الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


صحيح البخاري کل احادیث (7563)
حدیث نمبر سے تلاش:


صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي
کتاب: غزوات کے بیان میں
54. بَابٌ:
54. باب:۔۔۔
حدیث نمبر: 4300
وَقَالَ اللَّيْثُ: حَدَّثَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ ثَعْلَبَةَ بْنِ صُعَيْرٍ" وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ مَسَحَ وَجْهَهُ عَامَ الْفَتْحِ".
اور لیث بن سعد نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے یونس نے بیان کیا ‘ ان سے ابن شہاب نے ‘ کہا مجھ کو عبداللہ بن ثعلبی بن صعیر رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے دن ان کے چہرے پر (شفقت کی راہ سے) ہاتھ پھیرا تھا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي/حدیث: 4300]
حدیث نمبر: 4301
حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سُنَيْنٍ أَبِي جَمِيلَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا وَنَحْنُ مَعَ ابْنِ الْمُسَيَّبِ، قَالَ: وَزَعَمَ أَبُو جَمِيلَةَ أَنَّهُ أَدْرَكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَخَرَجَ مَعَهُ عَامَ الْفَتْحِ".
مجھ سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو ہشام بن یوسف نے خبر دی ‘ انہیں معمر نے اور انہیں زہری نے ‘ انہیں سفیان نے ‘ انہیں ابوجمیلہ نے ‘ زہری نے بیان کیا کہ جب ہم سے ابوجمیلہ رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی تو ہم سعید بن مسیب کے ساتھ تھے بیان کیا کہ ابوجمیلہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت پائی اور وہ آپ کے ساتھ غزوہ فتح مکہ کے لیے نکلے تھے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي/حدیث: 4301]
حدیث نمبر: 4302
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ سَلَمَةَ، قَالَ: قَالَ لِي: أَبُو قِلَابَةَ أَلَا تَلْقَاهُ فَتَسْأَلَهُ، قَالَ: فَلَقِيتُهُ، فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ:" كُنَّا بِمَاءٍ مَمَرَّ النَّاسِ، وَكَانَ يَمُرُّ بِنَا الرُّكْبَانُ، فَنَسْأَلُهُمْ: مَا لِلنَّاسِ، مَا لِلنَّاسِ، مَا هَذَا الرَّجُلُ؟ فَيَقُولُونَ: يَزْعُمُ أَنَّ اللَّهَ أَرْسَلَهُ أَوْحَى إِلَيْهِ، أَوْ أَوْحَى اللَّهُ بِكَذَا، فَكُنْتُ أَحْفَظُ ذَلِكَ الْكَلَامَ وَكَأَنَّمَا يُقَرُّ فِي صَدْرِي، وَكَانَتْ الْعَرَبُ تَلَوَّمُ بِإِسْلَامِهِمُ الْفَتْحَ، فَيَقُولُونَ: اتْرُكُوهُ وَقَوْمَهُ، فَإِنَّهُ إِنْ ظَهَرَ عَلَيْهِمْ فَهُوَ نَبِيٌّ صَادِقٌ، فَلَمَّا كَانَتْ وَقْعَةُ أَهْلِ الْفَتْحِ بَادَرَ كُلُّ قَوْمٍ بِإِسْلَامِهِمْ، وَبَدَرَ أَبِي قَوْمِي بِإِسْلَامِهِمْ، فَلَمَّا قَدِمَ، قَالَ: جِئْتُكُمْ وَاللَّهِ مِنْ عِنْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَقًّا، فَقَالَ:" صَلُّوا صَلَاةَ كَذَا فِي حِينِ كَذَا، وَصَلُّوا صَلَاةَ كَذَا فِي حِينِ كَذَا، فَإِذَا حَضَرَتِ الصَّلَاةُ، فَلْيُؤَذِّنْ أَحَدُكُمْ وَلْيَؤُمَّكُمْ أَكْثَرُكُمْ قُرْآنًا"، فَنَظَرُوا فَلَمْ يَكُنْ أَحَدٌ أَكْثَرَ قُرْآنًا مِنِّي لِمَا كُنْتُ أَتَلَقَّى مِنَ الرُّكْبَانِ، فَقَدَّمُونِي بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَأَنَا ابْنُ سِتٍّ أَوْ سَبْعِ سِنِينَ، وَكَانَتْ عَلَيَّ بُرْدَةٌ كُنْتُ إِذَا سَجَدْتُ تَقَلَّصَتْ عَنِّي، فَقَالَتِ امْرَأَةٌ مِنَ الْحَيِّ: أَلَا تُغَطُّوا عَنَّا اسْتَ قَارِئِكُمْ؟ فَاشْتَرَوْا، فَقَطَعُوا لِي قَمِيصًا فَمَا فَرِحْتُ بِشَيْءٍ فَرَحِي بِذَلِكَ الْقَمِيصِ".
