ابو امامہ رضی الله عنہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور آپ سے عرض کیا کہ مجھے کوئی ایسا حکم دیجئیے جسے میں آپ سے براہ راست اخذ کروں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے اوپر روزہ لازم کر لو کیونکہ اس کے برابر کوئی (عبادت) نہیں ہے“۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2222]
وضاحت: ۱؎: یعنی شہوت کے توڑنے اور نفس امارہ اور شیطان کے دفع کرنے کے سلسلہ میں روزے کے برابر کوئی عبادت نہیں، یا کثرت ثواب میں اس کے برابر کوئی عبادت نہیں۔
ابوامامہ باہلی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے کسی ایسی چیز کا حکم دیجئیے جس سے اللہ تعالیٰ مجھے فائدہ پہنچائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”روزے کو لازم پکڑو کیونکہ اس کے برابر کوئی (عبادت) نہیں ہے“۔ [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2223]
ابوامامہ باہلی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کون سا عمل افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”روزے کو لازم پکڑو کیونکہ اس کے برابر کوئی عمل نہیں ہے“۔ [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2224]
ابوامامہ باہلی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے کسی کام کا حکم فرمایئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”روزے کو لازم پکڑو کیونکہ اس جیسا کوئی (عمل) نہیں ہے“۔ میں نے (پھر) عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے کسی کام کا حکم دیجئیے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”روزے کو لازم پکڑو کیونکہ اس کے برابر کوئی عمل نہیں ہے“۔ [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2225]
معاذ بن جبل رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”روزہ ڈھال ہے“۔ [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2226]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 11367)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الإیمان8 (2616)، سنن ابن ماجہ/الفتن12 (3973)، مسند احمد 5/231، 237 (صحیح) (سند میں راوی میمون کثیر الارسال ہیں، لیکن ابوہریرہ رضی الله عنہ کے آگے آنے والی شاہد (2230، 2231) سے تقویت پاکر یہ روایت بھی صحیح ہے)»
معاذ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”روزہ ڈھال ہے“۔ [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2228]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، تحفة الأشراف: 11347 (صحیح) (سند میں راوی عروة بن نزال لین الحدیث ہیں، لیکن آگے آنے والے شواہد سے تقویت پاکر یہ روایت بھی صحیح ہے)»
شعبہ کہتے ہیں کہ حکم نے مجھ سے کہا کہ میں نے یہ حدیث ان سے یعنی معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے چالیس سال پہلے سنی تھی، پھر حکم نے کہا نیز مجھ سے اسے میمون بن ابی شبیب نے بیان کیا انہوں نے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت کی۔ [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2229]
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 2226 (صحیح) (سند میں حجاج بن ارطاة ضعیف راوی ہے، لیکن آگے آنے والی روایت سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے)»
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحَسَنِ عَنْ حَجَّاجٍ قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ
