الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


صحيح البخاري کل احادیث (7563)
حدیث نمبر سے تلاش:


صحيح البخاري
كِتَاب الصَّلَاةِ
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
12. بَابُ مَا يُذْكَرُ فِي الْفَخِذِ:
12. باب: ران سے متعلق جو روایتیں آئی ہیں۔
حدیث نمبر: Q371-2
قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: وَيُرْوَى عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَجَرْهَدٍ، وَمُحَمَّدِ بْنِ جَحْشٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْفَخِذُ عَوْرَةٌ، وَقَالَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ: حَسَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ فَخِذِهِ، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: وَحَدِيثُ أَنَسٍ أَسْنَدُ، وَحَدِيثُ جَرْهَدٍ أَحْوَطُ حَتَّى يُخْرَجَ مِنَ اخْتِلَافِهِمْ.
‏‏‏‏ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے کہا کہ ابن عباس، جرہد اور محمد بن حجش نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ نقل کیا کہ ران شرمگاہ ہے۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (جنگ خیبر میں) اپنی ران کھولی۔ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) کہتے ہیں کہ انس رضی اللہ عنہ کی حدیث سند کے اعتبار سے زیادہ صحیح ہے۔ اور جرہد کی حدیث میں بہت احتیاط ملحوظ ہے۔ اس طرح ہم اس بارے میں علماء کے باہمی اختلاف سے بچ جاتے ہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: Q371-2]
حدیث نمبر: Q371
وَقَالَ أَبُو مُوسَى: غَطَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رُكْبَتَيْهِ حِينَ دَخَلَ عُثْمَانُ، وَقَالَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ: أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفَخِذُهُ عَلَى فَخِذِي، فَثَقُلَتْ عَلَيَّ حَتَّى خِفْتُ أَنْ تَرُضَّ فَخِذِي.
‏‏‏‏ اور ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ عثمان رضی اللہ عنہ آئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھٹنے ڈھانک لیے اور زید بن ثابت نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک مرتبہ وحی نازل فرمائی۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ران مبارک میری ران پر تھی، آپ کی ران اتنی بھاری ہو گئی تھی کہ مجھے اپنی ران کی ہڈی ٹوٹ جانے کا خطرہ پیدا ہو گیا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: Q371]
حدیث نمبر: 371
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عُلَيَّةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسٍ،" أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَزَا خَيْبَرَ، فَصَلَّيْنَا عِنْدَهَا صَلَاةَ الْغَدَاةِ بِغَلَسٍ، فَرَكِبَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَكِبَ أَبُو طَلْحَةَ وَأَنَا رَدِيفُ أَبِي طَلْحَةَ، فَأَجْرَى نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي زُقَاقِ خَيْبَرَ، وَإِنَّ رُكْبَتِي لَتَمَسُّ فَخِذَ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ حَسَرَ الْإِزَارَ عَنْ فَخِذِهِ حَتَّى إِنِّي أَنْظُرُ إِلَى بَيَاضِ فَخِذِ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا دَخَلَ الْقَرْيَةَ، قَالَ: اللَّهُ أَكْبَرُ، خَرِبَتْ خَيْبَرُ إِنَّا إِذَا نَزَلْنَا بِسَاحَةِ قَوْمٍ فَسَاءَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِينَ، قَالَهَا ثَلَاثًا، قَالَ: وَخَرَجَ الْقَوْمُ إِلَى أَعْمَالِهِمْ، فَقَالُوا: مُحَمَّدٌ، قَالَ عَبْدُ الْعَزِيزِ: وَقَالَ بَعْضُ أَصْحَابِنَا وَالْخَمِيسُ يَعْنِي الْجَيْشَ، قَالَ: فَأَصَبْنَاهَا عَنْوَةً فَجُمِعَ السَّبْيُ فَجَاءَ دِحْيَةُ، فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، أَعْطِنِي جَارِيَةً مِنَ السَّبْيِ، قَالَ: اذْهَبْ، فَخُذْ جَارِيَةً، فَأَخَذَ صَفِيَّةَ بِنْتَ حُيَيٍّ، فَجَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، أَعْطَيْتَ دِحْيَةَ صَفِيَّةَ بِنْتَ حُيَيٍّ سَيِّدَةَ قُرَيْظَةَ وَالنَّضِيرِ لَا تَصْلُحُ إِلَّا لَكَ، قَالَ: ادْعُوهُ بِهَا، فَجَاءَ بِهَا، فَلَمَّا نَظَرَ إِلَيْهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: خُذْ جَارِيَةً مِنَ السَّبْيِ غَيْرَهَا، قَالَ: فَأَعْتَقَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَزَوَّجَهَا، فَقَالَ لَهُ ثَابِتٌ: يَا أَبَا حَمْزَةَ، مَا أَصْدَقَهَا؟ قَالَ: نَفْسَهَا، أَعْتَقَهَا وَتَزَوَّجَهَا حَتَّى إِذَا كَانَ بِالطَّرِيقِ جَهَّزَتْهَا لَهُ أُمُّ سُلَيْمٍ فَأَهْدَتْهَا لَهُ مِنَ اللَّيْلِ، فَأَصْبَحَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَرُوسًا، فَقَالَ: مَنْ كَانَ عِنْدَهُ شَيْءٌ فَلْيَجِئْ بِهِ، وَبَسَطَ نِطَعًا فَجَعَلَ الرَّجُلُ يَجِيءُ بِالتَّمْرِ وَجَعَلَ الرَّجُلُ يَجِيءُ بِالسَّمْنِ، قَالَ: وَأَحْسِبُهُ قَدْ ذَكَرَ السَّوِيقَ، قَالَ: فَحَاسُوا حَيْسًا، فَكَانَتْ وَلِيمَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن علیہ نے کہ کہا ہمیں عبدالعزیز بن صہیب نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کر کے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ خیبر میں تشریف لے گئے۔ ہم نے وہاں فجر کی نماز اندھیرے ہی میں پڑھی۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے۔ اور ابوطلحہ بھی سوار ہوئے۔ میں ابوطلحہ کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سواری کا رخ خیبر کی گلیوں کی طرف کر دیا۔ میرا گھٹنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ران سے چھو جاتا تھا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ران سے تہبند کو ہٹایا۔ یہاں تک کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاف اور سفید رانوں کی سفیدی اور چمک دیکھنے لگا۔ جب آپ خیبر کی بستی میں داخل ہوئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا «الله اكبر» اللہ سب سے بڑا ہے، خیبر برباد ہو گیا، جب ہم کسی قوم کے آنگن میں اتر جائیں تو ڈرائے ہوئے لوگوں کی صبح منحوس ہو جاتی ہے۔ آپ نے یہ تین مرتبہ فرمایا، اس نے کہا کہ خیبر کے یہودی لوگ اپنے کاموں کے لیے باہر نکلے ہی تھے کہ وہ چلا اٹھے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) آن پہنچے۔ اور عبدالعزیز راوی نے کہا کہ بعض انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرنے والے ہمارے ساتھیوں نے «والخميس‏» کا لفظ بھی نقل کیا ہے (یعنی وہ چلا اٹھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم لشکر لے کر پہنچ گئے) پس ہم نے خیبر لڑ کر فتح کر لیا اور قیدی جمع کئے گئے۔ پھر دحیہ رضی اللہ عنہ آئے اور عرض کی کہ یا رسول اللہ! قیدیوں میں سے کوئی باندی مجھے عنایت کیجیئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جاؤ کوئی باندی لے لو۔ انہوں نے صفیہ بنت حیی کو لے لیا۔ پھر ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی یا رسول اللہ! صفیہ جو قریظہ اور نضیر کے سردار کی بیٹی ہیں، انہیں آپ نے دحیہ کو دے دیا۔ وہ تو صرف آپ ہی کے لیے مناسب تھیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دحیہ کو صفیہ کے ساتھ بلاؤ، وہ لائے گئے۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھا تو فرمایا کہ قیدیوں میں سے کوئی اور باندی لے لو۔ راوی نے کہا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صفیہ کو آزاد کر دیا اور انہیں اپنے نکاح میں لے لیا۔ ثابت بنانی نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ ابوحمزہ! ان کا مہر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا رکھا تھا؟ انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ خود انہیں کی آزادی ان کا مہر تھا اور اسی پر آپ نے نکاح کیا۔ پھر راستے ہی میں ام سلیم رضی اللہ عنہا (انس رضی اللہ عنہ کی والدہ) نے انہیں دلہن بنایا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رات کے وقت بھیجا۔ اب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دولہا تھے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کے پاس بھی کچھ کھانے کی چیز ہو تو یہاں لائے۔ آپ نے ایک چمڑے کا دستر خوان بچھایا۔ بعض صحابہ کھجور لائے، بعض گھی، عبدالعزیز نے کہا کہ میرا خیال ہے انس رضی اللہ عنہ نے ستو کا بھی ذکر کیا۔ پھر لوگوں نے ان کا حلوہ بنا لیا۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ولیمہ تھا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 371]