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا ‘ ان سے ایوب سختیانی نے اور ان سے ابوقلابہ نے اور ان سے عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ نے ‘ ایوب نے کہا کہ مجھ سے ابوقلابہ نے کہا ‘ عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ قصہ کیوں نہیں پوچھتے؟ ابوقلابہ نے کہا کہ پھر میں ان کی خدمت میں گیا اور ان سے سوال کیا ‘ انہوں نے کہا کہ جاہلیت میں ہمارا قیام ایک چشمہ پر تھا جہاں عام راستہ تھا۔ سوار ہمارے قریب سے گزرتے تو ہم ان سے پوچھتے ‘ لوگوں کا کیا خیال ہے ‘ اس شخص کا کیا معاملہ ہے؟ (یہ اشارہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہوتا تھا) لوگ بتاتے کہ وہ کہتے ہیں کہ اللہ نے انہیں اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے اور اللہ ان پر وحی نازل کرتا ہے ‘ یا اللہ نے ان پر وحی نازل کی ہے (وہ قرآن کی کوئی آیت سناتے) میں وہ فوراً یاد کر لیتا ‘ ان کی باتیں میرے دل کو لگتی تھیں۔ ادھر سارے عرب والے فتح مکہ پر اپنے اسلام کو موقوف کئے ہوئے تھے۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ اس نبی کو اور اس کی قوم (قریش) کو نمٹنے دو ‘ اگر وہ ان پر غالب آ گئے تو پھر واقعی وہ سچے نبی ہیں۔ چنانچہ جب مکہ فتح ہو گیا تو ہر قوم نے اسلام لانے میں پہل کی اور میرے والد نے بھی میری قوم کے اسلام میں جلدی کی۔ پھر جب (مدینہ) سے واپس آئے تو کہا کہ میں اللہ کی قسم ایک سچے نبی کے پاس سے آ رہا ہوں۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ فلاں نماز اس طرح فلاں وقت پڑھا کرو اور جب نماز کا وقت ہو جائے تو تم میں سے کوئی ایک شخص اذان دے اور امامت وہ کرے جسے قرآن سب سے زیادہ یاد ہو۔ لوگوں نے اندازہ کیا کہ کسے قرآن سب سے زیادہ یاد ہے تو کوئی شخص ان کے قبیلے میں مجھ سے زیادہ قرآن یاد کرنے والا انہیں نہیں ملا۔ کیونکہ میں آنے جانے والے سواروں سے سن کر قرآن مجید یاد کر لیا کرتا تھا۔ اس لیے مجھے لوگوں نے امام بنایا۔ حالانکہ اس وقت میری عمر چھ یا سات سال کی تھی اور میرے پاس ایک ہی چادر تھی۔ جب میں (اسے لپیٹ کر) سجدہ کرتا تو اوپر ہو جاتی (اور پیچھے کی جگہ) کھل جاتی۔ اس قبیلہ کی ایک عورت نے کہا ‘ تم اپنے قاری کا چوتڑ تو پہلے چھپا دو۔ آخر انہوں نے کپڑا خریدا اور میرے لیے ایک قمیص بنائی، میں جتنا خوش اس قمیص سے ہوا اتنا کسی اور چیز سے نہیں ہوا تھا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي/حدیث: 4302]
حدیث نمبر: 4303
حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ اللَّيْثُ: حَدَّثَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ عُتْبَةُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ عَهِدَ إِلَى أَخِيهِ سَعْدٍ أَنْ يَقْبِضَ ابْنَ وَلِيدَةِ زَمْعَةَ، وَقَالَ عُتْبَةُ: إِنَّهُ ابْنِي، فَلَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ فِي الْفَتْحِ، أَخَذَ سَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ ابْنَ وَلِيدَةِ زَمْعَةَ، فَأَقْبَلَ بِهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَقْبَلَ مَعَهُ عَبْدُ بْنُ زَمْعَةَ، فَقَالَ سَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ: هَذَا ابْنُ أَخِي عَهِدَ إِلَيَّ أَنَّهُ ابْنُهُ، قَالَ عَبْدُ بْنُ زَمْعَةَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا أَخِي، هَذَا ابْنُ زَمْعَةَ، وُلِدَ عَلَى فِرَاشِهِ، فَنَظَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى ابْنِ وَلِيدَةِ زَمْعَةَ فَإِذَا أَشْبَهُ النَّاسِ بِعُتْبَةَ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هُوَ لَكَ، هُوَ أَخُوكَ يَا عَبْدُ بْنَ زَمْعَةَ مِنْ أَجْلِ أَنَّهُ وُلِدَ عَلَى فِرَاشِهِ"، وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" احْتَجِبِي مِنْهُ يَا سَوْدَةُ" لِمَا رَأَى مِنْ شَبَهِ عُتْبَةَ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: قَالَتْ عَائِشَةُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ، وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ"، وَقَالَ ابْنُ شِهَابٍ: وَكَانَ أَبُو هُرَيْرَةَ يَصِيحُ بِذَلِكَ.