بنی عامر بن صعصعہ کی اولاد میں سے مطرف نامی ایک شخص کہتے ہیں کہ عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ نے ان کے لیے دودھ منگوایا تاکہ وہ انہیں پلائیں تو مطرف نے کہا: میں تو روزے سے ہوں۔ تو عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ”روزہ ڈھال ہے جس طرح کہ لڑائی کے موقع پر تم میں سے کسی کے پاس ڈھال ہوتی ہے“۔ [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2232]
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الصوم1 (1639)، (تحفة الأشراف: 9771)، مسند احمد 4/ 21، 22، 217، 218 (صحیح)»
مطرف کہتے ہیں کہ میں عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو انہوں نے (میری ضیافت کے لیے) دودھ منگوایا، تو میں نے کہا: میں روزے سے ہوں، تو انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ”روزہ آگ سے بچاؤ کے لیے کی ڈھال ہے جس طرح کہ تم میں سے کسی کے پاس لڑائی میں دشمن کے وار سے بچاؤ کے لیے ڈھال ہوتی ہے“۔ [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2233]
سعید بن ابی ہند کہتے ہیں کہ مطرف عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس آئے۔ آگے راوی نے اس طرح کی روایت بیان کی، یہ روایت مرسل ہے۔ [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2234]
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 2232 (صحیح) (مؤلف نے اسے مرسل کہا ہے، یعنی یہ موقوف ہے، اس معنی میں کہ عثمان بن ابی العاص رضی الله عنہ نے اسے مرفوع نہیں کیا ہے، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی طرف نسبت کئے بغیر ہی اسے موقوفاً روایت کیا ہے، نیز احتمال ہے کہ ارسال یہاں انقطاع کے معنی میں ہو کیونکہ مطرف کا عثمان کے ساتھ جو واقعہ پیش آیا اس میں سعید موجود تھے اس بارے میں عبداللہ بن سعید کی روایت صریح نہیں ہے)»
ابوعبیدہ عامر بن عبداللہ الجراح رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”روزہ ڈھال ہے جب تک کہ وہ اسے (جھوٹ و غیبت وغیرہ کے ذریعہ) پھاڑ نہ دے“۔ [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2235]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 5047)، مسند احمد 1/195، 196، یأتي عند المؤلف برقم2237 (ضعیف) (اس کے رواة بشار اور عیاض دونوں لین الحدیث ہیں)»
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”روزہ جہنم کی آگ سے بچنے کے لیے ڈھال ہے، جو شخص روزہ دار ہو کر صبح کرے تو وہ اس دن جہالت و نادانی کی کوئی بات نہ کرے، اور اگر کوئی شخص اس کے ساتھ جہالت و نادانی کی بات کرنے لگے تو اسے گالی نہ دے، برا بھلا نہ کہے۔ اس کے لیے مناسب ہو گا کہ وہ اس سے کہے، (بھائی) میں روزے سے ہوں، (میں تم سے لڑائی جھگڑا نہیں کر سکتا) قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے، روزہ دار کے منہ کی بو مشک کی بو سے بھی زیادہ پاکیزہ ہے“۔ [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2236]
سہل بن سعد ساعدی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”روزہ دار کے لیے جنت میں ایک دروازہ ہے جسے ریان کہا جاتا ہے، روزہ دار کے سوا کوئی اور اس دروازے سے داخل نہیں ہو گا، اور جب آخری روزہ دار دروازہ کے اندر پہنچ جائے گا تو دروازہ بند کر دیا جائے گا، جو وہاں پہنچ جائے گا وہ پئے گا اور جو پئے گا، وہ پھر کبھی پیاسا نہ ہو گا“۔ [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2238]
سہل رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جنت میں ایک دروازہ ہے جسے ریان کہا جاتا ہے، قیامت کے دن پکار کر کہا جائے گا، روزہ دارو! کہاں ہو؟ کیا تمہیں ریان کی طرف آنے کی رغبت ہے؟ جو شخص اس میں داخل ہو گا، اور (اس کے چشمے (ریان) کا پانی پئے گا) وہ پھر کبھی پیاسا نہ ہو گا، جب وہ داخل ہو جائیں گے تو وہ بند کر دیا جائے گا۔ اس دروازے سے روزہ دار کے سوا کوئی اور داخل نہ ہو گا۔ [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2239]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، تحفة الأشراف: 4791 (صحیح الإسناد) (یہ حدیث مرفوعا متفق علیہ ہے، من دخله لم يظمأ أبدا مرفوع حدیث میں ثابت نہیں ہے، صحیح الترغیب 969، تراجع الالبانی 351)»
