الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


مسند اسحاق بن راهويه کل احادیث (981)
حدیث نمبر سے تلاش:


مسند اسحاق بن راهويه
كتاب التفسير
قرآن مجید کی تفسیر کا بیان
7. سورۂ انفال آیت 66-70 کا تفسیری بیان
حدیث نمبر: 586
اَخْبَرَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِیْرِ بْنِ حَازِمٍ، حَدَّثَنِیْ اَبِیْ قَالَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ اِسْحَاقَ یُحَدِّثُ قَالَ: حَدَّثَنِیْ عَبْدُاللّٰهِ بْنُ اَبِیْ نُجَیْحٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: اِفْتَرَضَ (اللّٰهُ) عَلَیْهِمْ اَنْ یُّقَاتِلَ الْوَاحِدُ الْعَشْرَةَ، فَثَقُلَ ذٰلِكَ عَلَیْهِمْ، وَشَقَّ ذٰلِكَ عَلَیْهِمْ، فَوَضَعَ اللّٰهُ عَنْهُمْ ذٰلِكَ اِلٰی اَنْ یُّقَاتِلَ الْوَاحِدُ الرَّجُلَیْنِ فَاَنْزَلَ اللّٰهُ عَزَّوَجَلَّ: ﴿اِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ عِشْرُوْنَ صٰبِرُوْنَ یَغْلِبُوْا مِائَتَیْنِ﴾ تَـلَا اِلٰی قَوْلِهٖ اِلٰی آخِرِ الْآیَاتِ ثُمَّ قَالَ: ﴿لَوْ لَا کِتٰبٌ مِّنَ اللّٰهِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیْمَآ اَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ﴾ یَعْنِیْ غَنَائِمَ بَدْرٍ، یَقُوْلُ: لَوْلَا اِنِّیْ لَا اُعَذِّبُ مَنْ عَصَانِیْ حَتّٰی اَتَقَدَّمَ اِلَیْهِ، ثُمَّ قَالَ: ﴿یٰٓاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّمَنْ فِیْٓ اَیْدِیْکُمْ مِّنَ الْاَسْرٰٓی اِنْ یَّعْلَمِ اللّٰهُ فِیْ قُلُوْبِکُمْ خَیْرًا﴾ الآیۃ۔ قَالَ الْعَبَّاسُ: فِی نَزَلَتْ، حِیْنَ اَخْبَرْتُ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِاِسْلَامِیْ، وَسَأَلْتُهٗ اَنْ لَّا یُحَاسِبُنِیْ بِالْعِشْرِیْنَ اَوْقِیَةِ الَّتِیْ اَخَذَتْ مِنِّیْ، فَاَعْطَانِیْ عِشْرِیْنَ عَبْدًا، کُلُّهُمْ قَدْ تَاَجَّرَ بِمَالٍ فِیْ یَدِہِ، مَعَ مَا اََدَّخَرَہٗ مِنْ مَّغْفِرَةِ اللّٰهِ.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا، اللہ نے ان پر فرض کیا کہ ایک دس سے قتال کرے، پس یہ ان پر گراں گزرا اور مشکل ہو گیا، تو اللہ نے اس (مشقت، بوجھ) کو ان سے دور کر دیا اور یہ حکم دیا کہ ایک دو سے قتال و مقابلہ کرے، تو اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی: «إِن يَكُن مِّنكُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ» اگر تم میں صبر کرنے والے بیس ہوں گے تو وہ دو سو پر غالب آئیں گے۔ اور پھر آیات کے آخر تک تلاوت فرمائی۔ پھر فرمایا: «لَّوْلَا كِتَابٌ مِّنَ اللَّهِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِيمَا أَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ» اگر اللہ کا حکم پہلے سے طے شدہ نہ ہوتا تو جو کچھ تم نے لیا ہے، اس پر تمہیں سخت ترین سزا ملتی۔ یعنی غزوہ بدر کے اموال غنیمت، وہ فرماتا ہے: میرا دستور ہے کہ میں اپنی نافرمانی کرنے والے کو سزا نہیں دیتا حتیٰ کہ میں اسے پیشگی انتباہ کرتا ہوں، پھر فرمایا: «يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّمَن فِي أَيْدِيكُم مِّنَ الْأَسْرَىٰ إِن يَعْلَمِ اللَّهُ فِي قُلُوبِكُمْ خَيْرًا» اے نبی! آپ کے قبضے میں جو بھی قیدی ہیں، ان سے کہہ دیجیئے کہ اگر اللہ کو معلوم ہو گا کہ تمہارے دلوں میں کوئی نیکی ہے۔ سیدنا عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: یہ آیت میرے متعلق نازل ہوئی جس وقت میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے اسلام کے متعلق خبر دی، اور ان سے درخواست کی کہ آپ نے مجھ سے جو بیس اوقیہ لیے ہیں، ان کے بدلے میں میرا محاسبہ نہ کریں، پس آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے مجھے بیس غلام دے دیئے، ان سب نے اس مال سے تجارت کی جو کہ آپ کے قبضے میں تھا، اور اس کے ساتھ ساتھ اللہ کی طرف سے مغفرت کو ذخیرہ کیا۔ [مسند اسحاق بن راهويه/كتاب التفسير/حدیث: 586]
تخریج الحدیث: «بخاري، كتاب التفسير، باب ايها النبى حرض المؤمنين الخ، رقم: 4652 . سنن ابوداود، رقم: 2646 . سنن كبري بيهقي: 76/9 . صحيح ابن حبان، رقم: 4773 .»

حدیث نمبر: 587
اَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدٍ وَیَحْیَی بْنُ آدَمَ قَالَا: نَا اِسْرَائِیْلُ، عَنْ سِماكِ ابْنِ حَرْبٍ، عَنْ عِکْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: لَمَّا فَرَغَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ قِتَالِ بَدْرٍ، قِیْلَ لَهٗ: عَلَیْكَ الْعَیْر لَیْسَ دُوْنِہَا شَـْیٌٔ، فَنَادَاہٗ الْعَبَّاسُ وَهُوَ فِیْ وِثَاقِهٖ: اِنَّہٗ لَا یُصْلِحُ لَكَ، قَالَ: لِمَ؟ قَالَ: لِاَنَّ اللّٰه وَعْدَكَ اِحْدَی الطَّآئِفَتَیْنِ، وَقَدْ اَنْجَزَ لَكَ مَا وَعْدَكَ.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قتال بدر سے فارغ ہوئے تو آپ سے کہا گیا: آپ اس تجارتی قافلے کو لازم رکھیں، اس کے سوا کوئی چیز نہیں، تو سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے انہیں آواز دی، جبکہ وہ اپنے بندھن میں تھے (ان کو رسی کے ساتھ باندھا گیا تھا) کہ وہ آپ کے لیے درست نہیں، فرمایا: کس لیے (درست نہیں)؟ فرمایا: کیونکہ اللہ نے آپ سے دو میں سے ایک جماعت کا وعدہ کیا تھا، اس نے آپ سے جو وعدہ کیا تھا، وہ آپ سے پورا فرمایا۔ [مسند اسحاق بن راهويه/كتاب التفسير/حدیث: 587]
تخریج الحدیث: «سنن ترمذي، ابواب التفسير، باب ومن سورة الانفال، رقم: 3080 . قال الشيخ الالباني: ضعيف .»