الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


مسند الشهاب کل احادیث (1499)
حدیث نمبر سے تلاش:


مسند الشهاب
احادیث601 سے 800
432. بَلِّغُوا عَنِّي وَلَوْ آيَةً، وَحَدِّثُوا عَنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلَا حَرَجَ
432. مجھ سے (جو سنو آ گے) پہنچا دو، خواہ ایک آیت ہی ہو اور بنی اسرائیل سے بیان کرو کوئی حرج نہیں
حدیث نمبر: 662
662 - أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُمَرَ التُّجِيبِيُّ، ثنا أَبُو أَحْمَدَ، مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ثنا الْحَسَنُ بْنُ أَبِي الرَّبِيعِ الْجُرْجَانِيُّ، عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ، أبنا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَمْرٍو الْأَوْزَاعِيُّ، عَنْ حَسَّانَ بْنِ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي كَبْشَةَ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «بَلِّغُوا عَنِّي وَلَوْ آيَةً، وَحَدِّثُوا عَنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلَا حَرَجَ»
سیدنا عبد الله بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھ سے (جو سنو آ گے) پہنچا دو، خواہ ایک آیت ہی ہو اور بنی اسرائیل سے بیان کرو کوئی حرج نہیں۔ [مسند الشهاب/حدیث: 662]
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3461، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6256، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2669، الدارمي فى «مسنده» برقم: 559، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 21053، والطبراني فى «الصغير» برقم: 462، والطبراني فى «الكبير» برقم: 14278، وأحمد فى «مسنده» برقم: 6597»

وضاحت: تشریح: -
اس حدیث مبارک میں علم کے حوالے سے دو بڑی اہم باتیں ارشاد فرمائی گئی ہیں:
① جس شخص کو تھوڑا یا زیادہ، جتنا بھی علم ہو، وہ اسے لوگوں تک پہنچائے اور اس کی تبلیغ کرے، یہ نہ سمجھے کہ میرے پاس کم علم ہے یا اسے لوگوں تک پہنچا نا صرف علماء کی ذمہ داری ہے، ہر شخص اپنے علم کی حد تک مکلف ہے حتی کہ اگر کسی کو ایک آیت آتی ہو یا ایک حدیث یاد ہو تو اس کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اسے لوگوں تک پہنچا دے۔
② بنی اسرائیل سے بیان کرنے کی اجازت ہے۔ اس سے مراد صرف وہ واقعات اور قصے ہیں جو قرآن مجید یاصحیح احادیث میں موجود ہوں۔ ہر قسم کی اسرائیلی روایات مراد نہیں ہیں۔
اہل علم نے اسرائیلی روایات کی تین قسمیں بیان کی ہیں:
✿ وہ روایات جن کی قرآن یا حدیث میں تصدیق فرمادی گئی ہو۔ ایسی روایات بیان کرنا بالاتفاق جائز ہے۔
✿ وہ جن کی قرآن یا حدیث میں تکذیب کی گئی ہو۔ ایسی روایات کے باطل ہونے کی صراحت کیے بغیر بیان کرنا جائز نہیں۔
✿ وہ جن کی قرآن یا حدیث سے نہ تصدیق ملتی ہو اور نہ تکذیب۔ از راہ احتیاط ایسی روایات بھی بیان کرنا جائز نہیں کیونکہ جس بات کے غلط ہونے کا گمان ہو، شریعت مطہرہ نے اسے بھی بیان کرنے سے منع فرمایا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات آگے بیان کر دے۔ (مسلم: 5 مقدمہ)
اب آخر میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا فتویٰ ملاحظہ کیجیے، فرماتے ہیں: اے مسلمانوں کی جماعت! تم اہل کتاب سے کس طرح سوال کرتے ہو؟ حالانکہ تمہاری کتاب جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی گئی، اللہ تعالیٰ ٰ کی طرف سے آنے والی خبروں میں سب سے تازہ ہے، تم اسے اس حال میں پڑھتے ہو کہ اس میں کوئی ملاوٹ نہیں کی گئی اور اللہ نے تمہیں بتا دیا ہے کہ اللہ نے جو لکھا تھا اہل کتاب نے اسے بدل دیا اور انہوں نے اپنے ہاتھوں سے اللہ کی کتاب میں تبدیلی کر دی اور کہا: کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے تاکہ اس کے ذریعے معمولی سی قیمت حاصل کر لیں تو کیا تمہارے پاس جو علم آیا ہے وہ تمہیں ان سے سوال کرنے سے منع نہیں کرتا؟ اللہ کی قسم! ہم نے ان میں سے کسی آدمی کو کبھی تم سے اس کے متعلق سوال کرتے ہوئے نہیں دیکھا جو تم پر نازل کیا گیا ہے۔ [بخاري: 2685]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے اس فتویٰ میں ان لوگوں کے لیے لمحۂ فکریہ ہے جو ہر قسم کی اسرائیلی روایات بیان کرتے ہیں بالخصوص منکرین حدیث کے لیے جو حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اسرائیلی روایات کو ترجیح دیتے ہیں اور قرآن کی تفسیر احادیث کے بجائے اسرائیلی روایات سے کرتے ہیں۔