مجھ سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عروہ بن زبیر نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے (دوسری سند اور لیث بن سعد نے کہا مجھ سے یونس نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، انہیں عروہ بن زبیر نے خبر دی اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ عتبہ بن ابی وقاص نے (مرتے وقت زمانہ جاہلیت میں) اپنے بھائی (سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ) کو وصیت کی تھی کہ وہ زمعہ بن لیثی کی باندی سے پیدا ہونے والے بچے کو اپنے قبضے میں لے لیں۔ عتبہ نے کہا تھا کہ وہ میرا لڑکا ہو گا۔ چنانچہ جب فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں داخل ہوئے تو سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اس بچے کو لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان کے ساتھ عبد بن زمعہ بھی آئے۔ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے تو یہ کہا کہ یہ میرے بھائی کا لڑکا ہے۔ لیکن عبد بن زمعہ نے کہا: یا رسول اللہ! یہ میرا بھائی ہے (میرے والد) زمعہ کا بیٹا ہے کیونکہ انہیں کے بستر پر پیدا ہوا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زمعہ کی باندی کے لڑکے کو دیکھا تو وہ واقعی (سعد کے بھائی) عتبہ بن ابی وقاص کی شکل پر تھا لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (قانون شریعت کے مطابق) فیصلے میں یہ کہا کہ اے عبد بن زمعہ! تمہیں اس بچے کو رکھو، یہ تمہارا بھائی ہے، کیونکہ یہ تمہارے والد کے فراش پر (اس کی باندی کے بطن سے پیدا ہوا ہے۔ لیکن دوسری طرف ام المؤمنین سودہ رضی اللہ عنہا سے جو زمعہ کی بیٹی تھیں فرمایا سودہ! اس لڑکے سے پردا کیا کرنا کیونکہ آپ نے اس لڑکے میں عتبہ بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی شباہت پائی تھی۔ ابن شہاب نے کہا ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ لڑکا اس کا ہوتا ہے جس کی جورو یا لونڈی کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو اور زنا کرنے والے کے حصے میں سنگ ہی ہیں۔ ابن شہاب نے بیان کیا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اس حدیث کو پکار پکار کر بیان کیا کرتے تھے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي/حدیث: 4303]
حدیث نمبر: 4304
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ: أَنَّ امْرَأَةً سَرَقَتْ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ الْفَتْحِ، فَفَزِعَ قَوْمُهَا إِلَى أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ يَسْتَشْفِعُونَهُ، قَالَ عُرْوَةُ: فَلَمَّا كَلَّمَهُ أُسَامَةُ فِيهَا تَلَوَّنَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:" أَتُكَلِّمُنِي فِي حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللَّهِ"، قَالَ أُسَامَةُ: اسْتَغْفِرْ لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَلَمَّا كَانَ الْعَشِيُّ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ خَطِيبًا فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قَالَ:" أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّمَا أَهْلَكَ النَّاسَ قَبْلَكُمْ أَنَّهُمْ كَانُوا إِذَا سَرَقَ فِيهِمُ الشَّرِيفُ تَرَكُوهُ، وَإِذَا سَرَقَ فِيهِمُ الضَّعِيفُ أَقَامُوا عَلَيْهِ الْحَدَّ، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ يَدَهَا"، ثُمَّ أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِتِلْكَ الْمَرْأَةِ، فَقُطِعَتْ يَدُهَا، فَحَسُنَتْ تَوْبَتُهَا بَعْدَ ذَلِكَ وَتَزَوَّجَتْ، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَكَانَتْ تَأْتِي بَعْدَ ذَلِكَ، فَأَرْفَعُ حَاجَتَهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہیں یونس نے خبر دی، انہیں زہری نے، کہا کہ مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی کہ غزوہ فتح (مکہ) کے موقع پر ایک عورت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں چوری کر لی تھی۔ اس عورت کی قوم گھبرائی ہوئی اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کے پاس آئی تاکہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی سفارش کر دیں (کہ اس کا ہاتھ چوری کے جرم میں نہ کاٹا جائے)۔ عروہ نے بیان کیا کہ جب اسامہ رضی اللہ عنہ نے اس کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! تم مجھ سے اللہ کی قائم کی ہوئی ایک حد کے بارے میں سفارش کرنے آئے ہو۔ اسامہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: میرے لیے دعا مغفرت کیجئے، یا رسول اللہ! پھر دوپہر بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو خطاب کیا، اللہ تعالیٰ کی اس کے شان کے مطابق تعریف کرنے کے بعد فرمایا: امابعد! تم میں سے پہلے لوگ اس لیے ہلاک ہو گئے کہ اگر ان میں سے کوئی معزز شخص چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے لیکن اگر کوئی کمزور چوری کر لیتا تو اس پر حد قائم کرتے اور اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کر لے تو میں اس کا ہاتھ کاٹوں گا۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کے لیے حکم دیا اور ان کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔ پھر اس عورت نے صدق دل سے توبہ کر لی اور شادی بھی کر لی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ بعد میں وہ میرے یہاں آتی تھیں۔ ان کو اور کوئی ضرورت ہوتی تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کر دیتی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي/حدیث: 4304]
حدیث نمبر: 4305
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُجَاشِعٌ، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَخِي بَعْدَ الْفَتْحِ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، جِئْتُكَ بِأَخِي لِتُبَايِعَهُ عَلَى الْهِجْرَةِ، قَالَ:" ذَهَبَ أَهْلُ الْهِجْرَةِ بِمَا فِيهَا"، فَقُلْتُ: عَلَى أَيِّ شَيْءٍ تُبَايِعُهُ، قَالَ:" أُبَايِعُهُ عَلَى الْإِسْلَامِ، وَالْإِيمَانِ، وَالْجِهَادِ"، فَلَقِيتُ مَعْبَدًا بَعْدُ، وَكَانَ أَكْبَرَهُمَا فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ: صَدَقَ مُجَاشِعٌ.
ہم سے عمرو بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے زہیر بن معاویہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عاصم بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے ابوعثمان نہدی نے بیان کیا اور ان سے مجاشع بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ فتح مکہ کے بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنے بھائی (مجالد) کو لے کر حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں اسے اس لیے لے کر حاضر ہوا ہوں تاکہ آپ ہجرت پر اس سے بیعت لے لیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہجرت کرنے والے اس کی فضیلت و ثواب کو حاصل کر چکے (یعنی اب ہجرت کرنے کا زمانہ تو گزر چکا)۔ میں نے عرض کیا: پھر آپ اس سے کس چیز پر بیعت لیں گے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایمان، اسلام اور جہاد پر۔ ابی عثمان نہدی نے کہا کہ پھر میں (مجاشع کے بھائی) ابومعبد مجالد سے ملا وہ دونوں بھائیوں سے بڑے تھے، میں نے ان سے بھی اس حدیث کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ مجاشع نے حدیث ٹھیک طرح بیان کی ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي/حدیث: 4305]
حدیث نمبر: 4306
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُجَاشِعٌ، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَخِي بَعْدَ الْفَتْحِ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، جِئْتُكَ بِأَخِي لِتُبَايِعَهُ عَلَى الْهِجْرَةِ، قَالَ:" ذَهَبَ أَهْلُ الْهِجْرَةِ بِمَا فِيهَا"، فَقُلْتُ: عَلَى أَيِّ شَيْءٍ تُبَايِعُهُ، قَالَ:" أُبَايِعُهُ عَلَى الْإِسْلَامِ، وَالْإِيمَانِ، وَالْجِهَادِ"، فَلَقِيتُ مَعْبَدًا بَعْدُ، وَكَانَ أَكْبَرَهُمَا فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ: صَدَقَ مُجَاشِعٌ.
