الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


صحيح البخاري کل احادیث (7563)
حدیث نمبر سے تلاش:


صحيح البخاري
كِتَاب النَّفَقَاتِ
کتاب: خرچہ دینے کے بیان میں
14. بَابُ: {وَعَلَى الْوَارِثِ مِثْلُ ذَلِكَ}، وَهَلْ عَلَى الْمَرْأَةِ مِنْهُ شَيْءٌ؟
14. باب: اللہ تعالیٰ کا (سورۃ البقرہ میں) یہ فرمانا کہ بچے کے وارث (مثلاً بھائی چچا وغیرہ) پر بھی یہی لازم ہے۔
حدیث نمبر: Q5369
{وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلاً رَجُلَيْنِ أَحَدُهُمَا أَبْكَمُ} إِلَى قَوْلِهِ: {صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ}.
‏‏‏‏ اور اللہ تعالیٰ نے (سورۃ نحل میں) فرمایا «وضرب الله مثلا رجلين أحدهما أبكم‏» کہ اللہ دوسروں کی مثال بیان کرتا ہے ایک تو گونگا جو کچھ بھی قدرت نہیں رکھتا۔ آخر آیت «صراط مستقيم‏» تک۔ [صحيح البخاري/كِتَاب النَّفَقَاتِ/حدیث: Q5369]
حدیث نمبر: 5369
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قُلْتُ:" يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلْ لِي مِنْ أَجْرٍ فِي بَنِي أَبِي سَلَمَةَ أَنْ أُنْفِقَ عَلَيْهِمْ وَلَسْتُ بِتَارِكَتِهِمْ هَكَذَا وَهَكَذَا إِنَّمَا هُمْ بَنِيَّ؟ قَالَ: نَعَمْ، لَكِ أَجْرُ مَا أَنْفَقْتِ عَلَيْهِمْ".
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے وہیب نے بیان کیا، انہیں ہشام نے خبر دی، انہیں ان کے والد نے، انہیں زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا مجھے ابوسلمہ (ان کے پہلے شوہر) کے لڑکوں کے بارے میں ثواب ملے گا اگر میں ان پر خرچ کروں۔ میں انہیں اس محتاجی میں دیکھ نہیں سکتی، وہ میرے بیٹے ہی تو ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں، تمہیں ہر اس چیز کا ثواب ملے گا جو تم ان پر خرچ کرو گی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب النَّفَقَاتِ/حدیث: 5369]
حدیث نمبر: 5370
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ هِنْدُ:" يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَبَا سُفْيَانَ رَجُلٌ شَحِيحٌ، فَهَلْ عَلَيَّ جُنَاحٌ أَنْ آخُذَ مِنْ مَالِهِ مَا يَكْفِينِي وَبَنِيَّ؟ قَالَ: خُذِي بِالْمَعْرُوفِ".
ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، ان سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ہند نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ابوسفیان بخیل ہیں۔ اگر میں ان کے مال سے اتنا (ان سے پوچھے بغیر) لے لیا کروں جو میرے اور میرے بچوں کو کافی ہو تو کیا اس میں کوئی گناہ ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دستور کے مطابق لے لیا کرو۔ [صحيح البخاري/كِتَاب النَّفَقَاتِ/حدیث: 5370]