الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


مسند الشهاب کل احادیث (1499)
حدیث نمبر سے تلاش:


مسند الشهاب
احادیث601 سے 800
460. «دَعُوا النَّاسَ يَرْزُقُ اللَّهُ بَعْضَهُمْ مِنْ بَعْضٍ»
460. لوگوں کو (آزاد) چھوڑ دو اللہ تعالیٰ بعض کو بعض کے ذریعے رزق دیتا ہے
حدیث نمبر: 706
706 - أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُمَرَ بْنِ النَّحَّاسِ، أبنا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادِ بْنِ الْأَعْرَابِيِّ، ثنا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ بَزِيعٍ الْبَنَّاءُ الْكُوفِيُّ، ثنا عُثْمَانُ بْنُ سَعِيدٍ الْمُرِّيُّ، قَالَ: ثنا الْحَسَنُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ , عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَذَكَرَهُ مُخْتَصَرًا
سیدنا جابر بن عبد اللہ رضى اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور انہوں نے اسے اختصار کے ساتھ بیان کیا: لوگوں کو (آزاد) چھوڑ دو اللہ تعالیٰ بعض کو بعض کے ذریعے رزق دیتا ہے۔ [مسند الشهاب/حدیث: 706]
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 1522، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1223، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2176، والحميدي فى «مسنده» برقم: 1307، وأحمد فى «مسنده» برقم: 14512»

وضاحت: تشریح: -
یہ مکمل حدیث یوں ہے: کوئی شہری کسی دیہاتی کے لیے بیع نہ کرے لوگوں کو آزاد، چھوڑ دو اللہ بعض کو بعض کے ذریعے رزق دیتا ہے
شارح أبو داود: مولانا عمر فاروق سعیدی حفظہ اللہ اس مسئلے پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے رقمطراز ہیں:
اس باب میں مذکور احادیث سے دلالی کے مسئلے پر روشنی پڑتی ہے نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی شہری دیہاتی کے لیے اس کی لائی ہوئی اشیاء فروخت نہ کرے سیدنا ابن عباس رضى اللہ عنہ نے کہا: کہ اس کا مطلب ہے شہری دیہاتی کا دلال نہ بنے
باب کی آخری حدیث میں اس کی حکمت یہ بتائی گئی کہ لوگوں کی خرید و فروخت کے معاملے میں مداخلت نہ کی جائے اللہ تعالىٰ ٰ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے سے رزق دیتا ہے یہ مارکیٹ کی قوتوں کو آزاد ر رکھنے کی تلقین ہے آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے اسی وجہ سے قیمتیں مقرر کر دینے کو روا نہ سمجھا بلکہ قیمتوں کو رسد اور طلب کے فطری توازن کا نتیجہ قرار دیا اس میں کوئی شک نہیں کہ جو لوگ دیہات سے ضرورت کی اشیاء شہر میں لاتے ہیں ان کو لالچ دے کر اپنی کوششوں سے قیمتوں میں اضافہ کروانا اور پھر اس میں حصہ دار بننا بنیادی طور پر آزاد مارکیٹ میں ناپسندیدہ مداخلت ہے اس سے اشیائے ضرورت ناروا طور پر مہنگی ہوتی ہیں اس لیے رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرما دیا دوسری طرف أبو داود: ہی کی کتاب البیوع کی پہلی حدیث میں یہ ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے بازار جا کر دلالوں کو سمسار کی بجائے جو ایک عجمی لفظ ہے زیادہ قابل احترام نام تاجر سے پکارا جس پر یہ حضرات بہت خوش ہوئے آپ نے ان کو تلقین فرمائی کہ بیع و شراء کے معاملے میں انسان سے کوتاہیاں سرزد ہو جاتی ہیں اس لیے تم لوگوں کو صدقہ کرتے رہنا چاہیے اس سے پتہ چلتا ہے کہ دلالی بطور ایک باقاعدہ ادارے کے موجود تھی اور رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے اس کو ختم نہ فرمایا۔
شہروں میں بڑے پیمانے پر اشیائے صرف دور دراز سے آتی ہیں جب مال کے ساتھ تاجر خود موجود نہ ہو یا مال اتنا ہو کہ سارا وہ خود نہ بیچ سکتا ہو یا مقامی زبانوں تجارتی اصطلاحوں طور طریقوں اور مقامی تجارتی پارٹیوں کے قابل اعتبار ہونے نہ ہونے کے بارے میں ناواقفیت کے سبب مال لانے والوں کو شدید مشکلات درپیش ہوں تو ان کے لیے مقامی دلال یا ایجنٹ کی خدمات ضروری ہیں ورنہ وہ اپنا مال منڈی میں نہ بھیجیں گے۔
اسی لیے اس کاروبار کو ختم نہیں کیا جا سکتا نہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے دلالوں کو کاروبار ختم کرنے کا حکم ہی دیا ہے بظاہر دونوں باتیں ایک دوسرے سے متضاد نظر آتی ہیں لیکن دونوں کو اپنے اپنے مقام پر رکھ کر دیکھا جائے تو حقیقتا کوئی تضاد نہیں ہے آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے سمسار کے کاروبار کو بند کرنے کا حکم دینے کی بجائے اس کاروبار کے ایک حصے کے بارے میں فرمایا کہ کوئی شہری دیہاتی کی طرف سے نہ بیچے یعنی دوسرے علاقوں کے شہری تاجر دلالوں کی خدمات سے مستفید ہو سکتے ہیں البتہ شہر کے ارد گرد کے لوگ جو اپنی زرعی پیداوار شہر میں بیچنے کے لیے لے کر آتے ہیں ان کے معاملے میں مداخلت نہ کی جائے تاکہ ان اشیاء کی خرید و فروخت فطری طریقے پر جاری رہے۔
امام مالک رحمتہ اللہ کا مسلک یہی ہے ہمارے فقہا نے آپ کے اس فرمان: اللہ تعالىٰ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے سے رزق دیتا ہے کا محض یہ مطلب لیا ہے کہ دیہات سے اشیاء لانے والے افراد منڈی میں سستی بیچ جایا کریں گے تو اس میں شہر والوں کی اجتماعی بہلائی ہوگی آج کل جو کچھ سامنے آتا ہے وہ اس کے برعکس ہے بلدیاتی اداروں نے دیہات سے تھوڑی مقدار میں اشیاء لانے والوں کو قانوناً مجبور کر دیا ہے کہ وہ اپنی اشیاء دلالوں کے ذریعے سے فروخت کریں اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ایک طرف تو عام گاہک کے لیے چیزیں مہنگی ہوگئیں دوسری طرف دیہاتیوں کو ان کی پیداوار کی بہت کم قیمت ملتی ہے سارا منافع درمیان کے لوگ لے جاتے ہیں۔
روز مرہ کی اشیاء جن کی دیہات سے رسد جاری رہتی ہے اگر دلالوں کی مداخلت سے الگ کر دی جائیں جس طرح رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے تو دونوں فریقوں کو بے حد فائدہ پہنچے گا یہی آپ صلى اللہ علیہ وسلم کے فرمان: مداخلت نہ کرو اللہ تعالىٰ ٰ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے سے رزق دیتا ہے کا حقیقی مفہوم ہے [سنن أبو داود: 3/ 720، 721]