ہم سے عمرو بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے زہیر بن معاویہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عاصم بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے ابوعثمان نہدی نے بیان کیا اور ان سے مجاشع بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ فتح مکہ کے بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنے بھائی (مجالد) کو لے کر حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں اسے اس لیے لے کر حاضر ہوا ہوں تاکہ آپ ہجرت پر اس سے بیعت لے لیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہجرت کرنے والے اس کی فضیلت و ثواب کو حاصل کر چکے (یعنی اب ہجرت کرنے کا زمانہ تو گزر چکا)۔ میں نے عرض کیا: پھر آپ اس سے کس چیز پر بیعت لیں گے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایمان، اسلام اور جہاد پر۔ ابی عثمان نہدی نے کہا کہ پھر میں (مجاشع کے بھائی) ابومعبد مجالد سے ملا وہ دونوں بھائیوں سے بڑے تھے، میں نے ان سے بھی اس حدیث کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ مجاشع نے حدیث ٹھیک طرح بیان کی ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي/حدیث: 4306]
حدیث نمبر: 4307
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، حَدَّثَنَا الْفُضَيْلُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، عَنْ مُجَاشِعِ بْنِ مَسْعُودٍ: انْطَلَقْتُ بِأَبِي مَعْبَدٍ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيُبَايِعَهُ عَلَى الْهِجْرَةِ، قَالَ:" مَضَتِ الْهِجْرَةُ لِأَهْلِهَا أُبَايِعُهُ عَلَى: الْإِسْلَامِ، وَالْجِهَادِ"، فَلَقِيتُ أَبَا مَعْبَدٍ فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ: صَدَقَ مُجَاشِعٌ، وَقَالَ خَالِدٌ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ مُجَاشِعٍ: أَنَّهُ جَاءَ بِأَخِيهِ مُجَالِدٍ.
ہم سے محمد بن ابی بکر نے بیان کیا، کہا ہم سے فضیل بن سلیمان نے بیان کیا، کہا ہم سے عاصم بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے ابوعثمان نہدی نے اور ان سے مجاشع بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہ میں اپنے بھائی (ابومعبد رضی اللہ عنہ) کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آپ سے ہجرت پر بیعت کرانے کے لیے لے گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہجرت کا ثواب تو ہجرت کرنے والوں کے ساتھ ختم ہو چکا۔ البتہ میں اس سے اسلام اور جہاد پر بیعت لیتا ہوں۔ ابوعثمان نے کہا کہ پھر میں نے ابومعبد رضی اللہ عنہ سے مل کر ان سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ مجاشع رضی اللہ عنہ نے ٹھیک بیان کیا اور خالد حذاء نے بھی ابوعثمان سے بیان کیا، ان سے مجاشع رضی اللہ عنہ نے کہ وہ اپنے بھائی مجالد رضی اللہ عنہ کو لے کر آئے تھے، (پھر حدیث کو آخر تک بیان کیا، اس کو اسماعیل نے وصل کیا ہے)۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي/حدیث: 4307]
حدیث نمبر: 4308
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، حَدَّثَنَا الْفُضَيْلُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، عَنْ مُجَاشِعِ بْنِ مَسْعُودٍ: انْطَلَقْتُ بِأَبِي مَعْبَدٍ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيُبَايِعَهُ عَلَى الْهِجْرَةِ، قَالَ:" مَضَتِ الْهِجْرَةُ لِأَهْلِهَا أُبَايِعُهُ عَلَى: الْإِسْلَامِ، وَالْجِهَادِ"، فَلَقِيتُ أَبَا مَعْبَدٍ فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ: صَدَقَ مُجَاشِعٌ، وَقَالَ خَالِدٌ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ مُجَاشِعٍ: أَنَّهُ جَاءَ بِأَخِيهِ مُجَالِدٍ.
