الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


مسند الشهاب کل احادیث (1499)
حدیث نمبر سے تلاش:


مسند الشهاب
احادیث801 سے 1000
629. إِنَّ حُسْنَ الظَّنِّ مِنْ حُسْنِ الْعِبَادَةِ
629. بے شک حسن ظن حسن عبادت میں سے ہے
حدیث نمبر: 973
973 - أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُمَرَ الْمَالِكِيُّ، أبنا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ جَامِعٍ، ثنا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، ثنا عَفَّانُ، ثنا حَمَّادٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ وَاسِعٍ، عَنْ شُتَيْرِ بْنِ نَهَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: «إِنَّ حُسْنَ الظَّنِّ مِنْ حُسْنِ الْعِبَادَةِ»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک حسن ظن حسن عبادت میں سے ہے۔ [مسند الشهاب/حدیث: 973]
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، وأخرجه أبو داود: 4093، والترمذي: 3604 والحميدي فى «مسنده» برقم: 754، وأحمد فى «مسنده» برقم: 11166»

حدیث نمبر: 974
974 - أنا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُمَرَ، نا أَبُو سَعِيدٍ، أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْأَعْرَابِيِّ، نا إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَبِي الْحَجْمِ، نا عَمْرُو بْنُ مَرْزُوقٍ، أنا صَدَقَةُ بْنُ مُوسَى، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ وَاسِعٍ، عَنْ شُتَيْرِ بْنِ نَهَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ حُسْنَ الظَّنِّ مِنْ حُسْنِ الْعِبَادَةِ»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک حسن ظن حسن عبادت میں سے ہے۔ [مسند الشهاب/حدیث: 974]
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، وأخرجه أبو داود: 4093، والترمذي: 3604 والحميدي فى «مسنده» برقم: 754، وأحمد فى «مسنده» برقم: 11166»

وضاحت: تشریح: -
جن اعمال کو عبادت حسنہ کہا جاتا ہے یا جو اعمال عبادت حسنہ میں آتے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ ٰ اور اس کے بندوں کے متعلق حسن ظن رکھے۔ اللہ تعالیٰ ٰ سے حسن ظن یہ ہے کہ دنیا میں اخلاص کے ساتھ اس کی عبادت کرے اور آخرت میں اس کی رحمت کی امید رکھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات سے تین روز قبل یہ فرمایا تھا کہ تم میں سے ہر شخص کو بس اس حال میں موت آئے کہ وہ اللہ کے بارے میں حسن ظن رکھتا ہو۔ [مسلم: 2877]
ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک نوجوان کے پاس آئے وہ قریب المرگ تھا، آپ نے فرمایا: تم اپنے آپ کو کیسا پاتے ہو؟ اس نے کہا: اللہ کے رسول! اللہ سے (رحمت کی امید بھی ہے اور گناہوں سے ڈرتا بھی ہوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس بندے کے دل میں یہ دونوں چیزیں (رحمت الٰہی کی امید اور گناہوں کا خوف) جمع ہو، تو اللہ اسے وہ چیز عطا فرما دیتا ہے جس کا وہ امیدوار ہوتا ہے اور وہ جس چیز سے خائف ہو اس سے اسے امن دے دیتا ہے۔ [ابن ماجه: 4261، حسن]
اور حدیث قدسی ہے، اللہ فرماتا ہے: میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوتا ہوں جو وہ میرے متعلق رکھتا ہے۔ [بخاري: 7505]
لوگوں کے ساتھ حسن ظن یہ ہے کہ ان کے متعلق بدگمانی نہ کی جائے جس کا ظاہر اچھا ہو اس کے متعلق بدگمانی کرنا اور منفی سوچ رکھنا حرام ہے، اہل خیر کے ساتھ ہمیشہ اچھا گمان ہی رکھا جائے۔