عیاش بن ابو ربیعہ اور کمزور مومنوں کو کفار سے نجات دے اے اللہ قبیلہ مضر پر اپنی پکڑ اور اپنا عذاب نازل فرما اور ان پر ایسی قحط سالی بھیج جیسی یوسف کے زمانہ میں تھی یہ دعا با آواز بلند ہوا کرتی تھی اور بعض مرتبہ صبح کی نماز کے قنوت میں یوں بھی کہتے کہ اے اللہ فلاں فلاں پر لعنت بھیج اور عرب کے بعض قبیلوں کے نام لیتے تھے۔ [صحیح بخاری:4560] ‏‏‏‏
1271

اور روایت میں ہے کہ جنگ احد میں جب آپ کے دندان مبارک شہید ہوئے چہرہ زخمی ہوا خون بہنے لگا تو زبان سے نکل کیا کہ وہ قوم کیسے فلاح پائے گی جس نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہ کیا؟ حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ خالق کل کی طرف سے انہیں بلاتا تھا اس وقت یہ آیت «لَيْسَ لَكَ مِنَ الْاَمْرِ شَيْءٌ اَوْ يَتُوْبَ عَلَيْھِمْ اَوْ يُعَذِّبَھُمْ فَاِنَّھُمْ ظٰلِمُوْنَ» [3-آل عمران:128] ‏‏‏‏ نازل ہوئی، [صحیح بخاری:4069] ‏‏‏‏

آپ اس غزوے میں ایک گڑھ میں گر پڑے تھے اور خون بہت نکل گیا تھا کچھ تو اس ضعف کی وجہ سے اور کچھ اس وجہ سے کہ دوہری زرہ پہنے ہوئے تھے اٹھ نہ سکے۔سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کے مولیٰ سیدنا سالم رضی اللہ عنہ پہنچے اور چہرے پر سے خون پونچھا جب افاقہ ہوا تو آپ نے یہ فرمایا اور یہ آیت نازل ہوئی۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:7811] ‏‏‏‏

پھر فرماتا ہے کہ زمین و آسمان کی ہر چیز اسی کی ہے سب اس کے غلام ہیں جسے چاہے بخشے جسے چاہے عذاب کرے متصرف وہی ہے جو چاہے حکم کرے کوئی اس پر پرشس نہیں کر سکتا وہ غفور اور رحیم ہے۔
1272



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.