ہم سے محمد بن ابی بکر نے بیان کیا، کہا ہم سے فضیل بن سلیمان نے بیان کیا، کہا ہم سے عاصم بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے ابوعثمان نہدی نے اور ان سے مجاشع بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہ میں اپنے بھائی (ابومعبد رضی اللہ عنہ) کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آپ سے ہجرت پر بیعت کرانے کے لیے لے گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہجرت کا ثواب تو ہجرت کرنے والوں کے ساتھ ختم ہو چکا۔ البتہ میں اس سے اسلام اور جہاد پر بیعت لیتا ہوں۔ ابوعثمان نے کہا کہ پھر میں نے ابومعبد رضی اللہ عنہ سے مل کر ان سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ مجاشع رضی اللہ عنہ نے ٹھیک بیان کیا اور خالد حذاء نے بھی ابوعثمان سے بیان کیا، ان سے مجاشع رضی اللہ عنہ نے کہ وہ اپنے بھائی مجالد رضی اللہ عنہ کو لے کر آئے تھے، (پھر حدیث کو آخر تک بیان کیا، اس کو اسماعیل نے وصل کیا ہے)۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي/حدیث: 4308]
حدیث نمبر: 4309
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قُلْتُ لِابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا:" إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أُهَاجِرَ إِلَى الشَّأْمِ، قَالَ:" لَا هِجْرَةَ، وَلَكِنْ جِهَادٌ، فَانْطَلِقْ، فَاعْرِضْ نَفْسَكَ، فَإِنْ وَجَدْتَ شَيْئًا وَإِلَّا رَجَعْتَ".
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابوبشر نے اور ان سے مجاہد نے کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے عرض کیا کہ میرا ارادہ ہے کہ میں ملک شام کو ہجرت کر جاؤں، فرمایا: اب ہجرت باقی نہیں رہی، جہاد ہی باقی رہ گیا ہے۔ اس لیے جاؤ اور خود کو پیش کرو۔ اگر تم نے کچھ پا لیا تو بہتر ورنہ واپس آ جانا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي/حدیث: 4309]
حدیث نمبر: 4310
وَقَالَ النَّضْرُ: أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، أَخْبَرَنَا أَبُو بِشْرٍ، سَمِعْتُ مُجَاهِدًا، قُلْتُ لِابْنِ عُمَرَ: فَقَالَ: لَا هِجْرَةَ الْيَوْمَ أَوْ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِثْلَهُ.
نضر نے بیان کیا کہ ہمیں شعبہ نے خبر دی، انہیں ابوبشر نے خبر دی، انہوں نے مجاہد سے سنا کہ جب میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے عرض کیا تو انہوں نے کہا کہ اب ہجرت باقی نہیں رہی یا (فرمایا کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد پھر ہجرت کہاں رہی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي/حدیث: 4310]
حدیث نمبر: 4311
حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو عَمْرٍو الْأَوْزَاعِيُّ، عَنْ عَبْدَةَ بْنِ أَبِي لُبَابَةَ، عَنْ مُجَاهِدِ بْنِ جَبْرٍ الْمَكِّيِّ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، كَانَ يَقُولُ:" لَا هِجْرَةَ بَعْدَ الْفَتْحِ".
مجھ سے اسحاق بن یزید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ بن حمزہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابوعمرو اوزاعی نے بیان کیا، ان سے عبدہ بن ابی لبابہ نے، ان سے مجاہد بن جبر مکی نے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہا کرتے تھے کہ فتح مکہ کے بعد ہجرت باقی نہیں رہی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي/حدیث: 4311]
حدیث نمبر: 4312
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي الْأَوْزَاعِيُّ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، قَالَ: زُرْتُ عَائِشَةَ، مَعَ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ، فَسَأَلَهَا عَنِ الْهِجْرَةِ، فَقَالَتْ:" لَا هِجْرَةَ الْيَوْمَ، كَانَ الْمُؤْمِنُ يَفِرُّ أَحَدُهُمْ بِدِينِهِ إِلَى اللَّهِ وَإِلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَخَافَةَ أَنْ يُفْتَنَ عَلَيْهِ، فَأَمَّا الْيَوْمَ فَقَدْ أَظْهَرَ اللَّهُ الْإِسْلَامَ، فَالْمُؤْمِنُ يَعْبُدُ رَبَّهُ حَيْثُ شَاءَ، وَلَكِنْ جِهَادٌ وَنِيَّةٌ".
