الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


صحيح البخاري کل احادیث (7563)
حدیث نمبر سے تلاش:


صحيح البخاري
كِتَاب الْوَصَايَا
کتاب: وصیتوں کے مسائل کا بیان
6. بَابُ لاَ وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ:
6. باب: وارث کے لیے وصیت کرنا جائز نہیں ہے۔
حدیث نمبر: 2747
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ وَرْقَاءَ، عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" كَانَ الْمَالُ لِلْوَلَدِ، وَكَانَتِ الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ، فَنَسَخَ اللَّهُ مِنْ ذَلِكَ مَا أَحَبَّ، فَجَعَلَ لِلذَّكَرِ مِثْلَ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ، وَجَعَلَ لِلْأَبَوَيْنِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسَ، وَجَعَلَ لِلْمَرْأَةِ الثُّمُنَ وَالرُّبُعَ، وَلِلزَّوْجِ الشَّطْرَ وَالرُّبُعَ".
ہم سے محمد بن یوسف فریابی نے بیان کیا ورقاء سے ‘ انہوں نے ابن ابی نجیح سے ‘ ان سے عطاء نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ شروع اسلام میں (میراث کا) مال اولاد کو ملتا تھا اور والدین کے لیے وصیت ضروری تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے جس طرح چاہا اس حکم کو منسوخ کر دیا پھر لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر قرار دیا اور والدین میں سے ہر ایک کا چھٹا حصہ اور بیوی کا (اولاد کی موجودگی میں) آٹھواں حصہ اور (اولاد کے نہ ہونے کی صورت میں) چوتھا حصہ قرار دیا۔ اسی طرح شوہر کا (اولاد نہ ہونے کی صورت میں) آدھا (اولاد ہونے کی صورت میں) چوتھائی حصہ قرار دیا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْوَصَايَا/حدیث: 2747]