الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


مسند الشهاب کل احادیث (1499)
حدیث نمبر سے تلاش:


مسند الشهاب
احادیث801 سے 1000
637. إِنَّ لِصَاحِبِ الْحَقِّ مَقَالًا
637. بے شک صاحب حق کوبات کرنے کا حق ہے
حدیث نمبر: 983
983 - أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرٍ الْهَرَوِيُّ، أبنا أَبُو بَكْرٍ، مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ يَعْقُوبَ بِجُرْجُرَايَا، ثنا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْفَسَوِيُّ أَبُو جَعْفَرٍ، ثنا أَبُو عَمْرٍو الْحَوْضِيُّ، ثنا مُرَجَّى بْنُ رَجَاءٍ، ثنا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَدِيثٍ طَوِيلٍ: «إِنَّ لِصَاحِبِ الْحَقِّ مَقَالًا»
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لمبی حدیث میں یہ بھی ارشاد فرمایا: بے شک صاحب حق کوبات کرنے کا حق ہے۔ [مسند الشهاب/حدیث: 983]
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، وأخرجه أحمد:، عبد بن حميد: 1499، كشف الاستار: 1309»

حدیث نمبر: 984
984 - وأنا أَبُو الْحَسَنِ عَلِيُّ بْنُ مُوسَى السِّمْسَارُ بِدِمَشْقَ، نا أَبُو زَيْدٍ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ الْمَرْوَزِيُّ، أنا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ الْفَرَبْرِيُّ، أنا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الْبُخَارِيُّ، نا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ، أنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أنا شُعْبَةُ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ أَخَذَ سِنًّا، فَجَاءَ صَاحِبُهُ يَتَقَاضَاهُ، فَقَالُوا لَهُ، فَقَالَ: «إِنَّ لِصَاحِبِ الْحَقِّ مَقَالًا» ، ثُمَّ قَاضَاهُ أَفْضَلَ مِنْ سِنِّهِ وَقَالَ: «أَفْضَلُكُمْ أَحْسَنُكُمْ قَضَاءً»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ، نے (کسی سے) ایک عمر کا اونٹ لیا اس کا مالک آپ کے پاس تقاضا کرنے کے لیے آیا تو صحابہ نے اسے (برا بھلا) کہا:، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک صاحب حق کو بات کرنے کا حق ہے۔ پھر آپ نے اسے اس کی عمر کے اونٹ سے بہتر اونٹ دے کر اس کا حق ادا کیا اور فرمایا: تم میں سے افضل وہ ہے جو ادائیگی میں سب سے اچھا ہو۔ [مسند الشهاب/حدیث: 984]
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2305، 2306، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1601، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1316، 1317، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2423،، وأحمد فى «مسنده» برقم: 9019، 9229»

وضاحت: تشریح: -
کہا جاتا ہے کہ قرض خواہ سیدنا زید بن شعبہ کنانی رضی اللہ عنہ تھے جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے بعد میں مسلمان ہوئے اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ادب و احترام کے تقاضوں کو ملحوظ نہیں رکھا اور مطالبہ کرنے میں سخت رویہ اختیار کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو سمجھایا کہ صاحب مال کے لیے بہتر تو یہی ہے کہ وہ تقاضا کرتے وقت اچھا رویہ اختیار کرے تا ہم اگر کوئی اس میں سختی کرتا ہے تو اسے نظر انداز کر دیا جائے کیونکہ حق دار کو بہر حال کہنے کا حق ہے تا ہم اس میں شرعی حدود و آداب سے تجاوز نہیں ہونا چاہیے۔ مقروض اگر اپنی مرضی سے ادائیگی کے وقت قرض اور حق سے زیادہ ادا کرے تو مستحب ہے اور صاحب مال (قرض خواہ) کی طرف سے زیادتی کا مطالبہ ہوگا تو یہ سود ہوگا جس کا لینا جائز ہے نہ دینا۔ (ریاض الصالحین: 213/2)