اور (سورۃ الانفال میں) اللہ کا یہ فرمانا «وإن جنحوا للسلم فاجنح لها»”اگر کافر صلح کی طرف جھکیں تو تو بھی صلح کی طرف جھک جا۔“ اخیر آیت تک۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجِزْيَةِ والموادعہ/حدیث: Q3173]
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے بشر بن مفضل نے، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید انصاری نے، ان سے بشیر بن یسار نے اور ان سے سہل بن ابی حثمہ نے بیان کیا کہ عبداللہ بن سہل اور محیصہ بن مسعود بن زید رضی اللہ عنہما خیبر گئے۔ ان دنوں (خیبر کے یہودیوں سے مسلمانوں کی) صلح تھی۔ پھر دونوں حضرات (خیبر پہنچ کر اپنے اپنے کام کے لیے) جدا ہو گئے۔ اس کے بعد محیصہ رضی اللہ عنہ عبداللہ بن سہل رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہ خون میں لوٹ رہے ہیں۔ کسی نے ان کو قتل کر ڈالا، خیر محیصہ رضی اللہ عنہ نے عبداللہ رضی اللہ عنہ کو دفن کر دیا۔ پھر مدینہ آئے، اس کے بعد عبدالرحمٰن بن سہل (عبداللہ رضی اللہ عنہ کے بھائی) اور مسعود کے دونوں صاحبزادے محیصہ اور حویصہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، گفتگو عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ نے شروع کی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کہ جو تم لوگوں میں عمر میں بڑے ہوں وہ بات کریں۔ عبدالرحمٰن سب سے کم عمر تھے، وہ چپ ہو گئے۔ اور محیصہ اور حویصہ نے بات شروع کی۔ آپ نے دریافت کیا، کیا تم لوگ اس پر قسم کھا سکتے ہو، کہ جس شخص کو تم قاتل کہہ رہے ہو اس پر تمہارا حق ثابت ہو سکے۔ ان لوگوں نے عرض کیا کہ ہم ایک ایسے معاملے میں کس طرح قسم کھا سکتے ہیں جس کو ہم نے خود اپنی آنکھوں سے نہ دیکھا ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر کیا یہود تمہارے دعوے سے اپنی برات اپنی طرف سے پچاس قسمیں کھا کر کے کر دیں؟ ان لوگوں نے عرض کیا کہ کفار کی قسموں کا ہم کس طرح اعتبار کر سکتے ہیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے پاس سے ان کو دیت ادا کر دی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجِزْيَةِ والموادعہ/حدیث: 3173]