ہم سے اسحاق بن یزید نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن حمزہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام اوزاعی نے بیان کیا، ان سے عطا بن ابی رباح نے بیان کیا کہ میں عبید بن عمیر کے ساتھ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا۔ عبید نے ان سے ہجرت کا مسئلہ پوچھا تو انہوں نے کہا کہ اب ہجرت باقی نہیں رہی۔ پہلے مسلمان اپنا دین بچانے کے لیے اللہ اور اس کے رسول کی طرف پناہ لینے کے لیے آتے تھے، اس خوف سے کہ کہیں دین کی وجہ سے فتنہ میں نہ پڑ جائیں۔ اس لیے اب جب کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کو غالب کر دیا تو مسلمان جہاں بھی چاہے اپنے رب کی عبادت کر سکتا ہے۔ اب تو صرف جہاد اور جہاد کی نیت کا ثواب باقی ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي/حدیث: 4312]
حدیث نمبر: 4313
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي حَسَنُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ: أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ يَوْمَ الْفَتْحِ، فَقَالَ:" إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ مَكَّةَ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ، فَهِيَ حَرَامٌ بِحَرَامِ اللَّهِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، لَمْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ قَبْلِي وَلَا تَحِلُّ لِأَحَدٍ بَعْدِي، وَلَمْ تَحْلِلْ لِي قَطُّ إِلَّا سَاعَةً مِنَ الدَّهْرِ لَا يُنَفَّرُ صَيْدُهَا، وَلَا يُعْضَدُ شَوْكُهَا، وَلَا يُخْتَلَى خَلَاهَا، وَلَا تَحِلُّ لُقَطَتُهَا إِلَّا لِمُنْشِدٍ"، فَقَالَ الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ: إِلَّا الْإِذْخِرَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَإِنَّهُ لَا بُدَّ مِنْهُ لِلْقَيْنِ وَالْبُيُوتِ، فَسَكَتَ، ثُمَّ قَالَ:" إِلَّا الْإِذْخِرَ، فَإِنَّهُ حَلَالٌ"، وَعَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ الْكَرِيمِ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ بِمِثْلِ هَذَا أَوْ نَحْوِ هَذَا، رَوَاهُ أَبُو هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعاصم نبیل نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے بیان کیا، کہا مجھ کو حسن بن مسلم نے خبر دی اور انہیں مجاہد نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے دن خطبہ سنانے کھڑے ہوئے اور فرمایا جس دن اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا تھا، اسی دن اس نے مکہ کو حرمت والا شہر قرار دے دیا تھا۔ پس یہ شہر اللہ کے حکم کے مطابق قیامت تک کے لیے حرمت والا رہے گا۔ جو مجھ سے پہلے کبھی کسی کے لیے حلال نہیں ہوا اور نہ میرے بعد کسی کے لیے حلال ہو گا اور میرے لیے بھی صرف ایک گھڑی کے لیے حلال ہوا تھا۔ یہاں حدود حرم میں شکار کے قابل جانور نہ چھیڑے جائیں۔ یہاں کے کانٹے دار درخت نہ کاٹے جائیں نہ یہاں کی گھاس اکھاڑی جائے اور یہاں پر گری پڑی چیز اس شخص کے سوا جو اعلان کرنے کا ارادہ رکھتا ہو اور کسی کے لیے اٹھانی جائز نہیں۔ اس پر عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ نے کہا: یا رسول اللہ! اذخر (گھاس) کی اجازت دے دیجئیے کیونکہ سناروں کے لیے اور مکانات (کی تعمیر وغیرہ) کے لیے یہ ضروری ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے پھر فرمایا اذخر اس حکم سے الگ ہے اس کا (کاٹنا) حلال ہے۔ دوسری روایت ابن جریج سے (اسی سند سے) ایسی ہی ہے انہوں نے عبدالکریم بن مالک سے، انہوں نے ابن عباس سے اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسے ہی روایت کی ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي/حدیث: 4313]