الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


مسند احمد کل احادیث (27647)
حدیث نمبر سے تلاش:


مسند احمد
مسند النساء
1235. حَدِيثُ أُمِّ سُلَيْمَانَ بْنِ عَمرِو بْنِ الْأَحْوَصِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا
حدیث نمبر: 27131
حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ يعني ابْنُ عَطَاءٍ ، عَنْ يَزِيدَ يَعْنِي ابْنَ أَبِي زِيَادٍ , عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْأَحْوَصِ الْأَزْدِيِّ ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي أُمِّي : أَنَّهَا رَأَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْمِي جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ مِنْ بَطْنِ الْوَادِي , وَخَلْفَهُ إِنْسَانٌ يَسْتُرُهُ مِنَ النَّاسِ أَنْ يُصِيبُوهُ بِالْحِجَارَةِ، وَهُوَ يَقُولُ:" أَيُّهَا النَُّاس، لا يَقْتُلْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا، وَإِذَا رَمَيْتُمْ، فَارْمُوا بِمِثْلِ حَصَى الْخَذْفِ"، ثُمَّ أَقْبَلَ , فَأَتَتْهُ امْرَأَةٌ بِابْنٍ لَهَا، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ ابْنِي هَذَا ذَاهِبُ الْعَقْلِ، فَادْعُ اللَّهَ لَهُ، قَالَ لَهَا:" ائْتِينِي بِمَاءٍ"، فَأَتَتْهُ بِمَاءٍ فِي تَوْرٍ مِنْ حِجَارَةٍ، فَتَفَلَ فِيهِ، وَغَسَلَ وَجْهَهُ، ثُمَّ دَعَا فِيهِ، ثُمَّ قَالَ:" اذْهَبِي، فَاغْسِلِيهِ بِهِ، وَاسْتَشْفِي اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ"، فَقُلْتُ لَهَا: هَبِي لِي مِنْهُ قَلِيلًا لِابْنِي هَذَا، فَأَخَذْتُ مِنْهُ قَلِيلًا بِأَصَابِعِي، فَمَسَحْتُ بِهَا شِقَّةَ ابْنِي، فَكَانَ مِنْ أَبَرِّ النَّاسِ، فَسَأَلْتُ الْمَرْأَةَ بَعْدُ مَا فَعَلَ ابْنُهَا؟ قَالَتْ: بَرِئَ أَحْسَنَ بَرْءٍ .
حضرت ام سلیمان رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بطن وادی سے جمرہ عقبہ کی رمی کرتے ہوئے دیکھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ایک آدمی تھا، جو انہیں لوگوں کے پتھر لگنے سے بچا رہا تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: لوگو! تم میں سے کوئی کسی کو قتل نہ کرے اور جب تم رمی کرو تو ٹھیکری کی کنکریوں جیسی کنکریوں سے رمی کرو، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم آگے کی طرف متوجہ ہوئے تو ایک عورت اپنا ایک بیٹا لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہنے لگی یا رسول اللہ! میرے اس بیٹے کی عقل زائل ہو گئی ہے، آپ اللہ سے اس کے لئے دعا فرما دیجئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: میرے پاس پانی لاؤ، چنانچہ وہ پتھر کے ایک برتن میں پانی لے کر آئی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں اپنا لعاب دہن ڈالا اور اس میں اپنا چہرہ دھو دیا اور دعاء کے بعد فرمایا: جاؤ اور اسے اس پانی سے غسل دو اور اللہ سے شفاء کی امید و دعا کا سلسلہ جاری رکھو۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے ام سلیمان رضی اللہ عنہا سے عرض کیا کہ اس کا تھوڑا سا پانی مجھے بھی اپنے اس بیٹے کے لئے دے دیجئے! چنانچہ میں نے اپنی انگلیاں ڈال کر تھوڑا سا پانی لیا اور اس سے اپنے بیٹے کے جسم کو تر بتر کر دیا تو وہ بالکل صحیح ہو گیا، ام سلیمان رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ بعد میں میں نے اس عورت کے متعلق پوچھا تو بتایا کہ اس کا بچہ بالکل تندرست ہو گیا۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 27131]
حكم دارالسلام: حسن لغيره دون قوله: "فأتته بماء..."، وهذا اسناد ضعيف لضعف يزيد ابن عطاء ويزيد بن ابي زياد، ولجهالة حال سليمان بن عمرو
حدیث نمبر: 27132
حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي زِيَادٍ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْأَحْوَصِ ، عَنْ أُمِّهِ ، قَالَتْ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْمِي جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ يَوْمَ النَّحْرِ مِنْ بَطْنِ الْوَادِي، وَهُوَ يَقُولُ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ، لَا يَقْتُلَنَّ بَعْضُكُمْ بَعْضًا، وَإِذَا رَمَيْتُمْ الْجِمَارَ، فَارْمُوا بِمِثْلِ حَصَى الْخَذْفِ"، قَالَتْ: فَرَمَى سَبْعًا، ثُمَّ انْصَرَفَ وَلَمْ يَقِفْ، قَالَتْ: وَخَلْفَهُ رَجُلٌ يَسْتُرُهُ مِنَ النَّاسِ، فَسَأَلْتُ عَنْهُ، فَقَالُوا: هُوَ الْفَضْلُ بْنُ عَبَّاسٍ .
حضرت ام سلیمان رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے دس ذی الحجہ کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بطن وادی سے جمرہ عقبہ کو کنکریاں مارتے ہوئے دیکھا، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ اے لوگو! ایک دوسرے کو قتل نہ کرنا، ایک دوسرے کو تکلیف نہ پہنچانا اور جب جمرات کی رمی کرو تو اس کے لئے ٹھیکری کی کنکریاں استعمال کرو، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سات کنکریاں ماریں اور وہاں رکے نہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ایک آدمی تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے آڑ کا کام کر رہا تھا میں نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ کون ہے؟ تو لوگوں نے بتایا کہ یہ فضل بن عباس ہیں۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 27132]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف يزيد بن أبى زياد، ولجهالة حال سليمان بن عمرو