الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


صحيح البخاري کل احادیث (7563)
حدیث نمبر سے تلاش:


صحيح البخاري
كِتَاب الْوَصَايَا
کتاب: وصیتوں کے مسائل کا بیان
19. بَابُ مَا يُسْتَحَبُّ لِمَنْ يُتَوَفَّى فَجْأَةً أَنْ يَتَصَدَّقُوا عَنْهُ، وَقَضَاءِ النُّذُورِ عَنِ الْمَيِّتِ:
19. باب: اگر کسی کو اچانک موت آ جائے تو اس کی طرف سے خیرات کرنا مستحب ہے اور میت کی نذروں کو پوری کرنا۔
حدیث نمبر: 2760
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ رَجُلًا، قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ أُمِّي افْتُلِتَتْ نَفْسُهَا وَأُرَاهَا، لَوْ تَكَلَّمَتْ تَصَدَّقَتْ، أَفَأَتَصَدَّقُ عَنْهَا؟ قَالَ: نَعَمْ تَصَدَّقْ عَنْهَا".
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا ‘ ان سے ہشام نے ‘ ان سے ان کے باپ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ ایک صحابی (سعد بن عبادہ) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ میری والدہ کی موت اچانک واقع ہو گئی ‘ میرا خیال ہے کہ اگر انہیں گفتگو کا موقع ملتا تو وہ صدقہ کرتیں تو کیا میں ان کی طرف سے خیرات کر سکتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ان کی طرف سے خیرات کر۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْوَصَايَا/حدیث: 2760]
حدیث نمبر: 2761
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ اسْتَفْتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّ أُمِّي مَاتَتْ وَعَلَيْهَا نَذْرٌ، فَقَالَ:" اقْضِهِ عَنْهَا".
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی ابن شہاب سے ‘ انہیں عبیداللہ بن عبداللہ نے اور انہیں ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ پوچھا ‘ انہوں نے عرض کیا کہ میری ماں کا انتقال ہو گیا ہے اور اس کے ذمہ ایک نذر تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کی طرف سے نذر پوری کر دے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْوَصَايَا/حدیث: 2761]