الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


صحيح البخاري کل احادیث (7563)
حدیث نمبر سے تلاش:


صحيح البخاري
كِتَاب الْبُيُوعِ
کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
34. بَابُ شِرَاءِ الدَّوَابِّ وَالْحَمِيرِ:
34. باب: چوپایہ جانوروں اور گھوڑوں، گدھوں کی خریداری کا بیان۔
حدیث نمبر: Q2097
وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعُمَرَ: بِعْنِيهِ يَعْنِي جَمَلًا صَعْبًا.
‏‏‏‏ اگر کوئی سواری کا جانور یا گدھا خریدے اور بیچنے والا اس پر سوار ہو تو اس کے اترنے سے پہلے خریدار کا قبضہ پورا ہو گا یا نہیں؟ اور ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا، اسے مجھے بیچ دے۔ آپ کی مراد ایک سرکش اونٹ سے تھی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْبُيُوعِ/حدیث: Q2097]
حدیث نمبر: 2097
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:"كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزَاةٍ، فَأَبْطَأَ بِي جَمَلِي وَأَعْيَا، فَأَتَى عَلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: جَابِرٌ؟ فَقُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: مَا شَأْنُكَ؟ قُلْتُ: أَبْطَأَ عَلَيَّ جَمَلِي، وَأَعْيَا، فَتَخَلَّفْتُ، فَنَزَلَ يَحْجُنُهُ بِمِحْجَنِهِ، ثُمَّ قَالَ: ارْكَبْ، فَرَكِبْتُ، فَلَقَدْ رَأَيْتُهُ أَكُفُّهُ عَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: تَزَوَّجْتَ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: بِكْرًا أَمْ ثَيِّبًا، قُلْتُ: بَلْ ثَيِّبًا، قَالَ: أَفَلَا جَارِيَةً تُلَاعِبُهَا وَتُلَاعِبُكَ، قُلْتُ: إِنَّ لِي أَخَوَاتٍ فَأَحْبَبْتُ أَنْ أَتَزَوَّجَ امْرَأَةً تَجْمَعُهُنَّ وَتَمْشُطُهُنَّ وَتَقُومُ عَلَيْهِنَّ، قَالَ: أَمَّا إِنَّكَ قَادِمٌ، فَإِذَا قَدِمْتَ فَالْكَيْسَ الْكَيْسَ، ثُمَّ قَالَ: أَتَبِيعُ جَمَلَكَ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، فَاشْتَرَاهُ مِنِّي بِأُوقِيَّةٍ، ثُمَّ قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبْلِي، وَقَدِمْتُ بِالْغَدَاةِ، فَجِئْنَا إِلَى الْمَسْجِدِ، فَوَجَدْتُهُ عَلَى بَابِ الْمَسْجِدِ، قَالَ: آلْآنَ قَدِمْتَ، قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَدَعْ جَمَلَكَ فَادْخُلْ فَصَلِّ رَكْعَتَيْنِ، فَدَخَلْتُ فَصَلَّيْتُ، فَأَمَرَ بِلَالًا أَنْ يَزِنَ لَهُ أُوقِيَّةً، فَوَزَنَ لِي بِلَالٌ، فَأَرْجَحَ لِي فِي الْمِيزَانِ، فَانْطَلَقْتُ حَتَّى وَلَّيْتُ، فَقَالَ: ادْعُ لِيجَابِرًا، قُلْتُ: الْآنَ يَرُدُّ عَلَيَّ الْجَمَلَ، وَلَمْ يَكُنْ شَيْءٌ أَبْغَضَ إِلَيَّ مِنْهُ، قَالَ: خُذْ جَمَلَكَ وَلَكَ ثَمَنُهُ".
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالوہاب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبیداللہ نے بیان کیا، ان سے وہب بن کیسان نے بیان کیا اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوہ (ذات الرقاع یا تبوک) میں تھا۔ میرا اونٹ تھک کر سست ہو گیا۔ اتنے میں میرے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا جابر! میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! حاضر ہوں۔ فرمایا کیا بات ہوئی؟ میں نے کہا کہ میرا اونٹ تھک کر سست ہو گیا ہے، چلتا ہی نہیں اس لیے میں پیچھے رہ گیا ہوں۔ پھر آپ اپنی سواری سے اترے اور میرے اسی اونٹ کو ایک ٹیرھے منہ کی لکڑی سے کھینچنے لگے (یعنی ہانکنے لگے) اور فرمایا کہ اب سوار ہو جا۔ چنانچہ میں سوار ہو گیا۔ اب تو یہ حال ہوا کہ مجھے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر پہنچنے سے روکنا پڑ جاتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا، جابر تو نے شادی بھی کر لی ہے؟ میں نے عرض کی جی ہاں! دریافت فرمایا کسی کنواری لڑکی سے کی ہے یا بیوہ سے۔ میں نے عرض کیا کہ میں نے تو ایک بیوہ سے کر لی ہے۔ فرمایا، کسی کنواری لڑکی سے کیوں نہ کی کہ تم اس کے ساتھ کھیلتے اور وہ بھی تمہارے ساتھ کھیلتی۔ (جابر بھی کنوارے تھے) میں نے عرض کیا کہ میری کئی بہنیں ہیں۔ (اور میری ماں کا انتقال ہو چکا ہے) اس لیے میں نے یہی پسند کیا کہ ایسی عورت سے شادی کروں، جو انہیں جمع رکھے۔ ان کے کنگھا کرے اور ان کی نگرانی کرے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا اب تم گھر پہنچ کر خیر و عافیت کے ساتھ خوب مزے اڑانا۔ اس کے بعد فرمایا، کیا تم اپنا اونٹ بیچو گے؟ میں نے کہا جی ہاں! چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اوقیہ چاندی میں خرید لیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے پہلے ہی مدینہ پہنچ گئے تھے۔ اور میں دوسرے دن صبح کو پہنچا۔ پھر ہم مسجد آئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد کے دروازہ پر ملے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا، کیا ابھی آئے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ جی ہاں! فرمایا، پھر اپنا اونٹ چھوڑ دے اور مسجد میں جا کے دو رکعت نماز پڑھ۔ میں اندر گیا اور نماز پڑھی۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ میرے لیے ایک اوقیہ چاندی تول دے۔ انہوں نے ایک اوقیہ چاندی جھکتی ہوئی تول دی۔ میں پیٹھ موڑ کر چلا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جابر کو ذرا بلاؤ۔ میں نے سوچا کہ شاید اب میرا اونٹ پھر مجھے واپس کریں گے۔ حالانکہ اس سے زیادہ ناگوار میرے لیے کوئی چیز نہیں تھی۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا کہ یہ اپنا اونٹ لے جا اور اس کی قیمت بھی تمہاری ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْبُيُوعِ/حدیث: 2097]