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد موقوف ق مرفوعا دون جملة الظمأ
ابوہریرہ رضی الله عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اللہ کی راہ میں جوڑا دے گا ۱؎ اسے جنت میں بلا کر پکارا جائے گا، اے اللہ کے بندے! یہ تیری نیکی ہے، تو جو شخص نمازی ہو گا وہ صلاۃ کے دروازے سے بلایا جائے گا، اور جو مجاہدین میں سے ہو گا وہ جہاد والے دروازہ سے بلایا جائے گا، اور جو صدقہ دینے والوں میں سے ہو گا وہ صدقہ والے دروازے سے بلایا جائے گا، اور جو روزہ داروں میں سے ہو گا وہ باب ریان سے بلایا جائے گا۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کسی کے لیے ضرورت تو ۲؎ نہیں کہ وہ ان سبھی دروازوں سے بلایا جائے، لیکن کیا کوئی ان سبھی دروازوں سے بھی بلایا جائے گا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں اور مجھے امید ہے کہ تم انہیں لوگوں میں سے ہو گے“۔ [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2240]
وضاحت: ۱؎: ـ مثلاً دو دینار، دو گھوڑے، دو کپڑے، دو روٹیاں، دو غلام اور دو لونڈیاں وغیرہ وغیرہ دے گا۔ ۲؎: کیونکہ ایک دروازے سے بلایا جانا جنت میں داخل ہونے کے لیے کافی ہے۔
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے، اور ہم سب نوجوان تھے۔ ہم (جوانی کے جوش میں) کسی چیز پر قابو نہیں رکھ پاتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے نوجوانوں کی جماعت! تم اپنے اوپر شادی کرنے کو لازم پکڑو کیونکہ یہ نظر کو نیچی اور شرمگاہ کو محفوظ رکھنے کا ذریعہ ہے، اور جو نہ کر سکتا ہو (یعنی نان، نفقے کا بوجھ نہ اٹھا سکتا ہو) وہ اپنے اوپر روزہ لازم کر لے کیونکہ یہ اس کے لیے بمنزلہ خصی بنا دینے کے ہے“۔ [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2241]
علقمہ سے روایت ہے کہ ابن مسعود (رضی اللہ عنہ)، عثمان (رضی اللہ عنہ) سے عرفات میں ملے، تو وہ انہیں لے کر تنہائی میں چلے گئے اور ان سے باتیں کیں، عثمان رضی اللہ عنہ نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے کہا: کیا آپ کو کسی دوشیزہ کی خواہش ہے کہ میں آپ کی اس سے شادی کرا دوں؟ تو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے علقمہ کو بھی بلا لیا (آ جاؤ کوئی خاص بات نہیں ہے اور جب وہ آ گئے) تو انہوں نے عثمان رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”جو شخص تم میں سے نان و نفقہ کی طاقت رکھے اسے چاہیئے کہ وہ شادی کر لے کیونکہ یہ چیز نگاہ کو نیچی رکھنے اور شرمگاہ کو محفوظ رکھنے کا بہترین ذریعہ ہے، اور جو طاقت نہ رکھے، تو اسے چاہیئے کہ روزہ رکھے کیونکہ روزہ اس کے لیے «وجاء» ہے“(یعنی وہ اسے خصی بنا دے گا، اس کی شہوت کو توڑ دے گا)۔ [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2242]
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص تم میں سے نان و نفقہ کی طاقت رکھے، تو وہ شادی کر لے اور جو نہ رکھے، وہ اپنے اوپر روزہ لازم کر لے، کیونکہ یہ اس کی شہوت کو توڑ دے گا“۔ [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2243]
