الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


مسند الشهاب کل احادیث (1499)
حدیث نمبر سے تلاش:


مسند الشهاب
احادیث801 سے 1000
604. لَا يَتَمَنَّيَنَّ أَحَدُكُمُ الْمَوْتَ لِضُرٍّ نَزَلَ بِهِ
604. تم میں سے کوئی شخص کسی تکلیف کی وجہ سے جو اسے پہنچی ہو موت کی تمنا ہرگز نہ کرے
حدیث نمبر: 937
937 - أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ الْمَوْصِلِيُّ، أبنا أَبُو الطَّيِّبِ، عُثْمَانُ بْنُ الْمُنْتَابِ، ثنا يَحْيَى بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ صَاعِدٍ، ثنا الْحُسَيْنُ بْنُ الْحَسَنِ، أبنا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا حُمَيْدٌ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: «لَا يَتَمَنَّيَنَّ أَحَدُكُمُ الْمَوْتَ لِضُرٍّ نَزَلَ بِهِ»
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص کسی تکلیف کی وجہ سے جو اسے پہنچی ہو موت کی تمنا ہرگز نہ کرے۔ [مسند الشهاب/حدیث: 937]
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 6351، 7233، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2680،و أبو داود: 3109، والنسائي: 1821، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 968، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3108، والترمذي فى «جامعه» برقم: 971، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 4265، والطبراني فى «الصغير» برقم: 208، وأحمد فى «مسنده» برقم: 12161»

وضاحت: تشریح: -
اس حدیث مبارک سے پتا چلا کہ موت کی تمنا کرنا جائز نہیں خواہ کتنی بڑی مصیبت کیوں نہ نازل ہوئی ہو۔ قیس بن حازم کہتے ہیں کہ ہم سیدنا خبات بن ارت رضی اللہ عنہ کے پاس ان کی عیادت کو گئے انہوں نے اپنے پیٹ میں سات داغ لگوائے تھے پھر انہوں نے کہا: کہ ہمارے ساتھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں وفات پا چکے وہ یہاں سے اس حال میں رخصت ہوئے کہ دنیا ان کا اجر و ثواب کچھ نہ گھٹا سکی اور ان کے عمل میں کوئی کمی نہ ہوئی اور ہم نے۔ (مال و دولت) اتنی پائی کہ جس کے خرچ کرنے کے لیے ہم نے مٹی کے سوا اور کوئی محل نہ پایا اور اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں موت کی دعا کرنے سے منع نہ کیا ہوتا تو میں اس کی دعا کرتا۔ پھر ہم ان کی خدمت میں دوبارہ حاضر ہوئے تووہ اپنی دیوار بنا رہے تھے انہوں نے کہا: مسلمان کو ہر اس چیز پر ثواب ملتا ہے جسے وہ خرچ کرتا ہے مگر اس (کم بخت) عمارت میں خرچ کرنے کا ثواب نہیں ملتا۔ [بخاري: 5672]
اہل علم نے موت کی تمنا نہ کرنے کی ایک حکمت تو یہ بیان کی ہے کہ یہ اس صبر کے منافی ہے جس کا ایک بندہ مسلم کو حکم دیا گیا ہے اور جس پر اسے اجر عظیم کی نوید سنائی گئی ہے، اور دوسری حکمت یہ ہے کہ مومن آدمی کے لیے لمبی عمر ہی زیادہ بہتر ہے کیونکہ وہ جتنی زیادہ نیکیاں کرے گا اس کے درجات بھی اتنے ہی بلند ہوں گے، گناہ معاف ہوں گے، اسے توبہ کا موقع مل جائے گا چنانچہ حدیث میں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی شخص کا عمل اسے جنت میں داخل نہیں کر سکے گا۔ سیدنا صحابہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ کا بھی نہیں؟ فرمایا: نہیں، میرا بھی نہیں سوائے اس کے کہ اللہ اپنے فضل و رحمت سے مجھے نوازے، اس لیے (عمل میں) میانہ روی اختیار کرو اور قریب قریب چلو اور تم میں سے کوئی شخص موت کی تمنا نہ کرے کیونکہ یا وہ نیک ہوگا تو امید ہے کہ اس کے اعمال میں اور اضافہ ہو جائے اور اگر وہ برا ہے تو ممکن ہے کہ وہ توبہ ہی کرلے۔ [بخاري: 5673]
بعض احادیث سے شہادت کی تمنا کرنا یا کسی مقدس جگہ فوت ہونے کی تمنا کرنا یا کسی دینی مصیبت دین کے نقصان کے خدشے کے پیش نظر موت کی دعا کرنے کا جواز ملتا ہے۔ واللہ اعلم