الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


مسند الشهاب کل احادیث (1499)
حدیث نمبر سے تلاش:


مسند الشهاب
احادیث201 سے 400
282. مَنْ أَبْطَأَ بِهِ عَمَلُهُ لَمْ يُسْرِعْ بِهِ نَسَبُهُ
282. جسے اس کے عمل نے پیچھے کر دیا اسے اس کا نسب آگے نہیں کر سکتا
حدیث نمبر: 393
393 - أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُمَرَ الْبَزَّارُ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ بُهْزَاذَ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ الْإِمَامِ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يُونُسَ، ثنا زَائِدَةُ، ح وَأَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُمَرَ الصَّفَّارُ، أبنا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ جَامِعٍ، ثنا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، ثنا زَائِدَةُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ أَبْطَأَ بِهِ عَمَلُهُ لَمْ يُسْرِعْ بِهِ نَسَبُهُ» وَفِي حَدِيثِ ابْنِ جَامِعٍ: «لَا يُسْرِعُ»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جسے اس کے عمل نے پیچھے کر دیا اسے اس کا نسب آگے نہیں کر سکتا۔ اور ابن جامع کی حدیث میں ( «لم يسرع» کے بجائے) «لا يسرع» کے الفاظ ہیں۔ [مسند الشهاب/حدیث: 393]
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه مسلم: 2699، وابن ماجه: 225، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 534، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3460، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1425، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7545، والطبراني فى «الكبير» برقم: 4802، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 178»

حدیث نمبر: 394
394 - وأنا أَبُو مُحَمَّدٍ التُّجِيبِيُّ، أنا مُوسَى بْنُ جَعْفَرِ بْنِ سِنَانٍ الدَّوْرَقِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ الْإِمَامُ، بِإِسْنَادِهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا مِنْ رَجُلٍ سَلَكَ طَرِيقًا يَلْتَمِسُ بِهِ عِلْمًا إِلَّا سَلَكَ اللَّهُ بِهِ طَرِيقًا إِلَى الْجَنَّةِ، وَمَنْ أَبْطَأَ بِهِ عَمَلُهُ لَمْ يُسْرِعْ بِهِ نَسَبُهُ»
محمد بن جعفر اپنی سند کے ساتھ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص علم کی تلاش میں کسی راستے پر چلا اللہ اسے جنت کے راستے پر چلائے گا۔ اور جسے اس کے علم نے پیچھے کر دیا اسے اس کا نسب آگے نہیں کر سکتا۔ [مسند الشهاب/حدیث: 394]
تخریج الحدیث: إسناده حسن،

وضاحت: تشریح: -
مطلب یہ ہے کہ جس شخص کو روز قیامت اس کے برے اعمال نے پیچھے کر دیا یعنی جنت سے محروم کر دیا اس کا حسب و نسب اس کے کسی کام نہیں آئے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ ٰ کے ہاں فوز و فلاح کا دار و مدار ایمان اور عمل صالح پر ہے جس کے پاس یہ دو چیزیں ہیں وہ کامیاب ہے اور جو ان سے محروم ہے وہ نا کام ہے خواہ وہ کتنے ہی اعلیٰ خاندان سے تعلق رکھتا ہو۔ اس سلسلے میں نوح علیہ السلام کی بیوی اور ان کے بیٹے، لوط علیہ السلام کی بیوی، ابراہیم علیہ السلام کے والد اور ابوجہل و ابولہب کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں کہ یہ سب لوگ نسبی طور پر نبیوں کے بہت قریب تھے لیکن ایمان اور عمل صالح نہ ہونے کی وجہ سے اخروی کامیابی سے محروم رہے۔ ان کے بر عکس فرعون کی بیوی اور اسی طرح سیدنا بلال حبشی، سلمان فارسی، سیدنا صہیب رومی رضی اللہ عنہ جیسے لوگ نبیوں کے ساتھ نسبی یا خاندانی تعلق نہ ہونے کے باوجود کامیاب ہو گئے اس لیے کہ ان کے پاس ایمان اور عمل صالح کی دولت تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی برادری کے سامنے صاف اعلان فرما دیا تھا، چنانچہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی: ﴿وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ﴾ (الشعراء: 214) اور اپنے قریبی رشتے داروں کو ڈرا ئیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے قریش کی جماعت! اپنی جانوں کو اللہ کے ہاتھ بیج ڈالو، میں اللہ کے ہاں تمہارے کچھ کام نہیں آوں گا، اے بنی عبد المطلب! میں اللہ کے ہاں تمہارے کچھ کام نہیں آوں گا۔ اے عباس بن عبد المطلب! میں اللہ کے ہاں تمہارے کچھ کام نہیں آؤں گا۔ اے رسول اللہ کی پھوپھی صفیہ! میں اللہ کے ہاں تمہارے کچھ کام نہیں آؤں گا۔ اے رسول اللہ کی بیٹی (سیدہ)فاطمہ (رضی اللہ عنہا)! تم مجھے سے جس قدر چاہو (دنیا کا مال) مانگ لو میں اللہ کے ہاں تمہارے کچھ کام نہیں آوں گا۔ [مسلم: 206]