عبدالرحمٰن بن یزید سے روایت ہے کہ ہم عبداللہ (عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ) کے پاس آئے اور ہمارے ساتھ علقمہ، اسود اور ایک جماعت تھی، تو انہوں نے ہم سے ایک حدیث بیان کی، اور میں سمجھتا ہوں کہ انہوں نے لوگوں کے سامنے وہ حدیث میرے ہی لیے بیان کی تھی کیونکہ میں ان لوگوں میں سب سے زیادہ نوعمر تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے نوجوانوں کی جماعت! جو تم میں بیوی کے نان و نفقہ کی طاقت رکھتا ہو وہ نکاح کر لے، کیونکہ یہ نگاہ کو نیچی اور شرمگاہ کو محفوظ رکھنے والی ہے“۔ علی بن ہاشم (راوی) کہتے ہیں کہ اعمش سے ابراہیم والی روایت کے بارے میں پوچھا گیا، سائل نے پوچھا: «عن إبراهيم عن علقمة عن عبداللہ» اسی کے مثل مروی ہے، اعمش نے کہا: ہاں۔ [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2244]
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 2241 (صحیح) (متابعات سے تقویت پا کر یہ روایت بھی صحیح ہے، ورنہ اس کے راوی ’’علا باہلی“ ضعیف ہیں)»
علقمہ کہتے ہیں: میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا اور وہ عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس تھے تو ثمان رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چند نوجوانوں کے پاس سے گزرے تو آپ نے فرمایا: ”تم میں سے جو شخص وسعت والا ہو وہ شادی کر لے۔ کیونکہ یہ چیز نگاہ کو نیچی اور شرمگاہ کو محفوظ رکھنے والی ہے، اور جو شخص ایسا نہ ہو تو روزہ اس کی شہوت کو کچل دینے کا ذریعہ ہے“۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: سند میں مذکور ابومعشر کا نام زیاد بن کلیب ہے، وہ ثقہ ہیں اور وہ ابراہیم (نخعی) کے تلامذہ میں سے ہیں، اور ان سے منصور، مغیرہ اور شعبہ نے روایت کی ہے۔ اور (ایک دوسرے) ابومعشر جو مدنی ہیں ان کا نام نجیح (نجیح بن عبدالرحمٰن سندی) ہے، وہ ضعیف ہیں، اور ضعف کے ساتھ اختلاط کا شکار ہو گئے تھے ان کے یہاں کچھ منکر احادیث بھی ہیں جن میں سے ایک وہ ہے جو انہوں نے محمد بن عمرو سے، انہوں نے ابوسلمہ سے، ابوسلمہ نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: ”مشرق و مغرب کے درمیان جو ہے وہ قبلہ ہے“۱؎۔ نیز اسی میں سے ایک حدیث وہ ہے جو انہوں نے ہشام بن عروہ سے، ہشام نے اپنے والد عروہ سے، عروہ نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے، اور عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”گوشت چھری سے نہ کاٹو بلکہ نوچ نوچ کر کھاؤ“۲؎۔ [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2245]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (لم يذكر المزي طرف الحديث في ترجمة أبي معشر زياد بن كليب عن إبراهيم عن علقمة عن ابن مسعود /تحفة الأشراف 6/ 363) حم1/58 ویأتی عند المؤلف 3208 (صحیح الإسناد)»
وضاحت: ۱؎: أخرجه الترمذي (342) وابن ماجه (1011)(تحفة الأشراف 15124)(حافظ ابن حجر النکت الظراف میں لکھتے ہیں کہ خلیلی نے ارشاد میں ایک دوسرے طریقے سے اسے بسند ابو معشر عن ہشام عن ابیہ عن عائشہ روایت کیا ہے، اس حدیث میں ابو معشر نجیح بن عبدالرحمٰن سندی ہیں، جو ضعیف راوی ہیں، اسی لیے حافظ ابن حجر نے ان کے بارے میں کہا: ضعیف أسن واختلط یعنی ضعیف ہیں، عمر دراز ہوئے اور اختلاط کا شکار ہوئے، اسی وجہ سے امام نسائی نے باب میں موجود ابو معشر زیاد بن کلیب کی توثیق کے بعد اسی کنیت کے دوسرے راوی یعنی نجیح بن عبدالرحمٰن سندی کا تذکرہ ان کی منکر احادیث کے ساتھ دیا تاکہ دونوں میں تمیز ہو جائے، اور یہ امام نسائی کی کتاب کی خوبی ہے کہ وہ اس طرح کے افادات رقم فرماتے ہیں، لیکن مذکور حدیث دوسرے طرق کی وجہ سے صحیح ہے، تفصیل کے ملاحظہ ہو: الإرواء: ۲۹۲)۲؎: حدیث «لأستغفرن لك ما لم أنه عنك» اس کی تخریج ابوداؤد اور بیہقی نے سنن کبریٰ میں کی ہے، اور شیخ البانی نے اسے ضعیف الجامع (۶۲۵۶) میں داخل کیا ہے۔