الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


صحيح البخاري کل احادیث (7563)
حدیث نمبر سے تلاش:


صحيح البخاري
كِتَاب الْعِلْمِ
کتاب: علم کے بیان میں
28. بَابُ الْغَضَبِ فِي الْمَوْعِظَةِ وَالتَّعْلِيمِ إِذَا رَأَى مَا يَكْرَهُ:
28. باب: استاد شاگردوں کی جب کوئی ناگوار بات دیکھے تو وعظ کرتے اور تعلیم دیتے وقت ان پر خفا ہو سکتا ہے۔
حدیث نمبر: 90
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ ابْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَا أَكَادُ أُدْرِكُ الصَّلَاةَ مِمَّا يُطَوِّلُ بِنَا فُلَانٌ، فَمَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَوْعِظَةٍ أَشَدَّ غَضَبًا مِنْ يَوْمِئِذٍ، فَقَالَ:" أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّكُمْ مُنَفِّرُونَ، فَمَنْ صَلَّى بِالنَّاسِ فَلْيُخَفِّفْ، فَإِنَّ فِيهِمُ الْمَرِيضَ وَالضَّعِيفَ وَذَا الْحَاجَةِ".
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا انہیں سفیان نے ابوخالد سے خبر دی، وہ قیس بن ابی حازم سے بیان کرتے ہیں، وہ ابومسعود انصاری سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص (حزم بن ابی کعب) نے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آ کر) عرض کیا۔ یا رسول اللہ! فلاں شخص (معاذ بن جبل) لمبی نماز پڑھاتے ہیں اس لیے میں (جماعت کی) نماز میں شریک نہیں ہو سکتا (کیونکہ میں دن بھر اونٹ چرانے کی وجہ سے رات کو تھک کر چکنا چور ہو جاتا ہوں اور طویل قرآت سننے کی طاقت نہیں رکھتا) (ابومسعود راوی کہتے ہیں) کہ اس دن سے زیادہ میں نے کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وعظ کے دوران اتنا غضب ناک نہیں دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے لوگو! تم (ایسی شدت اختیار کر کے لوگوں کو دین سے) نفرت دلانے لگے ہو۔ (سن لو) جو شخص لوگوں کو نماز پڑھائے تو وہ ہلکی پڑھائے، کیونکہ ان میں بیمار، کمزور اور حاجت والے (سب ہی قسم کے لوگ) ہوتے ہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ/حدیث: 90]
حدیث نمبر: 91
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عامِرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ الْمَدِينِيُّ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ يَزِيدَ مَوْلَى الْمُنْبَعِثِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ،" أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَأَلَهُ رَجُلٌ عَنِ اللُّقَطَةِ؟ فَقَالَ: اعْرِفْ وِكَاءَهَا، أَوْ قَالَ: وِعَاءَهَا وَعِفَاصَهَا، ثُمَّ عَرِّفْهَا سَنَةً، ثُمَّ اسْتَمْتِعْ بِهَا، فَإِنْ جَاءَ رَبُّهَا فَأَدِّهَا إِلَيْهِ، قَالَ: فَضَالَّةُ الْإِبِلِ؟ فَغَضِبَ حَتَّى احْمَرَّتْ وَجْنَتَاهُ، أَوْ قَالَ: احْمَرَّ وَجْهُهُ، فَقَالَ: وَمَا لَكَ وَلَهَا، مَعَهَا سِقَاؤُهَا وَحِذَاؤُهَا، تَرِدُ الْمَاءَ وَتَرْعَى الشَّجَرَ، فَذَرْهَا حَتَّى يَلْقَاهَا رَبُّهَا، قَالَ: فَضَالَّةُ الْغَنَمِ؟ قَالَ: لَكَ أَوْ لِأَخِيكَ أَوْ لِلذِّئْبِ".
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، ان سے ابوعامر العقدی نے، وہ سلیمان بن بلال المدینی سے، وہ ربیعہ بن ابی عبدالرحمٰن سے، وہ یزید سے جو منبعث کے آزاد کردہ تھے، وہ زید بن خالد الجہنی سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص (عمیر یا بلال) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پڑی ہوئی چیز کے بارے میں دریافت کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اس کی بندھن پہچان لے یا فرمایا کہ اس کا برتن اور تھیلی (پہچان لے) پھر ایک سال تک اس کی شناخت (کا اعلان) کراؤ پھر (اس کا مالک نہ ملے تو) اس سے فائدہ اٹھاؤ اور اگر اس کا مالک آ جائے تو اسے سونپ دو۔ اس نے پوچھا کہ اچھا گم شدہ اونٹ (کے بارے میں) کیا حکم ہے؟ آپ کو اس قدر غصہ آ گیا کہ رخسار مبارک سرخ ہو گئے۔ یا راوی نے یہ کہا کہ آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ (یہ سن کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ تجھے اونٹ سے کیا واسطہ؟ اس کے ساتھ خود اس کی مشک ہے اور اس کے (پاؤں کے) سم ہیں۔ وہ خود پانی پر پہنچے گا اور خود پی لے گا اور خود درخت پر چرے گا۔ لہٰذا اسے چھوڑ دو یہاں تک کہ اس کا مالک مل جائے۔ اس نے کہا کہ اچھا گم شدہ بکری کے (بارے میں) کیا ارشاد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، وہ تیری ہے یا تیرے بھائی کی، ورنہ بھیڑئیے کی (غذا) ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ/حدیث: 91]
حدیث نمبر: 92
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ بُرَيْدٍ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ: سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَشْيَاءَ كَرِهَهَا، فَلَمَّا أُكْثِرَ عَلَيْهِ غَضِبَ، ثُمَّ قَالَ لِلنَّاسِ:" سَلُونِي عَمَّا شِئْتُمْ، قَالَ رَجُلٌ: مَنْ أَبِي؟ قَالَ: أَبُوكَ حُذَافَةُ، فَقَامَ آخَرُ، فَقَالَ: مَنْ أَبِي يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَقَالَ: أَبُوكَ سَالِمٌ مَوْلَى شَيْبَةَ، فَلَمَّا رَأَى عُمَرُ مَا فِي وَجْهِهِ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا نَتُوبُ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ".
ہم سے محمد بن علاء نے بیان کیا، ان سے ابواسامہ نے برید کے واسطے سے بیان کیا، وہ ابوبردہ سے اور وہ ابوموسیٰ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ ایسی باتیں دریافت کی گئیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو برا معلوم ہوا اور جب (اس قسم کے سوالات کی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بہت زیادتی کی گئی تو آپ کو غصہ آ گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا (اچھا اب) مجھ سے جو چاہو پوچھو۔ تو ایک شخص نے دریافت کیا کہ میرا باپ کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تیرا باپ حذافہ ہے۔ پھر دوسرا آدمی کھڑا ہوا اور اس نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! میرا باپ کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تیرا باپ سالم شیبہ کا آزاد کردہ غلام ہے۔ آخر عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کے چہرہ مبارک کا حال دیکھا تو عرض کیا یا رسول اللہ! ہم (ان باتوں کے دریافت کرنے سے جو آپ کو ناگوار ہوں) اللہ سے توبہ کرتے ہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ/حدیث: 92]